مناجات شعبانیہ میں انسان کی بلندی

16 April 2024

13:01

۸۰۰

آخرین رویداد ها

 

ماہ شعبان المکرم کی عظمت کے بارے میں حضرت آیت الله فاضل لنکرانی(دامت برکاته) کے بیانات

 بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمدلله رب العالمين و صلى الله على سيدنا محمد و آله الطاهرين


آج 3 شعبان المعظم ہے اور امام حسین (علیہ السلام) کا روز ولادت ہے ، اس دن کو جمہوری اسلامی ایران میں روز پاسدار کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، الحمد للہ ہم سب اور  اس ملک میں ہر انقلابی شخص انقلاب کے پاسدار ہیں ، اسی مناسبت سے اس دن کا احترام کرتے ہیں ۔

ماہ شعبان میں مناجات شعبانیہ کے زیادہ پڑھنے کی تاکید ہوئي ہے ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئي شخص  اہل معنا ہو ، جو سیر و سلوک کے راستہ پر ہو اور مناجات شعبانیہ سے رابطہ نہ رکھتا ہو ، امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) جو عرفان کے سب سے بلند چوٹی پر تھے ، اپنے تقاریر میں مناجات شعبانیہ کے پڑھنے کے بارے میں بہت تاکید کرتے تھے اور فرماتے تھے یہ وہ دعا ہےجس امیر المومنین (علیہ السلام) نے اور باقی تمام آئمہ (علیہم السلام) نے پڑھے ہیں ۔

سب سے پہلے خداوند متعالی سے یہ دعا کریں کہ ہمیں اس مناجات کو پڑھنے کی توفیق نصیب ہو ، کم از کم ماہ شعبان میں ہر روز ان مناجات کو پڑھ  سکیں ، دو تین صفحات پر مشتمل ایک مناجات ہے ، اگر ماہ شعبان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی اسے ہمیشہ پڑھتے رہیں تو اس کے بہت اچھے آثار اور برکات ہیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس مناجات میں کچھ ایسے معارف اور مطالب موجود ہیں جو صرف اسی میں ہے کسی بھی دعا میں ایسے معارف دیکھا نہیں جاتا ۔

مناجات کے ابتداء میں پیغمبر اکرم (ص) اور آل پیغمبر پر صلوات بھیجنے کے بعد عرض کرتا ہے : «وَاسْمَعْ دُعائِى إِذا دَعَوْتُكَ، وَاسْمَعْ نِدائِى إِذا نادَيْتُكَ، وَأَقْبِلْ عَلَىَّ إِذا ناجَيْتُكَ، فَقَدْ هَرَبْتُ إِلَيْكَ»،میرا خدا میری دعاوں کو سنتا ہے اور اسے مستجاب بھی کرتا ہے ، یہاں پر  «اسمع» صرف سننے  کے معنی میں نہیں ہے ، بلکہ "استجب دعائي" یعنی میری دعا کو مستجاب کرو کے معنی میں بھی ہے ، میری دعا کو قبول کرو ، نداء کا معنی بلند آواز سے پکارنا ہے ، جب میں بلند آواز سے پکارتا ہوں ، اور تمہیں آواز دیتا ہوں ، تو میری آواز کو سن لو ، اور جب میں تم سے مناجات کر رہا ہو تو میری طرف توجہ کرو ، مناجات کا معنی بہت ہی نزدیک سے بات کرنا ہے  «فقد هربتُ إلیک» میں نے  تمہاری طرف فرار  کیا ہے ۔

دعا کے آخر  ی کلمات میں فرماتا ہے : «إِلهِى وَاجْعَلْنِى مِمَّنْ نادَيْتَهُ فَأَجابَكَ»، ملاحظہ فرمائيں کہاں سے کہاں لے جایا جا رہا ہے انسان کو؟ اس جملہ سے پہلے کچھ عبارات کو پڑھ لیا ہے کہ جس کے بعد انسان اس مقام تک پہنچا ہے کہ وہ خدا سے عرض کرتا ہے :«وَاجْعَلْنِى مِمَّنْ نادَيْتَهُ»، مجھے ان مقرب بندوں کے درجہ پر فائز کریں جسے تو آواز دیتا ہے اور وہ تمہاری آواز پر لبیک کہتا ہے ، «وَلاحَظْتَهُ فَصَعِقَ لِجَلالِكَ»، تو اس پر ایک خاض عنایت اور توجہ کرتا ہے اور وہ تمہارے جلال اور بزرگی کے مقابلہ میں فریاد بلند کرتا ہے ، «فصعق لجلالک»،کیا عظمت ہے ! سب سے پہلے خدا کی عظمت اور بزرگی کو بیان کرتا ہے کہ ہم سب اس چیز سے غافل ہیں ، یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں نماز میں ہمیں متوجہ رہنا چاہئے ۔

 یہ  الفاظ روایات میں بھی نقل ہوا ہے ، لیکن روایات کے علاوہ نماز کی حقیقت میں بھی انسان اسے سمجھ سکتا ہے ، کہ نماز اس وقت فائدہ مند ہے کہ نماز کے بعد انسان خدا کے مقابلہ میں اپنی کمزوری کا زیادہ احساس کرے اور خدا کی عظمت اور بزرگی  کا زیادہ معترف ہو جائے ۔

ہر نماز انسان کو اعتقاد اور خدا کی عظمت  ، جلال ، بزرگی اور کبريایی کی ایک  سیڑھی اوپر جائے ، تمام عبادات اسی لئے ہے کہ ہم اسے جان لیں کہ ہم خدا کو جانتے ہیں ، صحیح بات ہے کہ تمام موجودات عالم سمجھتے ہیں  خدا ہے ، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں ، لیکن یہ انسان کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ  خدا کی کبریایی اور عظمت کو سمجھ سکتا ہے اور ہمیشہ اس میں کمال کی طرف ترقی کرتا ہے ۔

عمر جتنا زیادہ ہوتا جائے ہم اپنی کمزوری اور خدا کی بزرگی کے بارے میں زیادہ یقین پیدا کرے ، یہ مناجات شعبانیہ ہے کہ جس کے ابتداء میں ہم خدا سے کہتے ہیں " واسمع ندائی اذا نادیتک و بعد می‌گوئیم واجعلنی ممن نادیته فأجابک "انسان ایک ایسے مقام تک پہنچ جائے کہ خداوند متعالی اپنا خاص مخاطب قرار دے  کر اس کے ہاتھوں کو تھام لیں ، اور اس سے یہ بتائے کہ اوپر آجاو، اس دنیا سے کٹ جاو۔

امام خمینی (رضوان الله تعالی علیه) اس جملہ کو زیادہ پڑھا کرتے تھے : «الهی هب لی کمال الانقطاع إلیک» لیکن ہم اسے کے حقیقی معنی کو نہیں سمجھ سکتے ، انقطاع(کٹ جانا) کیا ہے ؟ اور کمال انقطاع کیا ہے ؟ کمال انقطاع کا ہدف  اور مقصد کیا ہے ؟  «حتی تخرق ابصار القلوب حجب النور»، ابصار قلوب اور نور کے حجاب کیا ہیں ؟«فتصل إلی معدن العظمة»، عظمت کا معدن کیا ہے ؟ «فتصیر ارواحنا معلقة بعزّ قدسک» ان عبارت کے معنی کو سمجھنا عام انسانوں کی بس کی بات نہیں ہے، بلکہ خود آئمہ معصومین(علیہم السلام) سے اس ماہ مبارک شعبان میں مدد لینا چاہئے کہ ہمیں سمجھا دیں کہ جب آپ حضرات (ع) ان دعاوں کو پڑھتے تھے ان کیا ارادہ کرتے تھے ؟

البتہ یہ تو ناممکن ہے کہ ہم ان کے مرتبہ پر فائز ہو جائے لیکن یہ ممکن ہےکہ وہ اپنے علم میں سے کچھ ہمیں عنایت فرمائے ، کیسی لذت ہے کہ انسان اس مقام تک پہنچ جائے کہ خداوند متعالی  اسے آواز دے ، ہم تو صرف  الفاظ میں خدا کی کبریایی اور جلال کو بیان کرتے ہیں ، ۔۔۔۔ لیکن یہ صرف الفاظ ہیں ، ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان خدا کے کبریایی کے ایک کنارے تک پہنچ جائے اور وہ فریاد نہ کرے ، لیکن جو یہ کہتا ہے کہ میں خدا کی کبریایی کو مانتا ہوں لیکن گناہ بھی کرے ، یہ واقعا تعجب آور ہے ، اگر کوئی  انسان خدا کے کبریایی پر یقین رکھتا ہو وہ دنیا کے کسی بھی مقام و منصب اور کسی بھی چيز کے اہمیت کا قائل نہیں ہوسکتا ، اس  انسان کے لئے سونے کا پہاڑ اور ایک تنکا برابر ہے ، ہزاروں مقام و منصب اور ہزاروں قدرتمند  بادشاہان اس  کے نزدیک کوئی  اہمیت نہیں رکھتا ، چونکہ وہ جانتا ہے جلال اور کبریایی اور بزرگی کہیں اور ہے ۔

انشاء اللہ ہم سب ان چیزوں کے بارے میں غافل نہ رہیں اور مناجات شعبانیہ سے اچھا استفادہ کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته

 

برچسب ها :