زندگي نامہ حضرت امام حسن عليہ السلام
08 October 2024
04:23
۵,۴۷۴
چکیده :
زندگي نامہ حضرت امام حسن عليہ السلام
آپ کی ولادت
آپ ۱۵/ رمضان ۳ ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں پیداہوئے[1] ۔ ولادت سے قبل ام الفضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول اکرم(ص) کے جسم مبارک کا ایک ٹکڑا میرے گھر میں آ پہنچا ہے ۔ خواب رسول کریم سے بیان کیا آپ نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری لخت جگر فاطمہ کے بطن سے عنقریب ایک بچہ پیداہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔ مورخین کا کہنا ہے کہ رسول کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی۔ آپ کی ولادت نے رسول کے دامن سے مقطوع النسل ہونے کا دھبہ صاف کردیا اور دنیا کے سامنے سوره کوثرکی ایک عملی اور بنیادی تفسیر پیش کردی۔
آپ کانام نامی
ولادت کے بعداسم گرامی حمزہ تجویز ہو رہاتھا لیکن سرورکائنات نے بحکم خدا، موسی کے وزیرہارون کے فرزندوں کے شبر و شبیر نام پرآپ کانام حسن اور بعد میں آپ کے بھائی کانام حسین رکھا، بحارالانوار میں ہے کہ امام حسن کی پیدائش کے بعدجبرئیل امین نے سرورکائنات کی خدمت میں ایک سفید ریشمی رومال پیش کیا جس پرحسن لکھا ہوا تھا ماہر علم النسب علامہ ابوالحسین کا کہنا ہے کہ خداوندعالم نے فاطمہ کے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔ کتاب اعلام الوری کے مطابق یہ نام بھی لوح محفوظ میں پہلے سے لکھا ہوا تھا۔
آپ کا عقیقہ
آپ کی ولادت کے ساتویں دن سرکارکائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی [2]۔
علامہ کمال الدین کابیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیاتھا[3] کافی کلینی میں ہے کہ سرورکائنات نے عقیقہ کے وقت جو دعا پڑھی تھی اس میں یہ عبارت بھی تھی ”اللہم عظمہابعظمہ، لحمہا بلحمہ دمہابدمہ وشعرہابشعرہ اللہم اجعلہا وقاء لمحمد والہ[4]“ خدایا اس کی ہڈی مولودکی ہڈی کے عوض، اس کاگوشت اس کے گوشت کے عوض، اس کاخون اس کے خون کے عوض، اس کابال اس کے بال کے عوض قرار دے اور اسے محمد و آل محمد کے لیے ہر بلا سے نجات کا ذریعہ بنا دے ۔
امام حسن پیغمبر اسلام کی نظر میں
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امام حسن پیغمبراسلام کے نواسے تھے لیکن قرآن نے انہیں فرزندرسول کادرجہ دیا ہے اوراپنے دامن میں جابجا آپ کے تذکرہ کو جگہ دی ہے خود سرورکائنات نے بے شمار احادیث آپ کے متعلق ارشادفرمائی ہیں:
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ میں حسنین کودوست رکھتا ہوں اور جو انہیں دوست رکھے اسے بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں نے رسول کریم کو اس حال میں دیکھاہے کہ وہ ایک کندھے پرامام حسن کو اور ایک کندھے پر امام حسین کو بٹھائے ہوئے لیے جارہے ہیں اورباری باری دونوں کا منہ چومتے جاتے ہیں ایک صحابی کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نماز پڑھ رہے تھے اور حسنین آپ کی پشت پرسوار ہو گئے کسی نے روکناچاہا تو حضرت نے اشارہ سے منع کردیا[5]۔
ایک صحابی کابیان ہے کہ میں اس دن سے امام حسن کوبہت زیادہ دوست رکھنے لگا ہوں جس دن میں نے رسول کی آغوش میں بیٹھ کر انہیں داڈھی سے کھیلتے دیکھا[6]۔
ایک دن سرور کائنات امام حسن کو کاندھے پر سوار کئے ہوئے کہیں لیے جارہے تھے ایک صحابی نے کہا کہ اے صاحبزادے تمہاری سواری کس قدر اچھی ہے یہ سن کرآنحضرت نے فرمایا یہ کہو کہ کس قدر اچھا سوار ہے [7]۔
امام بخاری اور امام مسلم لکھتے ہیں کہ ایک دن حضرت رسول خدا امام حسن کوکندھے پربٹھائے ہوئے فرما رہے تھے خدایا میں اسے دوست رکھتا ہوں توبھی اس سے محبت کر ۔
حافظ ابونعیم ابوبکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت نمازجماعت پڑھارہے تھے کہ ناگاہ امام حسن آ گئے اوروہ دوڑ کر پشت رسول پرسوار ہو گئے یہ دیکھ کررسول کریم نے نہایت نرمی کے ساتھ سراٹھایا،اختتام نمازپرآپ سے اس کاتذکرہ کیا گیا تو فرمایا یہ میراگل امید ہے“۔” ابنی ہذا سید“ یہ میرابیٹا سید ہے .
امام نسائی عبداللہ ابن شداد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن نمازعشاء پڑھانے کے لیے آنحضرت تشریف لائے آپ کی آغوش میں امام حسن تھے آنحضرت نماز میں مشغول ہوگئے ، جب سجدہ میں گئے تو اتنا طول دیا کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید آپ پر وحی نازل ہونے لگی ہے اختتام نماز پر آپ سے اس کا ذکر کیا گیا توفرمایا کہ میرافرزندمیری پشت پر آ گیا تھا میں نے یہ نہ چاہاکہ اسے اس وقت تک پشت سے اتاروں ،جب تک کہ وہ خود نہ اترجائے ، اس لیے سجدہ کوطول دیناپڑا۔
حکیم ترمذی ،نسائی اور ابوداؤد نے لکھا ہے کہ آنحضرت ایک دن محو خطبہ تھے کہ حسنین آ گئے اورحسن کے پاؤں دامن عبامیں اس طرح الجھے کہ زمین پرگرپڑے، یہ دیکھ کر آنحضرت نے خطبہ ترک کردیا اور منبر سے اتر کر انہیں آغوش میں اٹھا لیا اور منبر پرتشریف لے جاکرخطبہ شروع فرمایا [8]۔
امام حسن کی سرداری جنت
آل محمدکی سرداری مسلمات سے ہے علماء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ سرورکائنات نے ارشاد فرمایا ہے ”الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة وابوہماخیرمنہما“ حسن اورحسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والدبزرگوار یعنی علی بن ابی طالب ان دونوں سے بہترہیں۔
جناب حذیفہ یمانی کابیان ہے کہ میں نے آنحضرت کو ایک دن بہت زیادہ مسرور پاکرعرض کی مولاآج افراط شادمانی کی کیا وجہ ہے ارشادفرمایا کہ مجھے آج جبرئیل نے یہ بشارت دی ہے کہ میرے دونوں فرزندحسن وحسین جوانان بہشت کے سردارہیں اور ان کے والدعلی ابن ابی طالب ان سے بھی بہتر ہیں[9] اس حدیث سے اس کی بھی وضاحت ہو گئی کہ حضرت علی صرف سیدہی نہ تھے بلکہ فرزندان سیادت کے باپ تھے۔
جذبہ اسلام کی فراوانی
مؤرخین کابیان ہے کہ ایک دن ابوسفیان حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہو کرکہنے لگا کہ آپ آنحضرت سے سفارش کرکے ایک ایسا معاہدہ لکھوا دیجئے جس کی رو سے میں اپنے مقصدمیں کامیاب ہو سکوں آپ نے فرمایا کہ آنحضرت جو کچھ کہہ چکے ہیں اب اس میں سرموفرق نہ ہوگا اس نے امام حسن سے سفارش کی خواہش کی ،آپ کی عمراگرچہ اس وقت صرف ۱۴ ماہ کی تھی لیکن آپ نے اس وقت ایسی جرائت کاثبوت دیاجس کاتذکرہ زبان تاریخ پر ہے ۔ لکھاہے کہ ابوسفیان کی طلب سفارش پر آپ نے دوڑکر اس کی داڑھی پکڑ لی اورناک مروڑ کر کہا کلمہ شہادت زبان پرجاری کرو،تمہارے لیے سب کچھ ہے یہ دیکھ کرامیرالمومنین مسرور ہو گئے [10]۔
امام حسن اور ترجمانی وحی
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ امام حسن کا یہ وطیرہ تھا کہ آپ انتہائی کم سنی کے عالم میں اپنے نانا پرنازل ہونے والی وحی من وعن اپنی والدہ ماجدہ کو سنا دیا کرتے تھے ایک دن حضرت علی نے فرمایا کہ اے بنت رسول میراجی چاہتا ہے کہ میں حسن کو ترجمانی وحی کرتے ہوئے خود دیکھوں، اور سنوں، سیدہ نے امام حسن کے پہنچنے کاوقت بتادیا ۔ ایک دن امیرالمومنین حسن سے پہلے داخل خانہ ہوگئے اورگوشئہ خانہ میں چھپ کربیٹھ گئے۔ امام حسن حسب معمول تشریف لائے اورماں کی آغوش میں بیٹھ کر وحی سنانا شروع کردی لیکن تھوڑی دیرکے بعد عرض کی ”یااماہ قدتلجلج لسانی وکل بیانی لعل سیدی یرانی“مادرگرامی آج زبان وحی ترجمان میں لکنت اوربیان مقصدمیں رکاوٹ ہورہی ہے مجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ جیسے میرے بزرگ محترم مجھے دیکھ رہے ہیں یہ سن کرحضرت امیرالمومنین نے دوڑ کر امام حسن کو آغوش میں اٹھا لیا اور بوسہ دینے لگے[11]۔
امام حسن کابچپن اور مسائل علمیہ
یہ مسلمات سے ہے کہ حضرت آئمہ معصومین علیہم السلام کوعلم لدنی ہوا کرتاتھا وہ دنیا میں تحصیل علم کے محتاج نہیں ہوا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ بچپن میں ہی ایسے مسائل علمیہ سے واقف ہوتے تھے جن سے دنیا کے عام علماء اپنی زندگی کے آخری عمرتک بے بہرہ رہتے تھے امام حسن جوخانوادہ رسالت کی ایک فرد اکمل اورسلسلہ عصمت کی ایک مستحکم کڑی تھے، کے بچپن کے حالات و واقعات دیکھے جائیں تومیرے دعوی کاثبوت مل سکے گا:
۱ ۔ مناقب ابن شہرآشوب میں بحوالہ شرح اخبارقاضی نعمان مرقوم ہے کہ ایک سائل حضرت ابوبکرکی خدمت میں آیااوراس نے سوال کیا کہ میں نے حالت احرام میں شترمرغ کے چندانڈے بھون کرکھالیے ہیں بتائیے کہ مجھ پرکفارہ واجب الاداہوا۔ سوال کاجواب چونکہ ان کے بس کا نہ تھا اس لیے عرق ندامت پیشانی خلافت پر آ گیا ارشاد ہوا کہ اسے عبدالرحمن بن عوف کے پاس لے جاؤ، جوان سے سوال دھرایا تو وہ بھی خاموش ہو گئے اور کہا کہ اس کاحل تو امیرالمومنین کرسکتے ہیں_
سائل حضرت علی کی خدمت میں لایا گیا آپ نے سائل سے فرمایا کہ میردو چھوٹے بچے جوسامنے نظرآرہے ہیں ان سے دریافت کر لے سائل امام حسن کی طرف متوجہ ہوا اورمسئلہ دہراہا امام حسن نے جواب دیا کہ تو نے جتنے انڈے کھائے ہیں اتنی ہی عمدہ اونٹیاں لے کرانہیں حاملہ کرا اور ان سے جو بچے پیداہوں انہیں راہ خدامیں ہدیہ خانہ کعبہ کردے ۔ امیرالمومنین نے ہنس کرفرمایا کہ بیٹا جواب تو بالکل صحیح ہے لیکن یہ بتاؤ کہ کیاایسا نہیں ہے کہ کچھ حمل ضائع ہوجاتے ہیں اورکچھ بچے مرجاتے ہیں عرض کی باباجان بالکل درست ہے مگر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ کچھ انڈے بھی خراب اور گندے نکل جاتے ہیں یہ سن کرسائل پکار اٹھا کہ ایک مرتبہ اپنے عہد میں سلیمان بن داؤد نے بھی یہی جواب دیاتھا جیساکہ میں نے اپنی کتابوں میں دیکھا ہے۔
۲ ۔ ایک روز امیرالمومنین مقام رحبہ میں تشریف فرماتے تھے اور حسنین بھی وہاں موجود تھے ناگاہ ایک شخص آ کر کہنے لگا کہ میں آپ کی رعایا اور اہل بلد(شہری) ہوں حضرت نے فرمایا کہ تو جھوٹ کہتا ہے تونہ میری رعایا میں سے ہے اورنہ میرے شہرکاشہری ہے بلکہ تو بادشاہ روم کافرستادہ ہے تجھے اس نے معاویہ کے پاس چند مسائل دریافت کرنے کے لیے بھیجاتھا اوراس نے میرے پاس بھیجدیاہے اس نے کہایاحضرت آپ کاارشاد باکل درست ہے مجھے معاویہ نے پوشیدہ طورپرآپ کے پاس بھیجاہے اوراس کاحال خداوند عالم کے سواکسی کو معلوم نہیں ہے مگرآپ بہ علم امامت سمجھ گئے، آپ نے فرمایاکہ اچھا اب ان مسائل کے جوابات ان دوبچوں میں سے کسی ایک سے پوچھ لے وہ امام حسن کی طرف متوجہ ہواچاہتاتھا کہ سوال کرے امام حسن نے فرمایا: ایے شخص تویہ دریافت کرنے آیاہے کہ ۱ ۔ حق و باطل میں کتنا فاصلہ ہے ۲ ۔ زمین و آسمان تک کتنی مسافت ہے ۳ ۔ مشرق و مغرب میں کتنی دوری ہے ۔ ۴ ۔ قوس قزح کیاچیزہے ۵ ۔ مخنث کسے کہتے ہیں ۶ ۔ وہ دس چیزیں کیاہیں جن میں سے ہرایک کوخداوندعالم نے دوسرے سے سخت اورفائق پیدا کیاہے۔
سن، حق و باطل میں چار انگشت کا فرق و فاصلہ ہے اکثر و بیشتر جوکچھ آنکھ سے دیکھاحق ہے اورجوکان سے سنا باطل ہے(آنکھ سے دیکھاہوایقینی ۔ کان سے سناہوامحتاج تحقیق )۔
زمین اور آسمان کے درمیان اتنی مسافت ہے کہ مظلوم کی آہ اورآنکھ کی روشنی پہنچ جاتی ہے
مشرق و مغرب میں اتنافاصلہ ہے کہ سورج ایک دن میں طے کرلیتاہے ۔
اور قوس و قزح اصل میں قوس خداہے اس لئے کہ قزح شیطان کانام ہے ۔ یہ فراوانی رزق اوراہل زمین کے لیے غرق سے امان کی علامت ہے اس لئے اگریہ خشکی میں نمودارہوتی ہے توبارش کے حالات میں سے سمجھی جاتی ہے اوربارش میں نکلتی ہے تو ختم باران کی علامت میں سے شمارکی جاتی ہے ۔
مخنث وہ ہے جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہوکہ مردہے یاعورت اوراس کے جسم میں دونوں کے اعضاء ہوں اس کاحکم یہ ہے کہ تاحدبلوغ انتظارکریں اگرمحتلم ہوتو مرد اورحائض ہواورپستان ابھرائیں توعورت ۔
اگراس سے مسئلہ حل نہ ہوتو دیکھناچاہئے کہ اس کے پیشاب کی دھاریں سیدھی جاتی ہیں یانہیں اگرسیدھی جاتی ہیں تومرد، ورنہ عورت ۔
اوروہ دس چیزیں جن میں سے ایک دوسرے پرغالب وقوی ہے وہ یہ ہیں کہ خدانے سب سے زیاده سخت پتھرکوپیداکیاہے مگراس سے زیادہ سخت لوہا ہے جوپتھرکوبھی کاٹ دیتاہے اوراس سے زائدسخت آگ ہے جولوہے کوپگھلادیتی ہے اورآگ سے زیادہ سخت اور قوی پانی ہے جوآگ کوبجھادیتاہے اوراس سے زیاده سخت وقوی ابرہے جوپانی کواپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتاہے اوراس سے زیاده قوی ہواہے جوابرکواڑائے پھرتی ہے اورہواسے زیاده سخت اورقوی فرشتہ ہے جس کی ہوامحکوم ہے اوراس سے زیاده سخت وقوی ملک الموت ہے جوفرشتہ بادکی بھی روح قبض کرلیں گے اورموت سے زائد سخت وقوی حکم خداہے جوموت کوبھی ٹال دیتاہے۔یہ جوابات سن کرسائل پھڑک اٹھا۔
۳ ۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھاکہ ایک شخص کے ہاتھ میں خون آلودچھری ہے اوراسی جگہ ایک شخص ذبح کیاہوا پڑاہے جب اس سے پوچھاگیاکہ تونے اسے قتل کیاہے،تواس نے کہا ہاں ،لوگ اسے جسدمقتول سمیت جناب امیرالمومنین کی خدمت میں لے چلے اتنے میں ایک اور شخص دوڑتاہواآیا،اورکہنے لگا کہ اسے چھوڑدو اس مقتول کاقاتل میں ہوں ۔ ان لوگوں نے اسے بھی ساتھ لے لیااورحضرت کے پاس لے گئے ساراقصہ بیان کیا آپ نے پہلے شخص سے پوچھاکہ جب تواس کاقاتل نہیں تھاتوکیاوجہ ہے کہ اپنے کواس کاقاتل بیان کیا،اس نے کہایامولا میں قصاب ہوں گوسفندذبح کررہاتھا کہ مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی ،اس طرح خون آلود چھری میں لیے ہوئے اس خرابہ میں چلاگیا وہاں دیکھاکہ یہ مقتول تازہ ذبح کیاہواپڑاہے اتنے میں لوگ آگئے اورمجھے پکڑلیا میں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ اس وقت جبکہ قتل کے سارے قرائن موجودہیں میرے انکارکوکون باور کرے گا میں نے اقرارکرلیا ۔
پھرآپ نے دوسرے سے پوچھاکہ تواس کاقاتل ہے اس نے کہا جی ہاں، میں ہی اسے قتل کرکے چلاگیاتھا جب دیکھاکہ ایک قصاب کی ناحق جان چلی جائے گی توحاضرہوگیا آپ نے فرمایامیرے فرزندحسن کوبلاؤ وہی اس مقدمہ کافیصلہ سنائیں گے امام حسن آئے اورسارا قصہ سنا، فرمایادونوں کوچھوڑدو یہ قصاب بے قصورہے اوریہ شخص اگرچہ قاتل ہے مگراس نے ایک نفس کوقتل کیاتودوسرے نفس (قصاب) کوبچاکر اسے حیات دی اورا سکی جان بچالی اورحکم قرآن ہے کہ ”من احیاہافکانما احیاالناس جمیعا“ یعنی جس نے ایک نفس کی جان بچائی اس نے گویاتمام لوگوں کی جان بچائی لہذا اس مقتول کاخون بہابیت المال سے دیاجائے۔
۴ ۔ علی ابن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیرمیں لکھاہے کہ شاہ روم نے جب حضرت علی کے مقابلہ میں معاویہ کی چیزہ دستیوں سے آگاہی حاصل کی تودونوں کولکھا کہ میرے پاس ایک ایک نمائندہ بھیج دیں حضرت علی کی طرف سے امام حسن اورمعاویہ کی طرف سے یزید کی روانگی عمل میں ائی یزیدنے وہاں پہنچ کر شاہ روم کی دست بوسی کی اورامام حسن نے جاتے ہی کہاکہ خداکاشکرہے میں یہودی ،نصرانی، مجوسی وغیرہ نہیں ہوں بلکہ خالص مسلمان ہوں شاہ روم نے چندتصاویر نکالیں یزیدنے کہامیں ان سے ایک کوبھی نہیں پہنچانتا اورنہ بتاسکتاہوں کہ یہ کن حضرات کی شکلیں ہیں امام حسن نے حضرت آدم، نوح، ابراہیم، اسماعیل، اور شعیب ویحی کی تصویریں دیکھ کرپہچان لیں اورایک تصویردیکھ کرآپ رونے لگے بادشاہ نے پوچھایہ کس کی تصویرہے فرمایا میرے جد نامدار کی،
اس کے بعد بادشاہ نے سوال کیا کہ وہ کون سے جاندارہیں جواپنی ماں کے پیٹ سے پیدانہیں ہوئے آپ نے فرمایااے بادشاہ وہ سات جاندارہیں :
۱ ۔ ۲ ۔آدم و حو ۳ ۔ دنبہ ابراہیم ۴ ناقہ صالح ۵ ۔ ابلیس ۶ ۔ موسوی اژدھ ۷ ۔ وہ کوا جس نے قابیل کی دفن ہابیل کی طرف رہبری کی ۔
بادشاہ نے یہ تبحرعلمی دیکھ کرآپ کی بڑی عزت کی اورتحائف کے ساتھ واپس کیا۔
آپ کی سخاوت
مورخین لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام حسن علیہ السلام سے کچھ مانگادست سوال دراز ہوناتھاکہ آپ نے پچاس ہزار درہم اور پانچ سو اشرفیاں دے دیں اور فرمایاکہ مزدور لاکراسے اٹھوالے جا اس کے بعدآپ نے مزدورکی مزدوری میں اپناچغابخش دیا[12]۔
ایک مرتبہ آپ نے ایک سائل کوخداسے دعاکرتے دیکھا خدایا مجھ دس ہزار درہم عطا فرما آپ نے گھرپہنچ کر مطلوبہ رقم بھجوادی [13]۔
آپ سے کسی نے پوچھاکہ آپ توفاقہ کرتے ہیں لیکن سائل کومحروم واپس نہیں فرماتے ارشادفرمایاکہ میں خداسے مانگنے والاہوں اس نے مجھے دینے کی عادت ڈال رکھی ہے اورمیں نے لوگوں کودینے کی عادت ڈالی رکھی ہے میں ڈرتاہوں کہ اگراپنی عادت بدل دوں، توکہیں خدابھی نہ اپنی عادت بدل دے اورمجھے بھی محروم کردے [14] ۔
امام حسن حلم اور اخلاق کے میدان میں
علامہ ابن شہرآشوب تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن علیہ السلام گھوڑے پرسوارکہیں تشریف لیے جارہے تھے راستہ میں معاویہ کے طرف داروں کاایک شامی سامنے آپڑا اس نے حضرت کوگالیاں دینی شروع کردیں آپ نے اس کا مطلقا کوئی جواب نہ دیا جب وہ اپنی جیسی کرچکاتوآپ اس کے قریب گئے اوراس کوسلام کرکے فرمایاکہ بھائی شایدتومسافرہے، سن اگرتجھے سواری کی ضرورت ہوتومیں تجھے سوری دیدوں، اگرتوبھوکاہے توکھاناکھلادوں، اگرتجھے کپڑے درکارہوں توکپڑے دیدوں، اگرتجھے رہنے کوجگہ چاہئے تو مکان کاانتظام کردوں، اگر دولت کی ضرورت ہے توتجھے اتنا دیدوں کہ توخوش حال ہوجائے یہ سن کرشامی بے انتہا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ آپ زمین خداپراس کے خلیفہ ہیں مولامیں توآپ کواورآپ کے باپ دادا کوسخت نفرت اورحقارت کی نظرسے دیکھتاتھا لیکن آج آپ کے اخلاق نے مجھے آپ کاگردیدہ بنادیا اب میں آپ کے قدموں سے دورنہ جاؤں گا اورتاحیات آپ کی خدمت میں رہوں گا [15]۔
عہد امیرالمومنین میں امام حسن کی اسلامی خدمات
تواریخ میں ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کوپچیس برس کی خانہ نشینی کے بعد مسلمانوں نے خلیفہ ظاہری کی حیثیت سے تسلیم کیااوراس کے بعدجمل، صفین، نہروان کی لڑائیاں ہوئیں توہرایک جہادمیں امام حسن علیہ السلام اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ساتھ ہی نہیں رہے بلکہ بعض موقعوں پرجنگ میں آپ نے کارہائے نمایاں بھی کئے۔ سیرالصحابہ اور روضة الصفا میں ہے کہ جنگ صفین کے سلسلہ میں جب ابوموسی اشعری کی ریشہ دوانیاں عریاں ہوچکیں توامیرالمومنین نے امام حسن اور عمار یاسر کو کوفہ روانہ فرمایا آپ نے جامع کوفہ میں ابوموسی کے افسون کواپنی تقریرکرتریاق سے بے اثربنادیا اورلوگوں کوحضرت علی کے ساتھ جنگ کے لیے جانے پرآمادہ کردیا۔ اخبارالطوال کی روایت کی بناپرنوہزارچھ سوپچاس افراد کا لشکر تیارہوگیا۔
مورخین کابیان ہے کہ جنگ جمل کے بعدجب عائشہ مدینہ جانے پرآمادہ نہ ہوئیں تو حضرت علی نے امام حسن کو بھیجاکہ انھیں سمجھاکر مدینہ روانہ کریں چنانچہ وہ اس سعی میں ممدوح کامیاب ہوگئے بعض تاریخوں میں ہے کہ امام حسن جنگ جمل و صفین میں علمدار لشکرتھے اورآپ نے معاہدہ تحکیم پردستخط بھی فرمائے تھے اورجنگ جمل وصفین اورنہروان میں بھی سعی بلیغ کی تھی۔
فوجی کاموں کے علاوہ آپ کے سپردسرکاری مہمان خانہ کاانتظام اور شاہی مہمانوں کی
مدارات کاکام بھی تھا آپ مقدمات کے فیصلے بھی کرتے تھے اوربیت المال کی نگرانی بھی
فرماتے تھے و غیرہ و غیرہ
حضرت علی کی شہادت اور امام حسن کی بیعت
مورخین کابیان ہے کہ امام حسن کے والد بزرگوار حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر بمقام مسجد کوفہ ۱۸/ رمضان ۴۹ ہجری بوقت صبح امیر معاویہ کی سازش سے عبدالرحمن ابن ملجم مرادی نے زہرمیں بجھی ہوئی تلوارلگائی جس کے صدمہ سے آپ نے ۲۱/ رمضان المبارک ۴۰ ہجری کوبوقت صبح شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر ۳۷ سال چھ یوم کی تھی_
حضرت علی کی تکفین و تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباس کی تحریک سے بقول ابن اثیرقیس ابن سعد بن عبادہ انصاری نے امام حسن کی بیعت کی اوران کے بعدتمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعدادچالیس ہزارتھی یہ واقعہ ۲۱/ رمضان ۴۰ ھ یوم جمعہ کاہے کفایة الاثر علامہ مجلسی میں ہے کہ اس وقت آپ نے ایک فصیح وبلیغ خطبہ پڑھا جس میں آپ نے فرمایاہے کہ ہم میں ہرایک یاتلوارکے گھاٹ اترے گایازہروغاسے شہیدہوگا اس کے بعدآپ نے عراق، ایران، خراسان، حجاز، یمن اور بصرہ و غیرہ کے اعمال کی طرف توجہ کی اور عبداللہ ابن عباس کو بصرہ کاحاکم مقررفرمایا۔ معاویہ کوجونہی یہ خبرپہنچی کی بصرہ کے حاکم ابن عباس مقررکردیئے گئے ہیں تواس نے دو جاسوس روانہ کیے ایک قبیلہ حمیر کاکوفہ کی طرف اور دوسرا قبیلہ قین کابصرہ کی طرف، اس کامقصدیہ تھاکہ لوگ امام حسن سے منحرف ہوکرمیری طرف آجائیں لیکن وہ دونوں جاسوس گرفتار کرلیے گئے اور بعدمیں انہیں قتل کردیاگیا۔
حقیقت ہے کہ جب عنان حکومت امام حسن کے ہاتھوں میں آئی توزمانہ بڑاپرآشوب تھاحضرت علی جن کی شجاعت کی دھاک سارے عرب میں بیٹھی ہوئی تھی دنیاسے کوچ کرچکے تھے ان کی دفعة شہادت نے سوئے ہوئے فتنوں کوبیدارکردیاتھا اورساری مملکت میں سازشوں کی کھیچڑی پک رہی تھی خودکوفہ میں اشعث ابن قیس ، عمربن حریث، شیث ابن ربعی وغیرہ کھلم کھلابرسرعناداورآمادہ فسادنظرآتے تھے ۔۔۔ معاویہ نے جابجاجاسوس مقررکردئیے تھے جومسلمانوں میں پھوٹ ڈلواتے تھے اورحضرت کے لشکرمیں اختلاف و تشتت و افتراق کابیچ بوتے تھے اس نے کوفہ کے بڑے بڑے سرداروں سے سازشی ملاقات کیں اوربڑی بڑی رشوتیں دے کرانہیں توڑلیا۔
بحارالانوارمیں علل الشرائع کے حوالہ سے منقول ہے کہ معاویہ نے عمربن حریث ، اشعث بن قیس، حجرابن الحجر، شبث ابن ربعی کے پاس علیحدہ علیحدہ یہ پیغام بھیجاکہ جس طرح ہوسکے حسن ابن علی کوقتل کرادو،جومنچلایہ کام کرگزرے گااس کودولاکھ درہم نقدانعام دوں گا فوج کی سرداری عطاکروں گا اوراپنی کسی لڑکی سے اس کی شادی کردوں گا یہ انعام حاصل کرنے کے لئے لوگ شب و روز موقع کی تاک میں رہنے لگے حضرت کو اطلاع ملی توآپ نے کپڑوں کے نیچے زرہ پہننی شروع کردی یہاں تک کہ نماز جماعت پڑھانے کے لیے باہرنکلتے توزرہ پہن کرنکلتے تھے_
معاویہ نے ایک طرف توخفیہ توڑجوڑکئے دوسری طرف ایک بڑالشکرعراق پرحملہ کرنے کے لیے بھیج دیا جب حملہ آورلشکرحدودعراق میں دورتک آگے بڑھ آیا توحضرت نے اپنے لشکرکوحرکت کرنے کاحکم دیاحجرابن عدی کوتھوڑی سی فوج کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے فرمایاآپ کے لشکرمیں بھیڑ بھاڑتوخاصی نظرآنے لگی تھی مگر سردارجوسپاہیوں کولڑاتے ہیں کچھ تومعاویہ کے ہاتھ بک چکے تھے کچھ عافیت کوشی میں مصروف تھے حضرت علی کی شہادت نے دوستوں کے حوصلے پست کردئیے تھے اوردشمنوں کوجرائت وہمت دلادی تھی۔
مورخین کابیان ہے کہ معاویہ ۶۰ ہزارکی فوج لے کرمقام مسکن میں جااترا جوبغدادسے دس فرسخ تکریت کی جانب ”اوانا“ کے قریب واقع ہے امام حسن علیہ السلام کوجب معاویہ کی پیشقدمی کاعلم ہواتوآپ نے بھی ایک بڑے لشکرکے ساتھ کوچ کردیا اور کوفہ سے ساباط میں جاپہنچے اور ۱۲ ہزارکی فوج قیس ابن سعد کی ماتحتی میں معاویہ کی پیش قدمی روکنے کے لیے روانہ کردی پھرساباط سے روانہ ہوتے وقت آپ نے ایک خطبہ پڑھا، جس میں آپ نے فرمایاکہ:”لوگوں ! تم نے اس شرط پرمجھ سے بیعت کی ہے کہ صلح اور جنگ دونوں حالتوں میں میراساتھ دوگے“ میں خداکی قسم کھاکرکہتاہوں کہ مجھے کسی شخص سے بغض و عداوت نہیں ہے میرے دل میں کسی کوستانے کاخیال نہیں میں صلح کو جنگ سے اور محبت کو عداوت سے کہیں بہتر سمجھتاہوں۔“
لوگوں نے حضرت کے اس خطاب کامطلب یہ سمجھاکہ حضرت، امیر معاویہ سے صلح کرنے کی طرف مائل ہیں اورخلافت سے دستبرداری کاارادہ دل میں رکھتے ہیں اسی دوران میں معاویہ نے امام حسن کے لشکرکی کثرت سے متاثرہوکریہ مشورہ عمروعاص کچھ لوگوں کوامام حسن کے لشکروالے سازشیوں نے قیس کے لشکرمیں بھیج کرایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈاکرادیا۔ امام حسن کے لشکروالے سازشیوں نے قیس کے متعلق یہ شہرت دینی شروع کی کہ اس نے معاویہ سے صلح کرلی ہے اورقیس بن سعدکے لشکرمیں جوسازشی گھسے ہوئے تھے انہوں نے تمام لشکریوں میں یہ چرچاکردیاکہ امام حسن نے معاویہ سے صلح کرلی ہے_
امام حسن کے دونوں لشکروں میں اس غلط افواہ کے پھیل جانے سے بغاوت اوربدگمانی کے جذبات ابھرنکلے امام حسن کے لشکر کاوہ عنصرجسے پہلے ہی سے شبہ تھاکہ یہ مائل بہ صلح ہیں کہ کہنے لگا کہ امام حسن بھی اپنے باپ حضرت علی کی طرح کافرہوگئے ہیں بالآخرفوجی آپ کے خیمہ پرٹوٹ پڑے آپ کاکل اسباب لوٹ لیاآپ کے نیچے سے مصلی تک گھسیٹ لیا، دوش مبارک پرسے ردابھی اتارلی اوربعض نمایاں قسم کے افرادنے امام حسن کومعاویہ کے حوالے کردینے کاپلان تیارکیا،آخرکارآپ ان بدبختیوں سے مایوس ہوکرمدائن کے گورنر، سعدیاسعیدکی طرف روانہ ہوگئے، راستہ میں ایک خارجی نے جس کانام” جراح بن قیصہ[16]“تھا آپ کی ران پرکمین گاہ سے ایک ایسا خنجر لگایاجس نے ہڈی تک محفوظ نہ رہنے دیاآپ نے مدائن میں مقیم رہ کرعلاج کرایا اورصحت یاب ہوگئے [17]۔
معاویہ نے موقع غنیمت جان کر ۲۰ ہزارکا لشکر عبداللہ ابن عامرکی قیادت وماتحتی میں مدائن بھیج دیاامام حسن اس سے لڑنے کے لیے نکلنے ہی والے تھے کہ اس نے عام شہرت کردی کہ معاویہ بہت بڑالشکرلیے ہوئے آرہاہے میں امام حسن اوران کے لشکرسے درخواست کرتاہوں کہ مفت میں اپنی جان نہ دین اور صلح کرلیں۔
اس دعوت صلح اور پیغام خوف سے لوگوں کے دل بیٹھ گئے ہمتیں پست ہوگئیں اورامام حسن کی فوج بھاگنے کے لیے راستہ ڈھونڈنے لگی........
و صلی الله علی محمد و آله طاهرین
[1] -الطبقات الکبری :ترجمه ج5،ص2
[2] - اسدالغابة جلد ۳ ص ۱۳
[3] - مطالب السؤل ص ۲۲۰
[4] -اصول کافی :ج6، ص33، وسائل الشیعه : ج21، ب 50، ح 2،ص430
[5] - اصابہ جلد ۲ ص ۱۲
[6] - نورالابصارص ۱۱۹
[7] - اسدالغابة جلد ۳ ص ۱۵
[8] - مطالب السؤل ص ۲۲۳
[9] - کنزالعمال ج ۷ ص ۱۰۷ ،صواعق محرقہ ص ۱۱۷
[10] - مناقب آل ابی طالب جلد ۴ ص ۴۶
[11] - بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۱۹۳
[12] - مراة الجنان ص ۱۲۳
[13] - نورالابصار ص ۱۲۲
[14] - نورالابصار ص ۱۲3
[15] - مناقب جلد ۴ ص ۵۳ ،وکامل مبروج جلد ۲ ص ۸۶
[16] - بروایت الاخبارالطوال ص ۳۹۳
[17] - تاریخ کامل جلد ۳ ص ۱۶۱ ،تاریخ آئمہ ص ۳۳۳ فتح باری