نصحتیں اور قیمتی باتیں
اپنا سوال پوچھیںحضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضلیت
تاریخ 06 February 2023 و ٹائم 03:57
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی فضلیت
«قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّهُ] أَشْكَلَ اشتكل ذَلِكَ] عَلَيْنَا تَقُولُ حَوْرَاءُ إِنْسِيَّةٌ لَا إِنْسِيَّةٌ ثُمَّ تَقُولُ مِنْ عَرَقِ جَبْرَئِيلَ وَ مِنْ زَغَبِهِ»؛ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو مطلب بیان فرمایا : 1۔ « خُلِقَتْ فَاطِمَةُ حَوْرَاءَ إِنْسِيَّةً لَا إِنْسِيَّةً»،
2) «خُلِقَت مِنْ عَرَقِ جَبْرَئِيلَ وَ مِنْ زَغَبِهِ»)، اصحاب نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! یہ مسئلہ بہت زیادہ پیچیدہ ہو گیا ، اس کی حقیقت کیا ہے ؟ «قَالَ إِذاً أَنَا أُنَبِّئُكُمْ أَهْدَى إِلَيَّ رَبِّي تُفَّاحَةً مِنَ الْجَنَّةِ»،آپ نے فرمایا : میں ابھی اس واقعہ کو تمہارے لئے بیان کرتا ہوں ، خداوند تبارک و تعالی نے جنت سے میرے لئے ایک سیب عطا فرمایا «أَتَانِي بِهَا جَبْرَئِيلُ فَضَمَّهَا إِلَى صَدْرِهِ»؛ جبرئیل نے اس سیب کو اپنے سینہ سے لگا لیا «فَعَرِقَ جَبْرَئِيلُ ع] وَ عَرِقَتِ التُّفَّاحَةُ»؛ جبرئيل کو پسینہ آگیا اور اس کے کچھ قطرات اس سیب پر گر گیا ،«فَصَارَ عَرَقُهُمَا عَرَقُهَا] شَيْئاً وَاحِداً»؛ تو سیب اور جبرئیل کے پسینہ دونوں آپس میں مل گیا ، توجہ فرمائیں کہ جبرئیل نے اس سیب کو اس خاص حالت میں لایا ہے ، یعنی اس سیب کو ایک معمولی چیز لانے کی طرح نہیں لایا ہے کہ ہاتھ میں اٹھا کر لائے ، اس سے ہم یہ مطلب حاصل کر سکتے ہیں کہ انسان ایک بڑے تخفہ اور جس کے لئے بہت زیادہ احترام کا قائل ہو اسے سینہ سے لگاتے ہیں «ثُمَّ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَ بَرَكَاتُهُ قُلْتُ وَ عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا جَبْرَئِيلُ فَقَالَ إِنَّ اللهَ أَهْدَى إِلَيْكَ تُفَّاحَةً مِنَ الْجَنَّةِ»؛ جبرئيل کہتا ہے کہ خداوند تبارک وتعالی نے بہشت سے آپ کے لئے ایک سیب تخفہ بھیجا ہے «فَأَخَذْتُهَا فَقَبَّلْتُهَا وَ قَبَّلْتُهَا وَ وَضَعْتُهَا عَلَى عَيْنِي وَ ضَمَمْتُهَا إِلَى صَدْرِي»؛یعنی جبرئیل کتنا اس سیب کے لئے احترام اور تکریم کا قائل ہوا ہے ،صرف ایک معمولی کھانے یا صرف ایک بہشتی کھانے کے طور پر نہیں ہے ، بہشتی کھانا مریم سلام اللہ علیہا کے لئے بھی آیا تھا اسی طرح بعض دوسرے کے لئے بھی آیا تھا ، لیکن جبرئیل نے اس سیب کو ایک خاص حالت میں لے آنا اس کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے ہے «ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ كُلْهَا»؛جبرئيل نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سیب کو نوش فرمائے «قُلْتُ يَا حَبِيبِي جَبْرَئِيلُ هَدِيَّةُ رَبِّي تُؤْكَلُ»؛ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلے تو فرماتے ہیں کہ یہ خدا وند تبارک و تعالی کی طرف سے میرے لئے تخفہ ہے اور تخفہ کی حفاظت کرنی چاہئے اسے کھایا نہیں جاتا ،«قَالَ نَعَمْ قَدْ أُمِرْتَ بِأَكْلِهَا»؛جبرئیل نے فرمایا : جی ہاں ! لیکن یہاں پر آپ کو کھانے کا حکم ہے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : «فَأَفْلَقْتُهَا»؛ میں نے اس سیب کو کاٹا «فَرَأَيْتُ مِنْهَا نُوراً سَاطِعاً»؛ (یعنی سیب کو جب دو نصف کر لیا ) تو اس میں سے ایک نور دیکھا ، اس کے بعد فرماتا ہے :«فَفَزِعْتُ مِنْ ذَلِكَ النُّورِ»؛میں اس نور سے وحشت زدہ ہو گیا ، یعنی اس نور میں اتنی عظمت تھی کہ میں وحشت زدہ ہو گیا ، اور اس سیب سے ہی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا وجود دنیا میں آنا ہے ،یہاں پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جملہ پر توجہ فرمائيں( خداوند متعالی کے بعد عقل اول ہے اور خدا کے نور کے بعد ان سے بڑھ کر کوئی نور نہیں ہے ) وہ فرماتا ہے :«فَفَزِعْتُ مِنْ ذَلِكَ النُّورِ».«قَالَ كُلْ فَإِنَّ ذَلِكَ نُورُ الْمَنْصُورَةِ فَاطِمَةَ»؛ جبرئیل عرض کرتا ہے ، اس سیب کو نوش فرمائیں ، اس سیب میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نور ہے «قُلْتُ يَا جَبْرَئِيلُ وَ مَنِ الْمَنْصُورَةُ؟ قَالَ جَارِيَةٌ تَخْرُجُ مِنْ صُلْبِكَ وَ اسْمُهَا فِي السَّمَاءِ الْمَنْصُورَةُ وَ فِي الْأَرْضِ فَاطِمَةُ»؛کیوں آسمانوں میں انہیں منصورہ کہا اور زمین میں فاطمہ کہا جاتا ہے ؟ ( یہاں پر آسمان میں منصورہ کہنے کی علت کو بیان نہیں کیا گیا ہے ، لیکن دوسری روایات میں یہ ذکر ہے ) صرف یہی فرماتے ہیں :«قَالَ سُمِّيَتْ فَاطِمَةَ فِي الْأَرْضِ لِأَنَّهُ فَطَمَتْ شِيعَتَهَا مِنَ النَّارِ»؛فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے شیعیان آگ سے الگ ہوئے ہیں اور شیعوں کو آتش سے جدا کیا گیا ہے ، اس کے بعد فرماتا ہے :«وَ فُطِمُوا أَعْدَاؤُهَا عَنْ حُبِّهَا»؛یہ بہت ہی مہم نکتہ ہے یعنی آپ سلام اللہ علیہا کے دشمن آپ کے محبت سے جدا اور محروم ہوئے ہیں یعنی دشمنان کبھی بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی محبت کو اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے ہیں ۔
دشمن یہی کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی دوسرے خواتین کی طرح ایک خاتون ہے، یہاں پر جس محبت کی بات ہوئی ہے یہ اس معمولی محبت کی طرح نہیں ہے جو عام انسانوں سے کرتے ہیں ، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسبت جو محبت ہے اس کے لئے «بما لها من المقام»؛اس کا اپنا ایک خاص مقام ہے ، وہ بھی اس وجہ سے کہ یہ ایک ایسی نورانی خلقت ہے ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے محبت بھی اسی وجہ سے تھا،حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو چومتے تھے اور فرماتے تھے کہ مجھے فاطمہ سلام اللہ علیہا سے بہشت کی بو آتی ہے ، ایسی محبت مراد ہے ، لہذا میرا اصرار یہ ہے کہ ہم اپنے اندر ایسی محبت کو زیادہ کرے، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اس عظمت کو ہم اپنے اندر فکر اور ذہن میں ہر روز زیادہ سے زیادہ قرار دیں ، ہرسال اس سے پہلے والے سال کی نسبت فاطمیہ کو زیادہ سے زیادہ باشکوہ انداز میں برگزار کرے ، اور اپنے گھر والوں اور جدید نسل کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ سے زیادہ آگاہ کرے، اور بعض لوگ آکر کچھ احقمانہ جو بات کرتے ہیں کہ اس وقت کیا گھروں کے دروازے بھی تھے یا نہیں ؟!یہ بہت ہی چھوٹی باتیں ہیں ، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک الگ مخلوق ہیں ، ان کی خلقت سے لے کر تمام مناقب اور فضائل سب مختلف ہیں ،کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان ایک ایسی ہستی کی طرف توجہ نہ کرے ؟مگر یہ ممکن ہے کہ شیعہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نسبت بی تفاوت ہو، ایک ایسی ہستی اپنے والد گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کتنی مدت زندہ رہے ؟ اس وقت کے اسلامی معاشرہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رحلت کے بعد کونسا ایسا کام کیا تھا کہ بہت ہی کوتاہ مدت میں شہید ہوگئی؟یہ سب مسلم باتیں ہیں ، میں یہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ "فاطمہ شناسی " حوزہ کے دورس میں سے ایک ہونا چاہئے ، حوزہ علمیہ میں جو بھی طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس کا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں مطالعات بہت زیادہ ہونا چاہئے ، جب یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا معصوم تھی اور ان کا مقام عصمت ہے ، تو اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہونا چاہئے ، اور یہ اس کے لئے سوالیہ نشان نہیں ہونا چاہئے !حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے علمی مقام و منزلت ، قرآن کریم پر آپ کو جو تسلط حاصل تھی، مسجد میں آپ سلام اللہ علیہا نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس پر آپ توجہ دیں ، ایک خاتون ہے ابھی والد گرامی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رحلت کے چند روز ہی گزرے ہیں ، ابھی آپ مصیبت زدہ ہے ، کس قدر آپ نے قرآن کریم کی آیات سے تمسک کیا ہے ؟! کیا ایک عام انسان ایک خطبہ میں اتنی ساری آیات سے تمسک کر سکتا ہے ؟!یہ سب ان کی نوری خلقت کے لئے ہے ، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے علم کی کیفت کے بارے میں ہمارے پاس کچھ روایات ہیں ، اور آپ عالم ما وراء سے کیسے ارتباط میں تھے اس بارے میں کچھ روایات ہیں، ان کے علم کے بارے میں ، ان کے محدثہ ہونے کے بار ے میں ،اسی طرح مصحف حضرت زہرا سلام اللہ علیہا یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بارے میں ہمیں اچھی طرح آگاہ ہونا چاہئے ، یہ ایام فاطمیہ ایسے ایام ہیں کہ اگر ہم خدا سے نزدیک ہونا چاہتے ہیں تو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شناخت کے ذریعہ یہ ممکن ہے ، خدا سے تقرب پیدا کرنا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مقام کے اعترا ف کے بغیر ممکن نہیں ہے ، یہ مطلب ایک ایسا مطلب ہے کہ جو روز روشن کی طرح ہمارے لئے عیاں ہے،خدا سے تقرب اس عظیم خاتون کی شناخت کے بغیر ممکن نہیں ہے ، ہمارے عزاداری پہلے سے بہت زیادہ مفصل ہونا چاہئے ، اور ایام فاطمیہ کے عزاداری میں کوئي کمی نہیں ہونی چاہئے، اگر شیعوں کو زندہ رہنا ہے اور ترقی کی طرف گامزن رہنا ہے تو ان عزاداری کو باشکوہ انداز میں قائم رکھنا چاہئے ، ہمیں سوچنا چاہئے کہ کونسی عظیم شخصیت ان ایام میں ہم سے جدا ہوئے ہیں ، ان پر کیا کیا مظالم ڈھائے گئے ہیں کہ یہ مظالم قابل انکار بھی نہیں ہے ،ان ایام میں انسان کم از کم اسی کتاب بحار الانوار کو اٹھا کر دیکھ لیں ، اور اس میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں جو روایات نقل ہیں ان کو پڑھ لیں ، انشاء اللہ ہم سب کو آپ سلام اللہ علیہا کی شفاعت نصیب ہو «و في السماء المنصورة ذَلِكَ قَوْلُ اللهِ فِي كِتَابِهِ وَ يَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللهِ بِنَصْرِ فَاطِمَةَ (سلام الله علیها)»؛ چونکہ سب کوحضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مدد حاصل ہوتی ہے لہذا یہ فرمایا ہے ۔
منبع : بحار الأنوار، ج 43، ص 18
ماخذ : بحار الأنوار، ج 43، ص 18