قرآن کریم کی آیات اور آئمہ معصومین
علیہم السلام کی روایات میں جن مطالب کے بارے میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ان
میں سے ایک انسان کو یقین حاصل ہونا اور اس کا یقین کے مقام تک پہنچنا ہے ، اور
بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان کا درجہ اسلام سے پہلے ہے اور تقوی
کا درجہ ایمان سے پہلے ہے ، اسی طرح یقین کا درجہ تقوی سے پہلے ہے ، جب تک کوئی
شخص مومن نہ ہو وہ متقی نہیں ہو سکتا اور جب تک کوئي شخص متقی نہ ہو وہ یقین کے درجہ پر نہیں پہنچ سکتا ، یقین
ایک بہت ہی مہم مسئلہ ہے ، کہ بعض روایات میں نقل ہےخدا کی
نعمتوں میں سے ایک چیز جو لوگوں کے درمیان بہت کم تقسیم ہوا ہے وہ یقین ہے ،«لم
يقسم بين الناس شيءٌ اقل من اليقين»، یعنی بہت ہی کم افراد اس مرحلہ تک پہنچتے ہیں ۔
ابھی ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں
علمیلحاظ سے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ
ہمارے تمام کام یقین حاصل کرنے کے لئے ہو ، خداوند متعال کی نسبت وہ یقین جو انسان
میں ہونا چاہئے ، کہ بعض روایات میں یقین کے آثار کو توکل بیان کیا ہے ، یعنی جس
انسان کو یقین ہو واقعا وہ خدا پر توکل کرتا ہے ، وہ خدا کے سامنے سر تسلیم خم ہے
اور خدا کے قضا ء وقدر پر راضی ہے ، اسی طرح اپنے کاموں کو خدا پر چھوڑ دیتا ہے ،
یہ چار خصوصیات ان خصوصیات میں سے ہے کہ اگر کسی کے اندر وہ یقین ہو جو خدا کا
منظور نظر ہے ، تو اس میں یہ آثار پایا جاتے ہیں ۔
یقین کے بارے میں روایات بہت زیادہ
ہیں ، میں صرف یادآوری کے طور پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایسا ہونا چاہئے
کہ واقعا ہر روز ہمارے یقین میں پہلے دن کی نسبت اضافہ ہو ، ایسا نہیں ہے کہ یقین
کی ایک مقدار ہے ، اس مقدار تک جب پہنچ جائے تو اس کے بعد وہ ختم ہو جاتا ہو ،
ایسا نہیں ہے بلکہ یقین کے مختلف مراتب اور درجات ہیں ۔
بحار الانوار میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے
عرض ہوا کہ ہمارے لئے نقل ہوا ہے کہ حضرت عیسی یا حضرت موسی (علیہما السلام) پانی
پر چلتے تھے «يمشي
علي الماء » ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ان کے اندر جو یقین
تھا، خدانے انہیں ایسی قدرت عطا کی تھی،
اگر ان کے یقین میں اور اضافہ ہوتا تو «مشي علي الهواء»، ہوا پر بھی چلنے کی قدرت پیدا کر لیتے ، اس کے بعد فرمایا :انبیاء
میں فرق اور ان کے فضیلت میں اختلاف ان کی اسی یقین کی وجہ سے ہے ، یعنی ہمارے
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یقین تمام انسانوں ، اولیاء ، آئمہ
معصومیناور سارے انبیاء سےزیادہ تھے ، انبیاء میں بھی اس یقین کے مختلف
درجات ہیں ۔
یقین ایسی کوئی چیز نہیں ہے کہ یہ بتا
یا جائے : میں ابھی یہ احساس کرتا ہوں کہ میں یقین کے مرحلہ پر پہنچا ہوں ،کہ اس
کے بعد کوئی اور چیز نہیں ہے ،«ليس فوقه شيء»،کبھی میں خود کو یہ نصیحت کرتا ہوں یا بعض دوستوں کو یہ یاد
دھانی کرتا ہوں کہ ، ہمیں ان مسائل کے بارے میں واقعا سوچنا چاہئے ، یعنی اس بارے
میں فکرمند رہنا چاہئے ، اگر ایک دن گزر گیا اور اس بارے میں ہم ایک قدم آگے نہیں
بڑھ سکے ، تو اپنے آپ سے یہ بتانا چاہئے کہ دنیا ہمارے سروں پر امنڈ آئے تو زیادہ نہیں ہے ۔
انسان کے تمام کاموں میں اور دنیویمشاغل میں علم سے بہتر کوئی چیز پیدا نہیں کر
سکتا ، اور وہ بھی کلی علم ، اور تمام علوم کے درمیانبھی وہ علم جو وحی اور مبداء و معاد سے مربوط
ہو اس سے بہتر کوئی علم پیدا نہیں کر سکتا
، خداوند متعال نے بھی ہمیں یہ توفیق عنایت فرمایا ہے اور ہمیں اس راہ میں قرار
دیا ہے کہ ہمارے علوم مبداء اور معاد سے مربوط ہے ، مثلا ہم ایک قرآن کے "لا
تفعل " کا معنی کرنا چاہتے ہیں ، کتنے اس میں زحمت کرنے کی ضرورت ہے ، آپ جب
" لا تشرب " کا معنی کرنا چاہتا ہے ، تو دیکھنا چاہئے کہ کیسے اس
کا معنی کرے ، ہم اس معنی کو خدا سے نسبت دینا چاہتے ہیں ، یہ بتانا چاہتے ہیں کہ
خدا نے ایسا فرمایا ہے ، یہ کوئی کم چیز نہیں ہے ، بہت ہی اہم مسئلہ ہے ۔
ہم اس راستہ پر چل رہے ہیں تو سب
چیزوں سے قطع نظر ان کمالات کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے ،کبھی ہم یہ کہتے ہیں ہم
درس پڑھتے ہیں تا کہ مجتہد ہو جائے اور مجتہد ہوتے ہیں تا کہ فتوا دے دیں ، بالفرض
ہم نے فتوا بھی دے دیا ، ایک کھرب انسان
ہمارے مقلد بھی ہو گئے ، اس کے بعد کیا ؟؟؟ حقیقت میں یہ انسان کے لئے کمال نہیں
ہے ، کہ یہ بتا یا جائے کہ انسان اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ اس کے مقلد ہے ۔
ایک وقت میں نے اپنے والد گرامی سے
ایک بات بتایا تھا ، انہوں نے اپنے باتوں میں مجھ سے فرمایا : تم یہ نہ سوچو کہ
کہیں پر اگر میرا مقلد بن جائے تو میں خوش ہوتا ہوں ، میں خوش نہیں ہوتا ہوں ، ان
کی ذمہ داری میرے گردن پر آنے کی وجہ سے میں یقیناً پریشان ہوتا ہوں ، وہ لوگ جتنے
اعمال انجام دیں گے ان سب کے بارے میں قیامت کے دن مجھ سے سوال ہوگا اور مجھے ان
سب کا جوابدہ ہونا چاہئے ، حقیقتا بھی ایسا ہی ہے ، یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ انسان
ان سے دل لگائے ۔
جی ہاں ! اگر انسان واقعی طور پر اس
یقین اور نورانیت کو اپنے اندر احساس کرے ، اس کے آثار بھی ایسے ہی ہوں گے ، اور
یقین کے آثار میں سے ایک توکل اور خدا کے سامنے سرتسلیم خم ہونا ہے ، ہم نے اپنے
بزرگوں میں اس تسلیم کو بہت سارے واقعات میں دیکھ لی ہیں ۔
انسان کا علم کسی زمانہ میں اپنے اوج
کو پہنچتا ہے ، اور اس کے بعد سب چیزوں کو اس سے لے لیتا ہے ،«و
من نعمره ننكسه»، انسان جب عمر کے آخر کو پہنچ جائے تو شایدوہ حروف تہجی بھی بھول جائے ،یہ سب ختم ہونے والی چیزیں ہیں ،
لیکن یہ نفسانی ملکات کہ انہیں میں سے ایک بلکہ سب سے بہترین یقین ہے ، ہم کوشش
کریں کہ اسے اپنے اندر ایجاد کرے ، امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :«سل
الله اليقين»، فرماتے ہیں : یقین کو خدا سے طلب کرو :«سل
الله اليقين و خير ما دام في القلب اليقين»،انسان کےدل میں سب
سے بہترین چیز جو باقی رہتی ہے وہ یقین ہے ، خدا ہم سب کو یہ نصیب فرمائے ۔
انسان کو یقین حاصل ہونے کے اسباب
22 December 2024 و 14:50
انسان کو یقین حاصل ہونے کے اسباب
قرآن کریم کی آیات اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں جن مطالب کے بارے میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ان میں سے ایک انسان کو یقین حاصل ہونا اور اس کا یقین کے مقام تک پہنچنا ہے ، اور بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان کا درجہ اسلام سے پہلے ہے اور تقوی کا درجہ ایمان سے پہلے ہے ، اسی طرح یقین کا درجہ تقوی سے پہلے ہے ، جب تک کوئی شخص مومن نہ ہو وہ متقی نہیں ہو سکتا اور جب تک کوئي شخص متقی نہ ہو وہ یقین کے درجہ پر نہیں پہنچ سکتا ، یقین ایک بہت ہی مہم مسئلہ ہے ، کہ بعض روایات میں نقل ہے خدا کی نعمتوں میں سے ایک چیز جو لوگوں کے درمیان بہت کم تقسیم ہوا ہے وہ یقین ہے ،«لم يقسم بين الناس شيءٌ اقل من اليقين»، یعنی بہت ہی کم افراد اس مرحلہ تک پہنچتے ہیں ۔
ابھی ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں علمی لحاظ سے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے تمام کام یقین حاصل کرنے کے لئے ہو ، خداوند متعال کی نسبت وہ یقین جو انسان میں ہونا چاہئے ، کہ بعض روایات میں یقین کے آثار کو توکل بیان کیا ہے ، یعنی جس انسان کو یقین ہو واقعا وہ خدا پر توکل کرتا ہے ، وہ خدا کے سامنے سر تسلیم خم ہے اور خدا کے قضا ء وقدر پر راضی ہے ، اسی طرح اپنے کاموں کو خدا پر چھوڑ دیتا ہے ، یہ چار خصوصیات ان خصوصیات میں سے ہے کہ اگر کسی کے اندر وہ یقین ہو جو خدا کا منظور نظر ہے ، تو اس میں یہ آثار پایا جاتے ہیں ۔
یقین کے بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں ، میں صرف یادآوری کے طور پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں ایسا ہونا چاہئے کہ واقعا ہر روز ہمارے یقین میں پہلے دن کی نسبت اضافہ ہو ، ایسا نہیں ہے کہ یقین کی ایک مقدار ہے ، اس مقدار تک جب پہنچ جائے تو اس کے بعد وہ ختم ہو جاتا ہو ، ایسا نہیں ہے بلکہ یقین کے مختلف مراتب اور درجات ہیں ۔
بحار الانوار میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض ہوا کہ ہمارے لئے نقل ہوا ہے کہ حضرت عیسی یا حضرت موسی (علیہما السلام) پانی پر چلتے تھے «يمشي علي الماء » ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ان کے اندر جو یقین تھا، خدا نے انہیں ایسی قدرت عطا کی تھی، اگر ان کے یقین میں اور اضافہ ہوتا تو «مشي علي الهواء»، ہوا پر بھی چلنے کی قدرت پیدا کر لیتے ، اس کے بعد فرمایا :انبیاء میں فرق اور ان کے فضیلت میں اختلاف ان کی اسی یقین کی وجہ سے ہے ، یعنی ہمارے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یقین تمام انسانوں ، اولیاء ، آئمہ معصومین اور سارے انبیاء سے زیادہ تھے ، انبیاء میں بھی اس یقین کے مختلف درجات ہیں ۔
یقین ایسی کوئی چیز نہیں ہے کہ یہ بتا یا جائے : میں ابھی یہ احساس کرتا ہوں کہ میں یقین کے مرحلہ پر پہنچا ہوں ،کہ اس کے بعد کوئی اور چیز نہیں ہے ،«ليس فوقه شيء»،کبھی میں خود کو یہ نصیحت کرتا ہوں یا بعض دوستوں کو یہ یاد دھانی کرتا ہوں کہ ، ہمیں ان مسائل کے بارے میں واقعا سوچنا چاہئے ، یعنی اس بارے میں فکرمند رہنا چاہئے ، اگر ایک دن گزر گیا اور اس بارے میں ہم ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکے ، تو اپنے آپ سے یہ بتانا چاہئے کہ دنیا ہمارے سروں پر امنڈ آئے تو زیادہ نہیں ہے ۔
انسان کے تمام کاموں میں اور دنیوی مشاغل میں علم سے بہتر کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتا ، اور وہ بھی کلی علم ، اور تمام علوم کے درمیان بھی وہ علم جو وحی اور مبداء و معاد سے مربوط ہو اس سے بہتر کوئی علم پیدا نہیں کر سکتا ، خداوند متعال نے بھی ہمیں یہ توفیق عنایت فرمایا ہے اور ہمیں اس راہ میں قرار دیا ہے کہ ہمارے علوم مبداء اور معاد سے مربوط ہے ، مثلا ہم ایک قرآن کے "لا تفعل " کا معنی کرنا چاہتے ہیں ، کتنے اس میں زحمت کرنے کی ضرورت ہے ، آپ جب " لا تشرب " کا معنی کرنا چاہتا ہے ، تو دیکھنا چاہئے کہ کیسے اس کا معنی کرے ، ہم اس معنی کو خدا سے نسبت دینا چاہتے ہیں ، یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خدا نے ایسا فرمایا ہے ، یہ کوئی کم چیز نہیں ہے ، بہت ہی اہم مسئلہ ہے ۔
ہم اس راستہ پر چل رہے ہیں تو سب چیزوں سے قطع نظر ان کمالات کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے ،کبھی ہم یہ کہتے ہیں ہم درس پڑھتے ہیں تا کہ مجتہد ہو جائے اور مجتہد ہوتے ہیں تا کہ فتوا دے دیں ، بالفرض ہم نے فتوا بھی دے دیا ، ایک کھرب انسان ہمارے مقلد بھی ہو گئے ، اس کے بعد کیا ؟؟؟ حقیقت میں یہ انسان کے لئے کمال نہیں ہے ، کہ یہ بتا یا جائے کہ انسان اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ اس کے مقلد ہے ۔
ایک وقت میں نے اپنے والد گرامی سے ایک بات بتایا تھا ، انہوں نے اپنے باتوں میں مجھ سے فرمایا : تم یہ نہ سوچو کہ کہیں پر اگر میرا مقلد بن جائے تو میں خوش ہوتا ہوں ، میں خوش نہیں ہوتا ہوں ، ان کی ذمہ داری میرے گردن پر آنے کی وجہ سے میں یقیناً پریشان ہوتا ہوں ، وہ لوگ جتنے اعمال انجام دیں گے ان سب کے بارے میں قیامت کے دن مجھ سے سوال ہوگا اور مجھے ان سب کا جوابدہ ہونا چاہئے ، حقیقتا بھی ایسا ہی ہے ، یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ انسان ان سے دل لگائے ۔
جی ہاں ! اگر انسان واقعی طور پر اس یقین اور نورانیت کو اپنے اندر احساس کرے ، اس کے آثار بھی ایسے ہی ہوں گے ، اور یقین کے آثار میں سے ایک توکل اور خدا کے سامنے سرتسلیم خم ہونا ہے ، ہم نے اپنے بزرگوں میں اس تسلیم کو بہت سارے واقعات میں دیکھ لی ہیں ۔
انسان کا علم کسی زمانہ میں اپنے اوج کو پہنچتا ہے ، اور اس کے بعد سب چیزوں کو اس سے لے لیتا ہے ،«و من نعمره ننكسه»، انسان جب عمر کے آخر کو پہنچ جائے تو شایدوہ حروف تہجی بھی بھول جائے ،یہ سب ختم ہونے والی چیزیں ہیں ، لیکن یہ نفسانی ملکات کہ انہیں میں سے ایک بلکہ سب سے بہترین یقین ہے ، ہم کوشش کریں کہ اسے اپنے اندر ایجاد کرے ، امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :«سل الله اليقين»، فرماتے ہیں : یقین کو خدا سے طلب کرو :«سل الله اليقين و خير ما دام في القلب اليقين»،انسان کےدل میں سب سے بہترین چیز جو باقی رہتی ہے وہ یقین ہے ، خدا ہم سب کو یہ نصیب فرمائے ۔
کلمات کلیدی :
۳,۱۱۱ قارئين کی تعداد: