درس بعد

آیات حجاب کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت

آیات حجاب کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت

درس بعد

موضوع: قرآن میں پردہ


تاریخ جلسه : ١٣٩٥/١١/٤


شماره جلسه : ۱

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • پردہ کے بارے میں اکثر آیات، قرآن کریم کے دو مہم سوروں میں ذکر ہیں ،ایک سورہ احزاب میں اور دوسرا سورہ نور میں ، تاریخ قرآن کے بارےمیں جو کتابیں ہیں ان کے مطابق سورہ احزاب سورہ نور سے پہلے نازل ہوئی ہے ،بتاتے ہیں کہ ترتیب نزول کے حساب سے سورہ احزاب 88 یا 89 نمبر پر ہے اسی طرح سورہ نور کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ 95 سے 102 کے درمیان کے نمبر پر ہے ۔

دیگر جلسات

بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمدلله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين


آیات حجاب کے بارے میں گفتگو کرنے کی  ضرورت

آیات الاحکام میں ہمارا دوسرا بحث حجاب سے مربوط آیات کے بارے میں ہے ، کہ بہت اہم مسائل میں سے ہے اورآجکل ہمارے معاشرہ میں یہ مورد ابتلاء بھی ہے ، بالخصوص کبھی تو حجاب کے بارے میں موجود آیات شریفہ کے بارےمیں عجیب قسم کی تفسیریں کرتے ہیں ،بعض افراد نے جب یہ دیکھا کہ پردہ کے  واجب ہونے کے بارے میں قرآن کریم میں تصریح ہوئی ہے تو ان آیات کو توجہیہ کرنا شروع کیا ہے اور ان آیات شریفہ کے بارے میں تفسیر بالرای کرتے ہیں ، ہم ان آیات کے بارے میں گفتگو شروع کرتے ہیں اور ساتھ میں خداسے بھی التجا کرتے ہیں کہ ان آیات کو سمجھنے اور درک کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔

آیات حجاب

پردہ کے بارے میں اکثر آیات، قرآن کریم کے دو مہم سوروں میں ذکر ہیں ،ایک سورہ احزاب میں اور دوسرا سورہ نور میں ، تاریخ قرآن کے بارےمیں جو کتابیں ہیں ان کے مطابق سورہ احزاب سورہ نور سے پہلے نازل ہوئی ہے ،بتاتے ہیں کہ ترتیب نزول کے حساب سے سورہ احزاب 88 یا 89 نمبر پر ہے اسی طرح سورہ نور کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ 95 سے 102 کے درمیان کے نمبر پر ہے ۔

لہذا اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ سورہ احزاب کی آیات سورہ نور سے پہلے ہے، اور ممکن ہے یہ مطلب استفادہ کر سکیں کہ ایک قسم کی تدریجیت پائی جاتی ہے ، یعنی پردہ واجب ہونے کا مسئلہ ابتداء سے ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہواہے ، سب سے پہلے یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ازواج کے بارے میں تھا ، اس کے بعد اس کا دائرہ خاص انداز میں بڑھ گیا کہ آخر میں یہ اپنے آخری حد تک پہنچ گیا ۔

ہم سورہ احزاب کی تین آیات کو موضوع گفتگو قرار دیں گے کہ درج ذیل ہیں : آيات 53 ، 55 و 59 . : خداوند متعال  آیہ 53 میں فرماتا ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِي إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَي طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا۔

پیغمبر اکرم(ص) پنجم ہجری میں جب زینب بنت جھش سے شادی کیا، اس سلسلے میں جو ولیمہ دیا گیا اسی میں یہ آیت نازل ہوئی

اے ایمان والو خبرادار! پیغمبر کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک تمہیں کھانے کے لئے اجازت نہ دے دی جائے اور اس وقت بھی برتنوں پر نگاہ نہ رکھنا ہاں جب دعوت دے دی جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھالو تو فورا منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں نہ لگ جاؤ ۔

اس کے بعد خدا اس ایک تحلیل بیان فرماتا ہے : وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِي فَيَسْتَحْي مِنْكُمْ ؛تمہارا یہ کام پیغمبر کو تکلیف پہنچاتی ہے اور وہ تمہارے خیال کرتے ہیں اور تم سے یہ نہیں کہتا کہ چلے جاؤ (وَاللهُ لَا يَسْتَحْي مِنْ الْحَقِّ )حالانکہ اللہ حق کے بارے میں کسی بات کی شرم نہیں رکھتا؛( وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ)قرائن حالیہ اور مقالیہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر پیغمبر (ص) کے گھر سے کوئی چیز چاہئے تو پہلے تو خود پیغمبر (ص) سے درخواست کرو ، اور اگر ایسا نہ کرسکے اور ضرورت بھی ہواور امہات مومنین میں سے کسی سے وہ چیز لینے کی مجبوری ہو تو (فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ)؛ "اور جب ازواج پیغمبر سے کسی چیز کا سوال کرو تو پردہ کے پیچھے سے سوال کرو"ہمارا اصل گفتگو اسی میں ہے چونکہ خداوند متعال اس کے بعد فرماتا ہے (ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ)  کہ یہ بات تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ ہے" ؛ یعنی اگر اس آیہ کریمہ کے نازل ہونے سے پہلے ازواج پیغمبر (ص) دوسری عورتوں کی طرح مردوں کے ساتھ ہوتی تھیں اور ایک کی دسترخوان پر بیٹھتے تھے اور ان کے درمیان کوئي فرق نہیں تھا صرف خود عرب کے رسم و رواج کے مطابق مختصر چادر سر پر رکھتی تھیں ،لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا، اس کے بعد یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی کہ اگر ضرورت پڑی اور پیغمبر (ص) کے ازواج سے کوئي چیز مانگنا پڑا تو (مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ)تو کوئی پردہ ہو یا کوئي دیوار ہو کہ تم انہیں نہ دیکھ سکے اور وہ تمہیں نہ دیکھ سکے اس کے پیچھے سے جو چیز ضرورت ہے اس کی درخواست کرو کہ یہ تمہاری پاکیزہ گی کا سبب ہے اور ازواج نبی (ص) کے پاکیزہ گی کا بھی سبب ہے

یہ آیہ کریمہ چونکہ مطلق ہے لہذا اسی سورہ کی آیت نمبر 55 میں کچھ افراد کو استثناء کیا ہے (وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ) ؛ آیہ کریمہ سب مرودں سے مخاطب ہے  جس میں پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج کے باپ ، ان کے بھائی حتی کہ ان کے بچے بھی شامل ہیں ، استثناء کو یوں بیان فرمایا ہے :لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَ

فرماتا ہے :"اور عورتوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے اگر اپنے باپ دادا ، اپنی اولاد، اپنے بھائی، اپنے بھتجے اور اپنے بھانجوں کے سامنے بے حجاب آئیں یا اپنی عورتوں اور اپنی کنیزوں کے سامنے آئیں" وَاتَّقِينَ اللهَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَي كُلِّ شَيْ‏ءٍ شَهِيدا) لیکن تم سب اللہ سے ڈرتی رہو کہ اللہ ہر شے پر حاضر و ناظر ہے۔

شاید ہم یہ بتا سکتے ہیں  پانچویں ہجری کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زینب بنت جھش سے شادی کے بعد حجاب کے بارے میں نازل ہونے والی سب سے پہلی آیت یہی آیت کریمہ ہے ،البتہ کیا یہ آیہ کریمہ (وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ) صرف پیغمبر اکرم(ص) کی ازواج سے مخصوص ہے یا نہیں اس کے بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے ۔

ان دو آیات کے بعد آیہ کریمہ 59 ہے جس میں حکم کو اور زیادہ وسعت دی ہے : يَا أَيُّهَا النَّبِي قُلْ لِاَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ) اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ(يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ)" ادنی یدنی"یہ اگر "علی" کے ساتھ متعدی ہو جائے تو " ارخاء " یعنی لٹکانے کے معنی میں ہے نزدیک کرنے کے معنی میں نہیں ہے یعنی اپنی چادر کو اپنے اوپر لٹکائے رہا کریں "جلابیب" سے مراد کیا ہے اس کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو ہوئی ہے (ذَلِكَ أَدْنَي أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ) کہ یہ طریقہ ان کی شناخت یا شرافت سے قریب تر ہے اور اس طرح ان کو اذیت نہ دی جائے گی(وَكَانَ اللهُ غَفُوراً رَحِيماً) اور خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

چونکہ آیہ کریمہ 53 میں«من وراء حجاب»  ہے  لہذا کلمہ «وراء» کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ،کہ کیا یہ آیہ کریمہ حجاب اور پردہ کے بارے میں ہے یا نہیں ، یہ آیہ کریمہ پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مخصوص ہے یا اس میں عمومیت پائی جاتی ہے ، اس کے بعدیہ بحث ہے کہ کیا کوئي اجنبی مرد پیغمبر اکرم(ص) کے گھر میں جاتے تھے اور ان سے کوئی چیز مانگتے تھے یا کوئی نہیں جاتے تھے ، پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج جب باہر آتیں تھیں تو چادر کو اپنے اوپر لٹکائے آتیں تھیں ۔

ان آیات کے بعد سورہ نور کیا آیات 30،31 نازل ہوئی ہے، خداو ند متعال نے آیہ کریمہ 30 میں فرماتا ہے : قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ) : پہلی والی آیت  میں مردوں کے بارے میں کوئی حکم نہیں تھا یا (فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ)تھا یا (يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ) ہے لیکن یہاں پر مردوں کو حکم ہوا ہے ۔

(قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَي لَهُمْ)اس آیت میں (فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ) تھا (ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ) یہاں پر ہے (ذَلِكَ أَزْكَي لَهُمْ‏  إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ) اس کے بعدآیہ 31 میں تفصیلا فرماتا ہے :وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ )اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں (وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَي جُيُوبِهِنَّ)" اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جواز خود ظاہر ہے اور اپنے دوپٹہ کو اپنے گریبان پررکھیں "اس کے بعد یہ فرماتا ہے(وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ)" اور اپنی زینت کو اپنے شوہر ۔۔۔۔" اس آیہ کریمہ میں وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ ) اودو دفعہ تکرار ہوا ہے ایک میں کلمہ (ل) نہیں ہے اور دوسرے میں (ل) ہے فرماتا ہے: وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا: اس کے بعد فرماتا ہے :وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ) :اس کلمہ میں بہت زیادہ مطالب پوشیدہ ہیں) أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوْ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنْ الرِّجَالِ أَوْ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَي عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ) : اس آیہ کریمہ میں تین دفعہ کلمہ زِينَتِهِنَّ ذکر ہوا ہے. (وَتُوبُوا إِلَي اللهِ جَمِيعاً أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ( " اور اپنی زینت کو اپنے باپ دادا ، شوہر ، شوہر کے باپ دادا، اپنی اولاد، اور اپنے شوہر کی اولاد اپنے بھائی اور بھائيوں کی اولاد اور بہنوں کی اولاد اور اپنی عورتوں اور اپنے غلام اور کنیزوں اور ایسے تابع افراد جن میں عورت کی طرف سے کوئی خواہش نہیں رہ گئی ہے اور وہ بچے جو عورتوں کے پردہ کی بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں ان سب کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں اور خبر دار اپنے پاؤئ پٹک کر نہ چلیں کہ جس زینت کو چھپائے ہوئے ہیں اس کا اظہار ہو جائے اور صاحبان ایمان تم سب اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہو کہ شاید اسی طرح تمہیں فلاح اور نجات حاصل ہو جائے "۔

حجاب کے بارے میں اہم مطالب ایک تو سورہ احزاب کی آیت 59 میں ہے اور دوسری جگہ اسی آیت میں ہے ۔اور آیہ 58 اس بارے میں ہے کہ بچوں کو چاہئے کہ تین مورد میں اجاز ت مانگ کر داخل ہو جائے جس کے بارےمیں ہم بعد میں گفتگو کریں گے۔

یہاں تک حجاب سے مربوط آیات کے بارے میں ایک اجمالی گفتگو تھی، کبھی کبھار یہ بات سنے میں آتی ہے یا بعض لیٹیچر میں یہ لکھا ہوا ملتا ہے کہ کہتے ہیں: قرآن کریم میں حجاب کے بارے میں کوئي آیہ نہیں ہے ، اور اگر ہے تو اس کی توجہیہ کرتے ہیں کہ ہم حجاب کے بارے میں موجود ان تمام توجیھات اور شبھات کا مناسب موقع پر جواب دیں گے ۔

یہاں پر ہم جس آیہ کریمہ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں وہ سورہ احزاب کی آیہ 53 ہے : وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ) فرماتا ہے : اگر کوئی چیز جو ازواج پیغمبر اکرم(ص) کے ہاں ہے اگر اس کی ضرورت پڑے تو (فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ) پردہ کے پیچھے سے درخواست کرو ، البتہ قرینہ مقالیہ یا حالیہ دلالت کرتی ہےکہ جہاں تک ہو سکے تم ان چیزوں کو خود پیغمبر (ص) سے مانگو ۔

کلمہ "وراء" میں موضوعیت ہے یا یہ طریقیت ہے ؟

یہاں پر چند مطالب کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ، سب سے پہلا مطلب یہ ہے کہ کیا کلمہ " وراء" خود موضوع ہے یا نہیں ؟ اس کی وضاحت یوں ہے کہ کیا خداوند یہ حکم کرتا ہےکہ پہلے کی طرح اپنے سروں کو نیچے نہ کرو مثلا پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج کے کمروں میں چلے جاؤ اور یہ بولو : کہ فلان چیز مجھے دے دو؟بلکہ ان کا پردہ ہونا چاہئے کہ ہم یہ بتائیں کلمہ "وراء" میں کوئي موضوعیت نہیں ہے حتی اگر ازواج پیغمبر (ص) اپنے سروں پر کچھ ڈال دیتے اور اس چیز کو لے آکر ان مردوں کو دے دیتے اس میں بھی کوئي اشکال نہیں تھا۔ کیا یہاں پر کلمہ " وراء" میں موضوعیت ہے کہ ہم یہ بتائیں : نہیں ایسا بھی نہیں کرسکتے ؟ اگر موضوعیت رکھتا ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اگر ازواج پیغمبر (ص) پوری طرح اپنے جسم کو ڈھانپ لیتی اور آکر کوئی چیز ان مردوں کو دے دیتی تو یہ بھی جائز نہیں تھا، دوسرے الفاظ میں کلمہ"وراء" حجاب سے بھی کچھ حد تک محدود ہے ، یعنی حجاب یہ ہے کہ عورت پوری طرح اپنے جسم کو ڈھانپ لے ، لیکن کلمہ "وراء" کا مطلب ہے کہ مرد عورت کے چہرہ اور ہاتھ کو نہیں دیکھتا ہے حتی کہ اس کی قد وقامت کو بھی نہیں دیکھتا ہے ، جب کوئي مرد پردہ کے پیچھے سے کسی عورت سے بات کر رہا ہو تو اس کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس عورت کا قد چھوٹا ہے یا بڑا ، اس کا جسم موٹا ہے یا کمزور ، اٹھی ہوئی ہے یا بیٹھی ہوئی ہے ، چونکہ کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے لہذا کلمہ"وراء" حجاب کا سخت مرحلہ ہے ۔

کوئی کہ کہہ سکتا ہے کہ اس کلمہ«وراء»  میں کوئی موضوعیت نہیں ہے کیونکہ اس زمانہ میں اس عنوان سے کہ عورت کو پوری طرح ڈھانپ لینا چاہئے ایسی کوئی چيز بیان نہیں ہوئی ، بہت ہی آسان چیز یہ تھی کہ عورت دروازہ کے پیچھے سے بات کرتی تھی، اگر ہم یہ بتائیں کہ کلمہ " وراء" طریقی ہے ، اگر عورت اپنے آپ کو پوری طرح ڈھانپ لیں تو آیہ بھی یہی بتاتا ہے کہ اس میں کوئي مشکل نہیں ہے ،خلاصہ کلام یہ ہے کہ کلمہ " وراء" عنوار طریقیت رکھتا ہے یا موضوعیت؟کونسا صحیح ہے؟ آیت کا ظاہر یہ بتاتا ہے کہ کلمہ " وراء" میں عنوان موضوعیت ہے ، خصوصا بعد کے مباحث میں بیان ہوں گے کہ یہ آیت پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مختص ہے ، خداوند متعالی یہ نہیں چاہتا ہے کہ کسی بھی لحاظ سے پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج کوئی بھی جہت دوسروں کے لئے عیان ہو جائے ، حتی کہ ان کے قد اور جسم کی ڈھال بھی مکشوف ہونا نہیں چاہتے تھے،حتی کہ اگر ہم اس آیہ کریمہ کو پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے مختص نہ جاننے تو بھی کلمہ "وراء" جو حجاب کے  انتہائی درجہ ہے خود موضوعیت رکھتا ہے کہ ازواج پیغمبر (ص) حجاب کے پیچھے رہا کریں ، یہ پہلا مطلب۔

دوسرا مطلب: یہ حکم کس کے لئے ہے ؟ کیا مردوں کو بھی یہ حکم ہے کہ من وراء الحجاب( پردہ کے پیچھے ) سے پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج سے کوئی چیز طلب کریں؟ یا پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج کو یہ حکم ہے کہ پردہ کے پیچھے رہا کریں، کونسا صحیح ہے؟ یا یہ حکم دونوں کے لئے ہے ۔

آیہ 55 میں ہے ‌(لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ)؛ممکن ہے یہ بات ذہن میں آجائے کہ یہ قرینہ ہے اس کے لئے کہ یہ حکم پیغمبر اکرم(ص) کے ازواج کے لئے ہے ،یہ بات بھی ہے کہ آیہ میں فرماتا ہے (وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ)؛یعنی

ان پر واجب ہے کہ پردہ کے پیچھے بیٹھیں اور بغیر پردہ کے ان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ کوئی چیز دے دیں یا کوئی چیز لے لیں ، یہ ان کے لئے حرام ہے ، چونکہ اس کے بعد فرماتا ہے :(لَاجُنَاحَ عَلَيْهِنَّ)؛استثناء کرتا ہے ، یہ نہیں فرماتا :«و لا حناح عليكم»؛یہ نہیں فرماتا: «و لا جناح علي آبائهن»؛ فرماتا ہے : (و لا جناح عليهن)؛ظاہر تو یہ ہے کہ یہ طرفینی  ہے یعنی مردوں پر بھی یہ حکم ہے اور ازواج پیغمبر (ص) پر بھی،اور ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی مرد جا کر بغیر پردہ کے ازواج پیغمبر (ص) سے کوئی چیز طلب کرے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ صرف اس مرد نے کوئی حرام کام انجام دیا ہے ، نہیں ! بلکہ دونوں حرام کا مرتکب ہوئے ہیں ، مردوں اور ازواج پیغمبر (ص) دونوں پر یہ حکم ہے ، جس کے لئے یہ قرینہ ہے کہ فرماتا ہے : (ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ)؛ یہ تمہارے دل کی پاکیزہ گی اور ازواج پیغمبر (ص) کے دل کی پاکیزہ گی مناسب ہے، یہ دوسرا مطلب ہے کہ یہ حکم دونوں کے لئے ہے اور صرف ازواج پیغمبر (ص) سے مختص نہیں ہے، بلکہ جس طرح ازواج پیغمبر (ص) کو پردہ کے پیچھے سے کوئی چیز لینا یا دینا چاہئے اسی طرح مردوں کا بھی فرض ہے کہ پردہ کے پیچھے سے کوئي چیز دے یا لے لیں۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ کیا یہ آیہ شریفہ صرف ازواج پیغمبر (ص) سے مربوط ہے ؟ یا نہیں بلکہ اس میں تمام خواتین شامل ہیں ؟انشاء اللہ اسے ہم بیان کریں گے

وصلی الله علی محمد و آله الطاهرین

 

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .