آئمہ علیہم السلام اور علم غیب(3)
26 December 2024
20:17
۳,۳۹۶
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
آئمہ علیہم السلام اورعلم غیب(3)
تمام فقہاء اور اصولیوں اس بات پر متفق القول ہیں کہ وہ علم بی نہایت جو خدا کے پاس ہے وہ کسی بھی مخلوق کے پاس نہیں ہے حتی کہ ملائکہ اور انبیاء اور آئمہ علیہم السلام
امام حسین علیہ السلام کا قیام
اپنے اور یاران با وفا کی شہادت کے بارے میں علم کے ساتھ تھے (حصہ سوم)
بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله رب العالمین وصلی الله علی
سیدنا محمدوآله الطاهرین ولعنة الله علی اعدائهم اجمعین من الآن الی قیام یوم
الدین
ہم نے اس سے پہلے کی دو تقریروں میں یہ بتا دیا تھا کہ اس موضوع کو واضح کرنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے امام علیہ السلام کے علم غیب کے بارےمیں کچھ گفتگو کرنی چاہئے تا کہ اس کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آئيں ،لہذا ہم نے پہلے دن علم امام علیہ السلام قرآن کریم کی آیات کے پیش نظر اور دوسرے دن اس بارے میں موجود روایات کو بیان کیا ۔
آج سب سے پہلا مطلب یہ ہے کہ جو چیز روایات سے استفادہ ہوتی ہے او رجو چیز قرآن کریم کی آیات سے ان دونوں کے درمیان مطابقت ہے ، اور یہ اپنی جگہ بہت ہی اہم مطلب ہے ، قرآن کریم کی آیات کو آپس میں جمع کرنے سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ علم غیب اس معنی میں کہ بغیر معلم اور واسطہ کے ہو یہ صرف خداوند تبارک و تعالی سے مخصوص ہے اور ایسا علم کسی کے پاس بھی نہیں ہے ، یعنی اگر ہم علم غیب کا یہ معنی کریں تو یہ خود بخود واجب الوجود کے مختصات میں سے ہو گا ، چونکہ واجب الوجود کے علاوہ باقی تمام موجودات عالم معلم کے محتاج مند ہیں ۔
اسی طرح قرآن کریم کی آیات سے یہ بھی استفادہ ہوا کہ خداوند تبارک وتعالی نے انبیاء کے لئے کچھ علم قرار دیا ہے کہ وہ علم کسی بھی بشر کے پاس نہیں ہے ، حضرت عیسی (علی نبینا و آله و علیه السلام) اپنے قوم سے فرماتے ہیں :میں تم لوگ گھروں میں جو کچھ کھاتے ہیں اور کیا کیا گھروں میں ذخیرہ کیا ہوا ہے سب کو بتا سکتا ہوں ، قرآن میں فرماتا ہے جو چيز عام انسانوں کے ہاں علم غیب حساب ہوتا ہے وہ خداوند متعال انبیاء اور آئمہ علیہم السلام کے لئے قرار دیتا ہے ، یہی بات اور یہی نتیجہ روایات سے بھی استفادہ ہوتا ہے ، روایات میں ایک طرف سے آئمہ علیہم السلام علم غیب کو اپنے آپ سے نفی کرتے ہیں اور فرماتے ہیں : میں تعجب کرتا ہوں ان لوگوں پر جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے پاس علم غیب ہے ، اور دوسری طرف سے بہت ساری ایسی روایات بھی ہیں جن میں فرماتے ہیں : بہت وسیع علم اور علم ما کان، ما یکون و ما ہو کائن ائمہ علیہم السلام کے اختیار میں ہے۔
اس کا معنی یہ ہے کہ آئمہ علیہم السلام نے وہ علم جو واجب الوجود سے مختص ہے اس کی اپنے آپ سے نفی کی ہیں ، چونکہ آئمہ علیہم السلام کے علوم واسطہ کے ساتھ ہے ، اور یہ واسطہ یا ملائکہ ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا اپنے سے ما قبل آئمہ ، کہ اس بارے میں تفصیلا بیان ہوا،یہ بہت ہی مہم مطلب ہے کہ ایک محقق اس نتیجہ پر پہنچے کہ قرآن کریم سے جو استفادہ ہوتا ہے اوروہ روایات سے جو استفادہ ہوتا ہے ان دونوں کے درمیان مطابقت ہے ، اور ایسا نہیں ہے کہ آئمہ علیہم السلام کے علم کے وسیع ہونے کے بارے میں ہمارا استناد صرف روایات ہوں اور روایات کے علاوہ دوسری کوئي اور دلیل نہ ہو،ہم نے قرآن کریم کی چار آیات سے بھی استدلال کیا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ ایک اور گروہ بھی کہ جو آئمہ اطہار علیہم السلام ہیں ان کے پاس بھی یہ وسیع علم ہے اور روایات میں بھی یہی مضمون موجود تھا ۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان آخری ایام میں کچھ روشن فکر فضلاء پیدا ہوئے ہیں یہ لوگ اپنے کتاب میں جس کا نام { مکتب در فرآيند تکامل} ہے میں ایسا اظہار نظر کرتے نظر آتے ہیں کہ طور تاریخ میں ان روایات کی بنیاد مفوضہ ہے ، وگرنہ ہمارے آئمہ علیہم السلام اسی حد فکری میں ہیں کہ ابن ابی یعفور بیان کرتا ہے کہ آئمہ علیہم السلام اپنے زمانہ کے علماء ابرار اور سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار لوگ تھے ،یعنی احکام اور تفسیر قرآن سے آگاہ تھے اور ابرار اور سب سے زیادہ با تقوی افراد میں سے تھے ،دوسرے الفاظ میں عام دانشمندوں سے کئی گنا اوپر ہیں ، اور ہمیں فوق بشری کاموں اور علم غیب کو ان سے نسبت نہیں دینی چاہئے ، عجیب بات یہ ہے کہ یہ شخص اپنی تاریخی تحلیل میں لکھتا ہے کہ مفوضہ نے اس فکر کو شیعوں میں داخل کیا ہے ، وگرنہ صدر اسلام اور تیسری ، چوتھی اور پانچویں صدی کے شیعہ علماء میں ایسی فکر موجود نہیں تھی ، اور مفوضہ جو کہ آئمہ علیہم السلام کے مورد لعن واقع ہوئے ہیں انہوں نے ان افکار کو شیعہ مذہب میں داخل کیا ہے ۔
اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ تاریخ میں ہمیں کچھ ایسے افراد بھ ملتے ہیں جن کو غلات کہا جاتا ہے ؛ کہ یہ لوگ آئمہ علیہم السلام کے لئے مقام ربوبیت کے قائل ہیں اور انہیں خدا کی حد تک لے جاتے ہیں ، مفوضہ ، غلات سے ایک درجہ نیچے تھے کہ اگرچہ آئمہ کے ربوبیت کے قائل نہیں ہیں لیکن یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جب خدا نے آئمہ علیہم السلام کو خلق کیا تو رزق ، علم اور تمام تکوینی اور تشریعی کاموں کو آئمہ علیہم السلام کے اختیار میں قرار دے دیا اور انہیں تفویض کیا! روایات میں آئمہ علیہم السلام غلات اور مفوضہ کو مورد لعن اور نفرین اور تکفیر قرار دیا ہے ،بہر حال روشن فکر افراد کے درمیان ایسی باتیں ہیں کہ کہتے ہیں علم غیب اور یہ وسیع علم جو کہ بشری لحاظ سے نامحدود ہے شیعی صحیح فکر جسے آئمہ اطہار علیہم السلام نے تائید کی ہو نہیں ہے ، آئمہ علیہم السلام بس صرف علماء ابرار اور سب سے زیادہ متقی افراد تھے ، اور یہ " علماء ابرار" اس نظریہ کے افراد کی ایک علامت بن چکی ہے ۔
اس کے لئے ہمارا محکم جواب یہ ہے کہ آپ قرآن کا کیا کریں گے ؟ یہ چند آیات جو ذکر ہوئيں مخصوصا آيہ «تکونوا شهداء علی الناس»، کہ اس سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ خداوندمتعال تین گروہ کو بیان فرماتا ہے : پیغمبر ، عام لوگ اور وہ گروہ جو ان دونوں کے درمیان ہیں،پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس گروہ پر گواہ ہے اور وہ گروہ لوگوں پر گواہ ہیں ، گواہ یعنی وہ جو لوگوں کے تمام اعمال کے بارے میں علم رکھتا ہے کیونکہ اگر تمام اعمال کے بارے میں علم نہیں رکھتا ہے تو وہ گواہی نہیں دے سکتا ، کیا یہ آيت کریمہ بھی مفوضہ کی فکر کی ایجادات میں سے ہے ؟
ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ آئمہ علیہم السلام کے پاس اتنے وسیع علم ہونے کا اعتقاد خالص شیعی فکر ہے ، حجت خدا کو ایسا ہی ہونا چاہئے تا کہ ان سے جو سوالات ہوتا ہے ان کا جواب دے سکے ، وہ سوالات دینی کاموں کے بارے میں ہو یا غیر دینی، احکام کے بارے میں ہو یا موضوعات کے بارے میں ، حکومت کے بارے میں ہو یا غیر حکومت ، اور ان سب کے لئے علم وسیع کی ضرورت ہے ۔
بعض نے یہ بتا یا ہے کہ آئمہ علیہ السلام کا علم صرف احکام تک محدود ہے نہ موضوعات کے بارےمیں، بعض دوسروں نے بتایا ہے کہ احکام کے علاوہ موضوعات کلی ، واقعات ، فتنوں اور قیامت تک لوگوں پر جو حکام حکومت کریں گے ان کے بارے میں علم رکھتے ہیں لیکن جزئی موضوعات کے بارے میں علم نہیں رکھتے ۔
اگر ہم ہوں اور ہمارے سامنے قرآن کریم ؛ ہم نے سب سے جس پہلے قرآنی بحث کو بیان کیا تھا وہ انہیں شبھات کو جواب دینے کے لئے تھا ، قرآن کریم سے استفادہ ہوتا ہے کہ آئمہ علیہم السلام کے پاس تمام احکام اور موضوعات کے بارے میں علم فعلی حضوری کامل ہے ، اور موضوعات میں بھی فرق نہیں ہے موضوع کلی ہو جا جزئی ، ان سے جو بھی سوال کیا جاتا ہے ان سب کا جواب دے سکتے تھے ، حتی کہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے تھے:سلوني قبل ان تفقدوني. ، قرآن کریم کی آیات کا اطلاق بہت ہی واضح اور روشن ہے ۔
روایات میں بھی اکثر میں یہی اطلاق پایا جاتا ہے ،جیسے «الاشیاء کلها حاضرةٌ عندنا»[1] تمام چيزیں ہمارے پاس حاضر ہیں ، یا ما کان وما یکون و ما هو کائن إلی یوم القیامه[2] کا علم رکھتے ہیں ، ان آیات اور روایات کے مقابلہ میں دو روایات موجود ہیں جن سے تقیید کی بو آتی ہے :
1۔یہ روایت کتاب کافی جلد 1 صفحہ 261 پر ہے کہ بہت ہی اچھی روایت ہے ، اس روایت کے ایک
حصہ میں امام باقر علیہ السلام فرماتا ہے :«أَتَرَوْنَ أَنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى افْتَرَضَ طَاعَةَ أَوْلِيَائِهِ عَلَى عِبَادِهِ ثُمَّ يُخْفِي عَنْهُمْ أَخْبَارَ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ يَقْطَعُ عَنْهُمْ مَوَادَّ الْعِلْمِ فِيمَا يَرِدُ عَلَيْهِمْ مِمَّا فِيهِ قِوَامُ دِينِهِم»[3]،حضرت فرماتے ہیں کہ کیا تم یہ تصور کرتے ہو کہ خدا نے آئمہ علیہم السلام کی اطاعت کو اپنے بندوں پر واجب کیا ہے ، لیکن آسمانوں کے خبروں کو ان سے مخفی رکھا ہے اور ان کو منابع علم کہ دین کی بنیاد ہی انہیں پر ہے سے دور رکھا ہے ؟ «ممّا فیه قوام دینهم»، اس جملہ کے بارے میں ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ پس آئمہ اطہار علیہم السلام کا علم اتنی حد تک ہے کہ جو لوگوں کے دین سے مربوط ہے اور وہ فرق نہیں احکام ہو یا موضوعات ، یہ روایت صحیحہ ہے اور سند بھی بہت ہی قوی ہے کیا ہم اس روایت کے مطابق اجتھادی طریقہ کے مطابق آيہ کریمہ «تکونوا شهداء علی الناس»، یا دوسری آیات کو اس حد تک محدود کر سکتے ہیں کہ ان کا علم فقط لوگوں کے قوام دین سے مربوط مسائل تک محدود ہے اور یہ بتائيں کہ آئمہ علیہم السلام کے پاس ایسے علم ہیں جو لوگوں کے دین سے مربوط ہے ، آسمانی کتابوں کے بارے میں علم رکھنا چاہئے تا کہ آسمانی کتابوں کو ماننے والوں کے درمیان حکم اور قضاوت کر سکے ، ہمارے فقہ میں فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر ایک مسیحی ہمارے پاس مراجعہ کریں ہم خود ان کے قضاوت کے قواعد کے مطابق حکم کر سکتے ہیں ، یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے لئے بھی تھا ، پس آئمہ علیہم السلام کے پاس قرآن کے علاوہ آسمانی کتابوں کا بھی علم ہونا چاہئے ، یہ حضرات علیہم السلام ان تمام احکام اور موضوعات کے بارے میں عالم ہونے چاہئے جو لوگوں کے دینی مسائل سے مربوط ہے ۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا یہ روایت آیات اور روایات کے اطلاق کو تقیید کر سکتی ہے یا نہیں تو کہنا ہو گا : نہیں ! کیونکہ اس طرح کی روایات میں عنوان مثبتین ہیں اور مثبتین میں اطلاق اور تقیید کا قانون جاری نہیں ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایات مقید نہیں ہو سکتیں چونکہ ان روایات سے آخری استدلال جو کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ کہتے ہیں آئمہ علیہم السلام کے پاس وہ علوم ہیں جو لوگوں کے دین کے قوام سے مربوط ہے ، لیکن یہ روایات اس چیز کی نفی نہیں کرتیں کہ ان کے علاوہ دوسرے علوم ان کے پاس نہیں ہے ، لہذا ہمیں آیات اورروایات کو آپس میں جمع کر کے واضح طور پر یہی نتیجہ حاصل ہوتا ہے ، اس کے بعد بھی کیا پھر ہم بھی یہ بتاسکتے ہیں کہ ہمارے آئمہ معصومین علیہم السلام علماء ابرار ہیں ؟ اور ان کے شان اور مقام کو اتنے نیچے تنزل کریں ؟ ان کے علم غیب اور عصمت کی نفی کریں ، حتی کہ بعض نے اس حد تک جسارت کی ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام کے علم کو ان کے حیات مبارک کے بعد نفی کرتے ہیں ، درحالیکہ ہم نے بیان کیا کہ آیہ کریمہ «تکونوا شهداء علی الناس»، کے اطلاق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ علم ان کے حیات اور ما بعد حیات دونوں کو شامل کرتا ہے ۔
اگر کسی شیعہ سے پوچھا جائے کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو بتائيں کہ کس دلیل قرآنی کے مطابق حضرت علیہ السلام اپنے زائر کو پہچانتے ہیں؟اگر اس کے جواب میں روایات پیش کریں تو کہتے ہیں کہ روایات آپ کی اپنی من گھڑت ہے ، قرآن سے دلیل چاہئے ، کس دلیل قرآنی کے مطابق؟!ہم یہی جواب دیں گے کہ اسی آیہ کریمہ کے مطابق:کنتم شهداء علی الناس،قرآن یہ نہیں فرما رہا ہے کہ صرف زمان حیات میں آپ لوگوں کے اعمال کے گواہ ہیں ،بلکہ ہمیشہ لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں ، چاہے حال حیات میں ہو یا حال ممات میں ، یا قیامت میں ،یہاں پر ایک بہت ہی اہم مطلب کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے جو شفاعت اور گواہی کے درمیان رابطہ کے بارے میں ہے ۔
شفاعت کی بحث میں جو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کیا یہ بات صحیح ہے کہ کوئی انسان گناہ کا مرتکب ہو جائے اور بعد میں یہ بولے کہ میں قیامت کے دن امام حسین علیہ السلام کو اپنا شفیع (شفاعت کرنے والا) قرار دیتا ہوں ؟جواب یہ ہے کہ چونکہ امام علیہ السلام لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں لہذا جانتے ہیں کہ اس شخص نے اپنی زندگی میں کیا کیا ہے اور کس کس گناہ کا مرتکب ہوا ہے ؟ لہذا ایسے انسان کا شفیع نہیں ہو گا، شفاعت ان انسانوں کے لئے جن کے زندگی میں اچھے اعمال کے ساتھ ساتھ کچھ گناہ بھی ہو ، ایسے انسان کو قیامت کے دن شفاعت ملی گی،انسان کے تمام اعمال امام علیہ السلام کے پاس موجود ہیں اور وہی انسان کی شفاعت کا سبب ہوتے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ شفاعت ایک بے حساب و کتاب چیز ہو اور ہر قسم کے گناہکار کو شفاعت نصیب ہو ۔
پس آئمہ اطہار علیہم السلام امت کے اعمال پر گواہ ہیں، حتی کہ زمان حیات کے بعد بھی، اس قرآنی دلیل کے مطابق امام علیہ السلام اپنے زائر کو جانتےہیں اور اسے اپنا مورد توجہ قرار دیتے ہیں اوراس کے لئے دعا کرتے ہیں ، علم امام کا موضوع بہت ہی بنیادی ہے اور بحث امامت میں ہونے والے بہت سارے اشکالات اور شبہات کا جواب اسی میں ہے ، اگر یہ موضوع انسان کے لئے صحیح طرح واضح نہ ہو تو وہ منحرف ہو جاتاہے ، میرے خیال میں کچھ مولفین جو ان عقاید کی تاریخی تحقیق کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ان کی اصلی مشکل اسی میں ہے ،ہمیں شیعہ اور عقاید شیعہ کے بارے میں مورخین کے اقوال کو پڑھنے سے پہلے خود قرآن کو محور قرار دینا چاہئے کہ دیکھیں اصل امامت ، علم امام، شفاعت اور عصمت امام علیہ السلام کے بارے میں شیعوں کا جو عقیدہ ہے ، کیا یہ خود قرآن کریم سے استفادہ ہوتا ہے یا نہیں ؟
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ہم نے اس مطلب کو قرآن کریم اور روایات دونوں سے استفادہ کیا ، بنیادی طور پر شیعہ روایات کے امتیازات میں سے ایک جو کہ اہل سنت میں نہیں ہے یہ ہے کہ ہمارے آئمہ علیہم السلام جانتے تھے کہ جعلی روایات ہیں اور آيندہ بھی ہونگیں ، پس کیا کیا جائے کہ بعد میں آنے والے علماء کو یہ پتہ چل جائے کہ یہ روایت صحیح ہیں یا نہیں؟ اس کی ایک اصلی نشانی قرآن سے مطابقت ہونا اور نہ ہونا ہے ، یہ روایات جو کافی شریف میں نقل ہیں اور تواتر معنوی کی حد تک ہے ،سب کے سب قرآن کے مطابق ہیں ، جب یہ قرآن کے مطابق ہوں تو اس میں انکار کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ،کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب مفوضہ کی بنائي ہو ئی ہے ؟ بہت ہی عجیب بات کی ہے اس نے کتاب کافی میں 16111 احادیث ہیں اور ان میں سے 9 ہزار تقریبا ضعیف ہیں ، کیا یہ پورے 9 ہزار روایات مفوضہ کے بنائے ہوئے ہیں ؟!کیا یہ ممکن ہے کہ مفوضہ اس قدر زیادہ روایات جعل کر سکے؟
یہاں پر اس مطلب کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ روایات میں ہے کہ آئمہ علیہم السلام مفوضہ کو لعن کرتے تھے ، لیکن یہ بات کہیں ذکر نہیں ہے کہ اپنے ان پیروکاروں کو لعن کیا ہو جو امام کے لئے علم غیب ہونے کا قائل ہو ، بلکہ زیادہ سے زیادہ جو بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اظہار تعجب کیا ہے کہ کیوں ہمارے بعض اصحاب اور خالص شیعیان یہ خيال کرتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی خدا کے علم غیب کی طرح علم غیب ہے لیکن کبھی بھی ان کو مورد لعن قرار نہیں دیا ہے ،اسی طرح اس بارے میں بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر مفوضہ مورد لعن واقع ہوئے ہیں تو کس وجہ سے مورد لعن و نفرین واقع ہوئے ہیں ،یعنی ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ مفوضہ کے تمام افکار کو آئمہ علیہم السلام نے غلط قرار دیا ہے ، اور یہ بات نہیں کر سکتے کہ اگر یہ لوگ آئمہ علیہم السلام کی عصمت کے قائل ہیں تو یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ مفوضہ ایسی بات کر رہے ہیں ، بلکہ مفوضہ کے مورد لعن و نفرین واقع ہونے کی وجہ وہ خاص فکر ہے کہ کہتے تھے خدا نے دنیا کو خلق کرنے کے بعد اس کے تمام کاموں کو آئمہ معصومین علیہم السلام کے سپرد کر دیا ہے ، لیکن دوسرے افکار میں اگر علم غیب یا عصمت یا ولایت تکوینی کے قائل ہوں تو ان کو غلط نہیں کہنا چاہئے چونکہ ان چیزوں پر قرآن کریم کی آیات دلالت کرتی ہیں ، جو لوگ آئمہ علیہم السلام کو علماء ابرار( بہت اچھے علماء ) بتاتے ہیں ان کا اصل مقصد آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت تکوینی کی نفی کرنا ہے ، روایات کی بحث کو کامل کرنے کے لئے ان مطالب کو بیان کرنا ضروری تھا ۔
آیات اور روایات کو بیان کرنے کے بعد ہمیں بزرگان کے اقوال کو بیان کرنا چاہئے ، لہذا ہم بزرگان کے اقوال کو اجمالی طور پر بیان کرتے ہیں ،مرحوم شیخ اعظم انصاری اعلی اللہ مقامہ الشریف اپنی کتاب رسائل میں فرماتےہیں:«وأما مسألة مقدارمعلومات الإمام عليه السلام من حيث العموم والخصوص وكيفية علمه بهامن حيث توقفه على مشيتهم أوعلى التفاتهم إلى نفس الشيءأوعدم توقف على ذلك فلايكاد يظهرمن الأخبار المختلفة في ذلك ما يطمئن به النفس فالأولى وكول علم ذلك إليهم صلوات الله عليهم أجمعين.» [4] ، علم امام کی وسعت کے بارے میں اور یہ بات کہ کیا یہ علم فعلی ہے یا ان کے ارادہ سے مشروط ہے ، آیا مشيت اور متوجہ ہونے پر متوقف ہے یا نہیں ؟ اس بارے میں روایات مختلف ہیں اور ہم ان مختلف روایات سے نفس کو مطمئن کرنے والے قول تک نہیں پہنچ سکتے لہذا بہتر یہی ہے کہ ان روایات کے بارے میں علم کو خود آئمہ اطہار علیہم السلام پر چھوڑ دیں،اسی وجہ سے شیخ انصاری نے اس مسئلہ میں توقف کیا ہے ۔
شیخ کے اس بات پر ہم یہ حاشیہ لگائيں کے کہ ہم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ روایات ، قرآن کریم کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں ، اور خود روایات کے درمیان آپس میں کوئی مشکل نہیں ہے ، اکثر روایات میں علم امام کو مطلق طور پر بیان کیا ہے ،صرف تین روایات ہیں جن میں علم امام کو ارادہ سے مشروط کیا ہے ، پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایات ظاہرا تو تین ہیں لیکن حقیت میں دو روایات ہیں چونکہ دو روایت کو جن سے روایت کیا ہے اور راوی دونوں ایک ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ان دونوں روایات کی سند بھی معتبر نہیں ہے ، ان دونوں اشکال کے علاوہ ان روایات کو آپس میں جمع کرنے کی وجہ بھی موجود ہے وہ یہ ہے کہ احکام اور مہم موضوعات کے بارے میں امام کا علم فعلی ہے لیکن جزئی موضوعات کے بارے میں جیسے اس فرار کرنے والی لونڈی کے بارے میں کہ امام علیہ السلام نے فرمایا ابھی مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ کس کمرہ میں چھپی ہوئی ہے ؟یا فلان شخص زندہ ہے یا نہیں ؟ ان چيزوں کے بارے میں علم رکھنا ارادہ پر موقوف ہے ، یعنی جب بھی ارادہ کریں جان جائيں گے ۔
ایک دن کسی پروگرام میں ہمارے استاد بزرگوار آيت اللہ العظمی وحید دام ظلہ بھی حضور فرما تھے میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ ان روایات کا کیسے معنی کرتے ہیں جن میں علم امام کو ارادہ پر متوقف کیا ہے ؟انہوں نے بھی اسی مطلب کو بیان فرمایا ، البتہ کلی اور جزئی موضوعات کے درمیان کوئي فرق نہیں رکھا ، بہر حال جو چیز واضح ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ بتایا جائے آئمہ علیہم السلام کا علم مطلق موضوعات میں یا موضوعات جزئی میں بالفعل نہیں ہے بلکہ ان کے ارادہ پر متوقف ہے لیکن یہ اس چیز کا سبب نہیں ہوتی کہ شیخ انصاری جیسے بڑے فقیہ بھی توقف کریں ۔
اس بارے میں ایک اور قول مرحوم آشتیانی کا قول ہے جسے انہوں نے بحر الفوائد میں بیان کیا ہے ، آپ شیخ انصاری کے بہت اچھے شاگردوں میں سے ہیں ،آپ بتاتے ہیں:«إن الحق وفاقاً لمن له احاطةٌ بالاخبار الواردة فی باب کیفیة علمهم(صلوات الله علیهم اجمعین) و خلقهم، کونهم عالمین بجمیع ما کان و ما یکون و ما هو کائن،ولایعزب عنهم مثقال ذرةٍ إلااسمٌ واحدٌمن اسمائه الحسنی تعالی شأنه المختص علمه به تبارک وتعالي» ،علم امام کے بارے میں حقیقت یہ ہے کہ میں بھی اسی بات کو مانتا ہوں جس طرح ووسرے افراد بتاتے ہیں کہ آئمہ علیہم السلام گذشتہ ، حال اور آيندہ سے آگاہ تھے، اور ذرہ برابر بھی ان سے کوئي چيز مخفی نہیں تھی مگر اسماء حسنی میں سے ایک اسم کہ اس کا علم صرف خداوند متعال سے مختص ہے ، پہلے بھی روایات کو آپس میں جمع کرتے ہوئے ہم یہ بتا چکے ہیں کہ آئمہ علیہم لسلام نے صراحتا فرمایا ہے کہ ہمارے پاس علم مستاثر نہیں ہے اور ہمارا علم علم مستفادہے ۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ اسم اعظم کے 73 حروف میں سے ایک حرف کا علم ہمارے پاس نہیں ہے ، یعنی جن کے بارے میں خود آئمہ علیہم السلام نے تصریح کرکے بتائے ہیں کہ ان کا علم ہمارے پاس نہیں ہیں ان کے علاوہ باقی سب چیزوں سے آگاہ ہیں ۔
مرحوم آشتیانی [5] اس کے بعد فرماتے ہیں :«سواءٌ قلنا بأن خلقتهم من نور ربهم أوجب ذلک لهم او مشية افاضة به ايهم في حقهم اودعه فيهم»،اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ ان کے علم کی وسعت کا منشاء ان کی نوری خلقت ہو یا خدا وند متعال کا افاضہ کرنا، اس کے بعد ایک اور مطلب کو بیان فرماتا ہے :«ضرورة أن علم العالمین من اولی العزم من الرسل و الملائکة المقربین فضلاً عمن دونهم فی جمیع العوالم ینتهی إلیهم»،اس عجیب تعبیر سے مرحوم آشتیانی کے ولایی ہونے کا اظہار ہوتا ہے کہتے ہیں : تمام اولو العزم انبیاء اور ملائکہ مقرب کا علم ان پر آکر ختم ہوتا ہے چونکہ عالم خلقت میں صادر اور پہلی مخلوق یہ حضرات ہیں ، پہلے عرفانی کتابوں میں صادر اول سے مراد ذات مبارک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بتاتے تھے ، لیکن اگر یہ بتائيں کہ صادر اول حقیقت محمدیہ ہے ،تو یہ حقیقت ذات پیغمبر ، امیر المومنین اور آئمہ اطہار علیہم السلام میں پھیلے ہوئے ہیں ۔
اس صورت میں یہ حضرات انسان کامل ہیں، تمام عالم ہستی میں جو کچھ ہے ان سب کے بارے میں ان حضرات کے علم رکھنے کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا ،ما کان و ما یکون کے بارے میں علم رکھنے کی بات تو مسلم ہے کہ اس پر متواتر روایات دلالت کرتی ہیں ،«فانهم الصادر الاول والعقل الکامل المحض والانسان التام التمام فلا غرو فی علمهم بجمیع ما یکون فی تمام العوالم فضلاً عما کان أو ما هو کائن کما هو مقتضي الاخبار الکثیرة المتواترة جداً» ، یہ حضرات جو فرماتے ہیں کہ یہ روایات مفوضہ کی جعلیات میں سے ہیں ان کے مقابلہ میں ایک مطلب کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں ، وہ یہ ہے کہ ممکن ہے خبر واحد جعلی ہو لیکن آیا متواتر روایات بھی مجعول ہو سکتی ہیں یا نہیں ؟ ! اس بارے میں علم حدیث میں بحث و گفتگو ہونی چاہئے ، متواتر روایات کا جعلی ہونا ممکن نہیں ہے ، جب ہمارے آئمہ اطہار علیہم السلام ایک خبر واحد کے مجعول کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے تھے تو ہم کیا یہ بتا سکتے ہیں کہ مفوضہ نے اتنی ساری روایات جعل کی لیکن آئمہ علیہم السلام نے لعن اور تکفیر کے علاوہ اور کچھ اقدام نہیں کیا ؟آئمہ علیہم السلام کو یہ فرمانا چاہئے تھا کہ یہ جملات ہمارے نہیں ہیں ۔
مرحوم آشتیانی اس بارے میں تواتر ہونے کی صراحت کوبیان کرنے کے بعد لکھتا ہے :«ولا ینافیه بعض الاخبار المقتضیه لکون علمهم علی غیر الوجه المذکور» ،بعض وہ روایات جن میں علم آئمہ علیہم السلام کو محدود بیان کیا ہے وہ ان متواتر روایات کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے ، جیسے وہ روایت کہ امام صادق علیہ السلام حجر اسماعیل میں تشریف فرما تھے اور سوال کیا کہ دیکھیں کوئی جاسوس ہمیں دیکھ رہا ہے یا نہیں ؟ یا جب کچھ افراد آئمہ علیہم السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوتے تھے تو ان سے دوسرے افراد کے احوال پرسی کرتے تھے ، اسی واقعہ عاشورا میں بھی کوفہ کے چند افراد راستہ کے درمیان میں امام حسین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، آپ علیہ السلام نے ان سے کوفہ کے حالات کے بارے میں سوال کیا کہ کوفہ کی کیا خبر ہے ؟ کیا ان کا معنی یہ ہے کہ امام علیہ السلام کو ان حالات کے بارے میں علم نہیں تھا ؟مرحوم آشتیانی فرماتا ہے ، نہیں !« انّ الحکمة قدتقتضی بیان المطلب علی غیر وجهه من جهة قصور المخاطب ونقصه أوجهة اخري من خوفٍ و نحوه» ،ہمارے آئمہ علیہم السلام تمام جزئیات سے باخبر تھے لیکن کبھی مخاطب کو سمجھانے کے لئے یا ڈر کی وجہ سے یا کسی اور حکمت و دلیل کی وجہ سے اس طریقہ سے سوال کرتے تھے ،ان کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ امام حسین علیہ السلام شاید ان کے جوابات کو تاریخ میں ثبت کروانا چاہتے تھے ،حضرت کوفہ کی تمام جزئیات سے باخبر تھے اور کوفیوں نے مسلم اور قیس بن مصھر کو شہید کر دیا ہے اس سے بھی آگاہ تھے ، اور جانتے تھے کہ ان کی تلواریں آپ علیہ السلام کے خلاف تیار ہیں ، لیکن ان سب کے باوجود آپ کوفہ کی طرف تشریف لے گئے تا کہ اس واقعہ کی گہرائی واضح ہو جائے ۔
اس مطلب میں زیادہ سے زیادہ سمجھنے کے لئے مرحوم تنکابنی [6] نے رسائل میں جو شرح لکھی ہے اس میں بہت اچھے مطالب بیان کیے ہیں ؛ مرحوم آشتیانی سے زیادہ انہوں نے مفصل لکھا ہے ، سب سے پہلے آیات اور روایات کو نقل کیا ہے اس کے بعد فرماتے ہیں :«إن المعصومين(علیهم السلام) کانوا عالمین بجمیع الاحکام و المعارف الاصولیة الاعتقادیة مما یتعلق بالله وملائکته وکتبه ورسله و تفاصیل المحشر و البرزخ و القیامة بطریقٍ أوفی و اکمل مما حصل لملک مقرب أو نبی مرسل»، خدا ، ملائکہ ، آسمانی کتابوں ، احکام ، معارف اور قیامت و محشر و برزخ کی خصوصیات کے بارے میں ہمارے آئمہ علیہم السلام کا علم ملائکہ مقرب اور انبیاء مرسل سے زیادہ ہے ۔
2۔ «وأنهم عالمون بما لم یعلم احدٌ من خلقه» ،ایسے امور کے عالم ہیں جن کے بارے میں کوئی بھی مخلوق خدا علم نہیں رکھتی ۔
3۔ أنهم عالمون بجمیع الاحکام الفرعیة من الوقاء التی حدثت أو تحدث إلی یوم القیامة»،تمام فرعی احکام اور وہ واقعات جو واقع ہوئے ہیں یا قیامت تک واقع ہونے ہیں ان سب کے بارے میں علم رکھتے ہیں ۔
4۔«أنهم عالمون بجمیع القرآن ظهراً و بطناً إلی سبعة أبطن بل إلی سبعین بطناً وأنّهم عالمون بمحکمه ومتشابهه ناسخه ومنسوخه»،تمام قرآن کے عالم ہیں چاہئے وہ ظاہر قرآن ہو یا سات بطن قرآن بلکہ ستر بطن قرآن اور اس کے محکم و متشابہ اور ناسخ و منسوخ کے بارے میں علم رکھتے ہیں ، ایک روایت میں ہے کہ قتادہ امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب تھے ،آپ علیہ السلام نے فرمایا : تم اہل عراق کے فقیہ ہو ؟ عرض کیا : لوگ اس طرح بتاتے ہیں ، حضرت علیہ السلام نے پوچھا؛ تم کس چیز کے مطابق فتوا دیتے ہو؟ کہا : خدا کی کتاب اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت کے مطابق ، فرمایا : تم قرآن سے کیا سمجھتے ہو؟ «والله و ما ورّثک من کتاب الله من حرف»، اس روایت کو اس سے پہلے «ثم اورثنا الذین اصطفیناه»، کو بیان کرتے ہوئے بیان کر چکا ہوں کہ حضرت علیہ السلام نے قتادہ سے فرمایا : خدا کی قسم تم نے قرآن کے ایک حرف کو بھی نہیں سمجھے ہو۔
5۔ «أنهم عالمون بجمیع اللغات بل بمنطق الطیروسائر الحیوانات»،ہمارے آئمہ علیہم السلام نہ صرف تمام انسانوں کے زبانوں کو جانتے ہیں بلکہ منطق الطیر ، پرندوں کی باتوں اور تمام حیوانات کی زبانوں سے بھی آشنا ہیں ، عجیب بات یہ ہے کہ کتاب " مکتب در فرایند تکامل" کے مصنف نے لکھا ہے کہ مفوضہ نے شیعہ کتابوں میں جو جعلی روایات اور افکار داخل کی ہیں ان میں سے ایک وہ روایات ہیں جو آئمہ علیہم السلام کا حیوانات کے زبان جاننے کے بارے میں ہے ،آپ جو کہ بتا رہے ہیں کہ ان روایات کو مفوضہ نے جعل کیا ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام سے مربوط اس آيت کریمہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ قرآن میں فرماتا ہے :«وَ وَرِثَ سُلَيْمانُ داوُودَ وَ قالَ يا أَيُّهَا النّاسُ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَ أُوتينا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هذا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبينُ»(سوره نمل / 16 )،مرحوم تنکابنی بتاتے ہیں:«ولاشک ان الرسول(صلی الله عليه و آله وسلم و الائمه علیهم السلام افضل منه علیه السلام»، بغیر کسی شک و شبہہ کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام سلیمان بن داود سے افضل ہیں، تو اس وقت یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سلیمان کو پرندوں کی زبان آتی ہو اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ علیہم السلام کو وہ زبان نہ آتی ہو ؟!
6۔«لا اشکال أيضاًأنهم لایحیطون علماً بالواجب بالکنه لاستحالته»،آئمہ اطہار علیہم السلام بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرح ذات باری تعالی کے کنہ کے بارے میں علم نہیں رکھتے تھے ! کیونکہ ایسا علم غیر واجب الوجود کے لئے ہونا محال ہے ، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :ہمیں پروردگار کے حق معرفت حاصل نہیں ہوا ہے «قال رسول الله ما عرفناک حق معرفتک».
7۔ «ولا اشکال أيضاً فی اختصاص الواجب بعلوم لا تحصی قد استأثرها فی علم الغیب عنده»، علم مستاثر کے عنوان سے کچھ علوم ہیں جو خداوند تبارک و تعال سے مخصوص ہیں، اور یہ علم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام کے پاس بھی نہیں ہے ، روایات بھی یہی بتاتی ہیں کہ علم کی دو قسمیں ہیں ، علم مستاثر اور علم غیب خدا کہ صرف خدا سے مخصوص ہے ، اوردوسرا وہ علم ہے جن کے بارے میں انبیاء اور اولیاء علم رکھتے ہیں ۔
8۔ لا اشکال فی أن علوم المعصومین متناهیهٌ» ، آئمہ اطہار علیہم السلام کے علم (اپنے تمام وسعت کے ساتھ) پھر بھی متناہی ہے اور علم غیر متناہی صرف خداوند متعال سے مختص ہے ۔
9۔ «ولا اشکال أيضاًفی علوم المعصومین بکثیرمن الغیوب الواقعه فی الماضی أوالحادثة فی المستقبل ممالایحصی،فالحق وفاقاًلماعرفت وللمحدث الحرّالعاملی وغیرهم کون علومهم(علیهم السلام) ارادية وانهم اذا شاؤوا أن يعلموا علموا» وبها يجمع الاخبار ،مرحوم تنکابنی یہاں پر بتاتے ہیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ معصومین علیہم السلام کے گذشتہ اور آیندہ کے واقعات کے بارےمیں علم غیب گنتی میں نہيں آتے ہیں اور حق بات یہ ہے کہ ان کا علم ارادی ہے یعنی جب بھی ارادہ کر لیں آگاہ ہو جائيں گے ، انہوں نے روایات کو جمع کرتے ہوئے حدیث «أنهم إذا شاءوا أن یعلموا علموا» کو دوسری روایات کے لئے مقید قرار دیا ہے اور بتاتےہیں کہ روایات کو آپس میں جمع کرنے کے لئے بہترین راہ یہی ہے کہ بتایا جائے آئمہ علیہم السلام جب جاننے کا ارادہ کر لیں تو جان جانتے ہیں، اس کے علاوہ کسی طرح جمع ممکن نہیں ہے ۔
ہم آئمہ علیہم السلام کے علم کی وسعت کے بارے میں اگرچہ مرحوم تنکابنی کے ساتھ ہیں لیکن روایات کو آپس میں جمع کرنے کے بارے میں ان کے موافق نہیں ہیں ، چونکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ احکام اور بہت ساری موضوعات کے بارے میں آئمہ علیہم السلام کا علم فعلی ہے صرف موضوعات جزئی میں ان کا علم ارادی ہے ۔
مرحوم تنکابنی آگے فرماتا ہے :«ولایبعد علمهم فعلاًبالحوادث والوقایع الکبار الملاحم والحروب واسماء السلاطین الذین یملکون إلی یوم القیامه الي غير ذلک من الحوادث العظيمة کما دل عليه بعض الاخبار»،البتہ یہ بھی غیر ممکن نہیں ہے کہ آئمہ علیہم السلام بڑے واقعات و حادثات اور جنگوں اور بادشاہوں کے نام اسی طرح قیامت تک کے ہدایت یافتہ اور گمراہ انسانوں کے بارے میں علم فعلی رکھتے ہوں ، لیکن تمام حالات میں ، خواب اور بیداری ، حیات اور ممات میں عالم کے گذشتہ اور آيندہ کے بارے میں علم فعلی رکھنا محل اشکال و اعتراض ہے «وإنما الاشکال فی علمهم علیهم السلام فعلاً فی جمیع حالاتهم فی يقظتهم و نومهم وحیاتهم ومماتهم وسائرحالاتهم لجمیع ماحدث فی العوالم الماضیه وما یحدث إلی یوم القیامه وبعدقیامهامن حالات الخلق بجمیع اطوارهم وشئونهم و حرکاتهم وسکناتهم وقيامهم وقعودهم ونیّات ضمائرهم... فإن ذلک لیس بمعلوم و لم يدل عليه دليل عقلي ولانقلي بل تدل الاخبارالمذکورة وغيرها...»خلاصہ کلام یہ ہے کہ مرحوم تنکابنی تمام موضوعات کے بارےمیں مطلقا علم فعلی رکھنے کے بارے میں شک میں ہیں ۔
اور مہم موضوعات کے بارےمیں علم فعلی رکھنے کو اس طرح قبول کیا ہے : «و لا یبعد علمهم فعلاً بالحوادث و الوقایع الکبار»،اور موضوعات کے بارے میں علم کو ارادی بتایا ہے ، اور مطلقا علم فعلی نہ ہونے کے بارے میں یوں استدلال کیا ہے :«لم یدل علیه دلیل عقلی ولانقلی بل تدل اخبار المذکوره وغیره، الدالةعلی زیادة علومهم فی کل لیلة جمعه أوفی کل یومٍ وعرض الاحوال علیهم ونزول الملائکه لیلة القدر»،ہمارے پاس کچھ ایسی روایات ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ آیندہ کے حوادث اور واقعات اور موضوعات حتی کہ موضوعات جزئیہ کے بارے میں علم فعلی نہیں رکھتے ہیں جیسے وہ روایات جن میں بتایا جاتا ہے کہ شب جمعہ اور شب قدر میں ان کی علم میں اضافہ ہوتا ہے ، اورانسانوں کے حالات اور ان کے اعمال عرضہ ہوتا ہے ، ان احادیث کا معنی یہ ہے کہ شب جمعہ پہنچنے سے پہلے یا شب قدر سے پہلے آیندہ واقع ہونے والے واقعات کے بارے میں علم فعلی نہیں رکھتے ہیں ۔
اس کے بعد لکھا ہے :«المسئلة اصولیةٌ ليست بفرعية لابد فيها من العلم»، یہ مسئلہ
اصول عقاید میں سے ہے کہ محقق کو اس کے بارے میں علم حاصل ہونا چاہئے اور خبر واحد پر اعتماد نہیں کر سکتا ، چونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ خبر واحد سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے ، روز قیامت تک تمام واقعات کے بارے میں آئمہ علیہم السلام کے علم فعلی رکھنے پر اگر ایک خبر واحد دلالت کرے تو اس سے کوئی فایدہ نہیں ہوتا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایسی کوئي روایت ہو تو بھی وہ دوسری تمام روایات اور آیات کے ساتھ تعارض رکھتی ہو گی ، تیسری بات یہ ہےکہ چونکہ روایات کے آپس میں اختلاف ہے تو اسے قرآن کے سامنے پیش کرنا چاہئے ، اور قرآن یہی فرماتا ہے کہ آيندہ کے بارے علم غیب اور تمام جزئیات کے بارے میں علم فعلی صرف خدا کے پاس ہے«عنده مفاتیح الغیب»،«انما الغیب لله» «قل لایعلم من فی السموات والأرض الغیب إلا الله»،پس خبر واحد کے ذریعہ یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔
ہم اس حد تک مرحوم تنکابنی کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ کچھ علوم واجب تعالی سے مختص ہے ، علم مستاثر یا اسم اعظم کے 73 حروف میں سے ایک حرف ،یہ ایک مسلم بات ہے ، یعنی شیعہ علماء میں سے کوئی ایک عالم ایسا نہیں ملے گا جو یہ بتائے خدا کا وہی علم غیب اور اسی وسعت کے ساتھ ہمارے آئمہ علیہم السلام کے پاس بھی موجود ہے ، لہذا موجبہ کلیہ نہیں ہے ، لیکن علم ،موجبہ جزئیہ کے مطابق یعنی خدا وند متعالی کے علم سے ایک سیڑھی نیچے خدا کے عنایت کے مطابق ہمارے آئمہ اطہار علیہم السلام کےپاس ہے۔
لیکن اذا ارادوا علموا اور شب جمعہ یا شب قدر میں آئمہ علیہم السلام کے علم زیادہ ہونے کے بارے میں موجود روایات کا آپس میں اختلاف کے بارے میں ہم یہ بتائيں گے کہ چونکہ علم آئمہ علیہم السلام کے منابع صرف شب جمعہ یا شب قدر سے منحصر نہیں ہے لہذا ان روایات کے آپس میں کوئی تعارض نہیں ہے کہ جب بھی ارادہ کریں جان جائيں گے ۔
ہمارے اور مرحوم تنکابنی کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ امیر المومین علیہ السلام نے علم غیب کی جو تعریف کی اس کے مطابق وہ علم غیب جسے قرآن فرماتا ہے وہ صرف خدا کے پاس ہے «قل إنما الغیب لله»،بغیر واسطہ کے علم ، لیکن یہی علم جب آئمہ علیہم السلام کے اختیار میں قرار دیا جائے گا تو پھر یہ علم غیب نہیں رہے گا چونکہ ان کے معلم ہیں اورخداوند متعال واسطہ ہے ، اور یہ علم احکام اور موضوعات کلی میں فعلی ہے ۔
مرحوم تنکابنی نے یہاں پر بہت اچھی اجتھادی گفتگو کی ہے ، علم ما کان و ما یکون " میں " من" اور "ما" موصولہ کے عموم پر دلالت نہ کرنے کے بارے میں میرزای قمی کے کلام کو نقل کیا ہے ، اور تمام موضوعات میں علم فعلی نہ رکھنے کے بارے میں کچھ مویدات بھی نقل کی ہے جیسے کہ کبھی کبھار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی مطلب کے بارے میں پوچھتے تھے تو حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے ، اس کے جواب کو کل یا پرسوں دوں گا اور وحی کے منتظر رہتے تھے ، یا اس آيت کے نزول کے بارے میں :«إِنْ جاءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصيبُوا قَوْمًا بِجَهالَةٍ» ،کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے نمایندہ کو بھیج دیا اور اس نے جھوٹی خبر دی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ جنگ کے لئے تیار ہو جائیں ، کہتے ہیں اس آيہ شریفہ میں جہالۃ کا معنی یہ ہے کہ بعض موارد میں علم نہیں رکھتے ہیں۔
اس کا جواب بھی وہی ہے جسے مرحوم آشتیانی و غیرہ نے دیا ہے ، کچھ حالات ایسے پیش آتے تھے کہ ان حالات کا تقاضا ہی یہی تھا کہ آئمہ معصومین علیہم السلام حتی کہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے آپ سے علم غیب کی نفی کرتے تا کہ لوگ غلطی میں نہ پڑیں اور کہیں ان کی الوہیت کا قائل نہ ہو جائیں ۔
علماء کے اقوال کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام فقہاء اور اصولیین اس بارے میں متفق ہیں کہ وہ
بےنہایت علم جو خدا کا ہے وہ کسی بھی مخلوق کے پاس نہیں ہے حتی کہ ملائکہ اور انبیاء اور آئمہ علیہم السلام کے پاس بھی نہیں ہے ، یہاں پر تین قسم کے اقوال موجود ہے:
1۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام تمام احکام اور موضوعات کلی اور جزئی کے بارے میں علم فعلی رکھتے ہیں اور یہ ان کے ارادہ سے مشروط نہیں ہے ۔
2۔احکام اور موضوعات کلی کے بارے میں علم فعلی رکھتے ہیں لیکن موضوعات جزئی کے بارے میں ان کا علم ارادہ سے مشروط ہے یعنی اگر ان کے بارے میں علم حاصل کرنے کا ارادہ کرے تو حاصل ہو گا ،کہ ہم نے اسی قول کو اختیار کیا تھا۔
3۔ احکام کے بارے میں علم فعلی رکھتے ہیں لیکن موضوعات کلی ہو یا جزئی ، ان کے بارے میں علم فعلی نہیں رکھتے بلکہ یہ ارادہ سے مشروط ہے۔
فقہاء اور اصولیین کے کلمات میں جستجو کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ سب نے اس بارے میں صراحت کے ساتھ کچھ بیان نہیں کیا ہے جیسا کہ مرحوم شیح انصاری نے اس میں توقف کیا ہے لہذا کوئي یہ نہیں بتا سکتا کہ ان اقوال میں سے کونسا قول مشہور ہے ۔ وصلی الله علی محمد و آله الطاهرین
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] ـ توحيد صدوق: ص305.
[2] ـ الإحتجاج علي أهل
للجاج للطبرسي 19: ص258؛ الكافي (ط - الإسلامية)، ج1، ص: 260.
[3] ـ الكافي (ط -
الإسلامية)، ج1، ص: 261.
[4] ـ فرائد الاصول، ج1،
ص: 374.
[5] ـ درر الفوائد في شرح
الفوائد 39: ص280؛ بحر الفوائد فى شرح الفرائد(طبع جديد)، ج4، ص459.
[6] ـ إيضاح الفرائد،
ج2، ص: 141 و 142