حضرت حجةالاسلام والمسلمین جواد فاضل لنکرانی کی نظر ميں ایک جوان طالبعلم کی کاميابي کی راز اور توقعات

02 May 2024

09:45

۴,۳۳۹

چکیده :
جوان طالبعلم حوزہ کو معاشرے کے دوسرے مشغلوں کي طرح ايک مشغلہ نہ سمجھيں۔
وه اپنے ہدف سے مکمل طور پر آشنائي رکھتا ہو .
ميري نظر ميں طالب علموں کيلئے سب سے ضروري چيز انکي تربيت ہےاور انکے آخري ہدف کو بيان کرنا ہے.
نشست های علمی

حضرت حجةالاسلام والمسلمین جواد فاضل لنکرانی سے گفتگو کرتے ہوے ایک جوان طالبعلم کی  کاميابي اور توقعات

 ايک طالبعلم کي صلاحيت و رشد کے سلسلے ميں جو اہم پروگرام ہيں ان کويوں بيان کيا جا سکتا ہے

  ۱۔جوان طالبعلم حوزہ کو معاشرے کے دوسرے مشغلوں کي طرح ايک مشغلہ نہ سمجھيں۔

  اگر چہ حوزہ ،علم ،فرہنگ اور دين کا ايک مجموعہ ہے ۔ليکن اس بات کا خيال رکھنا ضروري ہے کہ

 اس مجموعہ کا دوسرے علمي مجموعات کے ساتھ ايک بنيادي فرق پاياجاتا ہے ۔

  طلاب کو جانناچاہيے حوزہ ميں موجود متون ،اس کے بہت سارے برکات اور اثار ہيں اور اسکے وجود کيلئے بہت ہي موثر ہيں يہ علوم کبھي کبھي انسان کو ايسے حقايق ميں تبديل کر ديتے ہيں جن کا کسي دوسري چيز سے مقابلہ نہيں کيا جاسکتا۔

 ہم حوزہ ميں اس بات کے معتقد ہيں کہ ہميں ان چيزوں پر تسلط اور آگاہي حاصل کرنا چاہتے ہيں

 کہ جن کو خداواند متعال نے ہمارے لئے بعنوان دين قرار ديا ہے ۔ حقيقيت ميں ہمارا ہدف کتاب خدااور اسکے دستورات کا سمجھنا ہے اور اس سے زيادہ قيمتي چيزکيا ہو سکتي ہے کہ انسان اپني زندگي دين کے سمجھنے ميں وقف کر دے ۔پس اس مسئلہ کو ايک طالبعلم کيلئے واضح ہو جانا چاہيے ۔اور جو قرآن ميں آياہے (انّمايخشي اللہ من عبادہ العلماء)بندوں ميں سے صرف علماءہي خداسے خشيت رکھتے ہيں اور خشيت ايک بہت بڑمقام ہے جو ايک انسان کو حاصل ہوتا ہے ۔

 ۲۔دوسرا نکتہ بھي پہلے نکتہ کي طرف پلٹ کر جاتا ہے اور وہ يہ ہے کہ ايک جوان طالبعلم اپنے ہدف سے مکمل طور پر آشنائي رکھتا ہو ۔کبھي کبھي ہميں ايسے سوالات سے رو بروہونا پڑتاہے کہ کئيں سال تعليم حاصل کرنے کي بعد ہم نے کيا حاصل کيا ہے ۔ اگر اس کا نتيجہ اجتہاد ہے تو کيا دنياے اسلام کو ايک فقيہ کي ضرورت ہے يا صرف ايک زبردست فقيہ بن جانا ہي کافي ہے ؟

 اس بناءپر ميري نظر ميں طالب علموں کيلئے سب سے ضروري چيز انکي تربيت ہےاور انکے آخري ہدف کو بيان کرنا ہے ،يعني متعددجلسات کو رکھ کے ان کيلئے کو اس بات کو واضح کرنا چاہيے۔اور اس سلسلہ ميں حوزہ کے فلسفہ کو طلاب کيلئے بيان کرنا چاہيے ۔

 پہلے نکتہ ميں گزر چکا ہے کہ ايک جوان طالبعلم کيلئے اس بات کو واضح کريں کہ طلبگي باقي کامو کي طرح ايک مشغلہ نہيں ہے ۔طلبگي کتاب مکاسب ميں مرحوم کي تعريف کے مطابق ،يعني جاہل کي ہدايت اور جاہل کي ہدايت قيامت تک ايک عالم کا وظيفہ ہے يعني ايک عالم دين کا وجود صر ف اسکي حيات ہي ميں موثر نہيں بلکہ مرنے کے بعدبھي لوگ اسکے وجود سے فائدہ حاصل کرتے رہتے ہيں اور قيامت تک وہ دين کو بچا کر رکھ سکتاہے ۔اور انسان کے اندر جتني معنويت ہو گي اتنا ہي وہ مقصد کو اچھے طريقے سے سمجھے گا۔اور ہر شخص اپني حيثيت کے مطابق اس دسترخوا ن سے بہرہ مند ہوتاہے ۔

ميري رائے يہ کہ حوزہ ميں مشاورت کميٹي تيار کي جائے اور جن علماءاور فضلاءنے اس راستے

 کو طے کيا ہے اس ميں حاضر ہوں اور ان مطالب کو طلا ب کے حوزہ ميں وارد ہوتے ہي بيان کريں

 ايک جوان طالبعلم کو اپنا مقابلہ دوسرے افراد کے ساتھ نہيں کرنا چاہيے اور دوسرے کاموں ميں

 موجود توقعات کي طرف توجہ نہيں دينا چاہے ۔

 ہم نے ديکھا ہے کہ لوگ حوزہ ميں کئيں سال تعليم حاصل کرنے کے بعدايک دفعہ حوزہ کو چھوڑکے دوسرے معمولي کاموں کي طرف چلے گئے۔البتہ اس بات کي کئيںاسباب ہوسکتے ہيں ۔کھبي کھبي کافي علمي صلاحيت کا نہ ہونا اس بات کا سبب بن جاتا ہے ۔

 ميري نگاہ ميں ان مشاورتي مراکز کي دوسري ذمہ داري يہ ہے کہ ہدف کو بيان کرنے کے بعد

 افراد کي صلاحيت کو ديکھيں تا کہ جن کے اندر کافي علمي استعداد نہيں ہے وہ اصلاًحوزہ ميں داخل نہ ہوں ۔

 اور يہ بات بہت ہي غط ہے جويہ کہتے ہيں کہ کل کم سے کم پيش نماز تو بن ہي جائے گا کيوں کہ امام جماعت کيلئے کچھ شرائط ہيں اما م جماعت کے اندر يہ صلاحيت ہونا چاہيے کہ فتوے کو اصلي کتابوں سے نکال سکے اور فتوے اور حکم کے درميان فرق کو سمجھتا ہوتاکہ جس وقت لوگ اس سے سوال معلوم کريں تو صحيح جواب دے سکے ۔اور جو خود علمي اعتبار سے ضعيف ہے وہ خود لوگوں کے درميان عاجز ہو کر رہ جائے گا ۔ اس لحاظ سے صرف وہ لوگ حوزہ ميں داخل ہوں کہ جنکے اندار اچھي صلاحيت موجود  ہو تاکہ وہ روحانيت کے مختلف پہلوں ميں کام کرسکيں ۔

 ۳۔ايک جواں طالب علم کے پاس تحصيل علم کيلئے ايک خاص پروگرام ہونا چاہيے ۔

 انقلاب اسلامي کے بعد حوزہ ميں ايک نظم پيداہوگيا اور عصر حاضر ميںحوزہ کے پاس نسبتاًاچھا

 پروگرام موجودہيں۔ ليکن يہ تحصيلي پروگرام مکمل طور پر لکھا ہونا چاہيے ليکن يہ پروگرام صرف شروع کے دس سال کيلئے ہو۔

اسکے بعد طالب علم کو کيا کرنا چاہيے اور ان دس سالوں ميں بھي کچھ شک اور شبہات باقي رہ جاتے ہيں کہ جن کو دور کرنے کي ضرورت ہے ۔

 اسي طرح طلاب کي صلاحيت کے مطابق برنامہ ريزي ہونا چاہيے تا کہ کل طالب علم جس موضوع ميں کام کرنا چاہے اس موضو ع سے علاقہ رکھتاہوتا کہ ايک عمومي دورہ گزارنے کے بعد اپني صلاحيت کے کسي دوسرے تخصصي موضوعات پر کام کر سکے ۔

 ۴۔طالب علم کيلئے دوسراضروري نکتہ تحقيق کا مسئلہ ہے پژوہش اور تحقيق حوزہ کے پہلے سالوں مين موجودنہيں تھي۔اگر تحقيق اور استدلالي بحثيں حوزہ ميں رائج ہو جايئں حوزہ ميں ايک بہت بڑي تبديلي رونما ہوجائے گي ۔ماضي ميں بھي افراد دروس کو تحقيق کي صورت ميں گزارتے تھے يعني جو طالبعلم ادبيات (صرف و نحو)کو پڑہتا تھا اس کو آيات قرآني پر تطبيق ديتا تھااور جيسے ہي پہلي اصول کي کتاب پڑہتا تھا فوراًصاحب کتاب پر اشکال کرتاتھا۔

 ۵۔آپ بعض بزرگان کي زندگي کا مطالعہ کريں جب وہ کتاب معالم کے پڑہنے ميں مصروف تھے

 تو انھوں صاحب کتاب پر بہت سے ايسے اعتراض کئے کہ جن کو مرحوم آخوند نے کفايہ ميں ذکر کياہے ۔

 تحقيق سے مراد يہ نہيں ہے کہ کسي ايک موضوع پرلگ جائے اور اس کو کسي نتيجہ تک پہونچائے،بلکہ عام تحقيق مراد ہے ،يعني ہر بحث ميں غور و فکر سے کام لے اور اس مسئلہ ميں اپني رائے پيش کرے۔

 اس طرح سے اسکے اندر پختگي آجائے گي ،ميں نے سنا ہے دنيا کے بعض معتبرعلمي مراکز ميں روانشناسوں کي تشخيص کي بنياد پر ريسرچ کو ابتدائي سالوں ميں ہي رکھ ديتے ہيں ۔

 پس حوزہ کہ جس کي بنياد تحقيق اور ريسرچ پر ہے اس پر بہت توجہ دينے کي ضرورت ہے۔

 ليکن افسو س کہ آج يہ چيز موجود نہيں ہے ۔اگر(صرف ونحو)کو پڑھےتيں ہيں ليکن اس کے

 کوئي تحقيق نہيں ہے اوراسي طرح دوسري کلاسوں ميں بھي کوئي تحقيق نہيں ہے۔

۶۔آج دنيا ميں بہت سارے علوم پائے جاتے ہيں اس لئے ہمارے ذہن ميں يہ نظريہ پيدا ہوا

 ہم علوم کو تخصصي طور پر سيکھيں ۔تا کہ ہر کوئي مختلف موضوعات تفسير ،فقہ ،فلسفہ حتي ٰفقہ کي مختلف ابواب ميں متخصص بن سکے ۔

 يہ بات درست ہے ليکن اس بات کي طرف کرنا ضروري ہے کہ اگر کوئي تفسير ميں کام کر رہا ہے وہ دوسرے موضوعات جيسے فقہ، عقايد ،تاريخ سے غافل ہو جائے اور يہ ايک بہت بڑا خطرہ ہے کہ ہم صرف ايک ہي موضوع پر کام کريں ۔

 ہمارا دين ايک جامع دين ہے ،اس لحاظ عالم دين کو بھي جامع ہونا چاہيے البتہ ہر کوئي تمام علوم پر مسلط نہيں ہو سکتاہے ۔

 ايک عالم دين کي قيمت اسکي جامعيت کي بناءپر ہے ۔ اچھي استعداد ہميشہ انسان کو تعليم ميں مشغول رکھتي ہے ۔انسان اس بات پر قادر ہے کہ وہ مختلف کو علوم حاصل کر سکے اور تجربہ نے بھي اس بات کوثابت کيا ہے ۔ اسي زمانے ميں امام راحل حضرت امام خميني (رہ)فقہ ميں سب کے سردار اور فلسفہ ميں بھي  سب سے پہلے صاحب نظر تھے اور اسي طرح وہ ايک بہت بڑے مفسر بھي تھے۔ عرفان ميں بھي صاحب نظر تھے۔اسکے بعد سے ہمارے پاس جامع عالم دين موجود نہيں ہيں اسکے باوجود کہ حوزہ کي ذمہ داري يہ تھي کي اس کے پاس جامع فارغ التحصيل موجود ہوں ۔

 طلاب سے اپکي کيا توقعات ہيں اور حوزہ کي موجودہ صورت حال کو اپ کيسے ارزيابي کرتے ہيں ؟

 اس سوال کے جواب کيلئے کچھ امور کو بيان کرتا ہوں کہ متقابل کي طالب علم سے کيا توقعات ہيں اور اسي سے حوزہ کي ذمہ دارياں بھي آشکار ہو جائيں گي۔

 ۱۔سب سے پہلا نکتہ يہ ہے کہ طلاب کو يہ جانناے چاہيے کسي حوزہ ميں موثر افراد واقعاًطالب علموں کيلئے دلسوز ہوتے ہيں اور يہي وہ فرق ہے جو باقي عملي مراکز کو حوزہ سے جدا کرتا ہے

بعض علمي مراکز ميں افراد جيسے ہي اس کے رئيس بنتے ہيں زيادہ اپنے ہي بارے ميں سوچتے رہتے ہيں يا کچھ سہوليات اور مزايا کي خاطر اس ذمہ داري کو قبول کرتے ہيں ۔

 ليکن حوزہ ميں ايسي چيز نہيں پائي جاتي اور طلاب کو اس نکتہ کي طرف توجہ رکھنا چاہيے

 حوزہ ميں موجود تمام افراد مرجع تقليد سے ليکر مدير سب کے سب طلاب کي خدمت ميں لگے ہوئے ہيں اور اس کو اپني ذمہ داري سمجھتے ہيں ۔اور انکي خواہش صرف يہي ہے کہ حوزہ کو ترقي ملے تا کہ ايک اسلامي معاشرے کي ضروريات کو پورا کر سکے ۔

 ۲۔حوزہ کے مديروں کي يہ ذمہ داري ہے کہ حوزہ ميں موجود مشکلات کو ديکھيں اور انکے لئے راہ حل تلا ش کريں ۔ مشکلات سے مراد برنامہ کے اندر موجود کمياں اور نواقص ہيں کہ ان کو دور کرنا چاہيے ۔

 حوزہ کے مسﺅلين طلاب کي رشد اور ترقي کيلئے فکر کريں ۔ اور اس راستے ميں موجود مشکلات کو برطرف کريں اس لئے کہ ان تشکلات کا اصلي وظيفہ يہي ہے

 پس ضروري ہے کہ ان کے پاس علمي ،رفاہي ،معنوي ،وغيرہ ہر طرح کا برنامہ موجود ہونا چاہيے

 طلاب کو بھي اس بات کي طرف توجہ رکھنا چاہيے کہ حوزہ ايک مستقل مرکز ہے نہ انقلاب سے

 پہلے اور نہ ہي اس کے بعدکسي شخصي يا حکومت کے زير نظر رہا ہے۔اور جب کسي مرکز کا استقلال ختم ہو جائے حقيقيت ميں اسنے اپني شکل و صورت کو کھو ديا ہے ۔

 ايک طالب علم کيلئے سب بڑا افتخار يہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو امام زمانہ کا سپاہي سمجھے نہ کسي حکومت يا گروہ  کا ۔ حوزہ اس دليل کے ساتھ کہ اس کي ايک مستقل حيثيت ہے اس کے ساتھ کچھ حديں بھي موجود ہيں۔ ايک جوان طلب علم کو ان رکاوٹوں سے آشنا ہونا چاہيے اور اپني زندگي کو اسي اعتبارسے گزارنا چاہيے اس لئے کہ جتنا بجٹ دوسرے علمي مراکز کے پاس موجود ہے اتنا بجٹ حوزہ کے پاس نہيں ہے ۔

 حوزہ قديم زمانے سے رقوم شرعيہ کي وجہ سے چلتا رہا ہے اور اب بھي انھيں رقومات شرعيہ کيوجہ سے چل رہا ہے ۔

 اس بات کي طرف توجہ رکھنا چاہيے اسي بات کي بناءپر پوري تاريخ ميں حوزہ ميں ايک خاص برکت رہي ہے۔ طلاب کي بھي يہي توقعات ہيں کہ انکي صلاحيتوں کا پرکھا جائے اور اسکے بعد ان کي استعداد اور صلاحيت کے مطابق ايک منصوبہ بنايا جائے تاکہ طالب علم جلدي سے ترقي کي منزلوں کو طے  کرتا ہوا آگے بڑھ سکے ۔

 ايک بہتريں علمي مجموعہ وہ ہے جو ايک طالب علم کي ترقي کے تمام راستوں کو ہموار کر سکے ۔

 مرکز فقہي ائمہ اطہار عليھم السلام کي بنياد بھي اسي بنا ءپر رکھي گئي تھي ،اس سلسلے ميں ہم نے حوزہ کے  برجستہ اور نامور اساتيد سے درخواست کي کہ وہ لائق اور ہو نہار طالب علموں کي معرفي کريں تا کہ ہم ان کيلئے ايک خاص پروگرام بنا سکيں ۔ہمارا ہدف ايسے افراد کي تربيت کرنا ہے جہ فقہ ميں ماہر ہوں اور اجتہاد کے بلند تر ين درجہ تک پہونچ سکيں ۔

 ہمارا پروگرام اس مرکز ميں کچھ اس طرح سے ہے کہ ابتداءميں طلاب کتابوں پر مسلط ہو جائيں

 اور جتنا ممکن ہو سکے کتاب کے حاشيہ کي طرف بھي رجوع کريں ۔

  اوراس کے بعد فقہ کے مختلف ابواب ميں کتاب لکھيں جيسا کہ زمان قديم سے رسالہ لکھنا حوزہ کے ايک رائج امور ميں سے تھا کہ ہر طالب علم سال ميں ايک يا دو دفعہ ايک رسالہ لکھتا تھا اور اس کو پيش کرتا تھا ۔

  ليکن يہ کام ان آخري سالوں ميں کچھ کم رنگ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ليکن يہ کام الحمد للہ مرکز

  فقہي کي وجہ سے دوبارہ زندہ ہوا ہے البتہ يہ کام بھي کافي نہيں ہے ۔

  اس لئے کہ حوزہ کا نظام ايسا ہونا چاہيے کہ طالب علم جس موضو ع ميں شوق رکھتا ہے اسکے مطابق پروگرام بناياجائے۔

جيسا کہ اپ جانتے ہيں ممتاز طالبعلموں کيلئے کچھ انعامات کا سلسلہ قائم کيا گيا ہے آپ کي اس بارے ميں کيا رائے ہے ؟

 يہ حوصلہ افزا ئي اور انعامات ان لوگوں کيلئے ہيں جو اس مرحلہ تک پہونچے ہيں اور اچھے نمبرات

 حاصل کئے ہيں کہ يہ اپني جگہ پر بہت مفيد ہے ،ليکن ميري بات يہ ہے کہ ہم نے طلاب کيلئے کيا کيا کہ وہ اس درجہ تک پہونچے ہيں ہم نے کيا پروگرام بنايا تھا کہ جسکي وجہ سے طالبعلم اس مقام تک پہونچا ہے اور اس نے اپني چھپي ہوئي صلاحيتوں کو اجاگر کيا ہے ۔ميں آگاہ ہوں کہ ان سالوں ميں ممتاز طالبعلموں پر ايک خاص نگاہ ہے جيسا کہ دفتر مقام معظم رہبري نے اس سلسلہ ميں بہت اچھے قدم اٹھائيں ہيں ،ليکن يہ سارا کچھ ان لوگوں کيلئے ہے کہ جنہوں نے اپنے آپ کو اس مقام تک پہونچاياہے ۔

 البتہ جو لوگ حوزہ ميں تازہ داخل ہوے ہيں انکے لئے الگ سے برنامہ ريزي کرنا چاہيے

 تا کہ وہ بھي اول درجہ حاصل کر سکے البتہ اس سلسلہ ميں بھي کام ہو رہا ہے اور حوزہ کوبھي ان کيلئے برنامہ ريزي کرنا چاہيے کيونکہ يہ کل کے نخبگان ہيں ۔

 جوان طلاب کي حمايت ،کنٹرول اور انکي ہدايت کيلئے کن چيزون کو بروئے کار لانا ضروري ہے ؟

  اس سوال کے جواب ميںچند نکتوں کي طرف مختصر طور پر اشارہ کرتا ہوں

 ۱۔طلاب کي کاميابي کے عوامل ميں سے ايک عامل علمي ،معنوي ميدان ميں علماءاور مراجع لگاو ہے

  ماضي ميں يہ رابطہ بہت ہي محکم اور گہراتھااس طريقہ سے خود بزرگان طلاب کے کمروں ميں جاتے تھے اور انکے ساتھ ايک دستر خوان پر بيٹھ کر کھانا کھاتے تھے يا کھبي کھبي انکي دعوت کرتے تھے ليکن افسوس کہ آج يہ چيز حوزہ ميں بہت کمرنگ ہو چکي ہے ۔

ميري نظر ميں ايک ايک طالب علم کي رشد اور ترقي علما ءاور بزرگان کے ساتھ بيٹھنے اور انس اختيار کرنے ميں ہے ۔اور ميں نے اس نکتہ کيطرف کئي باراشارہ کيا ہے کبھي کھبي ميں ديکھتا ہوں

 ايک طالب علم کئي سال حوزہ ميں رہنے کے باوجود اس کو اس بات کي خبر نہيں کہ شہر ميں ايک عالم يا مرجع تقليد کا گھر کہاں ہے ۔اور کھبي طالب علم اس با ت کا احساس ہي نہيں کرتا کہ فلان مرجع تقليد کے گھر چليں اور اس سے استفادہ کريں ۔

  روايات ميں بھي آيا ہے کہ ايک عالم دين کے چہرہ کي طرف نگاہ کرنا عبادت ہے ۔

  اور علماءاور فضلاءکي ساتھ ہمنشيني کے سلسلہ ميں اسلام اور ائمہ طاہرين نے بہت تاکيد کي ہے علماءدين کے ساتھ ہمنشيني اور خلوت سب کيلئے ايک درس ہے اس لئے کہ انکي تمام حرکتيں ائمہ اطہار کے دستورات کے مطابق ہيں ۔

 اگرہمار ااٹھنا،بيٹھنا علماءکے ساتھ نہيں ہو گا تو پھر ہم ايسے راستے پر چل رہے ہيں کہ جس کے انجام کي  ہميں کوئي خبر نہيں ۔ کيا يہ مسئلہ مراجع عظام کے دفاتر کے مسﺅلين سے مربوط ہے؟ ايک طرف دفاتر کے مسﺅلين ہيں اور دوسري طرف حوزہ کے مدير کہ انکو چاہيے کہ ہفتہ ميں

 ايک دو مدارس کے طلاب کو کسي ايک عالم دين يا مرجع تقليد کے حضور ميں لے جائيں ايسے علماء کہ جن کي طرف نگاہ کرنا انسان کے اندر نورانيت پيدا کرتا ہے ايک وہ طالب علم جسکا

 اٹھنا بيٹھنا علماءکي ساتھ ہے وہ دوسرے طلاب سے اخلاقي، علمي اعتبار سے کاملاًممتا ز ہے۔

 دوسرا نکتہ کہ جس کي طرف طلاب توجہ کريں اور يہ انکي ترقي ميں بہت ہي موثر ہے وہ درس سے پہلے مطالعہ کرنا اور اس درس کا مباحثہ کرنا ہے اور اسي طرح درس کا لکھنا بھي بہت ضروري ہے ۔

اور پہلے حوزہ ميں اس بات کي بہت اہميت تھي اور يہ چيزيں خود طلاب کي ترقي کا باعث بنتي ہيں ۔  اور دلچسب بات يہ ہے کہ آج دنيا کے بڑے بڑے علمي مرکزميں اس روش پرخاص توجہ دي جاتي ہے

  افسوس کي بات ہے آج حوزہ ميں يہي چيز موجود نہيں ہے ۔

  يہاں پر علمي مراکز طالب علم کي راہنمائي کر سکتے ہيں کہ وہ کس درس ميں شرکت کرے اور کس سے مباحثہ کرے ۔

 پہلے حوزہ ميں علماءکسي خاص مقصد کي خاطر حوزہ ميں داخل ہوتے تھے ليکن آج ايسا نہيں ہے آج زيادہ ماديت کي طرف توجہ ہے اپ کي نگا ہ ميں حوزہ ميں ايسي تبديلي کيوں رونماہوئي؟

  البتہ مجھے اس بات پر يقين نہيں ہے ۔ انقلاب اسلامي کي وجہ سے حوزہ کي ذمہ داريوں ميں

 اضافہ ہو گياہے۔يہي چيز اس طات کا سبب بني ہے کہ طلاب کچھ عرصہ تعليم حاصل کرنے

 بعد کسي ايک ادارہ ميں کوئي عہدہ سنبہالے۔ يا عدالتي نظام ميں يا کسي يونيورسٹي ميں پڑھائے اس کا مطلب يہ نہيں کہ نگاہ بدل گئي ہے ۔

 اگر ہم چاہيں اس کے نقصانات کے بارے ميں گفتگو کريں تو وہ صرف ہدف اور مقصد کو بھول

 جانا ہے ۔طاب علم کو پہلے ہي مرحلہ ميں ا س بات کو جاننا چاہيے کہ صرف دين کو سمجھنے کيلئے حوزہ ميں داخل ہوا ہے تو ايسي صورت ميں وہ تمام پہلوں ميں تاثير گزار ثابت ہو سکتا ہے ۔اس لئے کہ دين کو صحيح سمجھنے کے بعد ہي دين کو معاشرہ تک منتقل کر سکتا ہے اور يہ و ہي چيز ہے جس کي طرف  قرآن کريم نے اشارہ کيا ہے (فلولا نفرمن کل فرقةطائفةليتفقھوا في الدين ۔۔۔۔)

 يہ آيت اس بات کي طرف اشارہ کرتي ہے کي تبليغ دين ہم علما ءکي ذمہ داري ہے اور دين ايک بہت بڑے مجموعہ کا نام ہے کہ جس کے گوشہ گوشہ کو سمجھنے کيلئے ايک لمبي عمر کي ضرورت ہے ۔اسي وجہ ايک طالب علم اپني زندگي کو سستي اور عيش عشرت ميں نہيں گزارتا۔اور اپني زندگي کے ايک لمحہ کو بھي بيکار نہيں گزارتا۔

اپني زندگي اور وقت کي قيمت کو خوب سمجھتا ہے پھر کھبي بھي تھکاوٹ کا احساس نہيں کرتا صر ف صرف اپنے دف اور مقصد کے بارے ميں سوچتاہے ۔

 کسي چيزميںتکھاوٹ در حقيقت اس سے لطف اندوزنہيں ہونا ہے اور طالب علم پڑہنے ميں دلچسبي سے کام ليتا ہو تو وہ کبھي بھي اپني پڑھائي سے تکھاوٹ کا احساس نہيں کرتا ہے ۔

 طالب علم يا دسرے الفاظ ميں مولوي بننا يعني بدعتوں ،معاشرہ ميں موجود خرافات سے مقابلہ کرنا ۔

 پھر اس سے زيادہ قيمتي چيز کيا ہو سکتي ہے کہ اس کا وجود معاشرہ کيلئے مفيدہو۔

 اگر طالب علم ايسي روش ا کا نتخاب کرے تو وہ اچھے طريقے سے معاشرے ميں دين کي خدمت کر سکتا ہے ۔ايران ميں انقلاب اسلامي کي وجہ سے اسلام اور شيعوں کي آواز دنيا کے کونے کونے تک پہونچي اور ہر روز طرح طرح کو سوالات حوزہ کيلئے بھيجے جاتے ہيں کہ جن کاصحيح جواب دينا چاہيے ۔

 طلاب کي ذمہ داري يہ ہے کہ دين کو صحيح سمجھنے کے بعد ان سب شبہات کے جوابات ديں ۔

 اور کاندہوں پر بہت بڑي ذمہ داري ہے کہ جس کو ہميں انجام دينا چاہيے۔

 يہاں پر ہميں اس بات کي طرف دہيان ديناچاہيے کہ انقلاب اسلامي کا حوزہ کي گردن پر بہت

 بڑا حق ہے ۔ہم آے دن حوزہ ميں نئي نئي تبديليوں کا مشاہدہ کرتے ہيں ۔اور يہ باتيں اکثر لوگوں کيلئے قابل فہم نہيں ہيں ۔مثال کے طور پر جب داروسازي ميں کوئي پيشرفت ہوتي ہے تو سب ا س کي طرف متوجہ ہو جاتے ہيں ليکن جب حوزہ ميں کوئي چيز کشف ہوتي ہے تو کوئي بھي ا س سے با خبر نہيں ہوتا ، امام خميني (رہ)نے ولايت فقيہ اور اسلامي حکومت کي تشکيل کو اسي دين سے سمجھا ،تو کيا اس مسئلہ کا  دوسرے علوم کہ وسعت سے مقابلہ کيا جا سکتا ہے ؟

 پس طلاب کو يہ جاننا چاہيے کہ حوزہ ،علمي اعتبار سے ترقي کر رہا ہے نہ يہ کہ ہم صرف گزشتہ لوگوں کے علوم کو لکھ اور پڑھ رہے ہيں آج بھي ايسے ہزاروں تفسيري فلسفي فقہي اور کلامي مسائل ہيں جنکا مناسب جواب نہيں ملاہے اور طلاب کو اس بات کي کوشش کرنا چاہيے اور ان سب سوالات کے جوابات دينا چاہيے۔

 حوزہ علميہ پر انقلاب کي دوسري تاثير کہ جس کو نظر انداز نہيں کرنا چاہيے وہ يہ ہے کہ انقلاب نے دين کو عملي جامہ پہناياہے۔آج ہم سائينس اورعلوم انساني ميں کافي اسلامي نظريات کے شاہد ہيں حوزہ نظام ميں ہر جگہ نظارت رکھتا ہے اور ہر جگہ پہ پہلي بات کرتا ہے ۔

 س:انقلاب کي وجہ سے حوزہ ميں بھي ايک علمي انقلاب رونماہو اہے اور حوزہ کي بنياد بھي علم اور اخلاق پر رکھي گئي تھي تو کيا حوزہ ميں اخلاقي انقلاب بھي وجود ميں آيا ہے کہ نہيں ؟

 اس بات کو واضح ہونا چاہيے کہ اخلاقي انقلاب سے مراد کيا ہے ۔افسوس کي بات يہ ہے

 اخلاقي ميدان حوزہ اج بہت پيچھے ہے اور کيوں پيچھے ہے اس کے عوامل کا جاننے ضروري ہے

 ہميں اس بات کي طرف رکھنا ضروري ہے کہ پہلے حوزہ ميں طلاب کي تعداد بہت کم تھي

 اور يہ بات معلوم تھي کہ کون لوگ سير وسلوک والے ہيں ۔ اس وجہ سے بزرگان اخلاق کافي موثر تھے ليکن اج حوزہ ميں کافي تعداد ميں علمائے اخلاق موجود ہيں چونکہ حوزہ ميں کافي وسعت آگئي ہے اس لئے درس اخلاق کا کوئي خاص نقش نہيں رہا۔

برچسب ها :