ماہ مبارک رمضان میں کوئی لحظہ ایسا نہیں ہے جس میں انسان ،خداوند متعالی کی رحمت ، برکت اور لطف و عنایت سے دور ہو

20 April 2024

07:38

۶۵۷

خبر کا خلاصہ :
خداوند متعالی ماہ مبارک رمضان میں ایک خاص دعوت اور مہمانی کا اعلان کرتاہے
آخرین رویداد ها

خداوند متعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک بار پھر ماہ مبارک رمضان کو درک کرنے کی توفیق حاصل ہوئی ، اور خدا کے اس مہمانی میں ہم سب دعوت ہوئے ، میں یہاں پر چند مطالب کی طرف توجہ کرنے کو ضروری سمجھتا ہوں :

 پہلا مطلب یہ ہے کہ خداوند متعالی نے سورہ بقرہ کی آيت 183 میں روزہ کے بارے میں فرماتا ہے  «يا ايها الذين آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون»، اس آیت کریمہ میں مخاطب مومنین ہیں ۔

اسی سورہ بقرہ کی آیت 21 کے آخر میں فرماتا ہے «لعلکم تتقون» لیکن وہاں پر مخاطب الناس اور تمام انسان ہیں «یا ایها الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتقون».

امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں : «المکلفین من وُلد آدم». "ناس" سے مراد فرزندان  آدم میں سے جو بالغ ہوئے ہیں وہ ہیں ۔

جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ قرآن اور اس کے  احکام صدر اسلام کے زمانہ سے مخصوص ہیں وہ  جاہل لوگ  ہیں ، قرآن کو جانتے ہی نہیں ہیں«یا ایها الناس» تمام لوگ ، یعنی چاہئے وہ لوگ جو قرآن کے نازل ہوتے وقت تھے یا وہ لوگ جو اس کے بعد قیامت تک آئيں گے ، حتی کہ قرآن کے نازل ہونے سے پہلے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں لیکن وہ اب ہے ہی نہیں ہیں کہ قرآن کے احکامات پر عمل کرے ۔

فرماتا ہے :: «أعبدوا ربکم» خدا کی عبادت کرو ، کیوں خدا کی عبادت کرے ؟ چونکہ اس نے تمہیں اور تم سے پہلے والوں کو پیدا کیا ہے ، «الذی خلقکم والذین من قبلکم»،عبادت صرف خالق سے مختص ہے ، انسان کو چاہئے کہ اسی کی عبادت کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے ،ہم اپنے ماں باپ کی عبادت نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے ہمیں خلق نہیں کیا ہے ، دنیا ، پتھر، لکڑی ، پانی ، زمین ۔۔۔۔۔ کی عبادت نہیں کر سکتے چونکہ ہمارے خالق نہیں ہیں ، خدا ہمارا خالق ہے ، چونکہ خدا خالق ہے لہذا اسی کی عبادت کرتے ہیں ، یہاں پر «اعبدوا ربکم» کے بارے میں  بہت اچھی روایات موجود ہیں کہ تفاسیر میں مراجعہ فرما سکتے ہیں ۔

اس کے بعد فرماتا ہے  «لعلکم تتقون»،عبادت انسان کو تقوا  تک پہنچا سکتا ہے ، یہ تمام عبادات کے بارے میں ہے یعنی خداوند متعال تمام عبادات کے بارے میں فرما رہا ہے ، ہر وہ عبادت جو اللہ کی عبادت ہو وہ انسان کے تقوا کا سبب بنتا ہے ، لیکن جب روزہ کے بارے میں ہو تو اسی خطاب کو صرف مومنین سے کرتا ہے ، اور صرف مومنین کو مخاطب بناتا ہے : «یا ایها الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون»، روزہ تمہارے اوپر واجب ہوا جس طرح تم سے پہلے والوں پر واجب تھا ۔

البتہ یہاں پر روایات میں فرماتے ہیں کہ گذشہ انبیاء پر بھی روزہ واجب تھے لیکن خداوند متعالی نے پیغمبر  کی امت اور خود پیغمبر (ص) پر جو لطف کیا وہ یہ ہے کہ اس روزہ کو ماہ مبارک رمضان میں واجب فرمایا ۔

اس بارے میں غور کرنا ہو گاکہ کیا اس آیت میں  جو «لعلکم تتقون» فرمایا ہے اور آیت 21 میں جو «لعلکم تتقون»   فرمایا ہے  دونوں ایک ہے یا نہیں ؟یعنی روزہ بھی دوسری عبادت کی طرح تقوا کا سبب ہے یا نہیں ؟بلکہ یہ بھی استفادہ کر سکتے ہیں کہ چونکہ اس آیت میں مخاطب بدل گئے ہیں اور «یا ایها الذین آمنوا»،فرمایا ہے ، جس سے مراد یہ ہے کہ روزہ  انسان کے لئے ایک خاص تقوا کا سبب ہے اور اسے تقوا کے ایک اوپر کے درجہ تک پہنچاتا ہے ۔

کبھی یہ پوچھا جاتا ہے کہ تمام مہینے اللہ ہی کے ہیں ، ہر گھڑی اور لحظہ خدا ہی سے مربوط ہے ، اس کے باوجود یہ کیا وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) سے منقول اس روایت کے مطابق ماہ رمضان کو اللہ کا مہینہ بتايا گیا ہے اور اسے اللہ سے منسوب کرتا ہے ؟ یہ صرف ایک تشریفاتی نام ہے یا اس میں کوئی خاص مطلب ہے ؟

جملہ «شهرٌ دعیتم فیه إلی ضیافة الله» بھی اس انتساب کی ایک دلیل ہے ، خداوند متعالی ماہ مبارک رمضان میں ایک خاص دعوت اور مہمانی کا اعلان کرتاہے ، خدا ہر مہینہ میں اپنے فرشتوں کے ذریعہ لوگوں کو دعوت کرتا ہے جیسا کہ ماہ رجب میں ایک فرشتہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ ہر رات یہ اعلان کرے کہ کون حاجت مند ہے کہ میں اسے کی حاجت کو پوری کروں ، کون دعا پڑھتا ہے کہ میں اس کی دعا کو مستجاب کرو ؟ تمام ایام میں اس طرح ہے ، لیکن ماہ رمضان کی دعوت ایک خاص دعوت ہے ، لہذا چونکہ مہمانی خصوصی ہے لہذا یہ مہینہ اللہ کا مہینہ ہو جاتا ہے ۔

«جعلتم فیه من اهل کرامة الله»، اس مہینہ میں آپ کرامت الہی کا اہل ہو گا ، یعنی خداوند متعالی دوسرے مہینوں میں اس انسان کی طرف دیکھتا ہے کہ کیا اس میں کرامت کی قابلیت ہے یا نہیں ؟ اگر کرامت کی قابلیت ہو تو اسے عطا کرتا ہے اور قابلیت نہ ہو تو ممکن ہے عطا نہ ہو ! لیکن فرماتا ہے کہ ماہ رمضان میں، میں نے اپنی کرامت کو تمہارے طرف جاری کیا ہے ۔

ان دو مطالب کو ایک ساتھ رکھیں ، خصوصا وہ جملہ جسے پیغمبر اکرم (ص) شعبان کے آخری جمعہ میں جو فرمایا :«نومکم فیه عبادة»، اس سے ایک مطلب بالکل واضح ہوتا ہے ؛ ماہ رمضان ایک ایسا مہینہ ہے کہ جس میں خداوند متعال اپنی عنایات کو ہر لحظہ ، دن رات ، روزہ کی حالت میں اور غیر روزہ کی حالت میں  انسانوں پر جاری کرتا ہے ، اس مہینہ میں شیطان زنجیروں میں جکڑا جاتا ہے اسی وجہ سے ہے کہ خداوند ہر لحظہ بشریت پر اپنی عنایات کو نازل فرماتا ہے ، کوئي ایک لحظہ ایسا نہیں ہے جس میں انسان رحمت ، برکت اور خدا کے لطف اور عنایت سے دور ہو ۔

اس عزیز مہینہ کی قدر کو جان لیں ، جس میں عبادت ، قرآن کی تلاوت ، خدا کے امور کے بارے میں غور و فکر «افضل العبادة التفکر فی ذات الله» ہے ، یہی درس و تدریس بھی  خدا کی عبادت کے مہم مصادیق میں سے ایک ہے ۔

اس بارے میں بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے ، کہ ماہ رمضان سے کامل طور پر استفادہ کریں ، خدا رحمت فرمائے امام خمینی ( رضوان اللہ تعالی علیہ) کو ، کہ ان کا ماہ رمضان کے بارے میں کچھ جملات ہیں کہ آئمہ معصومین (علیہم السلام) کے روایات کے بعد کسی کے کلام میں ایسے تعابیر نہیں پائی جاتی !فرماتا ہے : اس مہمانی کی شرط یہ ہے کہ مہمان صرف میزبان کی طرف توجہ رکھیں اور میزبان کے علاوہ کسی چیز کا قائل نہ ہو ، صرف خدا کی طرف توجہ کریں ! البتہ یہ بہت ہی مشکل ہے ۔

اگر مہمانی کے اعلی درجہ پر فائز ہونا چاہتا ہے اور اس درجہ کو درک کرنا چاہتا ہے تو غیر خدا اور دنیا کی طرف توجہ نہ کریں ، اس مہمانی میں خدا سے طلب کرین کہ ہماری عبادات صحیح ہو ، ہمارے نماز صحیح ہو ، ہمارے ذہن آلودگیوں اور گندگیوں سے پاک ہو ، یہ مہینہ؛ پاکیزہ کا مہنیہ ہے ، مہینہ کے ابتداء میں حساب کریں کہ کس قدر آلودہ گیوں نے ہمارے اندر رسوخ پیدا کیا ہے ، اور اس مہینہ کے آخر میں دیکھیں کہ اس مہینہ کی برکت سے کس حد تک ہم ان آلودہ گیوں سے پاک ہوئے ہیں ، ایسا نہ ہو کہ اس مہینہ میں نوافل اور مستحبات سے غافل ہو جائے ، مخصوصا نماز شب سے غافل نہ رہے ، آپ دیکھ رہے ہیں کہ انسا ن کا عمر کتنے جلدی گزر جاتی ہے ، معلوم نہیں ہے ماہ رمضان کے آخر تک زندہ رہیں گے يا نہیں ، آیندہ رمضان تو دور کی بات ہے ۔

ایک روایت جس کی سند کامل طور پر صحیح اور اعلی ہے ، کسی نے امام صادق (علیہ السلام) نے سوال کیا «ما الذی یباعد عنا الشيطان؟» کیا چیز ہمیں شیطان سے دور کرتا ہے ؟

اسی طرح کی روایت پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم  ) سے بھی نقل ہے کہ فرماتا ہے :«ألا أخبرکم بشیء إن أنتم فعلتموه تباعد الشیطان منکم کما تباعد المشرق من المغرب» کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز کی خبر دے دوں کہ اگر اسے انجام دیا تو شیطان تم سے دور ہو جائے گا ، اتنا دور ہو گا جتنا مشرق اور مغرب آپس میں دور ہے ۔

یہ بہت ہی اہم مطلب ہے کہ فرماتے ہیں : «الصوم یسودّ وجهه» روزه، شیطان  کے چہرہ کو کالا کر دیتا ہے ، یعنی  اس کا تم سے امید ختم ہو جاتی ہے ، «و الصدقة تکسر ظهره» صدقه دینا مخصوصا ماہ مبارک رمضان میں شیطان کے کمر کو توڑ دیتا ہے ، «و الحب في الله و الموازرة علی العمل الصالح یقطعان دابرة» خدا کی راہ میں محبت کرنا ، اور عمل صالح میں تسلسل قائم رکھنا شیطان کے تیروں اور نیزوں کو توڑ دیتا ہے ، «و الاستغفار یقطع وتينه»[وسائل: ج10، ص396 و 405] استغفار،  شیطان کے دل کی رگوں کو پھاڑ دیتا ہے ، اسی وجہ سے یہ سفارش ہوئی ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں  دعا اور استغفار کیا کریں ۔

امید ہے اس ماہ مبارک رمضان کو ہمارے عمر کے پربرکت ترین رمضان میں سے قرار دیں ۔

خداوند متعالی گناہوں کے پردوں کو ہم سے برطرف فرمائے ، اور ہمارے دلوں کو عبودیت اور بندگی کے لئے زیادہ سے زیادہ آمادہ کریں ، عبادت کی لذت کو زیادہ سے زیادہ قرار دیں ، دنیا کی محبت کو ہمارے دلوں سے نکال دیں ، اور اس ماہ مبارک رمضان اور لیلۃ القدر میں  جو کچھ اپنے بہترین بندوں مقرر فرمایا ہے ان سب کو ہمارے لئے مقدر فرمائے ۔

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته

برچسب ها :