مصائب پر صبر کے حکم کے بارے میں آیات اور روایات :
وَبَشِّرِ
الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ
قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ﴿سورہ بقرہ : آیات / 155،156﴾
والصبر على ثلاثة أقسام: صبر على
الطاعة، وصبرعن المعصية، وصبر على المصيبة.
وقال علي عليه السلام: الصبر مطية لا
تكبوا بصاحبها.
والصبر على المصيبة مصيبة للشامت، ولا
شك انّ الصابر محرز أجرها، ويكبت عدوّه بصبره، ويسلم من ضرر الجزع بشق ثوب أو ألم
في بدنه، والجازع يدخل عليه بجزعه ثلاث آفات: يحبط أجره، ويشمت عدوّه، ويدخل الضرر
على نفسه بما يلحقه من الألم، وصبر الصابر مصيبة للشامت.وينبغي للعاقل أن تحدث له
المصيبة موعظة، لأنّ من الجائز أن يكون موضع المفقود، فهو أحق بالحمد لله والثناء
عليه، ويحدث في نفسه الاستعداد بمثل ما نزل بغيره من موت أو بلية يستدفعها بالدعاء.
وقال أمير المؤمنين عليه السلام: الصبر
من الايمان بمنزلة الرأس من الجسد، ولا ايمان لمن لا صبرله)إرشاد القلوب ؛مولف:الحسن بن أبي
الحسن محمد الدّيلمي ج1ص250(
١٢ ـ عن محمدبن يحيى ، عن أحمد بن محمد بن عيسى
قال : أخبرني يحيى ابن سليم الطائفي قال : أخبرني عمروبن شمر اليماني يرفع الحديث
إلى علي قال : قال رسول الله : الصبرثلاثة : صبر على المصيبة ، وصبر على الطاعة
وصبر على المعصية ، فمن صبر على المصيبة حتى يردها بحسن عزائها كتب الله له
ثلاثمائة درجة ما بين الدرجة إلى الدرجة كمابين السماء إلى الارض ، ومنصبر على
الطاعة كتب الله له ستمائة درجة ما بين الدرجة إلى الدرجة كما بين تخوم الارض إلى
العرش ، ومن صبر على المعصية كتب الله له تسعمائة درجة مابين الدرجة إلى الدرجة
كما بين تخوم الارض إلى منتهى العرش ).
بحار الأنوار العلامة المجلسي ج71 ص77(
وقال أمير المؤمنين : أيها الناس عليكم
بالصبر فانه لادين لمن لاصبر له.
وقال: إنك إن صبرت جرت عليك المقادير ،
وأنت مأجور،وإنك إن جزعت جرت عليك المقادير وأنت مأزور.
عن أبي عبدالله قال : الصبر رأس
الايمان.
عنه قال : الصبر من الايمان بمنزلة
الرأس من الجسد ، فاذا ذهب الرأس ذهب الجسد كذلك إذا ذهب الصبر ذهب الايمان.(بحار الأنوار ، العلامة المجلسي ج71
ص92(
٥٦ ـ محص : عن ربعي ، عن أبي عبدالله قال : إن الصبر
والبلاء يستبقان إلى المؤمن فيأتيه البلاء ، وهو صبور ، وإن الجزع والبلاء يستبقان
إلى الكافر فيأتيه البلاء وهو جزوع.)بحار الأنوار مولف: العلامة المجلسي
ج71 ص95(
وقال قال أبو الحسن الثالث المصيبة
للصابر واحدة وللجازع اثنتان.
(بحار الأنوار نویسنده العلامة المجلسي
ج82ص88)
بسمه تعالی
سلام علیکم
ان تمام آیات اور روایات میں غور و فکر کرنے اور
روایات میں صبر کے حقیقی معنی پر توجہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین اور
اہل بیت علیہم السلام کے مصائب پر عزاداری
کرنا نہ صرف صبر کے ساتھ منافات نہیں رکھتا ہے بلکہ یہ عین صبر اور استقامت ہے ۔
وضاحت :صبر بہت
بڑے مقامات میں سے ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، قرآن کریم کی آیات اور معصومین
علیہم السلام سے منقول روایات میں صبر اور استقامت کے بارے میں بہت زیادہ تاکید ہونے
کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے ، لیکن آیات
اور روایات میں جس صبر کے بارے میں سفارش ہوا ہے وہ صرف مصائب پر صبر نہیں ہے ،
بلکہ زندگی کے تمام مراحل میں چاہئے وہ انسان کی فردی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی
صبر کرنے کی تاکید ہوئی ہے ، کہ انسان خوشحالی اور مصیبت میں ، جنگ اور صلح ،
مشکلات اور آسايش تمام حالات میں صبور رہے ، اور خداوند متعالی بھی صبر کے مقابلہ
میں بے پناہ اجر اور بے حساب بدلہ عطا کرتا ہے ، «انما یوفی الصابرون اجرهم بغیر حساب»
.
صبر کے موارد اسی روایت میں جو پیغمبر اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے بیان ہوا ہے کہ فرمایا: «الصبر ثلاثه صبر عند المصیبة و صبر
علی الطاعتة و صبر عن المعصیة» صبر کی تین قسمیں ہیں ؛ 1- مصائب پر صبر، 2- بندگی
اور اطاعت خداوندی پر صبر ، 3- نفسانی خواہشات اور گناہ سے بچے رہنے پر صبر کرنا .
دوسری طرف سے بہت ساری ایسی بھی روایات ہیں کہ
جن میں امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر گریہ کرنے ، ضجہ کرنے ، نالہ کرنے کا بتایا
ہے ، اور اس عزاداری پر خداوند متعالی بہت زیادہ ثواب اور پاداش عنایت کرے گا ۔
روایات کے
ان دونوں قسموں کے پیش نظر ، یہ دیکھنا ہو گا کہ آیات اور روایات میں صبر
سے مراد کیا ہے ؟ اور بی صبری سے مراد کیا ہے ؟
صبر کے بارے میں موجود آیات اور روایات میں غور
و فکر کرنے سے یہ مطلب واضح ہوتا ہے کہ بے صبری کرنے سے مراد آنسو بہانا ، رونا
اور عزاداری کرنا نہیں ہے ، ، اور صرف چيخ و پکار کرنا بھی بے صبری نہیں ہے ، بلکہ
بے صبری سے مراد مصیبت کے موقع پر چیخ وپکار
کرنا اور غلط باتیں کرنا اور قضا ء وقدر الہی پر نارضیایتی کا اظہار کرنا ہے ، جیسا
کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنکھوں سے بیٹے ابراہیم کی مصیبت پر ، آنسو جاری تھے
فرمایا: «و انّا بک لمحزونون، تبکی العین و یدمع القلب و لا نقول، یسخط
الرب عزّوجل» میرا بیٹا! ہم تمہارے جدائی پر غمناک
ہیں ، آنکھیں رو رہی ہیں ، دل جلتا ہے لیکن ایسی کوئي چیز زبان پر جاری نہیں کرتے ہیں جو خدا وند متعال کے نارضایتی کا سبب ہو ،
دوسری روایات میں یوں ذکر ہوا ہے : «یحزن القلب
، و تدمع العین، ولانقول ما یسخط الرب و انّا علی ابراهیم لممحزونون» ابراہیم کو قبرستان بقیع میں دفن کرنے کے بعد ، اس بچہ پر
آپ(ص) اتنا روئے کہ آنسو محاسن مبارک پر جاری ہو گئے ، لوگوں نے اعتراض کیا : اے
رسول اللہ (ص) آپ دوسروں کو رونے سے منع کرتے تھے ابھی آپ (ص) خود رو رہے ہو ؟ آنخصرت (ص) نے فرمایا : «لا لیس هذا بکاء غضب انما هذا رحمة و من لایرحم لایرحم»یہ غصہ اور نارضایتی کا گریہ نہیں ہے ،
بلکہ گریہ رحمت اور عطوفت ہے ، جو بھی رحم
نہ کرے ،وہ مورد رحمت واقع نہیں ہوتا ۔
اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گریہ کرنا اور
عزاداری کرنا اس وقت صبر کے برخلاف ہے جب وہ اپنے گریہ وزاری میں قضای الہی پر نارضایتی کا
اظہار کرے ، ورنہ صرف گریہ کرنا تو کوئی مشکل نہیں ہے ، مصیبت پر گریہ اور عزاداری کرنا رحمت اور قلب انسان کی رقت اور نرم دلی کی علامت
ہے ۔
اسی وجہ سے روایات میں عام مصائب اور معمولی افراد کے لئے عزاداری کے مجالس برگزار کرنے کی تاکید ہوئی ہے
، اور مستحب ہے کہ مصیبت دیکھنے والوں کی دلداری اور تسلیت دینے کے لئے اور انہیں
صبر کی تلقین کرنے کے لئے ایسی مجالس میں شرکت کرے ، اور ایسی مجالس عام مسلمانوں
کے ہاں رائج ہے ، اور فاتحہ خوانی کی یہ
مجالس مصیبت پڑنے والوں کے ارادہ اور
ایمان کی تقویت اور ان کی احساسات اور عواطف کے احترام میں برگزار ہوتی ہے ، اور
اسلام میں بھی اس کا حکم ہوا ہے ، کہ ایک
مسلمان کے مرنے کے بعد دوسرے تمام مسلمانان جمع ہو کر لواحقین کو تسلیت اور تعزیت
عرض کرے اور ان مجالس میں مرنے والوں کے لئے خداوند متعال کی درگاہ سے عفو و بخشش
کا تقاضا کرے اور قرآن کریم کی تلاوت کرے اور لواحقین صبر و شکیبائی کرنے بتائے ،
اس بارے میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں ، انہیں میں سے ایک روایت امام صادق
(علیہ السلام) کی یہ روایت ہے جسے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل فرمایا ہے : «من عزّی مصاباً کان له مثل اجره من غیر ان ینتقص من اخر المصاب
شیئ»جو شخص کسی مصیبت پڑنے والے شخص کی تعزیت
کے لئے جائے ، اس اتنا اجر ملے گا جتنا مصیبت پر صبر کرنے والے کو ملتا ہے ، اور
صاحب مصیبت انسان سے بھی کوئی کم نہیں ہو گا ۔
عزاداری کی ایک
قسم بھی ہے جو اس عام عزاداری سے کچھ بلند مرتبہ والا ہے ، یہ عزاداری خصوصی طور پر بڑی ہستیوں یعنی پیغمبروں اور ان
کے اوصیاء ، خاص کر پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کی اہلبیت (ع) کے لئے ہے۔
عزاداری کی
کیفیت اس مصیبت کے کم یا زیادہ ہونے لئے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے ، مثلا ایک عام
انسان کی مصیبت اور ایک شہید کی مصیبت میں فرق ہوتا ہے ۔
امام حسین (علیہ
السلام) کی مصیبت بہت بڑی مصیبت ہے ، کہ رحلت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد خاندان اہل
بیت پر آئی ، بلکہ وہ عظیم ترین مصیبت ہے جو اسلام پر وارد ہوئی ہے ۔
اس مصیبت کو
فراموش نہ ہونے کے لئے ، امام حسین (ع) کے
وہ اسلامی انقلاب تاریخ سے محو نہ ہو نے اور بنی اور یزدیوں کی جنایت
فراموش نہ ہونے کے لئے آئمہ معصومین
(علیہم السلام) نے خداوند متعال کی قضا و قدر پر رضایت مندی کے ہمراہ عزاداری برگزار کرنے کی تاکید اور سفارش کی ہے
۔
لہذا یہ عزاداری جو شیعیان ہر سال برگزار کرتے
ہیں ، اور اپنے وقت ، آسايش اور اموا ل کو دے دیتے ہیں تا کہ امام حسین علیہ
السلام کی عزاداری کے مجالس برقرار رہے ، یہ مجالس عزاداری نہ صرف صبر کے منافی
نہیں ہے بلکہ عین صبر اور استقامت ہے۔
عزاداری اور مصائب پر صبر
08 December 2024 ٹائم 12:23
1- کیا اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے لئے عزاداری کرنا قرآن کریم کے صبر کرنے پر نص صریح اور مصائب پر صبر کرنے کے حکم کے بارے میں بیشمار روایات سے متضاد نہیں ہے ؟ 2- مصائب پر صبر کرنے کے بارے میں موجود آیات اور صحیح روایات اور عزاداری کے درمیان جمع کیسے ممکن ہے ؟ 3- اگر جواب میں یہ کہا جائے کہ مصیبت اہل بیت (علیہم السلام) اس صبر کے حکم سے مستثنی ہے ، تو اس کی دلیل کیا ہے ؟
پاسخ :
مصائب پر صبر کے حکم کے بارے میں آیات اور روایات :
وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ﴿سورہ بقرہ : آیات / 155،156﴾
والصبر على ثلاثة أقسام: صبر على الطاعة، وصبرعن المعصية، وصبر على المصيبة.
وقال علي عليه السلام: الصبر مطية لا تكبوا بصاحبها.
والصبر على المصيبة مصيبة للشامت، ولا شك انّ الصابر محرز أجرها، ويكبت عدوّه بصبره، ويسلم من ضرر الجزع بشق ثوب أو ألم في بدنه، والجازع يدخل عليه بجزعه ثلاث آفات: يحبط أجره، ويشمت عدوّه، ويدخل الضرر على نفسه بما يلحقه من الألم، وصبر الصابر مصيبة للشامت.وينبغي للعاقل أن تحدث له المصيبة موعظة، لأنّ من الجائز أن يكون موضع المفقود، فهو أحق بالحمد لله والثناء عليه، ويحدث في نفسه الاستعداد بمثل ما نزل بغيره من موت أو بلية يستدفعها بالدعاء.
وقال أمير المؤمنين عليه السلام: الصبر من الايمان بمنزلة الرأس من الجسد، ولا ايمان لمن لا صبرله)إرشاد القلوب ؛مولف:الحسن بن أبي الحسن محمد الدّيلمي ج1ص250(
١٢ ـ عن محمدبن يحيى ، عن أحمد بن محمد بن عيسى قال : أخبرني يحيى ابن سليم الطائفي قال : أخبرني عمروبن شمر اليماني يرفع الحديث إلى علي قال : قال رسول الله : الصبرثلاثة : صبر على المصيبة ، وصبر على الطاعة وصبر على المعصية ، فمن صبر على المصيبة حتى يردها بحسن عزائها كتب الله له ثلاثمائة درجة ما بين الدرجة إلى الدرجة كمابين السماء إلى الارض ، ومنصبر على الطاعة كتب الله له ستمائة درجة ما بين الدرجة إلى الدرجة كما بين تخوم الارض إلى العرش ، ومن صبر على المعصية كتب الله له تسعمائة درجة مابين الدرجة إلى الدرجة كما بين تخوم الارض إلى منتهى العرش ).
بحار الأنوار العلامة المجلسي ج71 ص77(
وقال أمير المؤمنين : أيها الناس عليكم بالصبر فانه لادين لمن لاصبر له.
وقال: إنك إن صبرت جرت عليك المقادير ، وأنت مأجور،وإنك إن جزعت جرت عليك المقادير وأنت مأزور.
عن أبي عبدالله قال : الصبر رأس الايمان.
عنه قال : الصبر من الايمان بمنزلة الرأس من الجسد ، فاذا ذهب الرأس ذهب الجسد كذلك إذا ذهب الصبر ذهب الايمان.(بحار الأنوار ، العلامة المجلسي ج71 ص92(
٥٦ ـ محص : عن ربعي ، عن أبي عبدالله قال : إن الصبر والبلاء يستبقان إلى المؤمن فيأتيه البلاء ، وهو صبور ، وإن الجزع والبلاء يستبقان إلى الكافر فيأتيه البلاء وهو جزوع.)بحار الأنوار مولف: العلامة المجلسي ج71 ص95(
وقال قال أبو الحسن الثالث المصيبة للصابر واحدة وللجازع اثنتان.
(بحار الأنوار نویسنده العلامة المجلسي ج82ص88)
بسمه تعالی
سلام علیکم
ان تمام آیات اور روایات میں غور و فکر کرنے اور روایات میں صبر کے حقیقی معنی پر توجہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین اور اہل بیت علیہم السلام کے مصائب پر عزاداری کرنا نہ صرف صبر کے ساتھ منافات نہیں رکھتا ہے بلکہ یہ عین صبر اور استقامت ہے ۔
وضاحت :صبر بہت بڑے مقامات میں سے ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، قرآن کریم کی آیات اور معصومین علیہم السلام سے منقول روایات میں صبر اور استقامت کے بارے میں بہت زیادہ تاکید ہونے کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے ، لیکن آیات اور روایات میں جس صبر کے بارے میں سفارش ہوا ہے وہ صرف مصائب پر صبر نہیں ہے ، بلکہ زندگی کے تمام مراحل میں چاہئے وہ انسان کی فردی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی صبر کرنے کی تاکید ہوئی ہے ، کہ انسان خوشحالی اور مصیبت میں ، جنگ اور صلح ، مشکلات اور آسايش تمام حالات میں صبور رہے ، اور خداوند متعالی بھی صبر کے مقابلہ میں بے پناہ اجر اور بے حساب بدلہ عطا کرتا ہے ، «انما یوفی الصابرون اجرهم بغیر حساب» .
صبر کے موارد اسی روایت میں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے بیان ہوا ہے کہ فرمایا: «الصبر ثلاثه صبر عند المصیبة و صبر علی الطاعتة و صبر عن المعصیة» صبر کی تین قسمیں ہیں ؛ 1- مصائب پر صبر، 2- بندگی اور اطاعت خداوندی پر صبر ، 3- نفسانی خواہشات اور گناہ سے بچے رہنے پر صبر کرنا .
دوسری طرف سے بہت ساری ایسی بھی روایات ہیں کہ جن میں امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر گریہ کرنے ، ضجہ کرنے ، نالہ کرنے کا بتایا ہے ، اور اس عزاداری پر خداوند متعالی بہت زیادہ ثواب اور پاداش عنایت کرے گا ۔
روایات کے ان دونوں قسموں کے پیش نظر ، یہ دیکھنا ہو گا کہ آیات اور روایات میں صبر سے مراد کیا ہے ؟ اور بی صبری سے مراد کیا ہے ؟
صبر کے بارے میں موجود آیات اور روایات میں غور و فکر کرنے سے یہ مطلب واضح ہوتا ہے کہ بے صبری کرنے سے مراد آنسو بہانا ، رونا اور عزاداری کرنا نہیں ہے ، ، اور صرف چيخ و پکار کرنا بھی بے صبری نہیں ہے ، بلکہ بے صبری سے مراد مصیبت کے موقع پر چیخ وپکار کرنا اور غلط باتیں کرنا اور قضا ء وقدر الہی پر نارضیایتی کا اظہار کرنا ہے ، جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنکھوں سے بیٹے ابراہیم کی مصیبت پر ، آنسو جاری تھے فرمایا: «و انّا بک لمحزونون، تبکی العین و یدمع القلب و لا نقول، یسخط الرب عزّوجل» میرا بیٹا! ہم تمہارے جدائی پر غمناک ہیں ، آنکھیں رو رہی ہیں ، دل جلتا ہے لیکن ایسی کوئي چیز زبان پر جاری نہیں کرتے ہیں جو خدا وند متعال کے نارضایتی کا سبب ہو ، دوسری روایات میں یوں ذکر ہوا ہے : «یحزن القلب ، و تدمع العین، ولانقول ما یسخط الرب و انّا علی ابراهیم لممحزونون» ابراہیم کو قبرستان بقیع میں دفن کرنے کے بعد ، اس بچہ پر آپ(ص) اتنا روئے کہ آنسو محاسن مبارک پر جاری ہو گئے ، لوگوں نے اعتراض کیا : اے رسول اللہ (ص) آپ دوسروں کو رونے سے منع کرتے تھے ابھی آپ (ص) خود رو رہے ہو ؟ آنخصرت (ص) نے فرمایا : «لا لیس هذا بکاء غضب انما هذا رحمة و من لایرحم لایرحم»یہ غصہ اور نارضایتی کا گریہ نہیں ہے ، بلکہ گریہ رحمت اور عطوفت ہے ، جو بھی رحم نہ کرے ،وہ مورد رحمت واقع نہیں ہوتا ۔
اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گریہ کرنا اور عزاداری کرنا اس وقت صبر کے برخلاف ہے جب وہ اپنے گریہ وزاری میں قضای الہی پر نارضایتی کا اظہار کرے ، ورنہ صرف گریہ کرنا تو کوئی مشکل نہیں ہے ، مصیبت پر گریہ اور عزاداری کرنا رحمت اور قلب انسان کی رقت اور نرم دلی کی علامت ہے ۔
اسی وجہ سے روایات میں عام مصائب اور معمولی افراد کے لئے عزاداری کے مجالس برگزار کرنے کی تاکید ہوئی ہے ، اور مستحب ہے کہ مصیبت دیکھنے والوں کی دلداری اور تسلیت دینے کے لئے اور انہیں صبر کی تلقین کرنے کے لئے ایسی مجالس میں شرکت کرے ، اور ایسی مجالس عام مسلمانوں کے ہاں رائج ہے ، اور فاتحہ خوانی کی یہ مجالس مصیبت پڑنے والوں کے ارادہ اور ایمان کی تقویت اور ان کی احساسات اور عواطف کے احترام میں برگزار ہوتی ہے ، اور اسلام میں بھی اس کا حکم ہوا ہے ، کہ ایک مسلمان کے مرنے کے بعد دوسرے تمام مسلمانان جمع ہو کر لواحقین کو تسلیت اور تعزیت عرض کرے اور ان مجالس میں مرنے والوں کے لئے خداوند متعال کی درگاہ سے عفو و بخشش کا تقاضا کرے اور قرآن کریم کی تلاوت کرے اور لواحقین صبر و شکیبائی کرنے بتائے ، اس بارے میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں ، انہیں میں سے ایک روایت امام صادق (علیہ السلام) کی یہ روایت ہے جسے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل فرمایا ہے : «من عزّی مصاباً کان له مثل اجره من غیر ان ینتقص من اخر المصاب شیئ»جو شخص کسی مصیبت پڑنے والے شخص کی تعزیت کے لئے جائے ، اس اتنا اجر ملے گا جتنا مصیبت پر صبر کرنے والے کو ملتا ہے ، اور صاحب مصیبت انسان سے بھی کوئی کم نہیں ہو گا ۔
عزاداری کی ایک قسم بھی ہے جو اس عام عزاداری سے کچھ بلند مرتبہ والا ہے ، یہ عزاداری خصوصی طور پر بڑی ہستیوں یعنی پیغمبروں اور ان کے اوصیاء ، خاص کر پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کی اہلبیت (ع) کے لئے ہے۔
عزاداری کی کیفیت اس مصیبت کے کم یا زیادہ ہونے لئے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے ، مثلا ایک عام انسان کی مصیبت اور ایک شہید کی مصیبت میں فرق ہوتا ہے ۔
امام حسین (علیہ السلام) کی مصیبت بہت بڑی مصیبت ہے ، کہ رحلت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد خاندان اہل بیت پر آئی ، بلکہ وہ عظیم ترین مصیبت ہے جو اسلام پر وارد ہوئی ہے ۔
اس مصیبت کو فراموش نہ ہونے کے لئے ، امام حسین (ع) کے وہ اسلامی انقلاب تاریخ سے محو نہ ہو نے اور بنی اور یزدیوں کی جنایت فراموش نہ ہونے کے لئے آئمہ معصومین (علیہم السلام) نے خداوند متعال کی قضا و قدر پر رضایت مندی کے ہمراہ عزاداری برگزار کرنے کی تاکید اور سفارش کی ہے ۔
لہذا یہ عزاداری جو شیعیان ہر سال برگزار کرتے ہیں ، اور اپنے وقت ، آسايش اور اموا ل کو دے دیتے ہیں تا کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے مجالس برقرار رہے ، یہ مجالس عزاداری نہ صرف صبر کے منافی نہیں ہے بلکہ عین صبر اور استقامت ہے۔
کلمات کلیدی :
۲,۱۹۱