درس بعد

قرآن سے ارتباط

قرآن سے ارتباط

درس بعد

موضوع: اخلاقی دروس


تاریخ جلسه :


شماره جلسه : ۱

PDF درس صوت درس
چکیده درس
دیگر جلسات


بسم الله الرّحمن الرّحيم

الحمدلله ربّ العالمين و صلّي الله علي سيّدنا محمّد و آله الطّاهرين

موضوع: قرآن سے ارتباط

قرآن کریم کی بعض آیات شریفہ سے حضرت امام زمان (عج) کا وجود مبارک تمسک ہوا ہے ، مثلاً سورہ مبارکہ حج میں چند آیات ہیں : «الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَوةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُور،أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ».

دوسری آیت کے ذیل میں تین روایات نقل ہیں کہ ان میں سے بعض کے سند صحیح اورمعتبر ہے کہ امام باقر یاامام صادق علیہما السلام نے فرمایا :اهل سنت بتاتے ہیں کہ یہ آیہ کریمہ «أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا»  اس بارے میں نازل ہوئی ہے کہ قریش نے پیغمبر اکرم (ص) کو مکہ سے نکال دیا اور کچھ مدت تک پیغمبر اکرم (ص) اور ان کے اصحاب کو قریش سے جنگ کرنے سے منع کیا ہوا تھا ،اور کہتے ہیں کہ یہ آیہ کریمہ وہ پہلی آیت ہے جس میں قریش سے جنگ لڑنے کی اجازت دی  گئی ہے ، روایت میں آگے جا کر امام باقر(ع) فرماتے ہیں کہ يه بات صحیح نہیں ہے ( اگرچہ اس  بارے میں صراحت نہیں ہے ) فرماتا ہے: «إنّما هي»  یہ آیہ کریمہ آخری حجت کے بارے میں ہے کہ جو آئیں گے «أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا»؛ ہمارا آخری فرزند کہ جو آئیں گے اس کے بعد حضرت کے لقب کو ذکر کرتے ہیں  «يَطْلُبُ بِدَمِ الْحُسَيْنِ(ع ) »  یعنی امام حسین (ع) کے خون کے انتقام لینے والے کے عنوان سے امام زمان ظہور کریں گے اورابا عبد اللہ الحسین (ع) کے خون کا ىيه مطالبہ کریں گے ، ''''«وَ طُلَّابُ الدِّيَة»  حتی کہ امام حسین (ع) کے دیہ کو طلب کریں گے ۔

ایک اور روایت جو امام باقر اور امام صادق علیہما السلام سے نقل ہے ؛ حضرت فرماتا ہے : «إِنَّ الْقُرْآنَ حَيٌّ لَا يَمُوت»؛  قرآن زندہ ہے اور قرآن کے لئے مرنے کا کوئی معنی نہیں ،خود قرآن کی کوئی موت نہیں ہے ، اس کے بعد فرماتا ہے ؛اگر یہ حکم ہو کہ جو آیات کسی افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جب وہ افراد مر جائے تو اس کے ساتھ وہ آیات بھی مر جائے ،تو اس کے بعد قرآن مر جائے گا اور کسی کام کا نہیں رہے گا ۔

میرے خیال میں بات یہ ہے کہ ان دو روایات اور اسی طرح دوسری روایات جنہیں آئمہ (ع) نے اپنے زمانہ میں تصریح فرمایا ہے کہ اهل سنت قرآن کریم کے بارے میں اشتباہ کرتے ہیں ،یہ بہت ہی اہم مطلب ہے ؛ علمی بھی ہے اور اخلاقی اور تربیتی لحاظ سے بھی انسان کے لئے بہت اہم ہے ، یہ لوگ کیا غلطیاں کر جاتے ہیں ؟ وہ غلطی یہ ہے کہ اہل سنت معتقد ہیں کہ قرآن کریم کی آیات ان کے شان نزول تك  منحصر ہے،اگر ہم یہ بات کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بہت ساري جگہوں پر قرآن کریم کی جاودانگی اوراس کا بقاء ختم ہو جاتا ہے ۔

مثلاً یہی آیت«أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا»  اس آیت میں خداوند متعال نے ایک عام حکم کو بیان کیا ہے اور ایک عام اذن دیا ہے کہ جس شخص پر ظلم ہو تو اس کو ظالم سے مقابلہ کرنے کے کسی سے اجازت لینے كي ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ اس ظالم پر حملہ کر سکتا ہے کہ خدا وند متعال فرماتا ہے : «وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ» کہ ہم یہاں پر یہ بیان کریں کہ یہ آیہ کریمہ صرف اس کے شان نزول تک منحصر ہے کہ قریش نے پیغمبر اکرم(ص) كو مکہ سے باہر نکال دیا اور جب پیغمبر مدینہ آئے تو خدا نے فرمایا:میں اب تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ جا کر ان افراد سے جنگ لڑیں ،میں بھی تمہاری مدد کروں گا ، کیا ہم یہاں پر یہ بولیں کہ یہ آیہ کریمہ صرف اسي  واقعہ کے بارے میں ہے اوراس کے بعد ختم ہوگیا۔

ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے آئمہ اطہار(ع) اہل سنت کے اس کام سے کہ قرآن کو اعتبار سے ساقط کراتے ہیں پرکتنے ناراض تھے ،لیکن اب دیکھیں یہ بے حیا لوگ کہتے ہیں کہ شیعہ نے قرآن کو اعتبارسے گرایا ہے ، شیعہ قرآن کو قبول نہیں کرتے ،شیعہ قرآن کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے ۔

ہمیں چاہئے کہ ان روایات اور آئمہ اطہار (ع) کی سیرت پر توجہ دیں کہ ہمارے آئمہ (ع) اہل سنت کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے تھے کہ اہل سنت معتقد تھے کہ اگر کسی آیت کا کوئی خصوصی شان نزول ہے تو وہ اسی سے منحصر ہے ۔

اگر ان کے تفاسیر کا مطالعہ کریں تویہ دیکھنے میں ملتا ہے کہ شأن نزول سے کچھ حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں ،لیکن اکثر مفسرین انہیں شان نزول پر اکتفاء کرتے ہیں ،یہاں پر شیعہ اور سنی کے درمیان ایک بڑا فرق پید اہوتا ہے ۔

کتاب اصول کافی ؛جلد٢، ص١٥٦ میں قرآن کے بارے میں جو روایات نقل ہیں ان کو ملاحظہ فرمائیں ، فرماتا ہے : «يَجْرِي كَمَا يَجْرِي اللَّيْلُ وَ النَّهَارُ وَ كَمَا يَجْرِي الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ يَجْرِي عَلَى آخِرِنَا كَمَا يَجْرِي عَلَى أَوَّلِنَا»؛ بہت ہی عجیب تعبیر ہے ،یعنی قرآن ہمیشہ کے لئے زندہ ہے ، آج ہمارے ہاتھوں میں جو قرآن ہے وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہواہے اور یہ کبھی بھی پرانا اور قدیم نہیں ہونا ہے ۔

یہ نتیجہ لینا میرا مقصود ہے کہ ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ قرآن سے رابطہ پیدا کریں ، ہمیں آج یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ خود ہمارا حوزہ اور ہم طلاب علوم دینی اہل بیت (علیہم السلام) کے برکت سے قرآن کریم جيسےعظیم ذخیرہ سے مالا مال هیں ،اس سے جتنا ہونا  چاہئے اتنا ہم استفادہ نہیں کر رہے ہیں ، ہمیں صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے کہ اگر کوئی قرآن پڑھے تو اسے کتنا ثواب ملے گا ،اس روایت کو تو عام عوام کے لئے پڑھنا ہے ،یہ بات صحیح ہے کہ اگر کوئی قرآن کی طرف دیکھیں تو اسے ثواب ملے گا ،لیکن ہمیں لوگوں میں قرآن کی رغبت پیدا کرنے کے لئے ان روایات کوسنانا چاہئے ، قرآن کی طرف دیکھنے میں ثواب ہے ، بہشت میں انسان سے کہا جاتا ہے کہ جتنا قرآن پڑھا هے اتنی ہی مقدار میں اوپر چلے جاؤ۔

لیکن ہم طلاب علوم دینی کیوں ان روایات کو نہ پڑھیں : «إنّ القُرآنَ حيًّ لا يَمُوت»، «يَجْرِي كَمَا يَجْرِي اللَّيْلُ وَ النَّهَارُ»  یعنی انسان جب بھی کسی آیت کو پڑھتا ہے ،تو اس کے لئے یہ آیہ جدید اور نیا ہے ، اس کے لئے اس آیت میں ایک جدید مطلب ہے اور ایک نیا پیغام ہے اور انسان کے اندر ایک جدید اثر چھوڑ دیتا ہے ۔

ان روایات كي وجه سےہمیں زیادہ حرکت میں آنا چاهیئے ، ان روایات سےہم طلاب  زیادہ وجد میں آنا چاہئے ،یہ بتایا جائے کہ «يَجْرِي كَمَا يَجْرِي اللَّيْلُ وَ النَّهَارُ»  میرے لئے کیا ایسا ہی ہے یا نہیں ؟ یا مجھے اس بارے میں کچھ اطلاع ہی نہیں ہے ۔

ہم اگر قرآن سے دور ہو جائے تو گویا اس انسان کی طرح ہے جس نے اپنے آپ کو ایک کمرہ کے اندر بند کر دیا ہے اور اب اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کب رات ہوتی ہے اور کب دن ،وہ نہ رات کی برکات سے استفادہ کر سکتا ہے اور نہ دن کی برکات سے ۔

انشاء اللہ ہم زیادہ سے زیادہ قرآن کی طرف توجه پیدا کریں ۔

و صلّي الله علي محمّد و آله الطّاهرين

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .