مؤمن ،کفاراور فسا ق کی نزع روح کی کیفت

مؤمن ،کفاراور فسا ق کی نزع روح کی کیفت

موضوع: اخلاقی دروس


تاریخ جلسه :


شماره جلسه : ۲۳

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • ہماری گفتگومؤمن اورغیرمؤمن،کفاراورفساق کی نزع روح سے متعلق سورہ مبارکہ قیامت میں موجود آیات میں ہے: «كَلاَّإِذَا بَلَغَتْ التَّرَاقِي،وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ، وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ، وَالْتَفَّتْ السَّاقُ بِالسَّاقِ، إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ۔

دیگر جلسات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنامحمد وآلہ الطاہرین

ہماری بحث وگفتگومؤمن اورغیرمؤمن،کفاراورفساق کی نزع روح (جان کشی)سے  متعلق سورہ مبارکہ قیامت میں موجود آیات تک پہنچی: «كَلاَّإِذَا بَلَغَتْ التَّرَاقِي،وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ، وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ، وَالْتَفَّتْ السَّاقُ بِالسَّاقِ، إِلَى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ»اس حصہ کا جہاں تک ممکن تھا ہم نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا اوربعد والی آیات کو بھی گذشتہ جلسہ میں ذکر کیا : «افَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى، وَلَكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى، ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ يَتَمَطَّى، أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى، ثُمَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى»عرض هوا کہ ''«أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى، ثُمَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى» '' کے بارے میں بہت سے احتمالات ہیں ،اس طرح معنی کروں کہ أَوْلَى لَكَ ، یعنی النار أَوْلَى لَكَ کہ جہاں اللہ تبارک وتعالی چاربارتاکید کرتا ہے کہ آگ تمہارے لیے اولی ہے اور تم آگ کے لیے سزاوار ہو ۔ جب ہم نے یہ معنی کیا تو ہم نے اولی کے لیے سزاوار اور افعل تفصیل کا معنی کیا،نتیجہ یہ ہے کہ ایک ایساآدمی قیامت کے روز شفاعت سے بہر مند نہ ہوگا ، نہ اللہ تبارک وتعالی اس کی شفاعت کرے گااورنہ دوسروں کی شفاعت ا سے نصیب ہوگی ،یعنی یہ احتمالات جو ہم نے آیت کے متعلق بیان کیا،اگرافعل تفصیل ہوتو اس کا مطلب یه هے که اللہ سبحانہ تعالی فرماتاہے ''النار اولی لک ثم اولی لک فاولی''چارمرتبہ فرماتاہے جہنم کی آگ تمہارے لیے سزاوارہے ۔جس شخص کے بارے میں اللہ تعالی فرمائے آگ تمہارے لیے شایستہ اورسزاوار ہے ، پھراس کے عذاب میں کوئی کمی اور شفاعت  ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔

بعض آیات میں ہے کہ کچھ لوگ مستحق جهنم ہیں ،ممکن ہے کہ ان لوگوں کے لیے عذاب میں کوئی رعایت مل جائے ،لیکن ایسی تعبیر ان تمام راہوں کو بند کر دیتی ہے،پھریہ شخص سوائے آگ کے کسی اور چیز کے سزاوار و لائق نہیں ،اگر چہ بعض احتمالات کے مطابق یہ نتیجہ بھی دیتا ہے ۔ مرحوم علامہ نے فرمایا ہم ''اولی لک فاولی ثم اولی لک فاولی '' کو اس انسان پر "طبع"(دل پر مهر لگانا) قرار دیں ،یعنی اللہ تعالیٰ ان کے قلوب پر مہر لگا دیتا ہے اس کے بعد ان پر ایمان اور تقویٰ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے ،اس معنی کا نتیجہ جوہم نے آخری معنی کے طورپرمرحوم علامہ سے نقل کیا تها اورانھوں نے بھی یہی معنی قبول کیا ہے یہ بنتا ہے کہ پھر یہ شخص دنیا میں توبہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا !اور بہت عجیب ہے ،جو شخص اللہ کو جھٹلا تا ہے اوراس سے سر پیچی  کرتاہے اور اللہ کے دستورات وآئین سے منہ موڑتاہے اور اس تکذیب پرخود نمائی کرتا ہے اور غرورو مستی میں اللہ اور اللہ کے احکامات کا انکار کرتاہے،یہ اس بناپر ہے کہ ہم ''اولی لک فاولی '' کی تعبیر سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ، کہ یہ انسان نہ دنیا میں توبہ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اورنہ آخرت میں اس کے عذاب میں کوئی کمی ہوگی ۔الناراولی لک؛مشہورنے اولی کو افعل تفضیل لیا ہے،یا ہم اسے کلمۂ طبع کے عنوان سے قراردیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پرمہرلگا دی ہے ، اور اب یہ لوگ اب اللہ تبارک وتعالی کی رحمت ، کرم اورفضل وعنایت سے محروم ہیں ۔

اگرہم دوسرےاحتمالات کو بیان کریں،پس ان دو احتمالات کے مطابق یہ شخص نہ دنیا میں توبہ کرنے میں کامیاب ہوگاہے اورنہ آخرت میں اس کے لیے کوئی کمی یا رعایت ملے گی ،یعنی اللہ کوجھٹلانے یا اللہ کے احکام کو جھٹلانے کااثرایسا ھوتاہے۔اب اگر ہم یہ بتائں کہ یہاں اولی وہی ویل ہے ، یعنی وای ہوتم پر! وہی احتمال جو ہم نے بعض اُدباء سے نقل کیا کہ اولی لک یعنی ویل لک ،اللہ تعالی چار مرتبہ فرماتا ہے ویل لک ،یا ہم نے کہا اُولی کے معنی بُعد(دور) کے ہیں ،اولی لک یعنی دنیا اورآخرت کے نیکیوں اورخوبیوں سے تم دورہو،یادوسرے احتمالات جن میں سے اکثرکی طرف ہم نے کل اشارہ کیا،ان سے وه نتیجہ جو ہم نے لیا استفادہ نہیں ہوتا ۔لہٰذا ہماری نظر میں اولی لک وہی کلمہ ٔ طبع ہے' جس کا مرحوم علامہ نے احتمال دیا یهی بہت اچھانتیجہ ہے ۔

«أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدىً»:''کیا انسان نے یہ خیال کرتاہے کہ ہم اسے مہمل ( بیکار، فالتو)ٹھیرائیں گے اورمہمل وبیکار چھوڑاگیاہے ،روز قیامت اور حساب نہ ہوگا ؟کیا ہم نے اسے یوں ہی خلق اور دنیا میں چھوڑدیاہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : «أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِىٍّ يُمْنَى» کیا جب ہم نے اسے پیدا کیا منی کا ایک نطفہ تھا وہ منی جو یُمنی ، یعنی یُمنی علی الرحم عورت کے رحم میں ڈالاجاتا ہے : «ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى» نطفہ کے بعدعلقہ ہوتاہے ،اورعلقہ کے بعد اس کی ظاہری شکل خلق ہوتاہے،اس کے ظاہر کو ہموار کرتاہے اس کے جسم کے اعضاء کو برابراورمتناسب قرار دیتاہے  «فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى» ''منہ یعنی اس انسان سے یا اس منی سے ،اللہ تعالیٰ نے مرد اورعورت بنا یاہے «أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍعَلَى أَنْ يُحْيِىَ الْمَوْتَى»اگرچہ یہ حصہ معادسے مربوط ہے لیکن ہماری بحث کے اس حصہ کوئی ربط نہیں رکھتا ،ہماری بحث سکرات موت اوران حالات کے بارے میں ہے جو انسان کے لیے موت کے وقت پیش آتے ہیں ۔ لیکن آخر میں فر ماتاہے : «أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍ» وہ اللہ جس نے انسان کو ایک پانی سے خلق کیا من منی یمنی سے ،جب چاہے اسے اس دنیا سے بھی لے جائے گا'' اذا بلغت التراقی وقیل من راق ''کون ہے جو اسے نجات دے یا کون ہے جو اسے اُوپر لے جائے ۔

یہ انسان جب دنیا میں آناہوتا ہے اسے خلق کرنے کے لیے مختصرسا پانی کےعلاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہوتی «من منيٍ يمني»جب رحم میں ٹھیرتا ہے ، علقہ بن جاتاہے ۔«فخلق فسوي»  بعد میں اس سے ہم مذکر ومؤنث نکالتے ہیں ،آخر میں بھی جب دنیا سے جا نے کا وقت آتاہے تواس کے ارد گرد کےلوگوں میں سے کسی میں یہ طاقت نہیں کہ اس موت کو خود سے دور کریں ،یعنی یہ انسان ابتدا ء سے اختتام تک مکمل طورپر ضعیف ہے ،اس کا تمام وجود اور انسان کا وجودی مراحل ابتداً اورختماً ضعف وکمزوری کے ساتھ ساتھ ہے ۔ اب ایک ایسا ضعیف موجود کو «أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَادِرٍعَلَى أَنْ يُحْيِىَ الْمَوْتَى» کیا اللہ تعالیٰ موتی (مردہ)کودوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ؟ یہ جو اب مر گیا ہے وہ  بھی بلاآخر ایک ٥٠ ۔ ٦٠ سالہ جسم تھا جودفن ہوگیا اور اب تو کچھ ہے ،پہلے تو کچھ بھی نہیں تھا اور ایک مختصر سا پانی تھا ۔ روایت میں ہے براء بن عازب نقل کرتا ہے ''لمانزلت ھذہ الآیہ ۔ قال رسول اللہ (ص) سبحانک اللہم وبلی ''یہ تلاوت ِقرآن کے آداب میں سے ہے ، اس قسم کی آیات جہاں اللہ تعالی فرماتاہے کیامیں ان کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں ؟ میں نے تو اسے  ناچیز وحقیر سے پیدا کیا ہے ،جب کچھ نہیں تھا میں نے اسے خلق کیا ،کیا میں دوبارہ اس موتی کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہوں ؟جب آنحضرت (ص) اس آیت پر پہنچتے اوراس کی تلاوت فرماتے تو آ پ فرمایا کرتے تھے: ''سبحانک اللہم '' اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ومنزہ ہے کہ اس سے عاجزہویعنی اے اللہ تم اس کام پرقادرہو ۔ سورہ مبارکہ ٔقیامت کی یہ چندآخری آیات جو انسان کے اس دنیا سے چلے جانے کے کچھ حالات کےبارے میں ہے، ہم نے یہاں ان کی کچھ تشریح کر دی ہے ۔

وہ آیات جن پر ہمیں توجہ وغور کرنا چاہیے ، سورہ واقعہ کی یہ آیات بھی ہیں: «فَلَوْلَاإِذَا بَلَغَتْ الْحُلْقُومَ، وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُونَ، وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ، فَلَوْلَا إِنْ كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ، تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ»

ان آیات میں بھی انسان کے اس دنیا سے چلے جانے کی حالات کو بیان کیا ہے یہ بھی بیان کر رہی ہے کہ وہ کس عالم کا مشاہدہ کرتا ہے اور کس قسم کی مخلوقات کو دیکھتا ہے اورجو لوگ اس محتضر ( جس سے جان نکل رہی ہے) کے پاس بیثھے ہیں انہیں کچھ نظر نہیں آتا !وہ شوروغوغا جو حالت موت میں اس شخص کے اندر پیدا ہو تا اور وہ خود دیکھتا ہے ،لیکن جو اس شخص کے ارد گرد ہیں اسےنہیں دیکھ پاتے ، اللہ تعالی ان تمام باتوں کو ان آیات میں بیان کیاہے۔

اگرچہ قرآن کریم اول سے آخر تک اعجاز ہے،لیکن اعجاز ِقرآن کے پہلوؤں میںسے ایک یہی خصوصیات ہیں ۔پیغمبر اسلام (ص) جومطالب بیان کرتے ہیں وہ ایک طرف ، کبھی گذشتہ لوگوں کی داستان سناتے ہیں تو ممکن ہے کہ ہم کہیں کسی شخص نے اس کا کچھ حصہ سناہوگا،اس کا کوئی نکتہ سنا ہو،گرچہ یہ داستانیں جو قرآن بیان کرتاہے ، گہرائی اور جامعیت کی اس سطح پرکہیں بھی بیان نہیں ہوا ہے اور ان اعجازی نکات کے ساتھ جو ان میں موجود ہیں ۔ لیکن یہ مسئلہ کہ انسان موت کے وقت کیا چیزیں دیکھتا ہے ،وہی آیات جو ہم نے اس سے پہلے پڑھا ''یضربون وجوہہم و ادبارہم '' یہ وہ چیزیں ہیں جن کا بیان نبی ۖ کے وحی سے ارتباط کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ان آیات میں فرماتاہے: «فَلَوْلَاإِذَابَلَغَتْ الْحُلْقُومَ» یہ لولا تحزیزیہ ہے ، کیوں کہ جب جان گلے تک پہنچتی ہے اورانسان کی سانس گلے تک پہنچتی ہے : «وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُونَ» یہاں دو احتمال ہے ایک یہ ہے کہ محتضرانسان کے ارد گرد کےلوگوں سے خطاب ہے ، حالتِ احتضار(جان کنی) شخص کے متعلقین سے فرماتاہے تم لوگ صرف دیکھ رہے ہو ، یعنی دیکھنے کے علاوہ کرہی کیا سکتے ہو،یا ظاہرکو دیکھنے کے علاوہ باطن کو نہیں سمجھ سکتے کہ کیاخبرہے؟لہٰذا یہ ایک احتمال ہے کہ یہ ''انتم''ان اہل وعیال سے خطاب ہے جوموت کی حالت میں واقع انسان کے اردگرد جمع ہیں۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ ''انتم ''خودمحتضر(مرنے والے) سے خطاب ہے ،یعنی جب سانس گلے تک پہنچتی ہے اورتم صرف دیکھ رہے ہو اورکوئی کام نہیں کرسکتے،جسم سے اس روح وجان کو نکلنے کو نہیں روک سکتے ،تمہارے پاس کوئی طاقت نہیں،صرف دیکھ سکتے ہو ،یعنی دیکھ رہے ہوکہ ملک الموت روح کوتمہاری جسم سے نکال رہا ، سوائے دیکھنے کے تمہارے پاس کوئی طاقت نہیں ہے۔اس سے پہلے ہم نے امیرالمؤمنین(ع) کا خطبہ پڑھا جوحقیقتاً عجیب خطبہ ہے کہ حضرت نے فرمایا نزع روح ( جان کنی ) کے لیے پہلے اعضاء وجوارح سست ہوجاتے ہیں،پھرزبان کام کرنا چھوڑدیتی ہے،اورآخری مرحلہ میں آنکھ کام نہیں کرتی،یہاں ہم یہ کہہ سکتے کہ یہ آیت اس مطلب کی طرف اشارہ کررہی ہے،یعنی جب تک یہ سانس گلے تک نہیں پہنچی ہے آپ دیکھ رہے ہو،یہ بھی دوسرا احتمال ۔

اب ان میں سے کونسا احتمال صحیح ہے؟بعد والی آیت کہتی ہے : «وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ»ہم تم لوگوں سے جو اس مرنے والے کے اردگرد بیھٹے ہوزیادہ نزدیک ہیں،یعنی اللہ تعالیٰ یااللہ کے فرشتے؟ وہ ملائکہ جواس کا م پرمامورہیں،قریب ہیں۔اس کا معنی صرف اطلاع اورخبردینانہیں بلکہ یعنی تم لوگ کچھ بھی نہیں ہواور ہم سب کچھ ہیں،تم کوئی بھی کام نہیں کرسکتے اوراس مرنے والے کے لیے کوئی کام اورمددتم سے نہیں ہوگا! ''نحن اقرب''یعنی ہم علم ،احاطہ ،قدرت اور کچھ کرنے کے حوالے سے زیادہ قریب ہیں ۔ ہم جو کا م کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ لہٰذا یہ ''ونحن اقرب الیہ منکم '' اس بات کا قرینہ ہے کہ انتم حینئذٍتنظرون میں موجود انتم خود محتضر کی طرف نہ لوٹے بلکہ محتضر کے اطراف میں کھڑے لوگوں کی طرف لوٹے ۔

پھرفرماتا ہے: «فَلَوْلَا إِنْ كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ، تَرْجِعُونَهَا إِنْ كُنتُمْ صَادِقِينَ» مدین کے معنی جزا اور پاداش دینے کے ہیں،اللہ تعالیٰ فرماتاہے «فَلَوْلَا إِنْ كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ »اگرتم لوگوں کوکوئی اجر وپاداش دینے کا ارادہ نہ ہو ،یعنی اگر روزِجزااور قیامت ہی نہ ہو ،ترجعو نہا ،یہ سانس جو جسم سے نکل رہاہے اسے واپس جسم میںلوٹائیں ''ان کنتم صادقین '' اگر تم سچ بو لتے ہو۔ سوال یہ ہے کہ ان کے آپس میں کیا ربط ہے ؟ فلو لا ان کنتم غیر مدینین ''پہلے والا لولا ''فلولا اذابلغت الحلقوم '' گذشتہ آیات کے لیے فرع قراردی گئیں ہیں کہ قیامت،بعث اورقرآن کو جھٹلا یا ،بعد میں اللہ تعالیٰ فر ماتاہے تم لوگ کیوں قیامت کو جھٹلانے کے پیچھے لگے ہو ؟ اگر تم سچے ہو اس حالت موت میں واقع شخص کی سانس کواس کے جسم میں لوٹاؤ،بالآخراگرکوئی قیامت نہیں آئے گی ،موت کو بھی اللہ سے کوئی ربط نہیں ہونا چاہیے اورانسان کے بس میں یہ ہونا چاہیے کہ اس میں مداخلت کرے اور اسے رو کے ،جبکہ وہ یہ کام نہیں کرسکتا ۔

پھرمرحوم علامہ رضوان اللہ علیہ نے ''انتم حینئذتنظرون '' کومحتضر کے پاس جمع لوگوں کی طرف اشارہ قراردیا ہے اوران سے خطاب قرار دیا ہے،لیکن اب بحث یہ ہے کہ فلولا ان کنتم غیر مدینین '' اگر تمہیں کوئی جزا ہی نہ دیا جائے گا تو "ترجعونہ '' تم اس سانس کولوٹادو، ان دو میں کیا ربط ہے  فلو لا ان کنتم غیر مدینین اگریہ ‎ثابت ہو جائے کہ کوئی جزا نہیں ہے اورکوئی پاداش بھی عوض میں نہ ہو،اگرقیامت اور روز بعث یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہونگے ترجعو نہا ان کنتم صادقین محتضر کا یہ سانس خود اسی کی طرف لو ٹا دو اگر تم لوگ صادق وسچے ہو!ظاہراً یہ ہے کہ آدمی ان دونوں کو آپس میں جمع نہیں کرسکتا،اگرجزانہیں دیاجائے توتم لوگ واپس لوٹائیں ۔اگرہم چاہیں کہ اس آیت ِشریفہ سے کوئی مفہوم لینا چاہیں، یہ ہوگا کہ ترجعونہا ان کنتم صادقین،فلولااذا بلغت الحلقوم ''یہ سانس گلے تک پہنچ چکی ہے اوراگرتم سچ بولتے ہو تو اسے لوٹائیں ،لیکن اس سے قبل فر ماتا ہے : فلو لا ان کنتم غیر مدینین ۔

اگرہم علی الظاہر یہ کہیں کہ یہ آیت گذشتہ آیت سے مربوط ہے ،مشکل پید ا ہو گی فلولا ان کنتم غیرمدینین ترجعونہ ۔ یہ کیا ربط وتعلق رکھتا ہے ؟لہٰذا بعض نے مدینین کا مملوکین معنی کیا ہے ،کہا ہے مدینین یعنی مملو کین ۔اگرتم لوگ کسی کے بھی مملوک نہیں ہو اور تم ہی خود مالک اورقادر ہو (ترجعو نہا) توان کولوٹادو۔ یہ بہت اچھا معنی ہے لیکن احتمال یہ ہے کہ مدین کے معنی جزا و پاداش کے ہیں ۔ اگرتمہیں روز قیامت کسی قسم کی کوئی جزاوپاداش نہیں دیا جائے گا تو تم ان کو لوٹاؤ اگر تم لوگ سچے ہو ۔

بعض بزرگ علماء نے اسی مدین کو جزا کے معنی میں لیا ہے اور لولا کو بھی تقد یر میں لیا ہے ؛ فلو لا ان کنتم غیر مدینین ۔ فلولا ترجعونہا ایک اور لولا کو لے کر آئے ہیں جس کے بعد ترجعونہا اورغیرمدینین کے درمیان تعلق ختم ہوجاتاہے،لولاترجعونہا ،لولا ان کنتم غیر مدینین ،ان کنتم صادقین ،اگر ہم غیر مدینین کو غیرمملو کین معنی کریں تو آیت کا صحیح معنی ہوجاتا ہے۔

وصلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .