آیہ حجاب

درس قبل

آیہ حجاب

درس قبل

موضوع: قرآن میں پردہ


تاریخ جلسه : ١٣٩٥/١١/٦


شماره جلسه : ۴

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • یہ آیہ کریمہ آیات حجاب میں شامل ہی نہیں ہے ، اور اگر بعض فقہی کتابوں میں بعض علماء نے اپنی کتابوں میں آیات حجاب کے ذیل میں اس آیت کریمہ کو بھی بیان کیا ہے لیکن میرے نظر میں یہ صحیح نہیں ہے .

دیگر جلسات

بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمدلله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين

آیہ حجاب

عرض  ہوا  کہ یہ آیہ شریفہ قدیم کتابوں میں آیہ حجاب سے مشہور ہے ، جو چیز ابتدائي طور پر انسان کے ذہن میں آتی ہے اور آیہ کریمہ کے ما قبل اور ما بعد کے قرائن سے جو استفادہ ہوتاہے وہ یہ ہے کہ آیہ کریمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے ازواج سے مربوط ہے ، ہم اس آیہ کریمہ سے واجب ہونے کو استفادہ کریں یا مستحب ہونے کو ،دونوں صورتوں میں یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے ازواج سے متعلق ہے ، پیغمبر اکرم‌صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کی شان و مقام کی عظمت کی خاطر خداوندمتعال نے ایک حکم فرمایا ہے۔

قاعدہ اشتراک در تکلیف[1]سے عام ہونا استفادہ کرنا

یہاں پر ممکن ہے کوئی احکام میں اشتراک کے قاعدہ کو بیان کریں ،جیسا کہ حجاب کے بارے میں لکھی گئی ان کتابوں اور لٹیچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہی لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ اگرچہ یہ آیہ کریمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج کے بارے میں ہے لیکن  "احکام میں اشتراک "کی قانون سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ تمام خواتین کے بارے  میں بھی ہے ، دوسرے الفاظ میں اسداء الرغاب کے مصنف وغیرہ نے اس حکم کی عمومیت کو ثابت کرنے کے لئے آیہ کریمہ کی ذیل سے استفادہ کیا ہے «ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ» کہ ہم نے ان کے بیان کا تفصیلی جواب عرض کیا ، اب اگر کوئی اس عمومیت  کے لئے احکام میں اشتراک کے قاعدہ سے استدلال کریں  اور یہ بتائيں کہ احکامات میں اصل اولی تمام لوگوں کے درمیان مشترک ہونا ہے مگر ان موارد میں جہاں پر اختصاصی ہونے کے بارے میں کوئی قرینہ ہو ، بہت ساری روایات ہیں کہ کوئي شخص جاتاہے اور امام علیہ السلام سے سوال کرتا ہے کہ میں نے ا س طرح نماز پڑھا ہے کیا دوبارہ پڑھ لوں؟

فرماتا ہے : دوبارہ پڑھ لو، واضح ہے کہ یہ اس سوال کرنے والے سے مخصوص نہیں ہے ،اور احکام میں اشتراک ایک مسلم قانون ہے بلکہ یہ فقہ کی ضروریات میں سے ایک ہے بلکہ اس سے بھی بالاتر یہ ضروریات دین میں سے ہے ، احکام معین افراد سے مختص نہیں ہوتے  مگر جہاں پر کوئی دلیل ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ حکم کسی خاص شخص سے معین ہے یعنی احکام میں اصل اولی اشتراک ہے مگر کسی دلیل سے استثناء ہوا ہو ،اب اگر یہاں پر کوئي یہ بتائے کہ ہم قبول کرتے ہیں کہ یہ آیہ کریمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج سے مخصوص ہے لیکن ہم احکام میں تمام انسان مشترک ہونے کے قانون کے مطابق یہ بتائيں گے کہ اس میں تمام مومنین کے ازواج شامل ہیں ۔

جواب: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں پس اس آیہ کریمہ سے پہلے اور بعد میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جن سے ایسی ظہور پیدا ہوتی ہے کہ یہ آیہ مخصوص ہے ،اس سے ما قبل آیات یہ ہیں :  «يَا نِسَاءَ النَّبِىِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنْ النِّسَاءِ  -وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى» یہ قرینہ ہےاور بعد کی آیات کہ جن میں بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کےرحلت کے بعد کوئي ان کے ساتھ نکاح نہ کرے ، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خداوند متعالی یہاں پر کچھ اختصاصی احکام کو بیان فرما رہا ہے ، لہذا قاعدہ اشتراک کو ہم بھی قبول کرتے ہیں لیکن یہاں پر اختصاص کے لئے ہمارے پاس قرینہ ہے ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ کلی طور پر قانون اشتراک وہاں پر ہے کہ ایک حکم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں مسلمان ہونے کے عنوان سے کچھ افراد کے لئے ثابت ہو ، ایسے موارد میں اس حکم میں تمام مومنین و مومنات شامل ہیں.

 ابھی ہمیں شک ہے کہ کیا اس حکم میں ہم بھی شامل ہیں یا نہیں ؟ قانون اشتراک کے مطابق اس میں سب شامل ہے ، لیکن قانون اشتراک کا مورد وہاں پر ہے کہ جس وقت وہ حکم صادر ہو رہا ہے اس میں یقینی طور پر اسی وقت کے تمام مخاطبین شامل ہوں ، لیکن کیا غائبین  بھی اس میں شامل ہیں یا نہیں اس میں شک ہو تو وہاں پر قانون اشتراک کو جاری کر سکتا ہے ۔

لیکن یہاں پر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے گھر والوں کے لئے ایک خصوصی حکم ہے : «فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا»   کیا ہم یہاں پر «فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا» کو سب جگہوں کے لئے بتائیں؟ کہ یہ بتایا جائے کہ جیسے ہی کھانا کھا لیا مستحب ہےیا ضروری ہے کہ وہاں سے چلے جائے ، جیسا کہ بعض افراد اسی آیہ کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے یہی بتاتے ہیں ، لیکن ہم سب جگہوں پر ہم اس آیت سے استدلال نہیں کر سکتے ، بلکہ یہ حکم صرف پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے گھر سے متعلق اور اسی اجتماع کے بارے تھا ۔

آیات حجاب میں سے نہیں ہے ۔

اس مطلب کے بارے میں غور کریں کہ جس مطلب کو آج ہم بیان کریں گے اس سے ہم اس نتیجہ تک پہنچنا چاہتے ہیں یہ آیہ کریمہ آیات حجاب میں شامل ہی نہیں ہے ، اور اگر بعض فقہی کتابوں میں بعض علماء نے اسے اپنے کتابوں میں آیات حجاب میں اسے بیان کیا ہے تو میرے نظر میں یہ صحیح نہیں ہے ، بعض بزرگان جیسے مرحوم صاحب جواہر (ر ) اس آیہ کریمہ کی اطلاق سے استناد کرتے ہوئے یہ بیان کرنا چاہ رہے ہیں کہ اس آیہ کریمہ کے اطلاق سے جو حکم حاصل ہوتا ہے اس سے حتی کہ چہرہ اور ہتھلی کو بھی چھپانا واجب ہے ، اس حد تک اس آیہ کریمہ کی اطلاق میں توسعہ دیا ہے !جی نہیں یہ آیہ کریمہ حجاب سے کوئی مربوط نہیں ہے ، ٹھیک ہے اس آیہ کریمہ میں لفظ " حجاب" ذکر ہوا ہے لیکن اس سے مراد فقہ میں مورد بحث حجاب  نہیں ہے ، فقہی اصطلاح میں حجاب خواتین کا پردہ کرنا ہے کہ خواتین کو کس حد تک پردہ کرنا چاہئے اور مرد کو کس حد تک پردہ کرنا چاہئے ، لیکن یہاں اس آیہ کریمہ میں حجاب  کے مقابلہ میں لقاء ہے ، یہاں پر حجاب کا نقیض لقا ء ہے ۔

عرب جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ لوگ ایسے ہی بغیر کسی اطلاع کے دوسروں کے گھر میں چلے جاتے تھے ایک دوسرے کے کمروں میں چلے جاتے تھے ، اور جب دیکھتے تھے کہ کسی کے گھر میں دسترخوان بچھا ہوا ہے تو آکر اس دسترخوان پر اس گھر کے اہل و عیال کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے ، جاہلیت میں یہ رواج عام تھا ، لیکن جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مبعوث ہوئے ، تو اس وقت بھی یہ عرب کے جاہلی لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر میں بھی اسی رواج کے مطابق آنے لگے ، سر نیچے کر کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر میں آتے تھے اور دعوت کيے بغیر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر میں آتے تھے ، اس وقت یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی: «لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِىِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ» ۔یہ آیہ کریمہ پہلے سے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے گھر کے بارے میں ہے ، خدا وند متعالی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر کی عظمت کو بیان کرنا چاہتا ہے ، یہ لوگ پہلے بغیر کسی دعوت کے اور اجازت لئے بغیر آتے تھے ، اس وقت یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی کہ جب تک تمہیں دعوت نہ دی جائے اور اجازت نہ دی جائے اس گھرمیں آنے کا حق نہیں ہے ، اور جب دعوت کرے تو چلے جاؤ  اور جب کھانا کھا چکے ہو تو جلدی سے چلے جاؤ ،یہ «فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا»  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر کے بارے میں ہے ۔ ہم خود آیہ کریمہ کے مطابق یہ بات نہیں کر سکتے کہ یہ آیہ کریمہ ایک حکم کلی کو بیان کر رہا ہے کہ جہاں بھی دعوت ہو تو مستحب ہے کہ کھانا کھانے کے فورا بعد وہاں سے چلا جائے ،یا اس کام کو کرنا واجب ہے ، ہم استدلالی قوانین کے مطابق آیہ کریمہ سے ایسا حکم استخراج نہیں کر سکتے ، اس وقت جاہلیت کا رسم و رواج ہی یہ تھا کہ اگر کسی کے گھرسے کوئی چیز ضرورت ہوتی تو اطلاع دئیے بغیر چلے جاتے تھے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج کے گھروں میں بھی اسی طرح چلے جاتے تھے اور جس چیز کی ضرورت ہوتی تھی اسے اٹھا لیتے تھے ، یا کمرہ کے اندر جا کر ان سے مانگ لیتے تھے اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : «وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» اگر گھر کے اندر سے کوئي چیز اٹھانی ہو تو پردہ کے پیچھے سے مانگ لیا  کرو، سر نیچے کر کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج کے کمروں میں چلے نہ جاؤ ، بلکہ پردہ کے پیچھے سے وہ چیز طلب کرو، ملاحظہ فرمائيں کہ آیت کریمہ میں عورت کے پردہ کے بارے میں کچھ بیان ہی نہیں کیا ہے کہ عورت پردہ کے پیچھے چادر پہنی ہوئی ہو یا نہ ہو ۔

ہم نے اگرچہ پچھلے درس میں یہ بیان کیا تھا کہ «لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ» سے شاید یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اس حکم میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں لیکن یہ بھی خارج از امکان نہیں ہے کہ ہم  بتا دیں کہ آیہ کریمہ صرف مردوں کے بارے میں حکم بیان کر رہا ہے کہ تم لوگوں کو  اگر کوئی چیز طلب کرنا ہے تو پردہ کے پیچھے سے طلب کرو ، نہ یہ کہ خواتین پر واجب ہو کہ پردہ کے پيچھے چلے جائے ،اگرچہ آیہ کریمہ کے ذیل میں فرماتا ہے : «ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ» : لیکن جو چیز اس آیت شریفہ میں واضح ہے وہ یہ ہے کہ  آیت کریمہ میں پہلے تو خطاب مردوں سے ہے ، لہذا جو چیز یہاں پر عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ابھی ہم جب یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ کیا عورت پر پردہ واجب ہے یا نہیں ؟ اور کس حد تک  پردہ واجب ہے ؟ اس آیہ کریمہ کو ہم آیات حجاب میں قرار نہیں دے سکتے ، یہ آیہ کریمہ جاہلیت کے ایک باطل رسم وہ بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر کے بارے میں تھا اسے بیان کر رہا ہے ، شاید خود ان کے گھروں میں یہ چیز ضروری نہیں تھی ،  جناب آقای حبیبی نے مرحوم آقای معرفت کی کتاب " التمهید" کو لے آئے میں نے اسے ملاحظہ کیا کہ انہوں نے بھی صراحتا بیان کیا ہے کہ سورہ مبارکہ احزاب ،سورہ نور سے پہلے نازل ہوئی ہے ، اگرچہ قرآن کریم میں بیان کے لحاظ سے سورہ نور،سورہ احزاب سے پہلے ہے ،لیکن زمان اور تاریخ نزول کے لحاظ سے سورہ احزاب کو انہوں نے سورہ 90 قرار دیا ہے اور دوسروں نے 88 یا 89 یا 90 بتائے ہیں ، اس وقت سورہ نور کی یہ آیت کریمہ «قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ» :نازل نہیں ہوئی تھی ، حجاب کے بارے میں سب سے پہلا حکم یہ تھا کہ جب تم لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر میں کھانے پر جائے تو سیدھا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج کے کمروں کے اندر چلے نہ جاؤ « فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ» :اگر ہم خالی الذہن اس آیہ کریمہ کی طرف مراجعہ کریں تو آیہ کریمہ کا ظہور واضح طور پر یہ ہے کہ یہ مردوں کے لئے حکم کو بیان کر رہا ہے ، خواتین کے بارے میں نہیں ہے اگرچہ یہ اثر خواتین کے لئے بھی ہے ۔

تاریخی شواہد

طلاب محترم اس بارے میں کچھ مقدار تاریخ کی طرف بھی مراجعہ فرمائيں ، ملاحظہ فرمائیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر کے علاوہ دوسرے   مومنین کے خواتین جب آیہ کریمہ « وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ »  نازل   ہوئی ہو تو گھر سے باہر نہیں نکلی ہو ، اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  جب فدک کے واقعہ میں مسجد میں تشریف لے جا کر ابابکر کے پاس احتجاج کیا تو وہاں پر کیا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا  اور ابابکر کے درمیان کوئی پردہ لگانے کا حکم دیا ؟ البتہ یہ ذکر ہوا ہے کہ ابو بکر نے احترام کے طور پر بتایا تھا کہ  ایک پردہ لگایا جائے ، لیکن حضرت سلام اللہ علیہا  چند دفعہ گئی ہیں صرف ایک دفعہ نہیں  ، یا جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا  نے مجلس یزید میں خطبہ  دیا تو کیا  پردہ کے پیچھے سے خطبہ دیا ؟اور کیا خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں جب خواتین آکر آپ سے سوالات کرتي تھیں تو  پردہ کے پیچھے سے کرتی تھیں ؟ اگر ہم یہ بتانا چاہیں کہ یہ آیہ کریمہ ساری خواتین کے لئے حجاب کے واجب ہونے کو بیان کر رہی ہے تو کیا  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ   میں اس پر عمل ہوا ہے ، ہمارے پاس بہت ساری روایات ہیں جن میں بیان ہوا ہے  خواتین آکر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوالات کرتی تھیں اور کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ وہ پردہ کے پیچھے سے سوال کرتی ہو ،اور اس کے بعد آئمہ اطہار علیہم السلام کے زمانہ میں بھی ایسا نہیں تھا ،جب ہم تاریخ کی طرف مراجعہ کرتے ہیں تو یہی نظر آتا ہے کہ جب سے آیہ کریمہ « وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ »  نازل ہوئي اس کے بعد سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج گھر سے باہر نہیں نکلی تھیں ۔

لیکن ان کے علاوہ تاریخ میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ جب بھی مومنین کے بیویاں کہیں چلی جاتی  اور کسی دوسرے مرد سے کوئی بات کرنا چاہتی تھی تو پردہ کے پیچھے سے کرتی تھی ، بلکہ اس کا برعکس تاریخ میں ثبت ہے ۔

پس ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ آيت کریمہ حجاب پر دلالت کرتی ہے ،«فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ»  یہ حکم مردوں کے لئے ہے یہ لوگ اگر اجازت لیے بغیر ازواج پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کمروں میں چلے جاتے تھے توایک حرام کام انجام دیتے تھے ، یہاں پر ایک مطلب ہے کہ آیہ 55 میں ہے «لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ»  جب  آیہ 53 نازل ہوئی تو بعض لوگوں نے بتایا کہ اب تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیویوں کے باپ ، بھائی ، بہنیں کسی کو بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج کے کمروں میں جا نے یا وہاں سے کوئی چیز اٹھانے کا حق نہیں ہے ! اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ وَلَا إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ إِخْوَانِهِنَّ وَلَا أَبْنَاءِ أَخَوَاتِهِنَّ وَلَا نِسَائِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ» ؛ تقریبا 9 قسم کے افراد کو اس حکم سے استثناء کیا ہے کہ ان کے لئے کوئی منع نہیں ہے ان پر کوئي اشکال نہیں ہے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج کے باپ ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی ، بھائی کے بیٹے اور بہن کے بیٹے کے لئے کوئي اشکال نہیں ہے یہ لوگ آسکتے ہیں ۔

«نِسَائِهِنَّ» سے کیا مراد ہے ؟

« نِسَائِهِنَّ»؛کے بارے میں شیعہ اور سنی تفاسیر میں دو قسم کی تفسیر ہوئی ہے ، تفسیر مجمع البیان میں « نِسَائِهِنَّ »؛ کے لئے دو احتمال دیا ہے ایک احتمال وہ روایت ہے جو ابن عباس سے نقل ہے ، اس وقت یہود و نصاری کے خواتین آتی تھیں اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج کی خصوصیات کو دیکھ لیتی تھیں ، جا کریہ اپنے شوہروں کو بیان کرتی تھیں لہذا یہ «نسائهن »؛

یعنی مومنین کے ازواج۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ « نِسَائِهِنَّ »سے مراد تمام خواتین ہیں فرق نہیں وہ مومن خواتین ہوں یا غیر مومن خواتین ،آلوسی نے بھی اپنی کتاب روح المعانی میں بھی دو قول کو ذکر کیا ہے پہلا قول وہی ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد مومنین کی بیویاں ہیں ، اور دوسرا قول یہ ہے کہ « نِسَائِهِنَّ»؛ سے مراد رشتہ دار خواتین ہیں جیسے ماں ، بہن ، بہن کی بیٹی ، گھر میں کام کرنے والی خواتین ،یہ دو احتمال بیان ہوا ہے پہلا احتمال وہی ہے جو ابن عباس کے روایت کے مطابق ہے ، اور دوسرا احتمال مفسرین کا قول ہے ، « نِسَائِهِنَّ » اس میں کوئي شک نہیں ہے کہ اس میں تمام خواتین شامل نہیں ہیں ، مجمع البیان میں دوسرے قول کو جو بیان کیا ہے کہ اس میں تمام خواتین شامل ہیں مومن ہوں یا کافر، کہ  کافروں کے بیویاں تو « نِسَائِهِنَّ »؛ نہیں ہے، لہذا ممکن ہے کہ یہاں پر وہی مراد ہو جسے آلوسی نے دوسرے احتمال میں بیان کیا ہے ، ہمارے درمیان بھی یہ محاورہ موجود ہے کہتے ہیں ہمارے خواتین ، یعنی ہمارے رشتہ دار خواتین ، «نِسَائِهِنَّ »اسی میں ظہور رکھتا ہے ،اب یہاں پر ممکن ہے کوئی یہ بتائیں کہ  «و لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ»  یہ قرینہ ہے کہ اس سے پہلے جو حکم بیان ہوا ہے وہ ایک لازمی حکم ہے ؛ ملاحظہ فرمائيں ہم نے کل کے درس میں یہ کہاتھا  «ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ» ؛یہ قرینہ ہے کہ یہ حکم ایک لازمی حکم نہیں ہے ، کیا «لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ» قرینہ ہو سکتا ہے یہ بیان کرنے کے لئے کہ اس سے مراد ایک لازمی حکم ہے ؟کہ ہم اس کو قرینہ قرار دیں ۔

قرینہ اور ذی القرینہ کے بارے میں ایک مطلب یہاں بیان کرتا ہوں کہ ایک کلام میں عام طور پر ذیل کوصدر روایت کے لئے  قرینہ قرار دیا جاتا ہے ،اگر شارع نے کسی حکم کے بارے میں امر کیا ہے «فَاسْأَلُوهُنَّ»  اس کے بعد ذیل میں ایک عنوان کو بیان کیا ہے جو مستحب ہونے کے بارے میں ظہور پیدا کرتا ہے ، یہاں پر ذیل قرینہ ہے صدر کے لئے ،جملہ کا صدر ذیل کے لئے قرینہ نہیں ہو سکتا ، یہاں پر ہم اس مطلب کو دوسرے الفاظ میں  بیان کر سکتے ہیں کہ قرینہ وہ ہے جو ذی القرینہ سے زیادہ اظہر ہو ،یعنی جو بھی زیادہ واضح ہو وہ قرینہ ہے فرق نہیں وہ جملہ کے ابتداء میں ہو یا آخر میں ، کلی طور پر وہ چیز قرینہ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے جو ذی القرینہ سے زیادہ واضح ہو ، تا کہ اس اظہر کے ساتھ اس ظاہر میں دخل اندازی کر سکے ، یہاں پر « لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ»  استثناء کر رہا ہے ، یعنی اس گروہ پر کوئي اشکال نہیں ہے ، یہ  اس حکم کے واجب ہونے پر بہت ہی واضح قرینہ ہے ، اور یہ بالکل صحیح بات ہے یعنی اس کا قرینہ ہونا «ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ»  کے قرینہ ہونے سے زیادہ واضح ہے ، شارع مقدس اگر «ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ»  کوبیان نہیں فرماتے تو اس کلام میں کوئی عیب نہیں ہوتا ، یہاں پر صیغہ امر ہے «فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءحِجَابٍ" یہ وجوب میں ظہور رکھتا ہے اگر یہ« لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ » نہ ہوتا اور صرف جملہ « ذَلِكُمْ أَطْهَرُ» ہوتا تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ قرینہ ہے اس کے واجب نہ ہونے کے لئے ، بہتر ہے کہ پردہ کے پیچھے سے ان چیزوں کو طلب کریں لیکن « لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ » اس حکم کے واجب ہونے کو بیان کرنے کے لئے بہت ہی اچھا قرینہ ہے ۔

دوسرا مطلب: کیا ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ آیہ 55 سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف ازواج پیغمبر کے لئے ہے چونکہ یہاں پر «لَا جُنَاحَ عَلَى آبَائِهِنَّ» نہیں بتایا گیا ہے بلکہ  «لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ،» بیان ہوا ہے، یہاں پر اسی بات کو دہرائے جسے اول میں بیان کیا تھا کہ خداوند متعالی نے یہاں پر خواتین کوحکم کیا ہے کہ پردہ کے پیچھے سے رہیں اور مردوں کو بھی یہ حکم کیا ہے کہ اگر کوئي چیز طلب کرنا ہے تو پردہ کے پیچھے سے  طلب کریں ،آج کے درس کے ابتداء میں بتایا تھا کہ «فَاسْأَلُوهُنَّ» سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکم مردوں کے لئے ہے ، خواتین تو کمروں کے اندر ہے انہیں کیا پتا کہ کوئی مرد کمرہ میں آنا چاہتا ہے یا نہیں !مردوں کو چاہئے کہ پردہ کے پیچھے سے ان سے کوئي چیز طلب کرے ، تو اب یہاں پر ہماری بات یہ ہے کہ کیا اس «لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ» قرینہ ہوسکتا ہے اس کے لئے کہ جی نہیں یہ حکم پہلی نظر میں اور ذاتا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے ازواج کے لئے ہے ، لیکن ہمارا نظر یہ ہے کہ یہ استفادہ نہیں ہوتا «لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ»  یعنی اس حکم میں جسے ہم نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج کے لئے بیان کیا ہے اس سے یہ استثناء ہوتا ہے ،اور ہم ایسا نہیں بول سکتے کہ یہ حکم خواتین کے لئے ہے لیکن اس حکم سے ان کے باپ  ، بھائي ، بیٹے یہ سب استثناء ہیں ، لیکن خود حکم خواتین کے لئے ہے  «لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ» یعنی یہ حکم جسے ہم نے تم مردوں کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج کے بارے میں بیان کیا ہے ، لہذا یہاں پر حکم اولی مردوں کے لئے ہے لیکن اس کے بعد مردوں کے گروہ میں سے کچھ لوگوں کو استثناء کیا ہے یعنی ہم نے تم مردوں کو جو بتایا ہے کہ سر نیچے کر کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج کے کمروں میں چلے نہ جاؤ لیکن ان کے باپ جاسکتے ہیں ، ان کے بھائی جا سکتا ہے ۔۔۔۔ لھذا ہم جملہ « لَا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ »  یہ معنی استفادہ نہیں کر سکتا ۔

پس اس آیت کریمہ کا نتیجہ یہ ہے کہ آیت کریمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ازواج سے مخصوص ہے ، اور حجاب اصطلاحی سے مربوط نہیں ہے ، بلکہ اسے کلی طور پر کوئی ربط ہی نہیں رکھتا ، اگرچہ یہ دلالت کرتی ہے لیکن ہم اس سے عمومیت کو استفادہ نہیں کرسکتے ہیں ۔

وصلی الله علی محمد و آله الطاهرین

 

 



[1] -یہ ایک اصولی قواعد میں سے ہے جس کا مطلب ہے کہ خدا کے احکامات میں سارے انسان برابر ہیں اور سب ان احکام میں مشترک ہیں

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .