حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی دامت برکاتہ سے حجاب کے بارے میں گفتگو
23 December 2024
22:34
۶,۳۳۳
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
پردہ کے بارے میں فقہی مسائل کو قرآن کریم کی آیات اور رویات میں بہت ہی سنجیدہ طریقہ سے توجہ کرنے کی ضرورت ہے ، روشن فکر افراد کی طرف سے کی پر بھی پردہ واجب نہ ہونے کے بارے میں جو شبہات ایجاد کیا اس بارے ہم مرجع جہان تشیع حضرت آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی (قدس سرّہ) کے فرزند گرامی اور فقہ اور اجتہادکے تخصص کا پہلا منفردادارہ مرکز فقہی آئمہ اطہار (ع) کے صدر حضرت آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ ) کے خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ ان شبہات کے بارے میں فقہی جوابات سے ہمیں آگاہ کرائیں۔<?xml:namespace prefix = o ns = "urn:schemas-microsoft-com:office:office" />
صاحبان فقہ کے کچھ افراد فقہی مبانی سے استناد کرتے ہوئے پردہ کے بارے میں جدید نظریات کو بیان کرتے ہیں ،بعض کہتے ہیں کہ حجاب پیغمبر اکرم(ص) کے زمانہ کے حکومتی احکام میں سے تھے یہ کہتے ہوئے اس کے ضروری اور واجب ہونے کے بارے میں شک و تردید کرتے ہیں،بعض کہتے ہیں کہ یہ صرف اخلاقی لحاظ سے واجب ہے دینی لحاظ سے واجب نہیں ہے ، آپ فرمائیں کہ اسلامی حجاب کے رعایت کرنے کے بارے میں علماء کا مورد اجماع فقہی حد کیا ہے اورکن مبانی کے مطابق یہ مخالف نظریات سامنے آتے ہیں.
حجاب کا زمان پیغمبر اکرم(ص) میں حکومتی احکام میں سے ایک ہونا یا صرف اخلاقی لحاظ سے اس کا واجب ہونا نہ کسی آیت سے مطابق رکھتا ہے اور نہ ہی ہماری روایات سے ، اور نہ ہی صدر اسلام سے لے کر اب تک کسی شیعہ یا اہل سنت کا یہ نظریہ ہے ، یہ وہم اور گمان عصر حاضر کے بعض روشنفکروں اور ان افراد کی طرف سے وجود میں آیا ہے جو چاہتے ہیں کہ دین کو کسی طرح سے تہس نہس کرے ، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ
آہستہ آہستہ سے معاشرہ اور لوگوں کو دینی حقایق سے دور کرے اسی لیے یہ لوگ ان باتوں اور اپنے خیالی مطالب کو بیان کرتے ہیں ۔
خداوند متعالی نے سورہ مبارکہ احزاب اور نور میں مسئلہ حجاب کے بارے میں کچھ مطالب ارشاد فرمایا ہے اور اس بارے میں کچھ آیات نازل کی ہے ، ترتیب کے لحاظ سے اگر دیکھیں تو قرآن کریم میں سورہ نور سورہ احزاب سے پہلے ہے لیکن تاریخی لحاظ سے سورہ احزاب میں حجاب کے بارے میں موجود آیات سورہ نور کی حجاب کے بارے میں موجود آیات سے پہلے نازل ہوئیں ہیں ،سورہ احزاب میں تین(٣) آیات ہیں کہ فقہ اور تفسیر میں ان کے بارے میں مفصل گفتگو ہوئی ہے ۔
ان آیات میں سے ایک سورہ مبارکہ احزاب کی آیت ٥٣ ہے کہ اس میں خداوند متعالی فرماتا ہے :«وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ»اہلیت کے رسم ورواج کے مطابق جب مرد گھر میں داخل ہوتے تھے تو اندر آنے کی اجازت نہیں لیتے تھے اسی وجہ سے خداوند تبارک و تعالی نے اس آیت کو نازل فرمایا اور فرمایا: اگر کوئی پیغمبر اکرم(ص) کے زوجات میں سے کسی سے کوئی چیز طلب کرنی ہو تو پردہ کے پیچھے سے طلب کرو اور اچانک کمروں میں داخل مت ہو جاؤ ، یہ شاید پہلی آیت ہے جو پردہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، مشہور قائل ہیں کہ یہ آیت پیغمبر اکرم (ص) کے زوجات کے مخصوص احکام میں سے ایک ہے ، جیسا کہ اسی آیت میں آگے فرماتا ہے : «وَمَا کَانَ لَکُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنکِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِکُمْ کَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِیمًا».
یہاں پر فقہاء کرام اور مفسرین ایک بحث کرتے ہیں کہ کیا اس آیہ کریمہ سے پردہ کا حکم سمجھ میں آتا ہے یا نہیں ؟ہم یہاںاسی بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں ، ہم نے اپنے فقہی گفتگوں میں یہ ثابت کر چکے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں کلمہ '' حجاب '' کا اس کے اصطلاحی معنی سے کوئی ربط نہیں ہے۔
اسی سورہ کی آیت ٥٩ میں خداوند متعالی فرماتا ہے : «یَأَیهَا النَّبىُّ قُل لاَزْوَجِک وَ بَنَاتِک وَ نِساءِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیهِنَّ مِن جَلَبِیبِهِنَّ.
''نساء المومنین '' سے مرادقیامت تک کے تمام مومن انسانوں کی عورتیں ہیں ، اور جو بھی عورت خدا پر ایمان رکھتی ہے اسے اپنے آپ کو جلباب سے ڈھانپانا چاہئے ،جلابیب ، جلباب کا جمع ہے اگر کوئی منصف انسان اور محقق لغت ناموں ، اشعار اور تاریخی کتابوں کی طرف مراجعہ کریں تو ان چند نکات کو جان جانتے ہیں ، پہلا یہ کہ جلباب ، مقنعہ اور خمار کے آپس میں فرق ہے ، خمار مقنعہ سے کچھ حد تک بڑا ہوتا ہے اور جلباب ان دونوں سے بلند ہوتا ہے تمام روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ جلباب سے مراد سر سے لے کر پاؤں تک ڈاھاپنا ہے ۔
بعض اصلی کتابوں اور علم لغت کے منبع جیسے صحاح اللغۃ جوہری ، میں جلباب کو ملحفہ معنی کیا ہے ، ملحفہ اس چیز کو کہتے ہیں کہ جسے انسان سوتے وقت سر سے لے کر پاؤں تک ڈاھانپ لیتا ہے ، یہاں سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ علم لغت کے اکثر علماء نے جلباب کو خمار اور مقنعہ کے مقابلہ میں قرار دیا ہے اور یہ بتائے ہیں کہ یہ ان دونوں سے بڑا ہے ، بعض نے تصریح کیا ہے کہ جلباب یہ ہے کہ جس سے انسان کا پورا بدن ڈھانپ لے ۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مسجد میں تشریف لے جانے اور وہا ں پر اس تاریخی خطبہ پڑھنے کے بارے میں ہے : «لاثت خمارها واشتملت بجلبابها» حضرت زہر(س)نے پہلے خمار کو مضبوطی سے سر سے باندھ لیا.
اور اس کے بعد جلباب کو اپنے اوپر ڈال دیا ، اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جلباب اور خمار مختلف ہے ، ان مطالب کے پیش نظر جلباب وہی چادر ہے ، اگر فرہنگ لغات مقامات حریری جو کہ ادبی کتابوں میں سے ایک اہم کتاب ہے کی طرف مراجعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لکھا ہوا ہے کہ جلباب سے مراد چادر ہے ،بدن پر پہنے والی ایک لباس ہے جس کے آستین نہیں ہوتے ،بہت ڈھیلا ہوتا ہے اور پورے بدن کو ڈاھانپ لیتا ہے عرب اسے ملحفہ کہتے ہیں،لہذا تاریخی اور عربی او رفارسی لغت ناموں اور احادیث میں جلباب کو چادر معنی کیا ہے ، ابو الفتوح رازی اور شریف لاھیجی نے بھی جلباب کا معنی چادر بیان کیا ہے ۔
اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جب اس آیہ کریمہ میں کلمہ '' من'' اس پر دلالت کرتی ہے کہ جلباب میں یہ چیز ہونی چاہئے کہ اسے لٹکایا جاسکے ، خمار کے لئے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے ، یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ اہل ادب اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ، لہذا جلباب سے مراد وہی چادر ہے اور خداوند متعالی پیغمبر اکرم(ص) سے فرما رہا ہے کہ اپنے بیویوں ، لڑکیوں اور تمام مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ جلباب کو پہن لیں ، یعنی یہ ایک ہمیشہ کے لئے رہنے والا حکم ہے جو قیامت تک باقی رہے گا ، اگر یہ ایک حکومتی حکم ہوتا تو اس میں یہ اشارہ ہوتا کہ یہ صرف پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ کے عورتوں کے لئے ہے ، لیکن آیہ کریمہ میں قیامت تک کے تمام مومن خواتین کے بارے میں صریح ہے یعنی یہ حکم پیغمبر کے زوجات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے تمام مومن خواتین کے بارے میں ہے ۔
سورہ احزاب کی آیت ٥٩ میں یہ بھی فرماتا ہے «ذَلِکَ أَدْنَى أَنْ یُعْرَفْنَ فَلا یُؤْذَیْنَ» مفسرین اور فقہاء نے اس جملہ کا مختلف طریقوں سے معنی کیا ہے ، جہاں تک ہمیں معلوم ہوتا ہے تو وہ یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے جلباب کو سر پر ڈال دیں تا کہ معلوم ہو جائے .
کہ یہ خواتین عفاف کے مالک اور پردہ کرنے والی ہیں ، حقیقت میں خداوند متعالی نے اس آیت میں حکم کو بیان کرنے کے بعد اس کی علت یا حکمت کو بھی بیان فرمایا ہے کہ عورت اپنے آپ کو معاشرہ میں صاحب عفاف اور پردہ دار ہونے کو ثابت کرنے کے لئے ایسا کرنا چاہئے ۔
لہذا اس حکمت کے پیش نظر جسے خداوند متعالی نے بیان فرمایا ہے ، یہ حکم پیغمبر اکرم(ص) کے زمانہ سے محدود نہیں ہو سکتا ، جیسا کہ فقہاء فرماتے ہیں جہاں بھی حکمت ہو وہاں پر وہ حکم لاگو ہونا چاہئے ، اس آیت کے نازل ہونے والے زمانہ میں کچھ جوان عورتوں کو تنگ کرتے تھے اور جب دیکھتا ہے کہ خواتین کامل طور پر پردہ میں باہر آتیں ہیں تو اس کے بعد انہیں تنگ کرنے کے لئے کوئی بہانہ نہیں ملتا۔
یہ جو بتاتے ہیں کہ پردہ کرنا ایک اخلاقی فریضہ ہے اور دینی لحاظ سے یہ واجب نہیں ، یہ بھی ایک بہت ہی غلط بات ہے ، «تعلیق الحکم على الوصف مشعر بالعلیه» اس قانون کے مطابق یہ حکم قیامت تک برقرار ہے ، جب اس آیہ کریمہ میں '' نساء المومنین ''ذکر ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان دار ہونے کے شرط با حجاب ہونا ہے ، اور اگر کوئی چیز ایمان کے شرائط میں سے ہو تو اس صورت میں یہ ایک اخلاقی حکم نہیں ہو سکتا ، اخلاقی فریضہ وہاں پر ہے جہاں پر اگر وہ ترک ہو جائے تو اس کے ایمان کے لئے کوئی نقصان نہ پہنچائے ، در حالیکہ یہ ایک شرعی واجب حکم ہے اور یہ قیامت تک رہے گا ۔
عفاف اور پردہ کی ثقافت کو بڑھانے اور بد حجابی سے مقابلہ کرنے میں اسلامی حکومت کی فقہی اور حقوقی ذمہ داری کیا ہے اور اس بارے میں ایک اسلامی حکومت کو کتنا اختیار حاصل ہے ؟
سب سے پہلے ہمیں اس بارے میں توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اسلامی احکام عمل ہونے کے لئے ہے ، یہ صرف ایک قانون کے طور پر بیان ہونے کے لئے نہیں ہے ، امر بہ معروف اور نہی از منکر بھی اسلامی احکام میں سے ایک ہے کہ اگر ہمارے پاس اسلامی کوئی حکومت بھی نہ ہوتی تو اس وقت بھی تمام لوگوں پر واجب تھا کہ وہ امر بہ معروف اور نہی از منکر کریں ، خداوند متعالی سورہ مبارکہ حج آیت ٤١ میں فرماتا ہے : «الذین إن مکناهم فی الأرض أقاموا الصلاه وآتوا الزکاه وأمروا بالمعروف ونهوا عن المنکر ولله عاقبه الأمور».
لہذا یہ چار کام ہے جسے مومنین کو انجام دینا چاہئے ، اور یہ بات بھی واضح رہے کہ واجبات سے بڑھ کر کوئی معروف اور محرمات سے بڑھ کر کوئی محرمات نہیں ہے ، حجاب اور پردہ ایک اہم واجبات میں سے ایک ہے ، اسلامی حکومت نے اگر اس کی ترویج میں بے اعتناء ہو جائے تو اس نے قرآن کے خلاف عمل کیا ہے ،لہذا حجاب اور پردہ کی ترویج اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے ، اور پردہ نہ کرنا حرام ہے اور جو عورت پردہ نہیں کرتی وہ حرام کام انجام دیتی ہے اس وقت نہی از منکر کے لحاظ سے اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسے اس کام سے منع کرے ، اگر اسلامی حکومت نہی از منکر کرنے لگے اور اس بارے میں کچھ پروگرام بنائے اور ایسے کاموں کے لئے کچھ موانع پیش کرے تو اس وقت یہ کام انجام پا سکتا ہے ۔
ہمیشہ مشکل یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر کام کو آپس میں ملا لیتے ہیں مثلاً ہم کہتے ہیں کہ دین اجباری نہیں ہے اور اس کے لئے آیہ شریفہ '' لا اکراہ فی الدین '' کو گواہ کے طور پر پیش کرتے ہیں ، اگرچہ دین انسان کے دل سے وابستہ ہے اور کسی کو اس بارے میں مجبور نہیں کر سکتا ، لیکن معاشرہ کو فتنہ و فساد سے بچا کر رکھنا ہم سب پر واجب ہے ، اگر کچھ افراد بے حجابی کے ذریعہ معاشرہ میں فتنہ و فساد کو رواج دینا چاہئے ، تو اس وقت تمام مسلمان اور ان سب کے اوپر اسلامی حکومت یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آیہ شریفہ کو مد نظر رکھتے ہوئے نہی ازمنکر کے مراحل کو طے کرے ۔
لہذا یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے کہ بعض افراد بتاتے ہیں ان مسائل سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے ، جو افراد یہ بتاتے ہیں وہ لوگ سورہ حج کی آیت کا کیا جواب دیتے ہیں ؟ اس آیت میں فرماتا ہے کہ : جن لوگوں کے ہاتھوں میں اسلامی حکومت ہے انہیں چاہئے کہ وہ وسیع پیمانہ پر امر بہ معروف اور نہی از منکر کرے ، اس بارے میں عام انسانوں اور حکومت پر قابض افراد کے وظیفہ میں فرق ہے اور حکومت پر موجود افراد پر اس بارے میں سخت ذمہ داری ہے ۔
اسلامی حکومت پر اس بارے میں ایک خاص ذمہ داری ہونے کی ایک دلیل سورہ شوری کی آیت ١٣ ہے اس میں فرماتا ہے : «شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّینِ ما وَصَّى بِهِ نُوحاً وَ الَّذی أَوْحَیْنا إِلَیْکَ وَ ما وَصَّیْنا بِهِ إِبْراهیمَ وَ مُوسى وَ عیسى أَنْ أَقیمُوا الدِّینَ»انبیاء صرف دین کی تبلیغ کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ تبلیغ کے علاوہ اسے معاشرہ میں اقامہ کرنے اورصحیح طریقہ کے چلانے کے لئے بھی آئے ہیں ،حاکم اسلامی کا وظیفہ ہے کہ وہ معاشرہ میں دین کو اقامہ کرے ، اسلامی نظام کے مسؤلین اگر یہ دیکھیں کہ معاشرہ میں حجاب اور پردہ پر توجہ نہیں دے رہا ہے تو آیہ شریفہ کے مطابق اس بارے میں انہیں سوچنا چاہئے اور لوگوں کو اس بارے میں شوق دلا کر اور تبلیغ کر کے سیدھے راستہ پر لائیں اور اگر کچھ افراد دشمنی کر کے اور دین سے مقابلہ کرتے ہوئے معاشرہ میں لا دینی کی ترویج کر رہا ہے تو ان سے ضرورت کے مطابق مقابلہ بھی کیا جائے ،بہر حال اس بارے میں بے تفاوت رہنا خداوند متعالی کے حق کو پایمال کرنا ہے ۔
بد حجابی اور بے پردگی کے بارے میں موجوده فقہی مشکلات کو بیان فرمائیں
فقہی لحاظ سے اس بارے مےں کوئی مشکل نہیں ہے ، یعنی فقہاء کے فتوؤں کے لحاظ سے ایک واضح مسئلہ ہے فقہاء سے میری مراد وہ افراد ہیں جنہیں حوزات علمیہ واقعاً ایک مجتہد اور فقیہ کے عنوان سے پہچانتے ہےں اور وہ خود بھی صاحب نظریہ ہے ،آجکل کچھ افراد اجتہاد کا دعوا کرتے ہےں لیکن اسلام کے کچھ ضروری احکام کے بھی منکر ہو جاتے ہیں ، یہ دونوں چیز آپس میں ایک جگہ جمع ہی نہیں ہو سکتا ۔
اگر کوئی شخص واقعی اور حقیقی طور پر فقہی اور اجتہادی مبانی کے مطابق بحث وگفتگو کرے تو اس وقت پردہ کے بارے مےں فقہی لحاظ سے کوئی کمی اور مشکل نہیں ہے ، البتہ اس ٣٠ سالوں مےں میڈیا کے غلط پروپکنڈوں نے اپنے اثرات چھوڑے ہےں ، کہ حقیقت مےں استکبار جہانی معاشرہ سے دین کو ختم کرنے کی سوچ میں ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں سے دینی حقایق کو آہستہ آہستہ ختم کر لیں، اسی لئے ایک دن یہ لوگ پردہ اور حجاب کے خلاف بولتے ہےں اور دوسرے دن یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہےں کہ مرد اورعورت کے احکام برابر ہونی چاہئے ، اس کے بعد ارث اور دیہ کے اسلامی قوانین پر اعتراض کرتے ہیں ،یہ استکبار جہانی کی سیاست ہے کہ سالوں سال سے اس بارے میں منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔
میری نظر کے مطابق ملک کے میڈیا پر فرض ہے کہ وہ پردہ کے بارے میں بہت ہی منطقی اور دقت سے کام کرے ، اگرچہ اس بارے میں ہمارے میڈیا پر کچھ چیزیں نشر ہوتی ہیں ، لیکن یہ بہت ہی کم ہے ، کیونکہ دوسری طرف اس کے خلاف میں جو باتیں ہوتی ہیں اور جو انٹرویو وغیرہ نشر ہوتی ہیں وہ بہت ہی زیادہ ہے ،ہمارے ملکی میڈیا کو پردہ کے بارے میں منظم ہو کر دائمی طور پرکام کرنا چاہئے ، صرف ایک مختصر مدت کے لئے کا م کرنے کا کوئی فایدہ نہیں ہے ، ہمارے بچیوں ،بہنوں اور خواتین کے لئے پردہ کے بارے مےں کچھ سوالات در پیش ہے ، ان سوالوں کا منطقی طریقہ سے جواب دینے کی ضرورت ہے ۔
کبھی کچھ افراد ہمارے دفتر مےں خط لکھتے ہیں اور یہ سوال پوچھتے ہےںکہ قرآن مےں کہاں پر پردہ کے بارے میں لکھا ہوا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے جوانوں اور عزیز بہنوں کو کبھی خود پردہ کے بارے میں شک اور تردید ہے لیکن جب ان کے قرآن کریم کی آیہ کریمہ کو بیان کیا جاتا ہے ، تو اسے من وعن قبول کرتے ہےں ، تو حقیقت میں ایمانی روح ہمارے معاشرے میں موجود ہے ، ہمیں چاہئے کہ حجاب اور پردہ کے بارے مےں موجود علمی ، فقہی ، قرآنی اور روایات کے مبانی کو معاشرہ میں پہنچا دیں ، حقیقت میں اس بارے میں ہماری حکومت نے کوئی اقدام نہیں کیا ہے ،حتی کہ بعض نے تو ناآگانہ طور پر حجاب کے موضوع کو ن
نقصان بھی پہنچایا ہے ، یہ وہ مشکلات ہے جو نہایت افسوس کے ساتھ ہمارا اسلامی نظام کو درپیش ہے ، حقیقت میں معاشرہ مےں بے پردگی کی رواج بعض حکومتی ذمہ دار افراد کے آثار ان کے افکار اور اعمال کی وجہ سے ہے ۔
ہم آپ کے شگر گزار ہے کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت میں سے ہمیں '' برہان ''وقت نکالا ۔
انٹرویو کی تاریخ:١٤/ ٥/ ٩١