امام علی نقی الھادی علیہ السلام کی ولادت با سعادت

22 December 2024

14:23

۷,۸۲۱

چکیده :
آپ کااس گرامی علی، آپ کے والدماجدحضرت امام محمدتقی نے رکھا،اسے یوں سمجھنا چاہئے کہ سرورکائنات (ص) نے جواپنے بارہ جانشین اپنی ظاہری حیات کے زمانہ میں معین فرمائے تھے، ان میں سے ایک آپ کی ذات گرامی بھی تھی آپ کے والدماجدنے اسی معین اسم سے موسوم کردیا علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ چہاردہ معصومین(ع) کے اسماء لوح محفوظ پر لکھے ہوئے ہیں۔ سرورکائنات نے اسی کے مطابق سب کے نام معین فرمائے ہیں اورہرایک کے والدنے اسی کی روشنی میں اپنے فرزندکوموسوم کیاہے (اعلام الوری ص ۲۲۵) ۔
نشست های علمی

امام علی نقی الھادی علیہ السلام کی ولادت با سعادت

ولادت باسعادت

آپ بتاریخ ۵/ رجب المرجب ۲۱۴ ہجری یوم سہ شنبہ بمقام مدینہ منورہ متولد ہوئے (نورالابصارص ۱۴۹ ،دمعہ ساکبہ ص ۱۲۰) ۔

شیخ مفیدکاکہناہے کہ مدینہ کے قریب ایک قریہ ہے جس کانام صریا ہے آپ وہاں پیداہوئے ہیں (ارشادص ۴۹۴) ۔

اسم گرامی،کنیت، اورالقاب

آپ کااس گرامی علی، آپ کے والدماجدحضرت امام محمدتقی نے رکھا،اسے یوں سمجھنا چاہئے کہ سرورکائنات (ص) نے جواپنے بارہ جانشین اپنی ظاہری حیات کے زمانہ میں معین فرمائے تھے، ان میں سے ایک آپ کی ذات گرامی بھی تھی آپ کے والدماجدنے اسی معین اسم سے موسوم کردیا علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ چہاردہ معصومین(ع) کے اسماء لوح محفوظ پر لکھے ہوئے ہیں۔ سرورکائنات نے اسی کے مطابق سب کے نام معین فرمائے ہیں اورہرایک کے والدنے اسی کی روشنی میں اپنے فرزندکوموسوم کیاہے (اعلام الوری ص ۲۲۵) ۔

کتاب کشف الغطاء ص ۴ میں ہے کہ آنحضرت نے سب کے نام حضرت عائشہ کولکھوا دئیے تھے آپ کی کنیت ابوالحسن تھی … آپ کے القاب بہت کثیرہیں جن میں نقی،ناصح ،متوکل مرتضی اورعسکری زیادہ مشہورہیں (کشف الغمہ ص ۱۲۲ ، نورالابصار ۱۴۹ ، مطالب السؤل ص ۲۹۱) ۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام کاعلم لدنی

بچپن کاواقعہ

یہ ہمارے مسلمات میں سے ہے کہ ہمارے آئمہ کو علم لدنی ہوتاہے یہ خداکی بارگاہ سے علم وحکمت لے کرکامل اورمکمل دنیامیں تشریف لاتے رہے ہیں انہیں کسی سے علم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اورانہوں نے کسی دنیاوالے کے سامنے زانوئے ادب تہ نہیں فرمایا ”ذاتی علم وحکمت کے علاوہ مزیدشرف کمال کی تحصیل اپنے آباؤاجدادسے کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ انتہائی کمسنی میں بھی یہ دنیاکے بڑے بڑے عالموں کوعلمی شکست دینے میں ہمیشہ کامیاب رہے اورجب کسی نے اپنے کو ان کی کسی فردسے مافوق سمجھا تووہ ذلیل ہوکررہ گیا،یاپھر سرتسلیم خم کرنے پرمجبورہوگیا۔

علامہ مسعودی کابیان ہے کہ حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کی وفات کے بعدامام علی نقی علیہ السلام جن کی اس وقت عمر ۷ ۔ ۶/ سال کی تھی مدینہ میں مرجع خلائق بن گئے تھے، یہ دیکھ کروہ لوگ جو آل محمد (ص) سے دلی دشمنی رکھتے تھے یہ سوچنے پرمجبور ہو گئے کہ کسی طرح ان کی مرکزیت کوختم کیاجائے اورکوئی ایسامعلم ان کے ساتھ لگادیاجائے جوانہیں تعلیم بھی دے اوران کی اپنے اصول پرتربیت کرنے کے ساتھ ان کے پاس لوگوں کے پہونچنے کاسدباب کرے، یہ لوگ اسی خیال میں تھے کہ عمربن فرج رجحی فراغت حج کے بعدمدینہ پہنچا لوگوں نے اس سے عرض مدعاکی بالآخر حکومت کے دباؤ سے ایساانتظام ہوگیا کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو تعلیم دینے کے لیے عراق کاسب سے بڑاعالم، ادیب عبیداللہ جنیدی معقول مشاہرہ پرلگایاگیا یہ جنیدی آل محمدکی دشمنی میں خاص شہرت رکھتاتھا۔

الغرض جنیدی کے پاس حکومت نے امام علی نقی علیہ السلام کورکھ دیااورجنیدی کوخاص طورپراس امرکی ہدایت کردی کہ ان کے پاس روافض نہ پہنچنے پائیں جنیدی نے آپ کوقصرصربامیں اپنے پاس رکھا ہوتا یہ تھا کہ جب رات ہوتی تھی تودروازہ بندکردیاجاتاتھا اوردن میں بھی شیعوں کے ملنے کی اجازت نہ تھی اس طرح آپ کے ماننے والوں کی آمدکاسلسلہ منقطع ہوگیااورآپ کافیض جاری بندہوگیا لوگ آپ کی زیارت اورآپ سے استفادہ سے محروم ہوگئے ۔

راوی کابیان ہے کہ میں نے ایک دن جنیدی سے کہا غلام ہاشمی کاکیاحال ہے اس نے نہایت بری صورت بناکر کہا انہیں غلام ہاشمی نہ کہو، وہ رئیس ہاشمی ہیں ، خداکی قسم وہ اس کمسنی مین مجھ سے کہیں زیادہ علم رکھتے ہیں سنو میں اپنی پوری کوشش کے بعد جب ادب کاکوئی باب ان کے سامنے پیش کرتاہوں تو وہ اس کے متعلق ایسے ابواب کھول دیتے ہیں کہ میں حیران رہ جاتاہوں ”یظن الناس اتی اعلمہ واناواللہ اتعلم مہ“ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں انہیں تعلیم دے رہاہوں لیکن خداکی قسم میں ان سے تعلیم حاصل کررہاہوں میرے بس میں یہ نہیں کہ میں انھیں پڑھا سکوں ”ہذاواللہ خیراہل الارض وافضل من بقاء اللہ“ خداکی قسم وہ حافظ قرآن ہی نہیں وہ اس کی تاویل وتنزیل کوبھی جانتے ہیں اورمختصر یہ ہے کہ وہ زمین پربسنے والوں میں سب سے بہتراورکائنات میں سب سے افضل ہیں (اثبات الوصیت ودمعہ ساکبہ ص ۱۲۱) ۔

حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے کرامات اورآپ کاعلم باطن

امام علی نقی علیہ السلام تقریبا ۲۹/ سال مدینہ منورہ میں قیام پذیررہے آپنے اس مدت عمرمیں کئی بادشاہوں کازمانہ دیکھا تقریبا ہرایک نے آپ کی طرف رخ کرنے سے احترازکیا یہی وجہ ہے کہ آپ امورامامت کوانجام دینے میں کامیاب رہے یعنی تبلیغ دین اورتحفظ بنائے مذہب اور رہبری ہو اخواہاں میں فائزالمرام رہے آپ چونکہ اپنے آباؤاجدادکی طرح علم باطن اورعلم غیب بھی رکھتے تھے اسی لیے آپ اپنے ماننے والوں کو ہونے والے واقعات سے باخبرفرمادیاکرتے تھے اورسعی فرماتے تھے کہ حتی الوسع مقدورات کے علاوہ کوئی گزند نہ پہنچنے پائے اس سلسلہ میں آپ کے کرامات بے شمارہیں جن میں سے ہم اس مقام پرکتاب کشف الغمہ سے چندکرامات تحریرکرتے ہیں۔

۱ ۔ محمدبن فرج رجحی کابیان ہے کہ حضرت امام علی نقی نے مجھے تحریرفرمایا کہ تم اپنے تمام امور ومعاملات کو راست اورنظام خانہ کودرست کرلو اور اپنے اسلحوں کوسنبھال لو، میں نے ان کے حکم کے بموجب تمام درست کرلیا لیکن یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ حکم آپ نے کیوں دیاہے لیکن چنددنوں کے بعد مصرکی پولیس میرے یہاں آئی اورمجھے گرفتارکرکے لے گئی اورمیرے پاس جوکچھ تھا سب لے لیا اورمجھے قیدخانہ میں بندکردیا میں آٹھ سال اس قیدخانہ میں پڑارہا، ایک دن امام علیہ السلام کاخط پہنچا، جس میں مرقوم تھا کہ اے محمدبن فرج تم اس ناحیہ کی طرف نہ جانا جومغرب کی طرف واقع ہے خط پاتے ہی میری حیرانی کی کوئی حدنہ رہی میں سوچتارہا کہ میں توقیدخانہ میں ہوں میراتوادھرجاناممکن ہی نہیں پھرامام نے کیوں یہ کچھ تحریرفرمایا آپ کے خط آنے کوابھی دوچاریوم ہی گذرے تھے کہ میری رہائی کاحکم آگیا اورمیں ان کے حسب الحکم مقام ممنوع کی طرف نہیں گیا قیدخانہ سے رہائی کے بعدمیں نے امام علیہ السلام کولکھا کہ حضورمیں قیدسے چھوٹ کرگھرآگیاہوں، اب آپ خداسے دعاء فرمائیں کہ میرامال مغصوبہ واپس کرادے آپ نے اس کے جواب میں تحریرفرمایاکہ عنقریب تمہاراسارامال تمہیں واپس مل جائے گا چنانچہ ایساہی ہوا۔

۲ ۔ ایک دن امام علی نقی علیہ السلام اورعلی بن حصیب نامی شخص دونوں ساتھ ہی راستہ چل رہے تھے علی بن حصیب آپ سے چندگآم آگے بڑھ کرلولے آپ بھی قدم بڑھاکرجلدآجائیے حضرت نے فرمایاکہ اے ابن حصیب ”تمہیں پہلے جاناہے“ تم جاؤ اس واقعہ کے چاریوم بعدابن حصیب فوت ہوگئے۔

۳ ۔ ایک شخص محمدبن فضل بغدادی کابیان ہے کہ میں نے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کولکھا کہ میرے پاس ایک دکان ہے میں اسے بیچنا چاہتاہوں آپ نے اس کاکوئی جواب نہ دیا جواب نہ ملنے پرمجھے افسوس ہوا لیکن جب میں بغداد واپس پہنچا تووہ آگ لگ جانے کی وجہ سے جل چکی تھی۔

۴ ۔ ایک شخص ابوایوب نامی نے امام علیہ السلام کولکھاکہ میری زوجہ حاملہ ہے، آپ دعا فرمائیے کہ لڑکاپیداہو،آپ نے فرمایاانشاء اللہ اس کے لڑکاہی پیداہوگا اورجب پیداہوتو اس کانام محمدرکھنا چنانچہ لڑکاہی پیداہوا، اوراس کانام محمدرکھاگیا۔

۵ ۔ یحی بن زکریاکابیان ہے کہ میں نے امام علی نقی علیہ السلام کولکھاکہ میری بیوی حاملہ ہے آپ دعافرمائیں کہ لڑکاپیداہوآپ نے جواب میں تحریرفرمایا، کہ بعض لڑکیاں لڑکوں سے بہترہوتی ہیں، چنانچہ لڑکی پیداہوئی۔

برچسب ها :