اہل بیت مفسرحقیقی قرآن کریم

24 November 2024

02:31

۲,۳۳۱

خبر کا خلاصہ :
حضرت آيت الله حاج شيخ محمد جواد فاضل لنکراني(دامت برکاته) نے مرکز فقہی آئمہ اطہار علیہم السلام کے تفسیر کے اساتید کے ساتھ ملاقات میں طلاب کے لئے تفسیری دوروس اور مباحثہ کی اہمیت کے بارے میں کچھ اہم مطالب بیان فرمائے۔
آخرین رویداد ها


اگر قرآن کے مفسر اور مبين اہل بیت  علیہم السلام  نہ ہوتے ، تو آیات کے مہم نکات او مطالب کو اخذ کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔

بسم الله الرّحمن الرحیم

بہتر تو یہ تھا کہ آپ اساتید محترم میں سے کوئی کچھ مطالب بیان فرماتے کہ ہم  اس سے استفادہ کریں ، لیکن آپ اساتید محترم کی  زحمات کی قدر دانی  اور شکریہ اداء کرنے  کے لئے کچھ مطالب بیان عرض کروں گا ۔

سب سے پہلے تو میں خدا کا شکر اداء کرتا ہوں کہ حوزہ علمیہ مقدسہ قم کے برجستہ شخصیات ہمارے اس ادارہ میں موجود ہیں ، اور  تفسیرکا یہ شعبہ موضوع اور شیڈول دونوں  لحاظ سے بہت ہی جامع شعبہ ہے ، لہذا ہمیں اس شعبہ سے بہت ساری امیدیں وابستہ ہیں ، ہمیں ایسے پروگرام کے تحت اس میں کام کرنے کی ضرورت ہے کہ یقین ہو جائے کہ سات آٹھ سال کے اندر بہت سارے ایسے طلاب اور فضلا ء  یہاں سے نکلیں گے جن میں قرآن کی تفسیر کرنے کی صلاحیت آجائے ،یہ حضرات قرآن کا صحیح طریقہ سے ترجمہ کر سکے ، اور قرآن کریم سے بہتر مطالب حاصل کر سکے ، ایسا نہ ہو کہ اگر اس ایک لاکھ طلاب والے حوزہ سے کسی نے چالیس پچاس مفسر  درخواست کرے تو ، ہمارے بزرگان اور مراجع یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ہمارے پاس اتنی تعداد میں مفسر نہیں ہیں ۔

آپ سب نے یقیناً سنا ہو گا کہ آقای قرائتی بتاتے ہیں  کہ میں نے مراجع تقلید میں سے کسی ایک کی خدمت میں عرض کیا کہ پورے ملک کے لئے مجھے 400 تفسیر کے استادوں کی ضرورت ہے ، تو انہوں نے جواب دیا چار سو نہیں شاید 4 بھی نہ ہو ،یہ بات انقلاب کے بعد حوزہ کے لئے مناسب نہیں ہے ۔

لہذا جن چیزوں کے بارے میں تغیر و تبدل کی ضرورت ہے ان میں سے ایک یہی تفسیر کی طرف توجہ دینا اور قرآنی مطالب کو پھیلانا ہے ۔

آپ سب بخوبی واقف ہیں کہ قرآن کریم سے انس پیدا کرنے کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ہر دن انسان کے لئے ایک نیا دروازہ کھل جاتا ہے ، قرآن کا یہ میدان ایک ایسا میدان ہے کہ اس سے مأنوس ہر انسان کے لئے چاہئے وہ مجتہد ہو یا حکیم ، یا اديب سب کے لئے جدید مطالب ملتا ہے اور یہ کام آپ حضرات کے ذریعہ حوزہ علمیہ میں انجام پانا چاہئے۔

ہمارے   اس حوزہ علمیہ کی اچھی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ سبق پڑھانے کی وجہ سے خود استاد بھی ہر روز علمی لحاظ سے رشد و نمو پاتے ہیں ،دوسرے علمی مراکز میں استاد ایک خاص اور پہلے سے طے شدہ مطالب کو ہر سال پڑھاتے ہیں ، میرے خیال  میں ایسے تدریسی نظام کے لئے استاد کہنا مجاز ہے ،حقیقت نہیں ہے ، استاد وہ ہے جو پڑھانے کی وجہ سے خود بھی علمی لحاظ سے رشد و نمو کرے ،بعض یہ بتاتے ہیں کہ استاد علمی لحاظ سے اچھے شاگرد کی وجہ سے ،رشد کرتا ہے کہ یہ بات ایک صحیح بات ہے ۔

30 سال پہلے مرحوم آقای منتظری (رحمۃ اللہ علیہ) ہمارے مرحوم والد محترم  (رضوان الله تعالی علیه) سے ملاقات کے لئے آئے،  اس وقت مجھ سے پوچھا کہ تم کتنے درس و تدریس میں مشغول ہو؟میں نے بتایا دو درس پڑھا تا ہوں ، اس وقت مرحوم والد محترم نے فرمایا کہ میں ان سے یہ بتاتا ہوں کہ ایک پڑھانا کم ہے اور دو زیادہ ہے ، تو مرحوم منتظری نے کہا کہ ان کو زیادہ سے زیادہ پڑھانے دیں ، اس کے بعد کہا: میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے اسی تدریس سے حاصل کیا ہے ۔

 حقیقت یہ ہے کہ استاد تدریس کے ذریعہ ہی محکم ہوتا ہے ، اگرچہ اس میں طلبہ اور شاگرد اور مخاطب کا بھی نمایاں کردار ہے ،لیکن وہ استاد جو پڑھانا چاہتا ہے اور آدھ گھنٹہ مطالعہ کرتا ہے اور وہ استاد جو ایک گھنٹہ مطالعہ کرتا ہے اور وہ جو 4 گھنٹے مطالعہ کرتا ہے ان کے آپس میں فرق ہے ۔

میں ابھی جس مطلب کو ایک درخواست کی شکل میں بیان کرنا چاہوں  گا وہ یہ ہے : درس پڑھاتے وقت جو جدید مطالب حاصل ہوتا ہے ان سب کو ایک جگہ پر ،اساتید کے جدید مطالب کے عنوان سے جمع کیا جائے ، اور ان مطالب کے بارے میں تحقیقی شعبہ کام کریں اور ان جدید مطالب کے بارے میں مختلف کنفرانس منعقد کرائے۔

میں جس وقت مہدویت کے بارے میں موجود آیات کی تدریس کرتا تھا ، اس وقت یہ دیکھا  گیا کہ حضرت حجت (عج) سے مربوط  روایات کو  قرآن کریم کی انہی آیات سے نکال سکتے ہیں ، جس کے بعد ہمیں دوبارہ روایات کی سند کے بارے میں بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔فقہ میں بھی ایسا ہی ہے ،زمانہ جتنا گزرتا ہے انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ آیات کے ذیل میں یہ جو روایات ہیں ان میں کیا کیا مہم مطالب  موجود ہیں ،کہ میں کبھی کبھی یہ بات بتاتا رہتا ہوں کہ اگر اہل بیت علیہم السلام قرآن کے مفسر اور مبین  نہ ہوتے تو یہ گہرے مطالب بیان نہیں ہوتے ، اور کبھی بھی قرآن کریم کی آیات سے یہ مہم مطالب   حاصل  نہیں کر سکتے ۔

آپ اس آیت کریمہ کو ملاحظہ فرمائيں:«مَنْ كانَ في‏ هذِهِ أَعْمى‏ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمى‏ وَ أَضَلُّ سَبيلا»،آئمہ علیہم السلام سے وارد روایات میں نقل ہے کہ یہ آیت ایسے شخص کے بارے میں ہے جس نے حج کو آج کل کر کے انجام نہیں دیا ہو ، اب اگر اس آیت کے مصداق کو آئمہ علیہم السلام نے بیان  فرمایا ہے ،لیکن یہی مصداق کو بیان کرنا بھی ہر کسی کا کام نہیں ہے ، ایسا نہیں ہے کہ بتایا جائے کہ مصداق بیان کرنا تو ایک ایسی چیز ہے جو ہم بھی بیان کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں ۔

یہ جو فرمائے ہیں :«يسوّف الحج حتّی یأتیه الموت»جو حج کے بارے میں کل پرسوں کرتا ہے  اور اس کے انجام میں تاخیر کرتا ہے  یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی ہے ، وہ شخص  اس  آيہ شریفہ «مَنْ كانَ في‏ هذِهِ أَعْمى‏»کا مصداق ہے ،اگر انسان کی پوری عمر اس میں گزار دیتے تب بھی وہ یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس آیہ کریمہ کے مصادیق میں سے ایک واضح مصداق ایسا شخص ہے ۔

 یا سورہ حج کی آیت شریفہ  کی ذيل پر بہت کم توجہ ہوتی ہے «لِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبيلاً وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمين‏»، قرآن کریم میں جو «مَن کَفَرَ» ذکر ہے اس بارے میں کتنے گفتگو ہوئے ہیں ؟حتی کہ خود روایات میں غور و حوض انسان کے لئے بہت سارے  دروا‌زے کھلتے ہیں ۔

میری نظروں سے ابھی تک " کفر اور اسلام قرآن کی نظر میں " یا " کفر اور ایمان قرآن کی نظر میں" کے بارے میں کوئی جامع کتاب  نہیں گزری ہے ، چونکہ یہ بحث ابھی تک اچھی طرح بیان نہیں ہوا ہے ، ہمارے فقہاء عظام بھی جب اس آیت کریمہ پر پہنچتے ہیں تو اس کے ذیل میں وارد روایات کو نقل کر کے بحث کو ختم کر دیتے ہیں ،درحالیکہ ایک روایت میں  معتبر راوی کہتا ہے : «فَمَنْ لَمْ يَحُجَّ مِنَّا فَقَدْ كَفَر»،یعنی جو حج کو ترک کرتا ہے وہ کافر ہوتا ہے ،  امام علیہ السلام فرماتا ہے ، ایسا نہیں ہے ،«وَ لَكِنْ مَنْ قَالَ لَيْسَ هَذَا هَكَذَا فَقَدْ كَفَرَ»، تو اس جملہ«لیس هذا هکذا» کو کیا معنی کرنا چاہئے ؟ یہ ایک اور مشکل ہے ۔

بہر حال جن مطالب کے بارے میں کچھ کام نہیں ہوا ہے ان کے بارے میں زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے ،حتی کہ ہم نے ابھی تک اس موضوع پر بھی کام نہیں کیا ہے کہ قرآن کی قرآن سے تفسیر مہم ہے یا قرآن کی روایات سے تفسیر کرنا مہم ہے ؟ میں نے  کہیں بھی نہیں  دیکھا ہے کہ دونوں ایک ساتھ انجام پايا ہو ،بہت سارے بزرگواران قرآن سے قرآن کی تفسیر کے صحیح ہونے کے بارے میں اشکال کرتے ہیں، لیکن بعض بزرگان  کا روش ہی یہی ہے جیسے علامہ طباطبائي نے انجام دیا ہے ، لیکن یہ واضح ہونا چاہئے کہ  ان دونوں میں سے ہر کی  کیا خصوصیات  ہیں ؟ یہ کام اس مرکز کے علاوہ اور کہاں انجام پاسکتا ہے ؟

میں تفسیر المیزان  میں مرحوم علامہ کے مبانی کے بارے میں بہت معتقد ہوں ، چونکہ میرا یہ اعتقاد ہے کہ مرحوم علامہ نے بہت زیادہ زحمت کی ہے ،اور بہت سارے جدید مطالب کو بیان کی ہیں ، اور انہوں نے اس روش اور طریقہ کو اپنایا ہے کہ روایات کے بحث کو آیت کے تفسیر اور بیان کے بعد رکھا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا نظریہ ہے آیات قرآن کریم کے بارے میں روایات اور خبر واحد حجت نہیں ہے ۔

میں  ایک دن مرحوم آقای معرفت کے  پاس تھا ، اس وقت آپ "تفسیر اثری" لکھنے میں مشغول تھے، مجھے بتایا کہ میں اس روایت پر پہنچا تو دیکھا کہ یہ عقل کے برخلاف ہے تو میں نے اسے الگ رکھ دیا ، میں نے وہیں پر ان سے گفتگو کی ، کہ کس دلیل کی بناء پر ؟ شاید اس کا معنی یہ ہو، تو انہوں نے بتایا کہ اگر یہ معنی ہو تو قابل قبول ہے ، میں نے اس وقت یہی بتایا کہ پس ہم بہت ہی عجلہ پنی میں   ان روایات کو قرآن سے دور نہ کریں ، روایات میں استدلال اور استشہاد کی جنبہ کو لحاظ رکھنا بہت زیادہ مہم ہے ۔

واقعا روایات میں کام کرنا بہت ہی مشکل ہے ، خود اسی آیہ «لِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ»، کے ذیل میں معتبر روایت موجود ہے ، کہ فرماتے ہیں:«هَذِهِ لِمَنْ كَانَ عِنْدَهُ مَالٌ وَ صِحَّةٌ وَ إِنْ كَانَ سَوَّفَهُ لِلتِّجَارَةِ فَلَا يَسَعُهُ»،حج ان افراد پر واجب ہےجن کے پاس مال ہواور صحت و سلامت ہو ں، پس اگر کوئی تجارت کی وجہ سے حج ادا نہ کرے تو اس پر حج نہیں ہے ، اس آیت میں حج کو بعد میں چھوڑ دینے کی بات کہاں ہوئی ہے ؟امام علیہ السلام نے آیہ شریفہ سے کس طرح حج کو بعد کے لئے چھوڑ دینے کی بات کو اخذکیا ہے ؟! یہ بہت ہی مہم مطلب ہے ۔

یہ بات قابل بحث و گفتگو ہے کہ کیا قرآن کریم کی آیات کی تفسیر میں خبر واحد حجت ہے یا نہیں ؟ کہ علم اصول میں مشہور یہ ہے کہ خبر واحد حجت ہے، اس طرح کے ابحاث اور موضوعات بہت ہی مہم اور بنیادی موضوعات میں سے ہے کہ آپ کے اس ادارہ سے اس بارے میں تحقیق کرنے کی امید ہے ، اگرچہ ممکن ہے بعض افراد نے اپنے کلمات اور تالیفات میں اس بارے میں بھی کچھ نہ کچھ بحث کی ہوں، لیکن ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہئے کہ 50 سال بعد قرآن کی تفسیر کے بار ے میں کیا ہو جائے گا ۔

اگر قرآن سے قرآن کی تفسیر ایک اچھا اور بہترین روش ہے تو اسے اور زیادہ محکم کریں، اس وقت مشہد کے بعض بزرگ علماء جن کے اپنے خاص طرز تفکر ہیں ، ان کے نزدیک ایک چیز جس کا باطل ہونا اظہر من الشمس ہے وہ قرآن سے قرآن کی تفسیر کرنا ہے ، یہ حضرات اپنے  اجتماعات میں صراحت کے ساتھ اسے بیان کرتے ہیں ، اب ممکن ہے یہ  سب کے سامنے بیان نہ کرے لیکن اپنے نجی محفلوں میں اسے بیان کرتے ہیں ، درحالیکہ اس مسئلہ کو اس طرح سے بیان کرنا صحیح نہیں ہے ، یا دوسرے گروہ روایات سے قرآن کی تفسیر کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ بھی صحیح نہیں ہے۔

میں آپ سب کا وقت لینا نہیں چاہتا میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ سب کا شکریہ اداکروں اور یہ عرض کروں کہ واقعا آپ کا یہ کام بہت بڑا اور قیمتی کام ہے ، مجھے امید ہےکہ یہاں سے بہت اچھے نتائج بر آمد ہوں گے ، اب یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ یہاں کے طلاب کے مقالات مختلف مجلوں میں چھپتے ہیں ، ان شاء اللہ یہ مقالات کتابوں کی صورت میں لوگوں کے لئے پیش ہو اور ہم قرآن کے بارے میں شیعہ حوزات علمیہ کے اہل سنت پر برتری کو کامل طور پر ثابت کر سکيں گے ۔

گذشتہ سال الازہر یونیورسٹی کے ایک عالم اسی مرکز میں ہم سے ملاقات کے لئے آئے تھے ، میں نے پہلے ہی ایک محقق کو بتا دیا تھا کہ اہل بیت علیہم السلام  نے فقہ میں جن آیات سے استدلال فرمائے ہیں ان کو نکال کر رکھیں ،اس کے بعد مذاہب اربعہ کے علماء نے اپنے فقہ میں قرآن  کی جن آیات سے استدلال کیا ہے ان کے ساتھ مقابلہ کرائے ، اب اہل بیت علیہم السلام کا اعتقادات میں  قرآن سے تمسک اپنی جگہ ایک بحث ہے ،لیکن فقہ میں ہمارے آئمہ علیہم السلام نے قرآن سے تمسک فرمائے ہیں وہ دو جلدوں پر منتشر ہوئے کہ اہل سنت سے قابل مقایسہ ہی نہیں ہے ۔

میں نے اس الازہر کے عالم دین کو یہ دو کتابیں دی اور کہا: کیا اس کے بعد بھی شیعوں پر تحریف قرآن کی تہمت  لگانا صحیح ہو گا  ؟ وہ خود بھی اس بات سے اتفاق نہیں کر رہا تھا، میں نے بتایا کہ اعتقادی حوالہ سے جن آیات سے استدلال ہوا ہے وہ تو اس سے بھی زیادہ ہے کہ ابھی اس پر کام ہو رہا ہے ۔

ہمارے آئمہ علیہم السلام قرآن اور تفسیر قرآن کے بارے میں اتنے زیادہ توجہ کرتے تھے ، لیکن جس چیز کا شیعوں سے نسبت دیا جاتا ہے وہ اس کے برخلاف ہے ۔

شیعہ حوزات علمیہ خصوصا حوزہ علمیہ قم اس بارے میں جتنا زیادہ ہو سکے کوشش کرے اور جدید اور پہلے سے زیادہ محکم تفاسیر پیش کرے تو یہ دنیای اسلام میں شیعوں کی عزت اور اعتبار زیادہ ہونے کا سبب ہے ۔

آپ حضرات اس بارے میں جو مشقتيں اٹھا رہے ہیں انشاء اللہ خداوند تبارک و تعال قبول فرمائے گا اور امام زمان علیہ السلام کے الطاف خاصہ آپ سب کا شامل حال ہو گا ۔

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته

برچسب ها :

قرآن اہل بیت تفسیر علامہ طباطبائي