آئمہ علیہم السلام اورعلم غیب(4)
24 November 2024
04:17
۳,۲۶۳
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
آئمہ علیہم السلام اورعلم غیب(4)
امام حسین علیہ السلام کا قیام
اپنے اور اپنے یاران با وفا کی شہادت کے بارے میں علم کے ساتھ تھے (چہارم)
6 / 8 /95
بسم الله الرحمن الرحیم الحمدلله رب العالمین وصلی الله علی سیدنا محمدوآله الطاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین من الآن الی قیام یوم الدین
پچھلی تقریر میں ہماری گفتگو یہاں پر ختم ہوئی تھی کہ قرآن کریم کی آیات اور روایات کے مطابق ، آئمہ معصومین علیہم السلام کا علم بہت وسیع ہے ، اب اس علم کو اصطلاحا علم غیب کہیں یا بشر کے متعارف علم سے ما فوق ، بعض افراد کا اصرار ہے اگر کوئي آئمہ علیہم السلام کے پاس ایسے علم کے ہونے کا عقیدہ رکھیں تو یہ غلو ہے اور جن افراد کا یہ اعتقاد ہے کہ آئمہ علیہم السلام کے پاس ایسا علم ہے وہ غالی یا غلات ہیں۔
گذشتہ مطالب سے یہ واضح ہو گیا کہ علم آئمہ کا موضوع چونکہ قرآن کریم کی آیات اور اہلبیت علیہم السلام کی روایات کے مطابق ہے لہذا غلو نہیں ہے ، اور آئمہ علیہم السلام نے جس غلو کو مورد لعن قرار دیا ہے وہ خود روایات اور بزرگوں کے کلمات میں بیان ہوا ہے ، ہم یہاں پر ان بعض روایات کی طرف اشارہ کریں گے جن میں مفہوم غلو کو بیان کیا گیاہے ، تا کہ ان میں غور و فکر کرنے سے یہ واضح ہو جائے کہ آئمہ علیہم السلام کے بارے میں ہر چیز سنتے ہی اسے غلو نہیں کہہ سکتے ،جیسا کہ آج کل بعض مصنفین علم غیب اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی عصمت کو غلو بتاتے ہیں ، ہم جب غلو کے بارے میں موجود روایات کو ملاحظہ کرتے ہیں تو کسی بھی صورت یہ معنی ثابت نہیں ہوتا ہے ، مرحوم مجلسی نے بحار الانوار کی جلد 25 میں تقریبا سو صفحات میں غلو کے بارے میں موجود روایات کو نقل کیا ہے ، یہاں پر ایک تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہے تا کہ ان روایات سے اس غلو کو واضح کریں جس کے بارے میں ائمہ علیہم السلام اپنے اصحاب کو منع فرماتے تھے ۔
ایک روایت میں ہے کہ زرارہ امام صادق علیہ السلام سے عرض کرتےہیں :«ان رجلاً من ولدعبدالله بن سباء یقول بالتفويض فقال:وماالتفويض؟»، امام زرارہ سے پوچھتے ہیں کہ تفویض کا معنی کیا ہے ؟ یہ پوچھنا اس لئے نہیں تھا کہ امام علیہ السلام کو اس کا معنی معلوم نہیں تھا بلکہ اس لئے تھا کہ بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ امام علیہ السلام نے کوئی اور معنی ارادہ کیا ہے ، لہذا پہلے پوچھتے ہیں کہ تفویض کا کیا معنی کیا ہے ؟ زرارہ کہتے ہیں :«قلت إن الله تبارک و تعالی خلق محمداً 6 وعلیاً 7 ففوض إلیهما فخلقاورزقا واماتاواحییا»،ہمار ا اعتقاد ہے کہ خداوند متعال نے حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کو خلق کیا اور اس کےبعد خلقت کے تمام کاموں کو ان کے سپرد کر دیا ، موجودات کی خلقت ، ان کی رزق و روزی ، ان کی موت اور حیات سب ان کے حیات سے مربوط ہے ،«فقال علیه السلام کذب عدوّ الله»[1]، امام علیہ السلام نے اس کو جھٹلایا اور فرمایا ،یہ خدا کا دشمن جھوٹ بول رہا ہے ،اس روایت کے مطابق تفویض کا معنی کہ جس کے معتقدین آئمہ علیہم السلام کے مورد لعن واقع ہوئے ہیں یہ ہے کہ آئمہ علیہم السلام کے لئے ایسے مقام کا قائل ہو جانا کہ خلقت اور مخلوقین کے رزق و روزی اور حیات اور ممات مستقل طور پر ان کے اختیار میں ہے ۔
حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :«إنا لنبرء الی الله ممن یغلو فینا فیرفعنا فوق حدّنا»،امام علیہ السلام غلات سے برائت طلب کرتے ہیں اور فرماتا ہے یہ لوگ ہمیں اپنی حد سے بہت اوپر لے جاتے ہیں ، اوربات یہاں تک پہنچتی ہے کہ امام ہشتم علیہ السلام فرماتے ہیں:«الغلات کفارٌ و المفوضة مشرکون»[2]، "غلات کافر ہیں اور مفوضہ مشرک، یا ایک اور روایت میں فرماتے ہیں :«الغلات الذين صغّروا عظمة الله تعالي فمن احبّهم فقد ابغضنا و من ابغضهم فقد احبّنا من والاهم فقد عادانا... يابن خالد من کان من شیعتنا فلا يتخذنّ منهم ولیّاً و لا نصیرا»[3]، غلات نے خدا کی عظمت کو کم حساب کیا ہے ، جس نے بھی ان سے دوستی کی ، اس نے ہمارے ساتھ دشمنی کی ہے ، اور جن کے دل میں ان کا بغض ہے اس نے ہمارے ساتھ محبت کی ہے ، ہمارے شیعوں میں سے کوئی بھی ان سے دوستی نہ کرے ، اس روایت میں غلات کے بارے میں ایک بہت واضح معیار کو بیان کیا ہے " خدا کی قدرت کو چھوٹا سمجھنا" شیح صدوق کی امالی میں امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے : «إلینا یرجع الغالی فلا نقبله و بنایلحق المقصر فنقبله فقیل له کیف ذلک یابن رسول الله؟ قال: الغالی قد اعتاد ترک الصلاة و الزکات و الصیام و الحج فلا يقدر علي ترک عادته»[4]،غلات اپنے باطل اعتقاد کے مطابق نماز ،روزہ ، زکات اور حج کو ترک کردیتے ہیں اور خداوندمتعال کی اطاعت کی طرف آنے کی قدرت نہیں رکھتے ، لہذا ہم اسے قبول نہیں کرتے ہیں لیکن اگر کوئی ہمارے حق میں تقصیر کرے ہم اسے قبول کرتے ہیں چونکہ جب اسے سمجھ میں آتا ہے تو وہ عمل کرتا ہے اور خداوند تبارک و تعالی کی اطاعت کرتا ہے ۔
پس پہلا مطلب یہ ہے کہ زمان آئمہ علیہم السلام میں غلات وہ لوگ تھے جو آئمہ کی الوہیت ، خالقیت ، رازقیت کے قائل تھے یا مستقل طور پر یا اس صورت میں کہ خدا نے ان کو خلق کیا اور اس کے بعد تمام امور کو ان کے سپرد کر دیا ، اور دوسری بات یہ ہے کہ مقام عمل میں یہ لوگ اہل نماز ، روزہ اور عبادات نہیں تھے ۔
پہلے یہ بات عرض کر چکا ہوں اور یہاں پر بھی اس کی تاکید کرتا ہوں کہ کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں ہے کہ آئمہ علیہم السلام نے اپنے اصحاب اور اماموں کے علم غیب کے قائل افراد کو مورد لعن قرار دیا ہو ، غلات کے بارے میں فرمایا یہ لوگ کافر ہیں ، اور مفوضہ کے بارے میں فرمایا یہ لوگ مشرک ہیں ، لیکن علم غیب کے معتقد افراد کے بارے میں جو زیادہ سے زیادہ فرمایا ہے وہ یہ ہے میں ان پر تعجب کرتاہوں :"میں تعجب کرتا ہوں ان لوگوں پر جو معتقد ہیں کہ ہمارے پاس علم غیب ہے " اس روایت کی توضیح کو بھی پہلے بیان کر چکا ہوں ،یہ بہت ہی اہم مطلب ہے کہ اگر واقعا اس وسیع علم کا کہ جسکے بہت سارے اصحاب بھی قائل ہیں اگر آئمہ علیہم السلام کے مورد نفی ہوتا تو اس کو بیان فرمانا چاہئے تھا ، درحالیکہ بہت ساری روایات میں ہے کہ فرماتے ہیں: کیا یہ ممکن ہے کہ خدا ہمیں اپنی حجت قرار دے لیکن ہمیں آسمانوں کی باتوں سے آگاہ نہ کرے ؟یہاں پر آسمانوں کی بات سے مراد آئندہ کے بارے میں پیشنگوئی اور آئند ہ واقع ہونے والے واقعات کے بارے میں علم رکھنا ہے ، نہ کہ آسمانوں اور ستاروں کے بارے میں علم ، مرحوم مجلسی فن حدیث کے سپہ سالار ہیں ، آپ نے بحار الانوار کی جلد 25 صفحہ 346 پر غلو کے بارے میں موجود روایات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :«إعلم أن الغلو فی النبی والائمه إنما یکون بالقول بالوهیتهم أو بکونهم شرکاء الله تعالي فی المعبودیة أوفی الخلق و الرزق، أوأن الله تعالی حلّ فیهم أو اتحدّ بهم، أو أنهم یعلمون الغیب بغیروحیٍ أو الهامٍ من الله تعالي، أو بالقول فی الائمة انهم کانوا انبیاء، أو القول بتناسخ ارواح بعضهم إلی بعض، أو القول بأن معرفتهم تغنی عن جمیع الطاعات،ولاتکلیف معها بترک المعاصی، و القول بکلٍّ منها الحادٌ و کفرٌ و خروجٌ عن الدین کما دلّت علیه الادلة العقلیة و الآیات و الاخبار»، یہ عبارت بہت طولانی ہے کہ آخر میں اس عبارت پر پہنچتے ہیں :«و قد عرفت أن الائمه تبرؤا منهم و حکموا بکفرهم و امروا بقتلهم»،جان لو کہ پیغمبر اکرم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ علیہم السلام کے بارے میں غلو یہ ہے کہ ان کی الوہیت اور خدئی کے قائل ہو جائیں یا انہیں عبودیت ، خالقیت اور رازقیت میں خدا کا شریک قر ار دیں ،یا یہ کہیں کہ خدا نے ان کے اندر حلول کیا ہوا ہے ، یا یہ کہیں کہ خدا کی طرف سے وحی یا الہام کے بغیر علم غیب جانتے ہیں ، یا کہیں کہ آئمہ علیہم السلام وہی انبیاء ہیں ، یا ان کے درمیان تناسخ ارواح کے قائل ہو جائیں یا یہ کہیں کہ ان کی معرفت انسان کو خدا کی اطاعت اور عبادات سے بے نیاز کرتی ہے اور اس پر گناہوں کو ترک کرنا واجب نہیں ہے ، یہ تمام باتیں آیات اور روایات اور عقلی دلائل کے مطابق کفر و الحاد اور دین سے خارج ہونا ہے ہمارے آئمہ علیہم السلام نے ان سے سے برائت طلب کی ہے اور ان عقائد کے معتقد افراد پر کفر کا حکم اور انہیں قتل کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔
لیکن وہ افراد جو آئمہ علیہم السلام کے ایسے علم غیب رکھنے کے معتقد ہوں جو خدا کے اذن سے آئمہ علیہم السلام کو عطا ہوا ہے ان کے بارے میں ایسی کوئي روایت نہیں ہے کہ ان سے برائت طلب کی ہو ۔
اس کے بعد تفویض کے بارے میں چھ یا سات اقوال کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں ان میں سے بعض اقوال اور معانی صحیح اور بعض غلط ہے ۔
مرحوم مقرم کتاب " مقتل الحسین علیہ السلام" کے مقدمہ میں آئمہ علیہم السلام کے لئے علم غیب ہونے کو قبول کرنے کے بعد مشہور نظریے کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں :«فالغیب المدعا فیهم علیهم السلام غیر المختص بالباری لیستحیل فی حقّهم فإنه فیه تعالی شأنه ذاتیٌ اما فی الائمة فمجعولٌ من الله سبحانه»،خدا کا علم غیب ذاتی ہے ، لیکن آئمہ علیہم السلام کا علم غیب خدا کی طرف سے ہے ، ہم نے عرض کیا کہ ادلہ سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ خدا کے علم غیب اور آئمہ کے علم غیب میں اختلاف اس کی وسعت میں ہے ، خدا کا علم غیب نا محدود ہے لیکن آئمہ علیہم السلام کا علم غیب محدود ہے ، اگرچہ گذشتہ ، حال اور آیندہ کے بارے میں علم رکھتے ہیں ۔
ایک اور مطلب یہ ہے کہ کہتے ہیں:«ائمه محتاجون فی جمیع الاوقات إلی الفضل الالهی بحیث لو لا دوام الاتصال و تطابق الفیوضات لنفد ما عندهم»،آئمہ علیہم السلام تمام اوقات میں فضل الہی کے محتاج مند ہیں ،اس طرح کہ اگر رابطہ اور فیوضات الہی مسلسل نہ ہوں تو جو کچھ ان کے پاس ہے وہ ختم ہو جائے گا ، اس کے بعد امام صادق علیہ السلام کی روایت سے تمسک کیا ہے : «لو لا أنا نزداد ـ فی کل لیلةٍ جمعة ـ لنفد ما عندي»[5]،آئمہ علیہم السلام خود فرماتے تھے کہ اگر ہر شب جمعہ کو ہمارے علم میں اضافہ نہ ہو جائے تو وہ علوم جو ہمارے پاس ہیں وہ ختم ہو جائیں گے ، اسی طرح ایک اور روایت کو نقل کرتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ علم غیب امام علیہ السلام کے بارے میں اہم ترین روایات میں سے ہے ، امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :«یبسط عنا العلم فنعلم و یقبض لنا فلا نعلم»[6]، یعنی ہمارے علم میں بھی کمی و بیشی ہوتی ہے ، یعنی شب جمعہ اور شب قدر یا محدث ہونے کی وجہ سےیا الہام سے یا نور کی ایک ستون کہ جسے قوت قدسیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے ، اور کبھی کم ہو جاتا ہے جب علم پیدا نہ ہو جائے ،یہ روایت خدا تبارک و تعالی کے علم غیب اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے علم غیب کے درمیان بہترین فرق کو بیان کر رہی ہے ،خدا کے علم غیب میں کمی وبیشی نہیں ہوتی ہے لیکن آئمہ معصومین علیہم السلام کے علم غیب میں ایسا ممکن ہے ۔
مرحوم مقرم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ علیہم السلام کے علم غیب کےبارے میں نقل روایات کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : اس گفتگو کا نتیجہ ان افراد کے سوالوں کا بہترین جواب ہے جو علم غیب کے منکر ہیں، چونکہ بزرگان دین جیسے ، شیخ مفید اپنی کتاب مقالات میں، شیخ طوسی تبیان اور مبسوط میں ، شہید اول غایۃ المراد میں، علامہ تحریر اور قواعد میں ، سید مجاہد مناہج میں ، ابن شہر آشوب مناقب میں ، مجلسی مرآت العقول میں، فاضل حلی کشف اللثام میں اور فاضل مقداد التنقیح میں، سب کا یہ اعتقاد ہے کہ آيہ شریفہ «لا تخطه بيمينک»، اس چیز پر دلالت نہیں کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لکھ نہیں سکتے تھے ، بلکہ زیادہ سے زیادہ جس چيز پر دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کچھ لکھتے نہیں تھے، سوال یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب پڑھ سکتے تھے تو کیا ہر قسم کی لکھائي کو پڑھ سکتے تھے یا صرف عربی مکتوبات کو پڑھ سکتے تھے؟۔
اگر ہم اس چیز کے قائل ہو جائیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام زبانوں کو جانتے تھے ، تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ خداوند متعالی کے اذن سے یہ علم جو عام لوگوں کے پاس نہیں ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ہے ،اس سے ہماری بات ثابت ہوتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ علم خدا سے مختص ہے اور انسانوں کے لئے اس علم کا ہونا محال ہے تو یہ کہنا چاہئے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس بھی ایسا علم نہیں ہے !اور یہ حضرات بھی علماء ابرار میں سے ہیں ، کہ واضح ہے کہ یہ بات ضرورت دین کے خلاف ہے ، البتہ ضرورت سے مراد ، ضرورت فقہی نہیں ہے کہ جس کا انکار کفر کا مستلزم ہو ،یعنی دلائل اس قدر واضح ہیں کہ سب اسے قبول کرتے ہیں اور کسی کو اس میں شک و شبہ نہیں ہے ،ہماری روایات میں بھی آئمہ علیہم السلام فرماتے ہیں :«کلّ ما کان لمحمد 6 فلنا مثله الاّ النبوة والازواج»[7]،ہر وہ چیز جو خداوند متعال نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عنایت فرمائی ہے ، ان میں سے نبوت اورازواج کے علاوہ باقی سب ہمیں بھی عنایت فرمائي ہیں
مرحوم مقرم ان روایات کی توجیہ میں جن میں آئمہ علیہم السلام نے اپنے آپ سے علم غیب کی نفی کی ہے بہت تفصیلی گفتگو کی ہے ، وہ روایت جو کسی لونڈی کے بارے میں تھی کہ حضرت نے فرمایا میں تعجب کرتا ہوں کہ کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس علم غیب ہے درحالیکہ میری لونڈی نے کچھ غلطی کر کے بھاگ گئی ہے اور مجھے معلوم نہیں ہے کہ وہ کس کمرہ میں چھپی ہوئی ہے ؟!ایک اور روایت میں ہے کہ وہاں پر موجود کچھ لوگ حضرت علیہ السلام کی خدمت میں گھر کے اندر چلے گئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ جب ہمارے پاس علم الکتاب ہو تو کیا یہ ممکن ہے کہ مجھے معلوم نہ ہو کہ وہ لونڈی کہاں ہے ؟!لہذا اس روایت کو تقیہ پر حمل کرتے ہیں ،مرحوم مجلسی نے کتاب مرآۃ العقول میں اس روایت کی سند میں شک کیا ہے ، اور لکھا ہے کہ امام علیہ السلام نے توریہ فرمایا ہے کہ میں نے اپنی ان دو ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا کہ وہ کہاں چلی گئي ؟ نہ کہ مجھے معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ کہاں چلی گئي ہے!
اور ہمارے پاس کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن میں آئمہ علیہم السلام نے تصریح فرمائي ہے کہ ان کے علم کے لئے کوئی مانع اور پردہ نہیں ہے ،جیسے وہ روایت کہ امام باقر علیہ السلام کے دروازہ پر کوئي شخص آتا ہے ، امام باقر علیہ السلام کی کنیز نے دروازہ کھولا ، اس شخص نے اس کنیز کے ہاتھ کو پکڑ لیا تو امام علیہ السلام نے گھر کے اندر سے بلند آواز میں فرمایا اندر آجاو ،کیوں یہ غلط کام کر رہے ہو ؟اس شخص نے معذرت خواہی کی اور کہا میں کوئی بری نیت نہیں رکھتا تھا ، اس کنیز کے ہاتھ کو اس لئے پکڑ ا تھا تا کہ دیکھوں کہ آپ کو پتہ چلتا ہے یا نہیں ؟امام علیہ السلام نے فرمایا :«لو کانت الجدر تحجب ابصارنا کما تحجب ابصارکم لکنا وأنتم سواء»[8]، اگر یہ دیواریں جس طرح تمہارے لئے حجاب ہیں اسی طرح ہمارے لئے بھی حجاب ہوتیں ، تو ہم اور تم ایک جیسے ہوتے!
یہ روایات ہمارے لئے اس مسئلہ کو بہت ہی واضح کرتی ہیں ، ان روایات کا نتیجہ یہ ہے کہ آئمہ علیہم السلام تمام واقعات کے بارے میں علم اور آگاہی رکھتے ہیں ، جب اس طرح کے بہت ہی چھوٹے مسائل میں علم اور آگاہی رکھتے تھے تو یقینا ان مسائل اور حالات جو اسلام اور خود آئمہ علیہم السلام کے لئے پیش آتے تھے یقینا ان کی بھی علم و آگاہی رکھتے تھے ، جو خطرات ان کے لئے لاحق تھے اور کون ان کو شہید کرے گا ،اور کہاں پر اورکیسے شہید کیے جائیں گے سب کے بارے میں آگاہ تھے اور علم رکھتے تھے
ان مطالب کے پیش نظر چند سوالات بہت اہم ہیں ، سب سے پہلا سوال خود آئمہ علیہم السلام کی سیرت کے بارے میں ہے کہ یہ حضرات اپنے آپ سے یا معاشرہ سے یا شیعوں سے بلا ؤں کو ٹالنے کے لئے دعا کرتے تھے یا اگر کوئي مشکل ہوتی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر مطہر پر جا کر ان سے توسل کرتے تھے ، اگر کسی کو گذشتہ ، حال اور آئندہ کے بارے میں علم ہے تووہ یقینا اپنی عاقبت کے بارے میں بھی باخبر ہے تو ان دعاؤں کے لئے کوئی توجیہ نہیں بنتی ہے ؟
یا جب آئمہ میں سے کوئی امام متوجہ ہوتے کہ زمانہ کے بادشاہ نے انہیں بلایا ہے اور انہیں شہید کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو کسی نہ کسی طریقہ سے اپنی نجات کے راستہ کو ڈھونڈتے تھے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام سے منقول روایات میں ہے کہ جب ابن ملجم نے آپ علیہ السلام کی بیعت کرنی چاہی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا :«اذاسرّکم ان تنظرواإلی قاتلی فانظروا إلی هذا»،جو بھی میرے قاتل کو دیکھنا چاہتا ہے وہ اس شخص کو دیکھ لے «فقیل له أ لا تقتله؟»،لوگوں نے آپ علیہ السلام سے عرض کیا: کیوں اس شخص کو نہیں مارتے ہیں؟ آپ علیہ السلام نے بہت اچھا جواب فرمایا :«واعجباتریدون أن اقتل قاتلی؟!»[9]،تم کہتے ہو کہ میں اپنے قاتل کو قتل کر دوں ؟ یعنی میں یہ بتا رہا ہوں کہ یہ میرا قاتل ہے ، یعنی خدا کا حتمی فیصلہ اور اس کا ارادہ یہ ہے کہ یہ شخص میرا قاتل بن جائے اور مجھے بھی یہ معلوم ہے ، تو اس کے باوجود تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں اپنے قاتل کو مار دوں ؟
یا امام حسن مجتبی علیہ السلام کے بارے میں ذکر ہے کہ «یستشفی بتربة جدّه تارةً، یعمل بقول الطبیب اُخری، یأخذ بقول أهل التجربه ثالثاً مع علمه بأن ذلک المرض لا یقضی علیه و للاجل حدٌّ معلوم»، امام حسن علیہ السلام کو یہ معلوم تھا کہ ان کی بیماری ٹھیک ہو جائے گي اور اس بیماری کی وجہ سے رحلت نہیں فرمائيں گے اورحتمی موت کا وقت ابھی نہیں پہنچا ہے ، لیکن اس کے باوجود طبیب کے نسخہ پر عمل کرتے ہیں یا با تجربہ افراد کی بات کو سن لیتے ہیں یا اپنے جد بزرگوار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربت سے شفاء طلب کرتے ہیں ، البتہ تربت سے شفاء طلب کرنے کے بارے میں یہ گفتگو ہے کہ اس حدیث قدسی کے مطابق خداوند متعال فرماتا ہے کہ میں نے امام حسین علیہ السلام کی تربت میں شفاء قرار دی ہے ،تو کیا یہ شفاء صرف امام حسین علیہ السلام کی تربت میں ہے یا اس میں تمام معصومین علیہم السلام شامل ہیں ؟بعض روایات میں ہے کہ امام حسن مجتبی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تربت سے شفاء طلب فرماتے تھے ، اس لحاظ سے شفاء طلب کرنے میں ہم توسعہ دے سکتے ہیں ۔
ان واقعات میں امام مجتبی علیہ السلام عادی طریقہ سے پیش آتے ہیں اور دعا اور طبیب سے مراجعہ کرتے ہیں اور اپنے جد بزرگوار کی تربت سے شفاء طلب کرتے ہیں ، کہ جب جعدہ نے اس مسموم دودھ( مشہور نقل کے مطابق) کو آنحضرت کے سامنے پیش کیا ، تو آپ نے اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا :إنا لله و إنا إلیه راجعون الحمدلله علی لقاء محمد سید المرسلین و أبی سید الوصیين و أمی سیدة نساء العالمین و عمی جعفر الطیار فی الجنة و حمزة سید الشهداء ثم شرب اللبن»،
اس کے بعد اس دودھ کو پی لیا اور جعدہ پر نفرین کی ، یعنی علم غیب سے جانتے تھے کہ ان کی حتمی موت کب واقع ہونی ہے ۔
امام کاظم علیہ السلام کے بارے میں بھی نقل ہے کہ ہمیشہ یہ دعا فرماتے تھے :«یا مخلّص الشجر من بین رمل وطين وماء...» ، یہاں تک کہ جب ان کی حتمی موت کا وقت آپہنچا اوروہ زہر دیا گیا جس سے آپ علیہ السلام کو شہید کیا جانا تھا تو اس وقت فرمایا :«یا رب إنک تعلم أنی لو أکلت قبل الیوم کنت قد أعنت علی نفسی»[10]، پروردگارا تو جانتا ہی ہےکہ اگر میں اس سے پہلے اس کو کھا چکا ہوتا تو اپنے آپ کو زحمت میں ڈال دیتا ، یعنی جانتے تھے کہ ان کے کھانے میں زہر ہے لیکن چونکہ قضاء حتمی کے بارے میں علم رکھتے تھے لہذا اسے کھا لیا اور شہید ہوئے، یہ بھی ایک اہم مطلب ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں «انهم ألحّوا فيه علی الله لأجابهم الله و کان أهون من سلک يکون فیه خرز، إنقطع فذهب ولکن کيف اذا لا نريد غير ما اراد الله»[11].، اگر آئمہ علیہم السلام خدا وند متعال سے طاغوت حکمرانوں کی ہلاکت کے لئے دعا کرتے تو خداوند اس دعا کو قبول بھی فرماتے اور یہ کام اس کے لئے تسبیح کے دھاگہ کو توڑنے سے بھی زیادہ آسان ہے ، یعنی اگر واقعا دعا کرتے کہ جو چیز ان کے لئے مقدر ہوئی ہے اسے برطرف فرمائے تو وہ بھی ہو جاتا ، لیکن فرماتے ہیں ہم خدا کے ارادہ کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں ارادہ ہی نہیں کرتے ۔
اس بارے میں امام باقر علیہ السلام سے ایک بہت اچھی روایت نقل ہے کہ فرماتے ہیں :«إنی عجبت من قوم یتولونا و یجعلونا ائمة ويصفون ان طاعتنا مفترضة عليهم کطاعة رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ثم یکسرون حجّتهم و یخصمون أنفسهم بضعف قلوبهم، فینقصونا حقّنا ویعیبون ذلک علی من أعطاه الله برهان حقّ معرفتنا والتسليم لامرنا».[12]
جو لوگ کہتے ہیں کہ آئمہ علیہم السلام کے بارے میں علم غیب کا اعتقاد رکھنا غلو ہے ،یہ لوگ کیوں ان روایات کو نقل نہیں کرتے جن میں آئمہ علیہم السلام نے ان افراد کی سرزنش کی ہے جو ان فضائل کے نقل کرنے والے اصحاب پر اشکال کرتے تھے؟اگر ہمارے آئمہ علیہم السلام علماء ابرار کی حد تک تھے تو اصحاب کے درمیان کوئی اختلاف اور تفرقہ نہیں ہوتا ،سب کہتے تھے کہ علماء ابرار ہیں لیکن اس روایت میں حضرت فرماتے ہیں میں ان افراد پر تعجب کرتا ہوں جو ہماری ولایت کو قبول کرتے ہیں اور اس چيز کے بھی معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کی مانند ہماری اطاعت بھی واجب ہے ، لیکن نفس کی کمزوری دیکھتے ہیں اور ہمارے حق کو کم کرتے ہیں اور ان افراد کی سرزنش کرتے ہیں جو ہمارے لئے مراتب کے قائل ہیں ،اس کے بعد فرماتے ہیں:«أترون ان الله تعالی افترض طاعة اولیائه علی عباده ثم یخفی عنهم اخبارالسماوات والارض ویقطع عنهم موادّ العلم فیمایردعلیهم مما فیه قوام دینهم»،کیا ان لوگوں نے یہ سوچا ہے کہ خداوند متعال نے اپنے اولیاء کی اطاعت کو اپنے بندوں پر واجب قرار دیا ہے لیکن آسمانی باتوں کو ان سے پوشیدہ رکھا ہے اور جس چیز میں دین کی پایداری ہے اس کے علم کو جدا کیا ہے؟
اس کے بعد حمران حضرت سے عرض کرتے ہیں :« فقال له حمران: یابن رسول الله أریت ما کان من أمر قیام علي بن ابيطالب و الحسن والحسین وخروجهم و قیامهم بدين الله و ما اصيبوا من قبل الطواغیت اياهم و الظفر بهم حتی قتلوا و غلبوا»،آپ فرماتے ہیں کہ آپ آسمانی باتوں سے باخبر ہیں تو کیوں امیر المومنین ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام ان طاغوتیوں کے گرفتار رہے ، اگر ان کے پاس علم غیب ہوتا تو ان پریشانیوں سے بچ سکتے تھے ، امیر المومنین علیہ السلام کوئي ایسا کام کرسکتے تھے کہ ابن ملجم کی ضربت کچھ اثر نہ کرے ،امام باقر علیہ السلام نے بہت عمدہ جواب فرمایا ہے : «فقال ابوجعفر یا حمران إن الله تبارک و تعالی قد کان قدّر ذلک علیهم و قضاه و امضاه، و حتمه علی سبیل الاختیار ثم اجراه فبتقدّم علمٍ إلیهم من رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قام علیٌّ و الحسن والحسین،وبعلم صمت من صمت منّا،ولو انهم ياحمران حيث نزل بهم ما نزل من امر الله عزوجل و اظهار الطواغيت عليهم سألوا الله أن یدفع عنهم ذلک و الحّوا علیه فی طلب ازالة ملک الطواغیت وذهاب ملکهم اذاً لأجابهم ودفع ذلک عنهم ثم کان انقضاء مدّة الطواغيت وذهاب ملکهم اسرع من سلک منظوم انقطع فتبددّ وما کان الذي ذلک اصابهم لذنب اقترفوه ولا لعقوبة معصية خالفوا الله فيها ولکن لمنازل وکرامة من الله أراد أن يبلغوها إياها فلا تذهبنّ بک المذاهب فيهم.[13]
اگرچہ خدا نے ان پریشانیوں اور مصائب کو ان کے لئے مقدر فرمایا ہے اور اسے حتمی قرار دیا ہے لیکن اس تقدیر میں خود ان کا اختیار بھی دخل انداز ہے،ہمارے اس موضوع کے مطالب میں سے ایک بنیادی مطلب یہی ہے کہ امام حسین علیہ السلام واقعہ کربلا کے تمام جزئیات سے باخبر تھے تو کیا اس کام کو ترک کر سکتے تھے یا نہیں ؟ کیا کربلا کی طرف نہیں جا سکتے تھے یا نہیں بلکہ جانا ہی ضروری تھا ؟ کیا امام علیہ السلام کے پاس ایسا اختیار تھا یا نہیں ، بلکہ اس کام کے انجام دینے پر مجبور تھے؟!
اس حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ان حضرات نے اپنے علم کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لیا ہے ، امیر المومنین ،امام حسن اور امام حسین علیہم السلام جانتے تھے کہ ان کے لئے کیا کیا واقعات پیش آنے والے ہیں ، لہذا ان کے سکوت اور قیام علم کے ساتھ ساتھ تھا ، ایسا نہیں ہے کہ کہیں انہی معلوم نہیں کیا پیش آنے والا ہے ، اگر یہ حضرات ان بلاؤں اور مصائب کے دفع کی درخواست کرتے تو اس کی اجابت تسبیح کے دھاگہ کو توڑنے سے زیادہ آسان تھی ۔
ان حضرات کا ان بلاؤں میں مبتلا ہونا اس وجہ سے نہیں تھا کہ نعوذباللہ یہ حضرات خداوند متعال کے کسی گناہ یا معصیت کے مرتکب ہوئے ہوں ، بلکہ خداوند متعال کے ہاں ان بزرگواروں کے لئے کچھ بلند مراتب اور منازل مد نظر تھے اور خدا نے ارادہ فرمایا تھا کہ ان کو اپنے اختیار سے کرامت کے اعلی درجہ پر فائز کرے۔
اس کے بعد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام حمران کو یہ نصیحت فرماتا ہے :«فلا تذهبنّ بک المذاهب یا حمران»،ہمیں چاہئے کہ آج بھی ہم امام باقر علیہ السلام کی اس نصیحت پر کان دھر لیں ،تا کہ آجکل کے بہت سارے شبہات ہمیں عقیدتی انحراف میں گرفتار نہ کریں ،پس پہلی بات تو یہ ہے کہ آئمہ علیہم السلام علم غیب جانتے تھے کہ کب اور کہاں شہید ہونا ہے ؟کون انہیں شہید کرے گا ؟اس کی تمام خصوصیات کو بھی جانتے تھے ، دوسری بات یہ ہے کہ خداوند تبار ک وتعالی سے یہ درخواست کر سکتے تھے کہ ان بلاؤں کو رفع کرے لیکن خود انہوں نے فرمایا :«لا نرید إلا ما أراده الله تعالی»،خدا کے ارادہ کے متحقق ہونے کے علاوہ کسی اور چیز کا ارادہ ہی نہیں کرتے تھے ،ضمنا ان مصائب اور مشکلات کو تحمل کرنے کے سبب کچھ مقامات اور درجات ان کے لئے مقدر ہوئے تھے کہ کسی بھی صورت ان مقامات تک پہنچنا تھا ،حضرت امام حسین علیہ السلام کے واقعہ میں کبھی یہ مطلب بیان ہوتا ہے کہ خداوند متعال نے امام حسین علیہ السلام کے لئے ایک ایسے مقام کو قرار دیا تھا جس پر شہادت کے بغیر نہیں پہنچا جا سکتا تھا ، یہ مطلب صحیح ہے لیکن تمام واقعہ کربلا کو اسی میں منحصر نہیں کرنا چاہئے اور صرف یہی تحلیل نہیں ہونی چاہئے ۔
پس یہ مطلب واضح ہو گیا کہ علم غیب کے ہونے کے ساتھ دعا اور شفاء طلب کرنے کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے ، وہ مشکل جس کے ساتھ خداوند متعال کی حتمی قضاء نہ ہو ان کے برطرف ہونے کے لئے دعا کرتے ہیں ، لیکن جو واقعات حتمی ہیں ان کے لئے دعا نہیں کرتے تھے چونکہ جانتے تھے کہ یہ واقع ہونا ہی ہے اور یہ حضرات بھی چاہتے تھے کہ خدا کا ارادہ اور مشیت متحقق ہو جائے
ایک اور مطلب جو واضح ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ قرآن میں فرماتا ہے :«ولاتلقوا بأیدیکم إلی التهلکة»،اس آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے کہ انسان پر اپنے نفس کی حفاظت واجب ہے ، بعض اوقات یہ بتایا جاتا ہے کہ حفظ نفس کے واجب ہونے کے بارے میں ہمارے پاس ضرورت اور اجماع کے علاوہ کوئی اور دلیل نہیں ہے ، نہیں! ایسا نہیں ہے ، بلکہ خود یہ آیہ کریمہ حفظ نفس کے واجب ہونے کے بارے میں ایک بہت ہی اچھی دلیل ہے ، انسان کو چاہئے کہ اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالے ، یہاں سوال یہ ہے کہ اگر آئمہ علیہم السلام کے پاس علم غیب تھا تو ان کا یہ کام ظاہری لحاظ سے کیا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں ہے ؟واقعہ عاشورا کے بارے میں ہماری ایک بات یہ ہے کہ ہم اس واقعہ کو فقہی موازین کے مطابق تحلیل کر سکیں ، یہ جو بات کرتے ہیں کہ واقعہ عاشورا استثنائی ہے اور فقہ اور اصول کے ضوابط سے باہر ہے ، یہ کوئي صحیح بات نہیں ہے چونکہ تمام واقعات ،فقہی موازین پر قابل انطباق ہیں، انسان کے اعمال کی تصحیح کے لئے موازین فقہی دو ملاک کو بیان کرتا ہے ، ایک یہ ہےکہ انسان اس حکم کو انجام دینے کی قدرت رکھتا ہو ، انسان پر اس کی نفس کی حفاظت وہاں واجب ہے جہاں پر وہ اس پر قدرت رکھتا ہو ، لیکن اگر ابھی دشمن حملہ کرتا ہے اور انسان کو ختم کر دیتا ہے یہ انسان ظاہری لحاظ سے اپنے جان کو حفظ کرنے کی کوئی قدرت نہیں رکھتا ، یہاں پر خود بخود اس تکلیف کا موضوع ختم ہو جاتاہے ۔
دوسرا مطلب تزاحم ہے ، جی ہاں! جان کی حفاظت واجب ہے اور اسے ہلاکت میں ڈالنا حرام ہے لیکن اگر یہ کسی اہم واجب سے جیسے حفظ دین جو کہ اہم واجبات میں سے ہے متزاحم ہو ، تو وہاں پر ممکن ہی نہیں ہے کہ یہ شبہہ پیدا ہو جائے کہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ، پس کیوں امام حسین علیہ السلام نے یہ کام کیا ؟اگر امام حسین علیہ السلام کو علم غیب تھا یا عام علم تھا کہ شہید ہو جائیں گے تو یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہوا، لہذا مدینہ میں ہی رہنا چاہئے تھا اور اگر مکہ میں رہنا ان کے لئے خطرہ کا باعث تھا تو انہیں یمن کی طرف جانا چاہئے تھا ۔
جواب یہ ہے کہ حفظ جان کے واجب ہونے کے مقابلہ میں ایک اہم کام آ کھڑا ہوا ہے ، جس طرح جہاد سے مربوط آیات اہم ملاک کے ساتھ بیان ہوئي ہیں ، چونکہ جہاد بھی اپنی جگہ جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ، انسان جب جہاد میں جاتا ہے تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے لیکن چونکہ ایک اہم مسئلہ جیسے حفظ دین اور بقاء اسلام کی بات ہے لہذا اس لحاظ سے کوئي مشکل نہیں ہے اور یہ جائز ہو جاتا ہے ۔
سوال اور استاد محترم کا جواب: عرض ہوا کہ علمی گفتگو اور تقریر میں فرق ہے ، اگر ہم یہاں پر تقریر کرنا چاہتے تو پہلے سے ہی یہ بتا دیتے کہ ہمارے پاس کم از کم 12 ایسے شواہد ہیں کہ امام حسین علیہ السلام اس حرکت اور قیام میں اصل شہادت سے آگاہ تھے ، یہ واضح ہے ،ام سلمہ ، محمد بن حنفیہ سب اس سے باخبر تھے ، لیکن یہ عام علم ،شہادت کی جزئيات کے بارے میں جو علم ہے اس کو ثابت نہیں کرتا ، غور فرمائيں: اس عام علم سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام ،علی اصغر علیہ السلام کی شہادت کا بھی علم رکھتے تھے اور یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دشمن ان کو کیسے شہید کرے گا ،یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ گردن کے پیچھے سے شہید کیا جائے گا ، عام اور عادی علم کہ انشاء اللہ بعد میں بیان کروں گا کا نتیجہ یہ ہے کہ إنک مقتولٌ فی أرض کربلا إن اولادک مقتولٌ فی أرض کربلا و اهل بیته ... ،اسی حد تک علم عادی سے ثابت ہے ، لیکن جب ہم کہتے کہ امام علیہ السلام کے پاس علم غیب ہے ، تمام جزئیات سے با خبر ہیں ، کہ کربلا میں کس جگہ پر کس شقی کے ہاتھوں اور کس طرح شہید کیے جائيں گے ؟ جو لوگ کہتے ہیں کہ امام علیہ السلام کو عادی علم کے ساتھ خود شہید ہونے کے بارے میں علم تھا ، جب ہم کہتے ہیں کہ تمام جزئیات کے بارے میں علم غیب تھا ، تو ان کا سوال اور شدید ہوتا ہےیا نہیں؟!
علم عادی اور علم غیب کے نتیجہ میں بہت فرق ہے ، جو شخص کہتا ہے کہ علم عادی کے مطابق امام حسین علیہ السلام کو یہ قیام نہیں کرنا چاہئے تھا ، تو علم غیب کی صورت میں تو بہت ہی سزاوار تھا کہ یہ حرکت نہیں کرنی چاہئے تھی ، جب ہم علم غیب کی بات کرتے ہیں اور کہتے کہ حضرت علیہ السلام کو تمام جزئیات کے بارے میں علم تھا ، تو یہ ان کے اس قیام کی عظمت کو کتنا بڑھاتا ہے ! جب امام علیہ السلام کو تمام جزئیات کے بارے میں علم غیب تھا ، تو اس سے اس قیام کی عظمت اور زیادہ ہو جاتی ہے ، یعنی اس واقعہ کو عظمت کے لحاظ سے ہزار برابر کرتا ہے ،یعنی حضرت علیہ السلام کو معلوم تھا کہ علی اصغر علیہ السلام کو پانی کے لئے میدان میں لایا جائے گا ،دشمن ان کو وہاں پر شہید کرے گا ، قاسم علیہ السلام کو ایسی حالت میں شہید کرے گا ، علی اکبر علیہ السلام کو اس فجیح حالت میں ، حضرت عباس علیہ السلام کو اس حالت میں ، سب کے سروں کو ابدان مطہر سے جدا کيا جائے گا ، عادی علم میں کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ سروں کو جدا کیا جائے گا ، اسی وجہ سے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے بارے میں یہ نقل تاریخ میں نظر آتا ہے کہ فرماتی ہیں :مجھے یہ سب معلوم تھا لیکن اسیر ہونے کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔
ہم نے اس گفتگو کو بہت وسعت دی اور بہت ہی دقیق جواب دیا ہے، ہم کہتے ہیں کہ علم غیب رکھتے ہیں، حضرت علیہ السلام تمام جزئیات سے باخبر تھے ، اور دعا کے ذریعہ ان سب کو برطرف بھی کرسکتے تھے ،کہ واقعہ کربلا کے بارے میں یہ بھی تاریخ میں ذکر ہے کہ خدا نے چاہا ملائکہ کو نصرت کے لئے بھیجے لیکن امام علیہ السلام نے قبول نہیں کیا ، یعنی چونکہ ان کے لئے خدا کا ارادہ مہم تھا لہذا چاہا وہی واقع ہو جائے ، اگر اس گفتگو اور اس کے نتیجہ کے بارے میں غور وفکر کریں تو یہ بحث بالکل بدل جاتی ہے ۔
آئمہ علیہم السلام یہی نصیحت فرماتے تھے کہ ہمیں اپنی حدود میں قرار دو ، یعنی خدا کی حد تک نہ لے جاؤ، اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ معمولی انسان کی حد تک لے جاؤ بلکہ مراد یہ ہے کہ خدا کی حد تک نہ لے جاؤ۔
بیان ہوا کہ خدا کا علم غیب بغیر واسطہ کے اوربغیر کسی معلم کے ہے لیکن آئمہ علیہم السلام کا علم غیب واسطہ کے ساتھ اور کسی معلم کے توسط سے ہے ،یہ پہلی بات ، دوسری بات یہ ہے کہ خدا وند متعال کا علم نا محدود ہے لیکن آئمہ علیہم السلام کا علم محدود ہے ۔
میں یہاں پر مجمع وارث الانبیاء کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، جو مسؤلین یہاں پر تشریف فرما ہیں ، اور جو افراد امام حسین علیہ السلام کے حرم میں ہیں سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،کہ اس پروگرام کو بنایا اسی طرح آپ تمام بہن بھائيوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ، امید ہے کہ ان چند دنوں کی گفتگو ہمارے لئے قیامت کا ذخیرہ قرار پائے ان شاء اللہ
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته
[1] ـ بحار الانوار (ط ـ بيروت): ج25، ص344.
[2] ـ عيون اخبار الرضا، ج2، ص203.
[3] ـ بحار الانوار(ط ـ بيروت): ج25، ص266.
[4] ـ بحار الانوار(ط ـ بيروت): ج25، ص265.
[5] ـ کافي (ط ـ اسلاميه): ج1، ص254.
[6] ـ کافي (ط ـ اسلاميه): ج1، ص256.
[7] ـ بحار الانوار(ط ـ بيروت): ج26، ص317.
[8] ـ بحار الانوار(ط ـ بيروت): ج46، ص258.
[9] ـ بصائر الدرجات: ج1، ص89.
[10] ـ امالي صدوق، النص، ص148.
[11] ـ الخرايج والجرائج: ج2، ص870.
[12] ـ کافي (ط ـ اسلاميه): ج1، ص261.
[13] ـ کافي: ج1، ص262.