20 April 2024 و 03:04


ہمارا گفتگو ان روایات کے بارے میں ہیں جنہیں مرحوم صاحب وسائل نے کتاب وسائل کی کتاب جہادمیں ذکر کیا ہے ، جہاد النفس کے ابواب میں سے تیسرے بات میں فرماتا ہے :«بَابُ جُمْلَةٍ مِمَّا يَنْبَغِي الْقِيَامُ بِهِ مِنَ الْحُقُوقِ الْوَاجِبَةِ وَ الْمَنْدُوبَة»،اس باب میں ان روایات کو ذکر کرتے ہیں جن میں  انسان یا غیر انسان کے  واجب حقوق اور مستحب حقوق   بیان ہوئے ہیں ، اس بارے میں پہلی روایت جو ایک معتبر روایت بھی ہے ، کچھ وہ مطالب ہیں کہ امام سجاد علیہ السلام نے رسالہ حقوق میں فرمائے ہیں ، اس کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختلف الفاظ میں نقل ہوئی ہے ، اور کتاب وسائل الشیعہ میں جو نقل ہے وہ اور جو تخف العقول میں نقل ہے ان دونوں میں اختلاف ہے ، یہاں پر امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں : «حَقُّ اللهِ الْأَكْبَرُ عَلَيْكَ أَنْ تَعْبُدَهُ وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً فَإِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ بِإِخْلَاصٍ جَعَلَ لَكَ عَلَى نَفْسِهِ أَنْ يَكْفِيَكَ أَمْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ»،اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے ذمے خدای تبارک و تعالی کے کچھ حقوق ہیں ، اور ان میں سے کچھ حقوق بڑے ہیں اور بعض چھوٹے ہیں ، اورخدا کا  سب سے بڑا حق جو انسان کے ذمہ ہے وہ یہ ہے کہ اس کی عبادت کرے اور کسی کو اس کا شریک قرار نہ دے ، شرک  کے انواع واقسام میں سے کوئی بھی شرک، نہ عبادت میں شرک کرے ، نہ ربوبیت میں ،خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی لحاظ سے اپنے اندر شرک کو داخل ہونے  نہ دیں ، عبادات کو انجام دیں لیکن مشرک نہ ہو ، خدا کے لئے کسی شريک کا قائل نہ ہو ،انسان کبھی اپنے خواہشات نفسانی کے پیچھے چلا جاتا ہے تو یہ بھی ایک قسم کی شرک ہے  ،جو شخص اپنے ہوا و ہوس کو اپنا خدا قرارد دیتا ہے یہ بھی شرک ہے ، اگر انسان اپنی خواہشات نفسانی کے پیچھے چلا گیا تو یہ نہ صرف انسان کی گمراہی  کا سبب ہے بلکہ انسان کو بیچارہ کر دیتا ہے ، تو یہ بھی ایک قسم کی شرک ہے ، لیکن انسان اس کی طرف متوجہ نہیں رہتا ہے ، شاید یہ بتایا جا سکے کہ ہر گناہ  اس کے باطن میں شرک ہے لیکن انسان اس کی طرف متوجہ نہیں ہے ، انسان جب اپنی خواہشات کو اپنا خدا قرار دیتا ہے اور کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو یہ یقیناً  شرک کا مرتکب ہوا ہے ، اس کے بعد اس پر کیا نتیجہ مترتب ہوتا ہے اس پر توجہ دیں ! فرماتا ہے: اگر تم نے عبادت کو اخلاص کے ساتھ انجام دیا ،یہ " ذلک" مجموع (یعنی عبادت اور شریک قرار نہ دینا دونوں ) کی طرف اشارہ ہے ، ان دونوں کو اخلاص کے ساتھ اگر انجام دیا تو خدا تمہارے لئے اپنے اوپر ایک حق کا عہددار ہوتا ہے ، اور وہ تمہارے تمام دنیاوی اور اخروی کاموں کی کفالت اور کفایت کرنا ہے ،بہت ہی عجیب نتیجہ ہے کہ انسان کے تمام دنیاوی اور اخروی کاموں کے تدبیر کو خدا  انجام دیں،آپ نے ملاحظہ فرمایا ہے کہ انسان کبھی کہتا ہے مجھے خود معلوم نہیں ہے کہ میں کیسے علم حاصل کرنے میں لگ گیا ، معلوم نہیں کیا ہو ا کہ طلبہ ہوا ، واضح ہے کہ یہ خدا کے ایک خاص عنایت کی وجہ سے ہے اور یہ  انسانوں کے بارے میں خود خدا کا  تدبیر کرنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے ، انسان کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ میں کیوں فلان پارٹی میں نہیں گیا یا فلان افراد کے ساتھ ہم نشین نہیں ہوا ، اگر ان کے ساتھ ہوتا تو ابھی میری حالت بہت خراب ہوتی ،البتہ کبھی انسان اسے اپنے آپ سے نسبت دیتا ہے کہ میری اچھی تدبیر تھی جس کی وجہ سے ان افراد کے ساتھ میری ہمنشینی نہیں ہوئی، لیکن ان تمام مسائل میں حقیقت، خدا کی تدبیر ہے ، اگر انسان عبادت کو خالصانہ خدا کے لئے انجام دیں اور اخلاص کے ساتھ ہی انجام دیں ، عبادت کے ساتھ شرک نہ لائے ، شرک کے اقسام میں سے کوئی بھی قسم نہ ہو، تو خدا بھی اس کا ضامن ہوتا ہے ، اس وقت خدا کے ہاں  ایسے انسان کا حق ہوتا ہے  وہ حق یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں میں انسان کے لئے کفایت کرتا ہے ، مالی مسائل میں ، ناموس میں ، عمر میں برکت عطا کرنے میں ، اوقات اور زندگی سے استفادہ اور باقی تمام چیزوں میں، اگر ہم خدا کے دنیا اور آخرت دونوں میں کفایت کرنے کے مصادیق میں سے ایک مصداق کو دیکھنا چاہیں تو ہمارے بڑے بڑے فقہاء ہیں ، شیخ انصاری، آخوند خراسانی، نائينی ، مرحوم اصفہانی، امام خمینی، مرحوم خوئی (رحمۃ اللہ علیہم) یہ سب ایسے افراد ہیں کہ خدا نے ان کے دنیا اور آخرت دونوں کو کفایت کی ہے،کوئی انسان پیدا ہوتا ہے 70 ، 80 سال دنیا میں عمر گزارتا ہے اور جب وہ مر جاتا ہے  اس کے بعد دنیا میں اس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہوتا ہے ، حتی ممکن ہے عالم دین بھی ہو، لیکن اس نے نہ کسی کی ہدایت کی ہو اور نہ وہ لوگوں کے لئے کوئی فائدہ پہنچایا ہو ، اور نہ وہ علم کے لئے مفید ہو اور نہ کسی کی تربیت کی ہو ، افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ ایسے افراد کی کمی نہیں ہیں ! ہم یہاں یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ افراد وہ ہیں جن کے لئے خدا نے دنیا اور آخرت کفایت کی ہے ، خداوند متعال جب کسی کے دنیا اور آخرت کو کفایت کرتا ہے تو اس انسان کو اتنا زیادہ توفیق عنایت فرماتا ہے ، خود اس کی ذات کی عبادت کی ، اس کی بندگی کرنے کی ، حقایق سے پردہ ہٹنے میں اور خدا سے نزدیک ہونے میں سب میں توفیق عنایت فرماتا ہے ، ہم کتنے ایسے حقائق سے دور ہیں ؟خدا کی کفایت ایسی ہوتی ہے ، رزق ۔۔۔۔ یہ چیزیں بہت بعد کے درجہ کی بات ہے ، کہ بعض روایات میں ہے کہ طالب علم کے رزق کا خداوند متعال عہدہ دار ہے ، اگر آپ کو اس پر یقین ہے تو ایسا ہی ہے ، اگر کوئي شخص خدا کے لئے علم حاصل کرے تو اس کی رزق و روزی کا عہدہ دار خود خدا ہوجاتا ہے ، اگر ہم اس پر یقین کرے تو واضح طور پر دیکھا بھی جا سکتا ہے ، لیکن یہ بعد والی درجہ کی بات ہے ، لیکن ہم جس چیز کو بیان کرنا چاہتے ہیں اور خدا جس کا کفایت کرتا ہے وہ یہ ہے  جو نفس ہمیں عطا ہوا ہے ،ہم کس قدر اس نفس کی قدرت  اور طاقت کے بارے میں باخبر ہیں ؟ ہمارے نفس  کی اہلیت کے بارے میں ہم ابھی تک کتنا باخبر ہیں ، اور جب اس کی اہلیت کے بارے میں باخبر ہوئے ہیں تو اس سے کتنا استفادہ کیا ہے ؟ جیسا کہ  نفس کے ماہرین بتاتے ہیں ، انسانی نفس کی قدرت اور اہلیت اتنی زیادہ ہے  کہ ہم میں سے بہت سارے اس سے بے خبر ہیں ، لہذا کفایت سے مراد یہ ہے کہ جو چیز خدا نے انسان کے اختیار میں قرار دیا ہے ، انسان اسے انجام تک پہنچا سکے ، خدا کی کفایت صرف یہ نہیں ہے کہ خدا انسان کو بیمار نہ کرے ، یا مثلاً اس کی ناموس کی حفاظت کرے یا صرف عاقبت بخیر ہونا نہیں ہے اگرچہ یہ بھی خدا کی عنایات میں سے ایک ہے ، خدا جس شخص کی کفایت کرے یقیناً وہ عاقبت بخیر بھی ہو جا تا ہے  ، لیکن یہ خدا کی کفایت کا  صرف ایک حصہ ہے ، یعنی علم اور عمل کے لحاظ سے انسان کے اندر جوچيز بالقوہ موجود ہے خدا اسے انجام تک پہنچا دیں ،انسان جس چیز کو سمجھنا چاہتا ہے ، وہ  اگر  سمجھ آ جائے تو یہ اس انسان کو کتنا بلند کراتا ہے ، بغیر کسی شک کے خدا کے فرشتوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے ، یہ سب «أن یکیفیک أمر الدنیا و الآخرة»  میں ہے ۔امید ہے کہ خدا کے اس بڑے کام کو ہم سب انجام دیں گے اور اس کی رعایت بھی کریں گے ، ہمیں اپنی عبادت کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے ، جس  شخص کی عمر ابھی 50 سال ہے وہ یہ حساب کر ليں کہ بالغ ہونے سے لے کر ابھی تک اس نے 35 سال نماز پڑھ لی ہے ، ان میں سے کنتی نمازوں کو صحیح پڑھا ہے ؟ کتنی نمازوں کو اخلاص اور حضور قلب کے ساتھ پڑھا ہے ؟ ایک مصمم ارادہ کر لیں کہ ان نمازوں کو دوبارہ بجالائے، بہت ہی اچھا کام ہے ، آپ نے ضرور سنا ہو گا کہ آقای سید احمد خوانساری (قدس سرہ) بہت ہی بڑے انسان تھے ، جب امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کے حضور میں ان کے بارے میں بات ہوئی تو آپ فرماتا ہے  : مجھ سے کوئی ان کی عدالت کے بارے میں سوال نہ کرے ، بلکہ ان کی عصمت کے بارے میں سوال کریں ،بہت ہی بڑا انسان تھا ، یہ بہت ہی مشہور ہے کہ انہوں نے تین بار اپنی پوری عمر کی نمازوں کی قضا پڑھے تھے، ایک مرجع تقلید، یہ سمجھتے ہیں کہ عبادت میں کیا ہے ؟ ان کو خبر ہے ، ہم ظاہری عبادت کو وظیفہ کے طور پر انجام دیتے ہیں جس سے ہماری ذمہ داری پوری ہوتی ہے ، یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ ایک مرجع تقلید تین بار اپنی پوری عمر کی نمازوں کو پڑھ لیں ، لہذا ہمیں بھی اپنی عبادتوں کے بارے میں توجہ دینے کی ضرورت ہے ، واقعا ًیہ ایک حق ہے ، جب ہم نماز پڑھنا شروع کریں تو یہ سوچیں کہ یہ خدا کا ایک بڑا حق ہے ، اور میں اس حق کو کیسے ادا کروں ؟  فقہی گفتگو میں یہ بات کسی مناسبت سے بیان ہوئی ہے کہ استحطاط مکروہ ہے ، یعنی لین دین ہونے کے بعد جب مال اور اس کی قیمت معین ہو جائے اس کے بعد خریدار جب بھیجنے والے کو پیسہ دینا چاہئے اس وقت بولے کچھ پیسہ کم کر لو  اسے استحطاط کہتے ہیں ! کبھی ہم کہتے ہیں کہ مستحب ہے قیمت کم کرے! ستحطاط مکروہ ہے ، معاملہ میں جو پیسہ معین ہوا ہے اسی کو ادا کرنا چاہئے ، ہماری نمازوں میں استحطاط نہیں ہونی چاہئے کہ ہماری ہر نماز اس سے ما قبل نماز سے کمزور ہو جائے ، یہ صحیح نہیں ہے !جب نماز پڑھنا شروع کرے تو اس بارے میں اچھی طرح توجہ کرنا چاہئے کہ یہ خدا کا ایک بڑا حق ہے ،  جب نماز ختم ہو جائے تو خدا سے درخواست کرے کہ خدایا مجھے معلوم نہیں ہے کہ میں نے اس حق کو ادا کر لیا ہے یا نہیں ؟ آپ مجھے پر لطف فرمائے ، بہر حال خدا سے توفیق کی درخواست کرنی چاہئے کہ اس بڑے حق کو سمجھیں اور اسے صحیح طرح ادا کر سکیں ان شاء اللہ



ماخذ : ماخذ: وسائل الشیعه،‌ ج 15، ص 172



کلمات کلیدی :


۱,۶۸۹ قارئين کی تعداد: