مرحوم کلینی نے کتاب کافی میں باب
"الایمان و الکفر " میں ،باب «فضل الايمان على الاسلام واليقين على الايمان»میں پانچویں حدیث میں ذکر کیا ہے :"على بن ابراهيم،عن
محمد بن عيسى، عن يونس،یہ
روایت معتبر ہے ،قال:سألت اباالحسن الرضا (عليهالسلام ) عن الايمان والاسلام؟ قال: فقال ابوجعفر (عليهالسلام) ، آٹھویں امام
فرماتا ہے ، امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
انما هو الاسلام، و الايمان فوقه بدرجة و التقوى فوق الايمان بدرجة
و اليقين فوق التقوى بدرجة"،جس چیز کے بارے میں انسان سب سے پہلے اعتقاد پیدا کرتا ہے وہ
اسلام ہے ، اور اسلام سے ایک درجہ اوپر ، ایمان ہے ، اور ایمان سے ایک درجہ اوپر ،
تقوی ہے ، اور تقوی سے ایک درجہ اوپر ، یقین کا درجہ ہے ۔
اور اسی روایت میں آگے جا کرفرماتے
ہیں :و لم
يقسم بين الناس شىء اقل من اليقين،خداوند
متعال نے اپنے بندوں کو جتنی نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے سب کم جو دیا گیا ہے وہ یقین ہے ،قال: قلت فائ شىء اليقين ؟یقین
کیا ہے ؟فرمایا: یقین کے چار ارکان ہیں : خدا پر توکل ، خدا کے سامنے سر تسلیم خم
ہونا، خدا کے قضا وقد رپر راضی ہونا، اور سب کاموں کو اسی پر چھوڑنا ۔
ابو بصیر کی روایت میں ہے ، کہ امام
علیہ السلام فرماتے ہیں :فما اوتى الناس اقل من اليقين وانما تمسکتم
بادنى الاسلام فاياکم ان ينفلت من أيديکم،لوگوں نے اسلام کے کمترین درجہ سے تمسک کیا ہوا ہے ، آگاہ
رہیں کہ یہی بھی اس کے ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔
فقہ اورتفسیر میں ایک بحث ہے وہ یہ ہے
کہ اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے ؟ اس روایت یا بعض دوسری آیات میں جو ایمان ذکر
ہے ، کیا وہی اصطلاحی ایمان ہے جس کا امامیہ قائل ہے؟
کہ بولا جائے: ایمان یعنی ولایت پر
اعتقاد رکھنا ، اور اسلام یعنی خدا، توحید اور نبوت پر اعتقاد ، ان کے معتقد کو
مسلمان کہا جاتا ہے اور اس سے ایک درجہ اوپر اگر ولایت پر بھی ایمان ہو تو وہ مومن
ہو جاتا ہے ؟یہ اصطلاح فقہ میں رائج ہے ، مثلا کہتے ہیں : کسی حلال جانور کو ذبح
کرنے والے کے شرائط میں سے ایک اس کا مومن ہونا ہے ،یعنی شیعہ ہو ۔
البتہ ممکن ہے یہ بتایا جائے کہ وہ
ایمان اور اسلام ایک ہی ہے ، جب خدا نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے
فرمایا : "و
ان لم تفعل فما بلغت رسالته"اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کسی نے امامت کو قبول نہیں کیا ، تو
گویا اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا ہی انکار کیا ہے ، اس
وقت ، اسلام ہی نہیں ہے ، اور اس میں کوئی شک و شبہہ بھی نہیں ہے ، لیکن اس معنی
سے قطع نظر ، خود خدا کی نسبت ایک مرتبہ ہے کہ وہ مرتبہ اسلام ہے ، اور اس کا ظاہر
یہی اسلام ہے جو شہادتین پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے ، جب کسی انسان نے شہادتین کو پڑھ
لیا تو وہ مسلمان ہو گیا ، لیکن ممکن ہے اس کے دل میں خدا پر ایمان نہ ہو ، ایمان
ایک قلبی چیز ہے ، یعنی واقعا ًجو چیز زبان سے بولا جاتا ہے وہی چیز انسان کے قلب
میں بھی ہو ۔
اس ایمان کے درجہ سے اوپر کیا ہے ؟
اسلام ظاہری شہادتین سے شروع ہوتا ہے ، اس کے بعد قلب میں ایمان میں تبدیل ہو جاتا
ہے ، اور جب انسان کے اعضاء و جوارح میں ایمان ظاہر ہونے لگتا ہے ،یعنی واجبات کو
انجام دیتا ہے اور محرمات کو ترک کرتاہے ،اس وقتمتقی ہوتا ہے ، اور اس سے بالاتر درجہ یقین ہے ۔
میں اس مطلب کے بارے میں کچھ تاکید
کرتا ہوں کہ توجہ فرمائيں: عاقل انسان وہ ہیں جو اس تلاش میں رہے کہکمیاب ہیرے کہاں ہوتے ہیں تا کہ اسے پیدا کر لے
، انسان جب تنور والے کے پاس جاتا ہے تا کہ روٹی لے لیں ،اس کی فطرت یہ ہے کہ کوئی
اچھی روٹی لے لیں ، جب وہ کپڑا خریدنا چاہتا ہے تو یہ کوشش ہوتی ہے کوئی خاص کپڑا
خریدے ، اسی طرح ہم معنویات میں بھی بیٹھ کر سوچیں ، الحمد للہ ہم سب روایات کو
پڑھ سکتے ہیں ، ہمارے ائمہ طاہرین علیہم السلام نے بہت ہی واضح اور کامل طور پر
تمام مراحل کو ہمارے لئے درجہ بندی کرکے بیان فرمائے ہیں ، ایمان ، اسلام سے ایک
درجہ اوپر ہے ، تقوا ، ایمان سے ایک درجہ بلند ہے ، اس کے بعد فرماتا ہے یقین ان
سب سے بالاتر ہے ، اس کے بعد فرماتا ہے :آگاہ ہو جاؤ! خداوند متعال نے انسان کے
لئے جتنی نعمتیں عطا کی ہیں ان سب میں سے کوئی بھی نعمت اتنی کم نہیں دی گئي ہے جتنی یقین کم اور محدود دی ہے ، ہمیں چاہئے
اسے حاصل کرے ؛ اور اس یقین کی چار نشانیاں ہیں :
1۔خدا پر توکل؛ انسان اپنے تمام کاموں
میں خدا کو اپنا وکیل قرار دے ، حتی کہ
ایک علمی گفتگو میں بھی خدا کو اپنا وکیل قرار دیں ، کہ اسے اس ہدف تک پہنچے میں مدد کرے جس
میں خدا کی رضایت ہو ۔
دنیوی امور میں تو بہت ہی سزاوار ہے
کہ انسان ان کاموں میں خدا کو اپنا وکیل قرار ديں ، انسان کے لئے جو واقعات پیش
آتے ہیں، مال و دولت ہاتھ سے چلا جاتا ہے
، کوئی عزیز وفات پاتا ہے ، ان مصائب اور مشکلات کے اوقات میں انسان کو یہ دیکھنا
چاہئے کہ آیا خداوند متعال اس کی قلب کو تسلی دیتا ہے یا نہیں ؟ یہ خدا پر توکل کا
مقام ہے ، ایک دن معاشرہ میں اس کی عزت
ہوتی ہے اور ایک دن وہ اسی معاشرہ میں ذلیل ہوتا ہے ، "یوم لک و یوم علیک"
دونوں حالات میں آیا خدا پر توکل کرتا ہے
یا نہیں ؟ خدا پر توکل کرنا بہت ہی مہم ہے ، انسان کو چاہئے کہ ہر حالت میں خدا کو
اپنا وکیل قرار دے دیں ۔
2۔ توکل سے بالاتر مقام ، اس کے سامنے
تسلیم ہونا ہے ، توجہ کریں ، وہ اسلام جو ابتداء میں ہے وہ کہاں ہے اور یہ تسلیم
جو یقین کا دوسرا درجہ ہے وہ کہاں ؟ ! خدا
کے سامنے تسلیم ہونا یعنی مشکلات میں شکوہ و شکایت نہ کرنا ، تسلیم یہ ہے کہ انسان مشکلات کے وقت شکوہ و شکایت کی زبان نہ
کھولے ، بلکہ جو بھی پیش آئے اسی کو قبول کرے ۔
یقین کی نشانياں
04 October 2024 و 15:03
یقین کی نشانياں
مرحوم کلینی نے کتاب کافی میں باب "الایمان و الکفر " میں ،باب «فضل الايمان على الاسلام واليقين على الايمان»میں پانچویں حدیث میں ذکر کیا ہے :"على بن ابراهيم،عن محمد بن عيسى، عن يونس،یہ روایت معتبر ہے ،قال:سألت اباالحسن الرضا (عليه السلام ) عن الايمان والاسلام؟ قال: فقال ابوجعفر (عليه السلام) ، آٹھویں امام فرماتا ہے ، امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: انما هو الاسلام، و الايمان فوقه بدرجة و التقوى فوق الايمان بدرجة و اليقين فوق التقوى بدرجة"،جس چیز کے بارے میں انسان سب سے پہلے اعتقاد پیدا کرتا ہے وہ اسلام ہے ، اور اسلام سے ایک درجہ اوپر ، ایمان ہے ، اور ایمان سے ایک درجہ اوپر ، تقوی ہے ، اور تقوی سے ایک درجہ اوپر ، یقین کا درجہ ہے ۔
اور اسی روایت میں آگے جا کرفرماتے ہیں :و لم يقسم بين الناس شىء اقل من اليقين،خداوند متعال نے اپنے بندوں کو جتنی نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے سب کم جو دیا گیا ہے وہ یقین ہے ،قال: قلت فائ شىء اليقين ؟یقین کیا ہے ؟فرمایا: یقین کے چار ارکان ہیں : خدا پر توکل ، خدا کے سامنے سر تسلیم خم ہونا، خدا کے قضا وقد رپر راضی ہونا، اور سب کاموں کو اسی پر چھوڑنا ۔
ابو بصیر کی روایت میں ہے ، کہ امام علیہ السلام فرماتے ہیں : فما اوتى الناس اقل من اليقين وانما تمسکتم بادنى الاسلام فاياکم ان ينفلت من أيديکم،لوگوں نے اسلام کے کمترین درجہ سے تمسک کیا ہوا ہے ، آگاہ رہیں کہ یہی بھی اس کے ہاتھ سے نکل نہ جائے ۔
فقہ اورتفسیر میں ایک بحث ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اور ایمان میں کیا فرق ہے ؟ اس روایت یا بعض دوسری آیات میں جو ایمان ذکر ہے ، کیا وہی اصطلاحی ایمان ہے جس کا امامیہ قائل ہے؟
کہ بولا جائے: ایمان یعنی ولایت پر اعتقاد رکھنا ، اور اسلام یعنی خدا، توحید اور نبوت پر اعتقاد ، ان کے معتقد کو مسلمان کہا جاتا ہے اور اس سے ایک درجہ اوپر اگر ولایت پر بھی ایمان ہو تو وہ مومن ہو جاتا ہے ؟یہ اصطلاح فقہ میں رائج ہے ، مثلا کہتے ہیں : کسی حلال جانور کو ذبح کرنے والے کے شرائط میں سے ایک اس کا مومن ہونا ہے ،یعنی شیعہ ہو ۔
البتہ ممکن ہے یہ بتایا جائے کہ وہ ایمان اور اسلام ایک ہی ہے ، جب خدا نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا : "و ان لم تفعل فما بلغت رسالته"اس کا معنی یہ ہے کہ اگر کسی نے امامت کو قبول نہیں کیا ، تو گویا اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا ہی انکار کیا ہے ، اس وقت ، اسلام ہی نہیں ہے ، اور اس میں کوئی شک و شبہہ بھی نہیں ہے ، لیکن اس معنی سے قطع نظر ، خود خدا کی نسبت ایک مرتبہ ہے کہ وہ مرتبہ اسلام ہے ، اور اس کا ظاہر یہی اسلام ہے جو شہادتین پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے ، جب کسی انسان نے شہادتین کو پڑھ لیا تو وہ مسلمان ہو گیا ، لیکن ممکن ہے اس کے دل میں خدا پر ایمان نہ ہو ، ایمان ایک قلبی چیز ہے ، یعنی واقعا ًجو چیز زبان سے بولا جاتا ہے وہی چیز انسان کے قلب میں بھی ہو ۔
اس ایمان کے درجہ سے اوپر کیا ہے ؟ اسلام ظاہری شہادتین سے شروع ہوتا ہے ، اس کے بعد قلب میں ایمان میں تبدیل ہو جاتا ہے ، اور جب انسان کے اعضاء و جوارح میں ایمان ظاہر ہونے لگتا ہے ،یعنی واجبات کو انجام دیتا ہے اور محرمات کو ترک کرتاہے ،اس وقت متقی ہوتا ہے ، اور اس سے بالاتر درجہ یقین ہے ۔
میں اس مطلب کے بارے میں کچھ تاکید کرتا ہوں کہ توجہ فرمائيں: عاقل انسان وہ ہیں جو اس تلاش میں رہے کہ کمیاب ہیرے کہاں ہوتے ہیں تا کہ اسے پیدا کر لے ، انسان جب تنور والے کے پاس جاتا ہے تا کہ روٹی لے لیں ،اس کی فطرت یہ ہے کہ کوئی اچھی روٹی لے لیں ، جب وہ کپڑا خریدنا چاہتا ہے تو یہ کوشش ہوتی ہے کوئی خاص کپڑا خریدے ، اسی طرح ہم معنویات میں بھی بیٹھ کر سوچیں ، الحمد للہ ہم سب روایات کو پڑھ سکتے ہیں ، ہمارے ائمہ طاہرین علیہم السلام نے بہت ہی واضح اور کامل طور پر تمام مراحل کو ہمارے لئے درجہ بندی کرکے بیان فرمائے ہیں ، ایمان ، اسلام سے ایک درجہ اوپر ہے ، تقوا ، ایمان سے ایک درجہ بلند ہے ، اس کے بعد فرماتا ہے یقین ان سب سے بالاتر ہے ، اس کے بعد فرماتا ہے :آگاہ ہو جاؤ! خداوند متعال نے انسان کے لئے جتنی نعمتیں عطا کی ہیں ان سب میں سے کوئی بھی نعمت اتنی کم نہیں دی گئي ہے جتنی یقین کم اور محدود دی ہے ، ہمیں چاہئے اسے حاصل کرے ؛ اور اس یقین کی چار نشانیاں ہیں :
1۔خدا پر توکل؛ انسان اپنے تمام کاموں میں خدا کو اپنا وکیل قرار دے ، حتی کہ ایک علمی گفتگو میں بھی خدا کو اپنا وکیل قرار دیں ، کہ اسے اس ہدف تک پہنچے میں مدد کرے جس میں خدا کی رضایت ہو ۔
دنیوی امور میں تو بہت ہی سزاوار ہے کہ انسان ان کاموں میں خدا کو اپنا وکیل قرار ديں ، انسان کے لئے جو واقعات پیش آتے ہیں ، مال و دولت ہاتھ سے چلا جاتا ہے ، کوئی عزیز وفات پاتا ہے ، ان مصائب اور مشکلات کے اوقات میں انسان کو یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا خداوند متعال اس کی قلب کو تسلی دیتا ہے یا نہیں ؟ یہ خدا پر توکل کا مقام ہے ، ایک دن معاشرہ میں اس کی عزت ہوتی ہے اور ایک دن وہ اسی معاشرہ میں ذلیل ہوتا ہے ، "یوم لک و یوم علیک" دونوں حالات میں آیا خدا پر توکل کرتا ہے یا نہیں ؟ خدا پر توکل کرنا بہت ہی مہم ہے ، انسان کو چاہئے کہ ہر حالت میں خدا کو اپنا وکیل قرار دے دیں ۔
2۔ توکل سے بالاتر مقام ، اس کے سامنے تسلیم ہونا ہے ، توجہ کریں ، وہ اسلام جو ابتداء میں ہے وہ کہاں ہے اور یہ تسلیم جو یقین کا دوسرا درجہ ہے وہ کہاں ؟ ! خدا کے سامنے تسلیم ہونا یعنی مشکلات میں شکوہ و شکایت نہ کرنا ، تسلیم یہ ہے کہ انسان مشکلات کے وقت شکوہ و شکایت کی زبان نہ کھولے ، بلکہ جو بھی پیش آئے اسی کو قبول کرے ۔
3۔ خدا کے قضاء وقدر پر راضی ہونا ۔
4۔ تمام کاموں کو خدا پر چھوڑ دینا
ماخذ : اصول کافی، ج 2، ص 51
کلمات کلیدی :
۲,۳۰۳ قارئين کی تعداد: