سوانح حیات

حضرت اّیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی (دام عزہ) کے مختصرحالات زندگی


پیدائش اور بچپن


حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی (دام ظلہ )، مرجع جہان تشیع حضرت آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی قدس سرہ کے فرزند گرامی ہے آپ سنہ 1341 ہجری شمسی بمطابق 1383 ہجری قمری ماہ رجب المرجب میں حضرت امام جوادعلیہ السلام کے ولادت باسعادت کے دن شہر مقدس قم میں پیدا ہوئے ۔

 آپ کے والد گرامی نے اس فرزند ارجمند کے پیدایش سے پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ خداوند ان کو ایک فرزند عطا کر ے گا جو ان کے بدن سے جڑاہوا ہے ،اس خواب کی یہ تعبیر ہوئی کہ یہ بچہ بیٹا ہو گا اور اپنے والد گرامی کی طرح روحانی ہوگا ۔


تعلیم

آپ نے مدرسہ ''سنائی ''قم میں تعلیم کا آغاز کیا، لیکن جب شاہ ایران کی منحوس طاغوتی حکومت نے آپ کے والد محترم کو شہر یزدکی طرف شہر بدر کیا ، تو آپ بھی وہاں جانے پر مجبور ہوئے اور وہیں پر دوبارہ پڑھائی کا آغاز کر دیا ، اس کے بعد قم واپس تشریف لائے اور ایف اے سائنس تک پڑھا آپ جب میٹرک میں پہنچے تو سنہ 1356 ہجری شمسی میں اسکول کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم بھی شروع کر دی تھی ،یہ ایام اسلامی انقلاب کے ابتدائی ایام تھے اوراکثر اً تعلیمی مراکز بند رہتے تھے ،لیکن آپ نے بہت ہی ہمت اور جدیت کے ساتھ حوزہ علمیہ کی سطحیات کی کورسز کو خصوصی اساتید کی مدد سے مختصر مدت میں ختم کیا اور سنہ 1361 ہجری شمسی میں فقہ اور اصول کے دروس خارج میں شرکت کرنا شروع کر دی ۔


آپ کے اساتذہ کرام


آپ نے بہت سارے بزرگ علماء کے سامنے زانو تلمذ خم کیے ، ادبیات کو استاد بیگدلی ۔ کہ ابھی بھی حوزہ کے برجستہ اساتید میں شمار ہوتا ہے ۔ کے پاس پڑھا ، رسائل اور کفایہ جلد دوم کو آیت اللہ سید رسول موسوی تہرانی اور آیت اللہ اعتمادی کے پاس پڑھا ، اور کتاب مکاسب کو بھی خصوصی طور پر آیت اللہ پایانی کے پاس پڑھا ، جب سطحیات ختم کر لیں تو تخصصی اور اجتہادی دروس کے لئے اپنے والد محترم کے دروس میں شرکت کی ،اور حدوداپندرہ سال تک اپنے والد بزرگوار کے دروس سے بہرمند ہوتے رہے ،اور سات سال تک مرجع بزرگوار حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی مدظلہ العالی کے دروس میں شرکت کی ، اسی طرح حضرت آیت اللہ سید کاظم حائری کے دورس سے بھی کئی سال بہرمند ہوتے رہے ۔

عقلی مباحث ،شفاء ،اسفار اور اشارات اور تفسیری مباحث کو برجستہ اساتید جیسے حضرت آیت اللہ حسن زادہ آملی اورحضرت آیت اللہ جوادی آملی سے حاصل کیا ،اور علم ہیئت کے لیے حضرت آیت اللہ حسن زادہ سے مستفیذ ہوئے ۔


تدریس


آپ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تدریس کے میدان میں بھی بہت فعال تھے او ر اب تک 25 سال سے زیادہ ہوچکے ہیں آپ تدریس کی کرسی پر رونق افروز ہیں اور بہت سارے فضلاء اور تشنہ گان علوم دینی کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں فیضاب کر رہے ہیں ،آپ نے ٥ دفعہ کتاب ''معالم '' ،تین دفعہ کتاب ''اصول فقہ '' ،کتاب ''شرح لمعہ '' کو کئی مرتبہ چندیں دفعہ اور تین بار ''کتاب مکاسب '' اور چار دفعہ سے زیادہ ''کفایة الاصول '' کی تدریس کی ہے ، اورگذشتہ 13 سال سے درس خارج اصول اور فقہ پڑھانے میں مصروف ہیں ،اور حوزہ علمیہ قم کے طلاب کے درمیان یہ بات زبان زد عام ہے کہ آپ کے دورس بہت گہرے اور عمیق ہوا کرتے ہیں ۔

آپ کے دروس کی آڈیو ریکارڈنگ کے علاوہ ، ان کو جزوات کی شکل میںبھی لکھا جاتا ہے اور وہ محققین جو درس میں شرکت نہیں کر پاتے ان کے لئے فراہم کیے جاتے ہیں اسی طرح سائیٹ میں بھی آڈیو اور ڈیٹا کی شکل میں موجود ہے اور بہت سارے فضلاء اور محققین ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔


تالیفات


 حضرت استاد معظم تدریس کے علاوہ ،مقالات اور کتابوں کی تالیف میں بھی خصوصی دلچسبی رکھتے ہیں ،اسی وجہ سے بہت بڑے بڑے علمی سیمناروں، جیسے شیخ اعظم انصاری ، مقد س اردبیلی ،اور امام خمینی رحمہم اللہ کے نام سے منعقدہ سیمناروں میں شریک ہوئے اور متعددعلمی مقالات تحریر فرمائے ، یہ مقالات چھپ چکے ہیں اور آپ نے خود ان سیمناروں میں ان مقالات کو پڑھ کر سنایا ہے ۔مقالات کے علاوہ اب تک فقہ ،اصول اور قرآنی موضوعات میں مختلف کتابیں چھپ چکی ہیں۔

جدید مورد ابتلاء مسائل میں آپ کے بیانات اور مراسلات قابل ستائش ہیں اورجدید مورد ابتلاء مسائل کا بیان آپ کے علمی مباحث کی خصوصیات میں سے ہے ، جیسے'' اجتہاد میں زمان اور مکان کی تأثیر'''مصنوعی طریقہ سے حاملہ ہونے کا حکم'' ''حق التالیف'' ''مسجد الحرام کے پہلے طبقہ سے طواف کرنے کا حکم'' اور'' چاند دیکھنے کے لئے جدید آلات اور دوربینوں کا استعمال'' آپ کے انہیں مباحث میں سے چند ایک ہیں ، ان موضوعات کے بارے میں کچھ تالیفات بھی چھپ چکی ہیں ، جن میں فقہی اور اصولی جدید نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں ،ان مباحث اور گفتگو کوآپ نے تفصیلی طور طور پر بیان فرمایا ہے ، اور آپ کی کتاب قواعد فقہیہ اور قانون ''لا حرج و ضمان ید '' کے بارے میں لکھی گئی کتابیں ہمارے اس مدعا کی ایک بہترین دلیل ہے ۔

آپ کی ایک اور انفرادی خصوصیت یہ ہے جب کسی بحث کو شروع کرتے ہیں تو اس کے بارے میں سیر حاصل بحث کرتے ہیں قرآنی مباحث اور آیات الاحکام ۔خمس ،پردہ ، نکاح اور معاد سے مربوط آیات کے بارے میں تفصیلی طور پر بحث کی ہے آپ نے ان مباحث کو ایسے طریقے سے بیان فرمایا ہے کہ انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والے تمام سوالات کا جواب ان کے اندر موجود ہوتا ہے ۔

حضرت آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی نے اپنے والد بزرگوار سے سنہ 1376 ہجری شمسی میں اجتہاد مطلق کا اجاز ہ حاصل کرنے کے علاوہ، حوزہ علمیہ کے اعلی کمیٹی سے بھی مورخہ 3/8/1381کو شعبہ فقہ و اصول میںاعلی نمبروں کے ساتھ سطح چار کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جوکہ درجہ اجتہاد ہے ۔


علمی اور ثقافتی امور


علمی مباحث کو خاص اہمیت دینے کے علاوہ ،مقام مرجعیت کے دفاتر جو مختلف شہروں اور ملکوں میں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے مختلف شعبہ جات ہیں ،ان سب کی ذمہ داری آپ پر ہے ،آپ ہر لحاظ سے اپنے والد محترم کے قابل اعتماد اور مورد تأیید تھے ،والد محترم کی پندرہ سالہ مرجعیت کے دوران تمام استفتائات اور انٹرنیٹ سے آنے والے سوالات کے بارے میں اس عظیم مرجع کے حکم کے مطابق حضرت استاد کی تأیید کے بعد ہی منظر عام پر آتے تھے ۔

اس کے علاوہ'' مرکز فقہی آئمہ اطہار علیہم السلام ''کی صدارت بھی آپ ہی کے عہدہ پر ہے ، یہ مرکز فقہ اور اجتہاد میں پہلا تخصصی مرکز ہے جس کی آپ کے والد معظم( قدس سرہ) کے حکم سے سنہ 1376ہجری شمسی میں بنیاد رکھی گئی ، اوراب یہ زمانہ سے آگاہ مجتہدوں اور فقہیوں کی تربیت کر رہا ہے تا کہ جوان نسل کے دینی اور فقہی سوالوں کا جواب دے سکے ۔

حوزہ علمیہ قم المقدسہ کے علمی مراکز میں یہ ایک اہم مرکز شمار ہوتا ہے اور حوزہ علمیہ کے بزرگوں اور اعاظم کا مورد توجہ ہے ، اس مرکز میں تعلیم کے علاوہ فقہ اور اصول سے متعلق ایک لائبیریری بھی ہے جوصاحبان نظر کے نظریہ کے مطابق اس شعبہ سے متعلق اہم لائبریری ہے ،اس مرکز میں تحقیقی کاموں پر بھی توجہ دی جاتی ہے ،اور طلاب علوم دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ فقہی ، اصولی ،رجالی اور تفسیر ی موضوعات میں تحقیقات انجام دیتے ہیں ۔

مرکز فقہی آئمہ اطہار علیہم السلام کے علاوہ استاد محترم نے اپنے والد معظم کے حکم پر سنہ 1379ہجری شمسی سے حوزہ علمیہ قم میں پہلی بار باصلاحیت طلاب کے لیے سطحیات تک کے لئے بھی ایک خصوصی علمی کمیٹی تشکیل دی ہے اس وقت حوزہ میںاس علمی کمیٹی کے آثار اور برکات نمایاں ہیں اور اب تک متعدد فضلاء کی تربیت کر چکی ہے ۔

حضرت استاد ان تمام مصروفیات کے علاوہ اپنے والد محترم کے وصی بھی ہے، اور اس مرجع تقلید کے تمام علمی اور مالی امور انہیں کے سپرد ہوئے ہیں ،اس وقت ان کے والد محترم کی وفات سے دوسال گزر گئے ہیں اور مراکز فقہی شہرمقدس قم، مشہد ، اسی طرح افغانستان اور شام میں پہلے سے زیادہ اچھے انداز میں سرگرم عمل ہیں ، اور اس مرجع عظیم کے دفاتر بھی ان کے مقلدین کی خواہش کے مطابق حسب سابق کھلے ہیں اور لوگوں کے جوابات اور شرعی احتیاجات کے لئے کام کررہے ہیں ۔


سیاسی سرگرمیاں


ملت ایران کے قیام کے ایام میں استاد معظم ہمیشہ پوری قوم کے ہمگام رہے ،اور جب ان کے والد بزرگوار کو شہر یزد کی طرف شہر بدر کیا گیا ،تو اس وقت آپ ایک نوجوان تھے اور چھٹی کلاس میں پڑھ رہے تھے ، انہیں ایام میں عاشوراکے دن حظیرہ یزد(یزد کی مسجد محمدیہ ) میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام اور اس کے اہداف کے بارے میں ایک مقالہ پیش کیا اس مجلس میں شاہی حکومت کی خفیہ پولیس ''ساواک '' کا سب سے بڑا افسر بھی موجود تھا اور وہ اس مقالہ کو سن کر بہت غضب ناک ہوا ۔

والد بزرگوار کے شہر بدری کے ایام میں آپ ہمیشہ ان کے ساتھ رہے اورانقلاب کے مسائل سے آگاہ رہتے تھے، انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی ہمیشہ نظام اور انقلاب کے مدافعین میں سے رہے اورعراق کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ میں متعد د بار باطل کے مقابلہ میں جنگ میں حاضر ہوئے ۔

آپ سنہ 1374 ہجری شمسی میں بزرگوں کی دعوت سے حوزہ علمیہ کے بزرگ علماء کے اعلی تنظیمی ادارہ ،جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم'' کے ایک اہم رکن کے طور پر انتخاب ہوئے ۔

۶۱