درس بعد

جلد بازی

درس قبل

جلد بازی

درس بعد

درس قبل

موضوع: اخلاقی دروس


تاریخ جلسه : ١٣٩٠/٩/٢٩


شماره جلسه : ۳

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • خدا وند متعالی سورہ مبارک طہ میں فرماتاہے”:فَتَعالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلاتَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضى‏ إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَ قُلْ رَبِّ زِدْني‏ عِلْماً”اس آیت کریمہ کے بارے میں سب سے بہتراحتمال یہ ہے کہ اس آیت کریمہ سے مراد یہ ہے: ''وَلاَتَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ''یعنی''وَلاَتَعْجَلْ بقرائة الْقُرْآنِ''

دیگر جلسات

بسم الله الرحمن الرحيم

 الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين


خدا وند متعالی سورہ مبارک طہ میں فرماتاہے”:فَتَعالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضى‏ إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَ قُلْ رَبِّ زِدْني‏ عِلْماً”[1] اس آیت کریمہ کے بارے میں مفسرین نے متعدد احتمالات دیئے ہیں ،ان احتمالات میں سب سے بہتراحتمال یہ ہے کہ ''وَلاَتَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ''یعنی''وَلاَتَعْجَلْ بقرائة الْقُرْآنِ'' اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ پیغمبر اکرمۖ کلام خدا کے  بارے میں عجیب شوق رکھتے تھے البتہ نقل بھی ہوا ہے کہ کبھی وحی میں کچھ دیر ہوتی ، تو پیغمبر اکرم ۖ بے تاب ہوتے لیکن اس عجیب شوق کی وجہ سے جبرئیل جیسے ہی کسی آیت کو نازل کرتے ، پیغمبراکرمۖ بلا فاصلہ اسے اصحاب کے لئے قرائت کرتے تھے ،آیت کریمہ نازل ہوئی :ولا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُقْضَی اِلَیْکَ وَحْیُہ"وحی کے تمام ہونے سے پہلے اورآیت کریمہ کے تمام تأویلات کو بیان کرنے سے پہلے ، قرآن کی قرائت میں جلدی مت کرو"وَقُلْ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا" اس دعا کو بھی پڑھ لیا کرواورخدا سے یہ طلب کرو کہ جو بھی آیت نازل ہوتی ہے خدا اس آیت کے بارے میں آپ کوبیشترعلم عنایت کرے ،جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ خدا کے کلام سے زیادہ حق، واضح،دقیق،صحیح ، کامل اور پاک کوئی چیز نہیں ہے،ایک ایسی چیز ہے کہ "لا یأتیہ الباطل"کوئی اسے باطل نہیں کرسکتا اورکسی میں یہ قدرت نہیں ہے کہ اسے تغییر کرے ،ان سب کے باوجودایسی مطلب جو پیغمبرۖ کے لئے نازل ہوتی ہے خدا انۖ  کو یہ تلقین فرماتا ہے "ولا تعجل"جلدی مت کریں۔

پہلااور مہمترین مطلب جوہمارے لئے قابل استفادہ ہے یہ ہے کہ علمی گفتگو ، خصوصاً اعتقادی گفتگو میں،فرق نہیں کرتا فتوی میں یا اعتقادی مسائل میں ،اگر کوئی چیزہمارے ذہن میں خطور کرے ،اگرچہ چند روز مطالعہ کیا ہواوراس بارے میں غور وفکرکیاہواورکسی نتیجہ تک پہنچا ہو،اسے جلدی سے دوسروں کے لئے نقل نہ کیاکرے ،فقہی مسائل میں اگرگذشتہ علماء کے نظریہ کے خلاف واقعاًکسی نتیجہ پر پہنچے ہو،اسے جلد سے بیان نہ کریں ،اوریہ بتانا شروع نه کرے کہ فقہ میں ہمارے جدید نظرے ہیں ،بلکہ اس مسئلہ میں غوروفکر کرنی چاہئے ، دینی مسائل میں بہت ہی زیادہ دقت اورغوروفکر کرناچاہئے ،مثال کے طورپرفتوا دینے کے بارے میں مرحوم سید بن طاووس کی حالات کی طرف مراجعہ فرمائیں، آپ فرماتے ہیں :میرے پاس بہت زیادہ کتابیں ہیں میں نے ان تمام کتابوں کے درمیان سے ،اموات کے نماز کے قضاء کے بارے میں لکھا ہوں ،اس کے علاوہ تیارنہیں ہوا ہوں کہ کسی مسئلہ میں فتوادے دوں ،کہ آپ مرحوم علامہ کے استاد بھی تھے ،فقہ میں بہت قوی تھے ،ان سب کے باجود کهتاهے : میں نے یہ سوچا کہ نظریات میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے لہذا فتوا دینا بہت ہی مشکل ہے ،ان فتواؤں کے درمیان میں جوواقع کے مطابق ہوانسان کا اس تک پہنچنا بہت ہی مشکل ہے ،لہذا میں نے فتوا ہی نہیں دیا ،اورآیت کریمہ "ولو تقول علینا بعض الاقاویل لاخذنا منہ بالیمین"کو اپنے لیے بہت زیادہ پڑھتا رہا کہ اگر میں کسی چیز کو خدا سے نسبت دے دوں،جب که خدا پیغمبرۖ سے فرماتا ہے: اگرتم نے بعض باتوں کو مجھ سے نسبت دی ، ہم تمہارے دائیں ہاتھ کو کاٹ ڈالیں گے ، یا بعض دوسرے تعبیروں میں ہے کہ تمہارے گردن کے رگ کو کاٹ ڈالیں گے ، جب اپنے پیغمبرۖ کو اس طرح ڈراتے دھمکاتے ہیں ، میں نے جرأت ہی نہیں کیا کہ فتوا دے دوں ۔

یہ کلی طورپرفتوا دینے کے بارے میں نہیں ہے ،اگر یہ بات ہو تو کوئی بھی فتوا نہ دے دیں ،بلکہ یہ بات اس مقصد کے لئے ہے کہ ان کاموں ہمیں بهت هی دقت اور احتیاط کرنا چاهئے ،اگر ہمارے ذہن میں کوئی بات آگئی ،بلا فاصلہ یہ نہ بتائیں کہ یہ مسئلہ اس طرح ہے "و قل رب زدنی علما"اس وقت آپ کو چاہئے کہ دعا کرنے کے لئے ہاتھوں کو اٹھائیں ، یہ تو خدا سے مدد طلب کرنے کا موقع ہے ،اگر کوئی چیز آپ کے ذہن میں آئی ہے اور کسی چیز کو سمجھ گیا ہے تواس کا مطلب ہے کہ خدا نے آپ پرعنایت فرمایا ہے ،ابھی شروع ہونے کا وقت ہے ،جس شخص کے ذہن میں کوئی چیز نہیں آتی ، وہ خدا کا مورد عنایت قرارنہیں پاتا ہے ،اگر ہم یہ نہ بتائیں کہ کلی طور پر خدا کا مورد عنایت نہیں ہے تو کم از کم وه علمی ،اعتقادی اورفقہی مسائل میں خدا کا مورد عنایت وتوجہ نہیں ہے ،اسی طرح جو انسان شیطان کا دوست ہے شیاطین ان کے اندربہت سے وسوسے پیدا کرتے ہیں ،اسی طرح جوافراد خدا کے اولیاء ہیں ، خدا ان کے دلوں میں حقائق کو ڈال دیتاهے،اب اس کا دا رومدار یہ ہے کہ انسان میں اس کے لئے کتنی ظرفیت پائی جاتی ہے ، کس حد تک وہ متوجہ ہو سکتا ہے ،ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے ؛کہ یہ جو ہم پڑھ رہے ہیں ،یہ خدا کی لطف سے ہے یہ جو ہم پڑھا سکتے ہیں ، معنی کر سکتے ہیں ، تجزیہ وتحلیل کر سکتے ہیں ،اب ہم اس حد تک پہنچے ہیں کہ خدا نے ہمارے دل میں ایک چیز قرار دیا ہے ایک مشکل مسئلہ کو ہم سمجھ سکتے ہیں ،یہ شکر کرنے ، دعا اوراستغاثہ کرنے کا وقت ہے ۔

فقہی مسائل میں متاسفانہ ہم میں سے بعض ایسی ہی جلد فتوا دے دیتے ہیں ،بہت جلد اظہار نظر کرتے ہیں ، کبھی ہم یہ بتاتے ہیں کہ یہ احتیاطات کیا ہیں کہ جسے ہمارے گذشتہ بزرگان نے بیان کی ہیں ؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو احتیاط کرنی چاہئے ،جی ہاں ، اگر کسی چیزمیں احتیاط لوگوں کے لئے واقعا ًعسرو حرج" کا سبب ہو وہاں با ت دوسری ہے ، لیکن اگر ہم یہ دیکھیں کہ کوئی شخص اپنی علمی کتاب میں هاته  پاؤں مارتا ہے وراس طرف سے احتیاط بتاتا ہے اوراُس طرف سے بهی احیتاط بتائے ،معلوم ہوتا ہے وہ ایک قوی فقیہ ہے ،جس کے پاس فقہی قوت وطاقت نہ ہو،جلد سے کوئی نظریہ دیتا ہے اور وہاں سے گزر جاتا ہے ۔

البتہ لوگوں کے لئے بیان کرتے وقت لحاظ کرنی چاہئے ،لیکن انسان جب اپنے اورخدا کے درمیان کسی مطلب کو بتاناچاہتاہے مثلاً یہ آیت:"اوفوالعقود''ہم یہ بتائیں کہ ''اوفوا''یعنی ''واجب''''عقد سے وفا کرنا ''یعنی ''عقد کو تمام کریں''اور گفتگو کو ختم کرے ،ایسا تو نہیں ہوتا ،اگرایسا ہو کہ انسان بلافاصلہ اسی مقدار سے حقیقت تک پہنچ جائے ، یہ قرآن اور یہ آیت ،خدا کا کلام نہیں ہوا ،بلکہ دوسروں کے کلام کی طرح ہوا، کبھی انسان دوسروں کی بات پراس سے زیادہ توجہ کرتے ہیں ،کسی فیلسوف نے یا کسی اورنے کوئی بات کی ہو،اس کے بارے میں کتنا سوچتے ہیں ، لیکن یہ کلام ، خدا کا کلام ہے ،ایک ایسی ہستی سے صادر ہوئی ہے جوتمام موجودات پر احاطہ رکھتا ہے ، صبراورحوصلہ سے کام لینا چاہئے ،خدا سے طلب کرے:اے خدا اس آیت کا معنی کیا ہے ، اس میں آپ کیا فرمانا چاہتا ہے ؟
غورکریں، وہ افراد جو اعتقادی مسائل میں منحرف ہوئے ہیں ، اس کی عمدہ دلیل یہی ہے کہ جو مطلب ا ن کے ذہن میں آئی ہے اسے محکم سمجھ بیٹھا ہے ، اسے لکھ لیے اوربہت ہی جلد پھیلا دیا ہے ،اس کے بعد منحرفین میں سے ہوئے ہیں ،اب اگر اعتقادی مسائل میں انسان کے ذہن میں کوئی بات آتی ہے کچھ مقدارصبرکرنی چاہئے ،اس بارے میں سوچے ، خاص افراد کے ساتھ اس بارے میں گفتگو کرے اوراپنا نظریہ بیان کرے ۔

روحانیت کی خصوصیت یہ ہے کہ وه صرف اپنے عصراور زمانے سے مربوط اور متعلق نہیں ہے ،جب ہم کہتے ہیں کہ عالم ہونا اورروحانی ہونا کوئی پیشہ نہیں ہے،اس لئے ہے کہ ہرپیشہ اپنے زمان سے مربوط ہے اکثرپیشہ ایسا ہی ہے،جو شخص مستری کا کام کرتا ہے جب اس کی عمرختم ہوتی ہے اس کا کام بھی ختم ہوتا ہے ،اس کے بعد پھریہ نہیں کہتے کہ مستری کا کام انجام دے رہا ہے ، فرض کریں ایک عمارت کو بنا بھی لیا ہے ، وہ پچاس یا سو سال بعد ختم ہوجاتی ہے ،معاشرہ میں اکثرپیشہ ایسا ہی ہے ، کہ اپنے زمان سے محدود ہے ،لیکن روحانیت اور عالم اپنے زمان سے محدود نہیں ہے مثلاً شیخ مفید نے ایک ہزار سال پہلے کسی مطلب کوبیان کیا ہے ، آج ہم اس کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں ، یا کوئی مطلب یا کتاب پہلی صدی کی ہے ، نوے ہجری کی ہے ،ہم آج اس بارے میں تحقیق کرتے ہیں ۔

بہت ہی زیادہ توجہ دینا چاہئے ، بعض علماء اوربزرگان اپنے عمرکے اواخر میں یہ کہتے هوے نظر آتے ہیں کہ جو کچھ لکھا ہے اسے دریا میں ڈال دیں،انسان اپنی ابتدائی سوچ میں اپنے آپ سے کہتے ہیں یہ کوئی صحیح کام نہیں ہے اورکوئی عاقلانہ کام نہیں ہے،زحمت اٹھایا ہے (حتی کہ ہمارے زمانہ میں بھی تھا کہ چند سال پہلے فوت ہوئے) بعض افراد شاید سوجلد کتاب رکھتے تھے ، سب کچھ ان میں تھے سب چیزیں ملی جلی تھیں،انهوں نےوصیت کی، که ان سب کو دریا میں ڈال دیں ، شاید اپنے اور خدا کے درمیان میں جس چیز کو حل نہیں کر سکا وہ یہ ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے ، یہ دین کے آیندہ کو کس راستہ پر لگا لے گا ، لوگوں کے کام کو کیا کرے گا ؟اگر ہم اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرے ، اگرجو کچھ لکھتے ہیں اسے خدا کے لئے لکھتے ہیں ، اگرجو کچھ سوچتے ہیں خدا کے لئے سوچتے ہیں،تو جلدی نہیں کرنی چاہئے ،''لا تعجل''یہ آیت کریمہ بہت مہم آیت ہے ،خداوند متعالی اپنے کلام کے بارے میں کہ جسے اپنے پیغمبر ۖ کے لئے نازل کیا ہے ، پیغمبر ۖ کے قلب مطہر میں ہے ، پیغمبرۖ  کواسے لوگوں تک پہنچانے کا حکم ہے ، ان سب کے باوجودفرماتا ہے جلدی مت کریں ،تھوڑا ساصبرکریں تا کہ اس آیت کے حقایق کو زیادہ سے زیادہ جان سکے ،اس کے بعد لوگوں کو بیان کریں،جب پیغمبرۖ کے لئے ایسا حکم ہوتوہم قابل مقایسہ ہی نہیں ہیں ، اورہماری حالت کو تو بیان ہی نہیں کرسکتے ۔

قرآن جتنا زیادہ پڑھے وہ پرانا نہیں ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے ، کہ ابھی بھی ایسا ہی ہے،میرے خیال میں آیہ کریمہ "وقل رب زدنی علما"پیغمبرۖ سے مخصوص نہیں ہے ، جوبھی کسی آیت کو پڑھ لیں اوراس بارے میں خداسے مدد طلب کرے ،خدا اس آیت کے بارے میں اس کے دل میں ایک مطلب کو ڈال دیتا ہے ،ہمارایہ انتخاب کیا ہوا راستہ ایک مہم راستہ ہے ،بہت سخت ہے ،اور بہت ہی مہم ،البتہ اس کی قدروقیمت بھی بہت زیادہ ہے ،میںنے کسی سے کہا تھا بعض کے ذہن میں یہ بات ہے کہ کہتے ہیں ہم مجتہد ہوئے ہیں لیکن مرجع نہیں ہوئے ،میں نے اس کو یہ بتایا کہ ایک فقہی مسئلہ استباط کرنا ، ایک فقہی مسئلہ میں اظہار نظرکرنا،اس کی قدروقیمت تمام مرجعیت سے بلند وبالا ہے ،خوداس کی بہت قدروقیمت ہے کہ خدا نے انسان کو عطا فرمایا ہے ، اب مرجعیت بھی ایک مسؤلیت اورذمہ داری ہے اگر انسان اسے خدا وند عالم کے راہ میں قرارنہ دے تو اس کا کوئی فایدہ نہیں ہے ۔

ایک دن میں اپنے والد بزرگوار کے خدمت میں تھا ،انہوں نے ملکی کسی مسئلہ کے بارے میں ایک مہم پیغام دیا تھا ، بعض نےآکر مجھ سے یہ بتانے لگے ، ان سے عرض کریںشاید بعض اوقات ایسے پیغام دینا مرجعیت سے سازگارنہ ہو!مثلاً ان کا مقصد یہ تھا کہ مرجع جتنا زیادہ خاموش رہے اورجتنا ہو سکے کم بات کریں اس کی وزن زیادہ ہوتی ہے ، میں نے بھی اس بات کو والد بزرگوار کی خدمت تک پهنچایا ، انہوں نے شدید افسوس کا اظہار کیا کہ کیوں ایسے سوچتے ہیں ، دوسرے الفاظ میں فرمائے :''وہ مرجع جو اسلام کے کام نہ آئے سوئی کے برابربھی اس کی کوئی قیمت نہیں ہے ''فرمائے اگر میں نے مرجعیت کی مسئولیت کو قبول کیا ہے اس لئے تھا کہ اس کے ذریعہ میں اسلام اور انقلاب اورلوگوں کی کوئی خدمت کر سکوں اگر یہ نہ ہو تو خود مرجعیت کی کیا قدروقیمت ہے ،اگر انسان کی مرجعیت ،اس کالکھنا اوراس کا استنباط کرنا واقعاً خدا کے لئے ہو ، اس کی قدروقیمت ہے ،یہ انسان کو حیات طیبہ عطا کرتی ہے ، یہ انسان کو زندہ کرتا ہے اگر یہ نہ ہو تو اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے ، جلدی بازی کے بارے میں چند روایات بیان کرنا چاہتا تھا لیکن وقت کی دامن میں گنجائش نہیں ہے ۔

و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين

---------------------------------
[1] - سورة طہ/١١٤

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .