24 April 2024 و 01:03

زبان کی حفاظت


اسی حدیث کے سلسلے میں جس کا ایک حصہ  پچھلے ہفتہ بیان ہوا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے محمد بن حنفيہ سے فرمایا : یا بنی لا تقل ما لا تعلم،اے بیٹا ! جس چیز کے بارے میں  نہیں  جانتا ہو اس کے بارے میں کچھ نہیں بولو " اس کے بعد فرماتا ہے : بل لا تقل کلّ ما تعلم"،بلکہ ہر وہ چیز جس کے بارے میں علم ہے اسے بھی نہ بولو!یہ  ایک بہت ہی اہم حکم ہے کہ انسان کو چاہئے اپنی زندگی میں اس کی رعایت کرے ، انسان  کے پاس یہ قدرت اور طاقت ہونی چاہئے کہ وہ اپنی زبان پر کنٹرول کرے اور اس کی حفاظت کر سکے، اب کبھی  انسان کسی چیز کے بارے میں کچھ جانتا ہے اور وہ اسے اظہار کرنا چاہتا ہے ، کہ کبھی یہ ہم طلاب کے درمیان میں بھی پایا جاتا ہے کہ اظہار فضل کرنا چاہتے ہیں، یہ ایک نا پسند کام ہے ، ہمارے بزرگان بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے کہ حتی الامکان اپنی فضل اور جس چیز کو جانتے ہیں ان کا اظہار نہ کرے،کبھی  ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی جمع میں بیٹھے ہوتے ہیں ، اور اس شخص سے سوال نہیں ہوتا بلکہ کسی اور شخص سے کسی موضوع کے بارے میں سوال ہوتا ہے ، اور دوسرا شخص جس سے سوال ہوا ہے وہ عمر میں بڑے ہوں، لیکن دوسرے افراد جو جوان ہیں وہ اس سوال کے جواب دینے میں جلدی کرتے ہیں ، یہاں پر پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر یہ جو جواب دیتا ہے اگر کامل ہو اور صحیح بھی ہو پھر بھی یہ اس شخص کے ذہن میں نہیں بیٹھتا ہے جس نے سوال کیا ہے ، وہ اس پر کوئی اعتناء نہیں کرے گا ، وہ اپنی جگہ پر مصمم ارادہ کیا ہوا ہے کہ اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دینا ہے ، تو انسان کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ  ایسے مواقع پر اپنے آپ کی تذلیل کرے ، انسان کو چاہئے جب تک خود اس سے کوئی سوال نہ ہو کوئی جواب نہ دے۔

مجھے یاد ہے کہ مرحوم آقای اشتھاردی جو کہ تقریبا 10 سال  مکہ میں ہمارے مرحوم والد بزرگوار کے بعثہ میں مشرف رہتے تھے ، میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تھا ، ان کی ایک بہت ہی اچھی خصوصیت یہ تھی کہ جب تک ان سے سوال نہ کرتے تھے کوئی بات نہیں  کرتے  تھے ، اور اگر صبح سے ظہر تک ان سے سوال کرتے تو مسلسل جواب دیتے ، ایک موبائل عروۃ الوثقی (احکام کی ایک جامع کتاب) تھے، مرحوم اشتھاردی کے ذہن میں شرعی احکام اور فروعات اور مختلف نظریات راسخ تھے ،اور اگر کوئی آکر ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے کسی سے سوال کرتے ، تو آپ اس کا کوئی جواب نہیں دیتے تھے ، جب تک  خود  ان سے  سوال نہیں کرتے کوئی جواب نہیں دیتے تھے ، یہ بہت اچھا طریقہ ہے ، لیکن اس کے لئے نفس پر بہت زیادہ کنٹرول کی ضرورت ہے ، انسان کو کسی مسئلہ کے بارے میں بہت اچھی طرح معلوم ہو اور اس کے حضور میں کسی ایسے شخص سے پوچھے جو اس سوال کے جواب کو غلط بتا رہا ہو ، لیکن یہ انسان اپنے آپ پر کامل طور پر مسلط رہے اور خاموش رہے ،بہت ہی قدرتمند ہونے کی ضرورت ہے ، بہر حال جہاں پر انسان پر کچھ بولنا واجب نہ ہو وہاں ایسا ہی کرنا چاہئے ، لیکن بعض  جگہوں پر انسان پر واجب ہو جاتا ہے تا کہ کسی جاہل کی  اصلاح کرے وہاں پر کوئی بات نہیں ہے ، وہاں پر انسان کچھ بولے لیکن اگر ایسی کسی چیز کی ضرورت نہ ہو تو خاموش رہنا بہتر ہے ،کوئی  جواب  نہ دینا بہتر ہے ،یہ ایک مثال ہے ، اس کے لئے اور بھی بہت سارے مثالیں ہیں ، مثلا کسی جگہ چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے وہاں پر اس سے کوئی سوال بھی نہیں ہوتا لیکن وہ کچھ بات کر لیتا ہے تا کہ اس کے علمی مراتب کو دیکھا دیں ، ایسے کام کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں : فإن الله قد فرض علی جوارحک کلّها فرائض یحتجّ بها علیک یوم القیامة،ہم یہ نہ سوچيں  کہ ہمیں کچھ معلوم ہے ، اگر ہم نے وہ بیان کر دیا تو قیامت کے دن خداوند متعالی اس کے بارے میں ہم سے پوچھيں گے ، انسان کے ہر اعضاء و جوارح کے لئے کچھ فرائض قرار دیا ہے خدا ان سے قیامت کے دن پوچھیں گے ، " و يسالك عنها و ذكرها و وعظها و حذرها و ادبها" ان اعضاء اور جوارح کو ادب کی ہے ،ایسے ہی فضول میں نہیں چھوڑا ہے ! ان اعضاء و جوارح کو جسے خداوندمتعالی نے ہمارے اختیار میں قرار دیا ہے " و لم تبركها سدى" فضول میں رہا نہیں کیا ہے ، اس کے بعد اس آیت کریمہ سے تمسک کرتے ہیں :" فقال الله عزوجل : (و لا تقف ما ليس لك به علم ان السمع و البصر و الفواد كل اولئك كان عنه مسولا " اور اس کے بعد اس آیت کریمہ سے بھی استدلال کیا ہے :" اذ تلقونه بالسنتكم و تقولون بافواهكم ما ليس لكم به علم و تحسبونه هينا و هو عندالله عظيم " اس میں خداوند متعالی فرماتا ہے : اس وقت کو یاد کرو کہ  تلقّونه بألسنتکمکہ اس تہمت اور افتراء کو ایک دوسرے کے زبان سے نقل کرتے تھے ، یعنی ایک شخص دوسرے کو بتاتا تھا اور وہ تیسرے شخص کو اور تیسرا  چوتھے  شخص کو "و تقولون بأفواههم ما لیس لکم به علم و تحسبونه هیّنا" اور یہ سوچتے تھے کہ اس میں کوئی  مسئلہ  نہیں ہے ! یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے کہ کبھی انسان کسی چیز کے بارے میں بتاتا ہے اور اس کے بارے میں اس کو کچھ معلوم بھی نہیں ہے ، اور جب اس شخص سے پوچھا جائے کہ کیوں ایسی بات کی ہے تم نے ؟ تو وہ یہی کہتا ہے کہ میں نے سنا تھا ، اور اپنے اس کام کو بہت ہی ہلکا سمجھتا ہے ، لیکن خدا فرماتا ہے "و هو عند الله عظیمٌ"،خدا کے نزدیک یہ بہت بڑا ہے ، یہی لا تقل کلّ ما تعلم" کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہے  ، اس کا ایک مصداق یہ ہے کہ کبھی انسان اپنے بارے میں کچھ مکاشفہ ( مثلا اپنے بارے میں کچھ مکاشفہ ہوا ہے ) اسے بیان کر دیتا ہے ، اور مخاطب کے لئے اسے قبول کرنا بہت ہی مشکل ہے ، اسی طرح کچھ دوسروں کے بارے میں کچھ مکاشفات کو جانتے ہیں ، اور جا کر منبر سے ان عوام کے لئے  بیان  کرتے ہیں  جو  خود خواب اور بیدار ی کو نہیں جانتے ہیں ، کہتا ہے کہ میں آپ لوگوں کے لئے کچھ  مکاشفات  بیان کرنا چاہتاہوں ، یہ اچھی بات نہیں ہے ، اور اس طرح بیان نہیں ہونا چاہئے ، اور کبھی کتابوں میں بھی اس طرح کے مطالب نظر آتے ہیں ، کہ کچھ عرصہ پہلے ہمارے بڑے اساتید حفظہ اللہ میں سے بعض کی کچھ کتابیں چھپ چکی ہیں ، کہ اس میں اپنے کچھ مکاشفات کو بھی بیان کیا ہے ، اگر یہ ذکر نہ ہوتے تو بہت اچھا تھا ، معاشرہ میں اس طرح کے مکاشفات کو قبول کرنی کی قدرت نہیں ہے ، حتی کہ خود حوزہ علمیہ کے طلاب میں بھی یہ قدرت نہیں پائی جاتی ، اس وجہ سے یہ چیزیں افراط اور تفریط کا شکار ہو جاتا ہے  ، کچھ افراد ممکن ہے غلو کرے لے اور اس شخصیت کو تالی تلو عصمت تک قرار دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ نعوذ باللہ بعض افراد ان کو تالی تلو کفر قرار دیں ، چونکہ ان چیزوں کو صحیح  طرح  سمجھ  نہیں سکتا ہے، لہذا یہ بھی  "لا تقل کلّ ما تعلم" کے مصادیق میں سے ایک ہے، انسان کے لئے بعض اوقات کچھ مکاشفات یا اپنے لئے کچھ حالات پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اسی کے مصادیق میں سے ہے ، اس حدیث کے بارے میں اور بھی غور و فکر کریں شاید اس سے  بھی  بہتر  معنی  کر  سکے ۔




ماخذ : منبع : وسایل الشیعه،‌ ج15، ص 169



کلمات کلیدی :


۱,۵۰۶ قارئين کی تعداد: