اعتکاف انسان کو بناتا ہے اور یہ انسان معاشرہ کو بناتا ہے
26 December 2024
06:48
۳,۲۷۰
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
«وَ عَهِدْنا إِلى إِبْراهيمَ وَ إِسْماعيلَ أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطّائِفينَ وَ الْعاكِفينَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُودِ»(سوره بقره/ 125)
آج رجب المرجب کی 13 تاريخ اور حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب امام المتقین علیہ السلام کی روز ولادت ہے ۔
خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ دن ایک بار پھر ہم سب کو نصیب ہوا ،انشاء اللہ اس دن کے برکات ہم سب پر نازل ہوں گے، اس دن کے حوالہ سے تمام شیعیان خصوصاً آپ معتکفین کی خدمت میں تبریک عرض کرتا ہوں ۔
میں تقریر شروع کرنے سے پہلے آپ تمام معتکفین سےتقریر کرنے کی اجازت چاہوں گا ،چونکہ اعتکاف کے اپنے خاص شرائظ ہیں ، انشاء اللہ آپ سب مجھے اجازت دیں گے کہ میں آپ کے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت لے لوں اور اسی موضوع کے بارے میں کچھ مطالب عرض کروں گا۔
متدین اور دیندار افراد کے لئے خدا سے ارتباط قائم کرنے کے اہم طریقوں میں سے ایک یہی اعتکاف ہے ، یعنی دین خدا پر عقیدہ رکھنے اور متدین افراد کو بے دین انسان سے جدا کرنے کی چیزوں میں سے ایک اعتکاف ہے ، اور یہ ایک بہت ہی مہم مطلب ہے اس بارے میں آپ خصوصی توجہ فرمائے اور اس نعمت کا قدردان ہو جائے اور بولیں کہ خدا کا شکر کہ ہم دین دار ہوئے اور دین کی برکت سے ان اعمال کو انجام دینے اور اعتکاف کے ان ایام کو پانے میں کامیاب ہوئے، جن لوگوں کے پاس دین نہیں ہے اور خدا کا معتقد نہیں ہیں ، ان کی توجہ کس مبداء کی طرف ہے اور کس چیز کا پناہ مانگتے ہیں ؟ ان کے پاس کوئی پناہگاہ نہیں ہے ۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء نے اعتکاف کیا ہے ،حضرت سلیمان (علی نبینا وآله وعلیه السلام) کے بارے میں جیسا کہ روایات میں ہے کبھی کبھی آپ ایک یا دوسال تک بیت المقدس میں اعتکاف کرتے تھے ، یعنی ایک یا دو سال مسجد سے باہر نہیں نکلتے تھے ۔
متدین افراد کے درمیان جو روحی لحاظ سے بلند ہونا چاہتے ہیں چاہئے وہ پیغمبر ہو یا نہ ہو ایک با اثر راستہ یہی اعتکاف ہے۔
خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی رمضان کے پہلے عشرہ میں اور کبھی دوسرے عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھتے تھے اور بعد میں لیلۃ القدر کو درک کرنے کے لئے ہر سال ماہ رمضان کے تیسرے عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھتے تھے ، تمام اولو العزم پیغمبروں میں ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت سب سے برتر ہیں لیکن سب سے زیادہ اعتکاف میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے ہیں ۔
حتی کہ روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ تمام آئمہ اطہار علیہم السلام میں سب سے زیادہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اعتکاف میں بیٹھے ہیں ، ایک ایسی عظيم شخصیت جس پر جبرئیل امین نازل ہوتا ہے اور مبداء اعلی یعنی خداوند متعال سے رابطہ میں ہے لیکن پھر بھی کعبہ کے کناے مسجد الحرام میں آتے ہیں اور 10 دن تک اور بعض روایات کے مطابق ایک مہینہ تک اعتکاف میں بیٹھتے ہیں ۔
سورہ بقرہ کی اسی آیت نمبر 125 کہ آپ تمام معتکفین اس آیت کو جانتے ہیں، اس میں خداوند متعالی فرماتا ہے ،میں نے ابراہیم اور اسماعیل سے یہ عہد لیا ہے ، بہت ہی مضبوط عہد و پیمان ۔ «عَهِدْنا إِلى إِبْراهيمَ وَ إِسْماعيلَ أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطّائِفينَ وَ الْعاكِفينَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُودِ»،میرے گھر کو تین قسم کے لوگوں کے لئے پاک و پاکیزہ اور تیار کر لو ، طواف کرنے والوں کے لئے ، اعتکاف میں بیٹھنے والوں کے لئے ، اور نماز گزاروں کے لئے ۔
اس آیت شریفہ کے ذیل میں جو روایات نقل ہیں ان میں یہ مطلب ذکر ہے کہ خداوند متعال ہر رات میں بہت ساری رحمتیں نازل فرماتا ہے ، طواف کرنے والوں کے لئے 60 رحمتیں اور اعتکاف میں بیٹھنے والوں کے لئے 60 رحمتیں ۔
میں یہاں پر اس مطلب کو بھی بیان کر لوں کہ صحیح ہے یہ آیت کریمہ مسجد الحرام کے بارے میں ہے ، لیکن خداوند متعال کا فضل و کرم صرف مسجد الحرام سے محدود نہیں ہے ، خدا ہم جیسے انسانوں کی طرح نہیں ہے کہ بولے میں اس جگہ کو چاہتاہوں اور یہاں پر رحمت بھیجتا ہوں اور وہاں پر نہیں بھیجتا ہوں ۔
انسان جب غور و فکر کرتا ہے تو یہ بتا سکتا ہے کہ وہی 60 رحمتیں جسے خداوند متعال نے مسجد الحرام میں اعتکاف کرنے والوں کے لئے قرار دیا ہے اسی کو ہر اعتکاف کرنے والے اگرچہ رجاء کی نیت سے دوسری جگہوں پر بیٹھے ہوں ان کے لئے بھی قرار دیا جا سکتا ہے ، البتہ روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ و 60 قسم کی رحمتیں کیا ہیں ؟ اسے آپ خود کو جو اعتکاف کی حالت میں سمجھ لینا چاہئے ، کیا یہ جھالت کو ختم کرنا، جھوٹ بولنے سے بچانا، حسد ، غرور اور دوسری نفسانی بری صفات سے بچانا ہے ؟ کہ انسان کبھی بہت عرصہ میں بھی ان چیزوں سے اپنے آپ کو چھڑا نہیں سکتا ۔
لیکن جب خدا کسی معتکف (اعتکاف میں بیٹھنے والے )کی طرف توجہ کرنا چاہتا ہے ، ایک ایسے شخص کی طرف جو اپنی تمام مصروفیات کو چھوڑ کر خدا کے دروازہ پر آبیٹھا ہے ، اگر کوئی شخص کسی کے دروازہ پر بیٹھ جائے تو وہ گھر والا خود شرمندہ گی کا احساس کرتا ہے کہ اس کا جواب نہ دے۔اب اگر کوئی شخص آکر کسی کے گھر میں بیٹھ جائے ، تو یقیناً اس کا جواب دے گا ، اعتکاف خدا کے گھر میں ہڑتال کرنا ہے ، اعتکاف کا معنی یہ ہے کہ خدایا !میں سب ارزش اور پوری حقیقت اور ہر خیر اور خوبی کو صرف اور صرف تم سے ہی طلب کرتا ہوں ، میں خود کچھ بھی نہیں ہوں ، میرے جیسے دوسرے انسان بھی کچھ نہیں ہے ، قدرت و طاقت بھی کچھ نہیں ہے ، مال و دولت بھی کچھ نہیں ہے ، میری نظر میں صرف تم ہے اور کچھ نہیں ۔
انسان جب کسی کے گھر جاتا ہے تو سب سے پہلے اس گھر کے مالک سے ملنے کی کوشش کرتا ہے ، اعتکاف میں بھی سب سے پہلے مالک سے ملنا چاہئے ، مادیات اور طرح طرح کی مصروفیات اور بدبختیوں میں انسان خدا کے پیچھے جانے کا کب وقت نکال سکتا ہے ؟ آپ تمام معتکفین پر خدا کی سب سے بڑی رحمت یہ ہے کہ یہاں پر خدا اپنے آپ کو آپ سب کو دیکھا تا ہے ، دل کی آنکھوں سے خدا کو دیکھ سکتا ہے اور احساس بھی کرسکتا ہے ، صرف ظاہری آنکھوں سے دیکھنا ایک حیوانی کام ہے ،باطنی آنکھوں سے اگر دیکھيں تو انسان خدا کے وجود کا اپنے اندر احساس کر سکتا ہے ، رات کو عبادت میں گزارے اور اس وقت آنکھوں سے جو آنسو ٹپکے ، اعتکاف کی حالت میں نماز اور قرآن کی قرائت سے جو لذت آتی ہے ، یہ لذت دوسری لذتوں حتی کہ عام حالت میں مساجد میں اور دوسری نمازوں کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ہے ۔
میں یہاں پر آپ سب سے عرض کرتاہوں کہ اعتکاف کے احکام کا تو آپ سب پابند ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ اعتکاف کے آداب کے بارے میں بھی توجہ دیں ،احکام اعتکاف کے بارے میں موجود بعض احادیث اور روایات میں ذکر ہے کہ معتکف کو کیا کیا کرنا چاہئے ؟ بہت ساری ایسی چیزیں جو حاجیوں پر حالت احرام میں حرام ہیں وہ آپ سب پر بھی حرام ہیں ، لیکن ان احکام کے علاوہ تقریباً 23 عنوان ،اعتکاف کے آداب کے عنوان سے بیان ہوا ہے ۔
جیسے دنیاوی کاموں کے بارے میں بات نہ کرنا ،حتی کہ کم بولنا، جس کے بہت عجیب آثار ہیں ، یقیناً آپ یہ جانتے ہی ہیں کہ اعتکاف کی حالت میں بات بہت کم کرنی چاہئے حتی کہ جو آپ کے ساتھ میں بیٹھا ہوا ہے اس سے بھی بات بہت کم کریں ،روزہ مرّہ کی باتوں کو چھوڑ دیں کیونکہ خدا کے حضور میں ہے اور خدا آپ کو مورد عنایت قرار دینا چاہتا ہے ، اپنے بارے میں زیادہ غور وفکر کریں ، زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھیں ، زیادہ نماز پڑھ لیں ، خصوصاً قضا نمازيں ،اعتکاف کی آداب کو انجام دینے سے انسان کے لئے ایک دوسری حالت پیدا ہوتی ہے ۔
اعتکاف کے آداب میں سے ایک جس کے بارے میں بہت زیادہ سفارش ہوئی ہے خدا کا ذکر ہے ، میں نے اس عبارت کو اعتکاف کے بارے میں موجود بعض روایات میں دیکھا ہے کہ فرماتے ہیں :«یلزم المعتکف مکانه»،اعتکاف میں بیٹھنے والے کو چاہئے کہ اپنی جگہ پر بیٹھ جائے ،زیادہ ادھرادھر نہ جائے ۔
البتہ میری نظر یہ ہے کہ ممکن ہے بعض بزرگان جو اہل نظر ہیں وہ بولے اس سے مراد ہے کہ مسجد اور اعتکاف کی جگہ سے باہر نہ جائے ، لیکن یہ معنی بھی کر سکتا ہے کہ معتکف کو چاہئے کہ جس جگہ پر بیٹھا ہے اسی جگہ پر بیٹھ جائے اور صرف ضرورت کی صورت میں جائے اور واپس آجائے ، لیکن آدھ گھنٹہ ایک جگہ پر بیٹھ جائے اور اس کے بعد کسی دوسرے گروہ میں شامل ہو جائے ان سے باتیں کرے ، اس کے بعد ایک اور گروہ میں شامل ہو جائے اور ان سے بات کرنے میں مشغول ہو جائے ، یہ کام اعتکاف کی حقیقت کے برخلاف ہے اور اس کی فضیلت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ، اب اس کی راز کیا ہے خدا بہتر جانتا ہے ۔
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ معتکف اپنی جگہ یہ فرض کر لیں کہ اس کے اردگرد کوئی بھی نہیں ہے اور صرف خدا سے خلوت کیا ہوا ہے ، البتہ یہ بہت ہی مشکل کام ہے بعض اوقات کچھ دوست ساتھ مل کر اعتکاف میں بیٹھتے ہیں ، البتہ کچھ لحاظ سے یہ صحیح ہے چونکہ انسان ہے اور ایک دوسرے سے مانوس رہنا چاہتا ہے لیکن روایات سے جو چیز استفادہ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ معتکف کو یہ فرض کر لینا چاہئے کہ اس کے ارد گرد کوئی بھی نہیں ہے وہ تنہا خدا کے حضور میں ہے ۔
میں یہاں پر یہ عرض کرتا ہوں کہ کیا اعتکاف ایک اجتماعی عبادت ہے ؟ کیا ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ اس اعتکاف سے ایک اجتماعی پروگرام تشکیل دے؟ آیات اور روایات میں جو چیز نظر آتی ہے اس میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی ، بلکہ بالکل اس کا برعکس ہے ۔
میں نے آج ہی ٹی وی پر دیکھ رہا تھا کہ ایک عالم دین یہ بتا رہے تھے کہ اعتکاف ایک اجتماعی عبادت ہے ، جی نہیں! اعتکاف صرف شخصی عبادت ہے ، البتہ ہر انسان اگر صالح ہو جائے تو وہ ایک امت اورمعاشرہ کو نورانی کر سکتا ہے ،اور اس میں عالم غیر عالم ، طلبہ اور غیر طلبہ میں کوئي فرق نہیں ہے ، قدیم ایام میں اسی قم کے محلوں میں صبح کے وقت بعض تجار کو گھروں سے خداکے ذکر کرتے ہوئے نکلتے دیکھتے تھے ، انسان ان کے ادب اور اخلاق کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔
اعتکاف انسان ساز ہے ، اور جو انسان بن جاتا ہے وہ اجتماع کو بناتا ہے ،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود اعتکاف ایک اجتماعی عمل ہو، خود اس روایت میں فرماتا ہے :«معتکف یلزم مکانه»،اعتکاف میں بیٹھنے والا شخص اپنی جگہ پر بیٹھ جائے کہیں اور نہ جائے ، کسی سے بات نہ کرے، اپنے ساتھ بیٹھے شخص سے بھی بات نہ کرے ، دن اور رات میں کم سوئے، امام صادق یا امام باقر علیہما السلام ایک روایت میں فرماتے ہیں ، اعتکاف میں بیٹھا شخص جب کم سوتا ہے تو اس کے بہت اچھے آثار نمایاں ہوتے ہیں ، ان تین دن اور رات میں اس گھر کے مالک سے درخواست کرے کہ وہ تمہاری مدد کرے ، وسوسہ اور شیطان کو انسان سے دور کرے اور اس کے ایمان کو مستحکم کرے ۔
امیر المومنین علیہ السلام کی روز ولادت کی مناسبت سے اس روایت کی طرف اشارہ کروں گا ، اس روایت کو نقل کرنے والا خلیفہ دو م ہے وہ کہتا ہے کہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا (یہ اس زمان کی بات ہے جب یہ ناحق خلافت کی کرسی پر بیٹھا تھا) کسی نے اس سے کنیز کے طلاق کے بارے میں سوال کیا ، وہ اس سوال کے جواب سے نابلد تھا ، اس سے کہا مجھے یہ معلوم نہیں ہے ، جاو ابو الحسن ( امیر المومنین علیہ السلام مسجد کے ایک گوشہ میں تشریف فرما تھے ) سے پوچھو، اس شخص نے کہا تو پھر کیوں تم امیر المومنین ہونے کا دعوی کرتے ہو ؟
جب اس سے یہ سوال کیا تو عمر نے کہا کیا تم انہیں نہیں جانتے ہو ؟ وہ ایک ایسی شخصیت ہے جن کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے : «لووضعت السماوات السبع والارضین السبع فی کفّةٍوایمان علیٍ فی کفةٍ اُخری لرجّح ایمان علی(علیه السلام» ،اگر پورے سات آسمان اور زمین کو ترازو کے ایک پلڑے میں قرار دیں اور علی علیہ السلام کی ایمان کو ترازو کے دوسرے پلڑے میں ،تو علی علیہ السلام کا ایمان سنگین ہوگا۔
اگر انسان آخر عمر تک صرف اسی روایت کے بارے میں غور و فکر کرے تو سزاوار ہے ، ابھی آپ یہاں پر اعتکاف کے لئے آئے ہیں تو اپنے ایمان کو مضبوط کرو ، خدا سے التجا کرے کہ اب جبکہ ہمارے عمر ختم ہو رہی ہے تو ایمان کے ساتھ رہے ، لیکن ہمارے ایمان کا وزن کتنا ہے ؟ اگر مجھ سے پوچھا جائے مال و دولت اور مقام و منصب یا ایمان میں سے کس کو انتخاب کرو گے ؟ خود اپنی جگہ سوچیں کہ کس کو انتخاب کروں گا ؟ ايمان کے حوالہ سے ہم بہت ہی کمزور ہیں ، اس بارے میں دوٹوک عرض کرتا ہوں ، اگر ہمارے ملک میں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آئے تو تمام دوست و دشمن شروع ہو جاتے ہیں اور اس وقت ایمان کلی طورپر برکنار ہو جاتا ہے ۔
اگر ہمارے درمیان میں ایمان باقی رہے تو لڑائی جھگڑے کی کوئی نوبت نہیں آتی ہے ، ہمارے درمیان ایمان ہر روز زیادہ ہونا چاہئے ، شیعوں کا افتخار ہی یہی ہے کہ ان کے پاس ایسا پیشوا ہے ، جب 13 رجب کو ہم جشن مناتے ہیں تو اس جشن میں ہم خدا سے کیا طلب کرے ؟خدا سے یہی التجا کرے خدايا ! امیر المومنین علیہ السلام کے ایمان میں سے ایک چھوٹا سا حصہ ہمیں بھی عطا فرمائے ، اسی طرح جب عید مبعث ہو یا اعیاد شعبانیہ ان ایام میں ہماری سب سے بڑی دعا یہی ہونی چاہئے کہ ہمارے ایمان مضبوط ہو ۔
معتکف جب آخری دن اعتکاف سے باہر جاتا ہے تو اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ دنیا کو پاوں کے نيچے روند سکتا ہے یا نہیں؟ اگر اس سے بولا جائے کہ تمہیں دنیوی یہ تمام مقام و منصب اور مال و دولت اور گھر بار بیوی بچے پسند ہے یا خدا؟ اگرچہ ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ہمارا دین ایسا دین نہیں ہے جس کا صرف ایک پہلو ہو، لیکن بات یہ ہے کہ اگر آپ کو ان دونوں میں سے ایک کو انتخاب کرنا پڑے تو کس کو انتخاب کرو گے ؟ یہ اعتکاف کے آثار کی علامت اور نشانیوں میں سے ہے ۔
کتاب کافی (جلد 3، صفحہ 130 ) پر امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہے کہ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :« فِي التَّوْرَاةِ مَكْتُوبٌ يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ قَلْبَكَ غِنًى وَ لَا أَكِلْكَ إِلَى طَلَبِكَ وَ عَلَيَّ أَنْ أَسُدَّ فَاقَتَكَ وَ أَمْلَأَ قَلْبَكَ خَوْفاً مِنِّي»،خداوند متعال تمام فرزندان آدم ( میں اور آپ ، جو ہم سے پہلے گزرے ہیں اور جو بعد میں آنے والے ہیں ، تمام انسانوں )سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے اپنے دل کو میری عبادت کے لئے خالی کرو لو، اپنے فکر اور سوچ کو صاف کرو ، جب تم میری عبادت کرنا چاہو تو تمہارے دل اور دماغ میں میرے علاوہ کوئی اور چیز نہ ہو ، تا کہ میں تمہارے دل کو بے نیازی اور غنی سے بھر لوں گا ۔
ہر چیز سے بے نیاز ، بڑے سے بڑے مقام و منصب تمہاری نظر میں تیلی کے برابر قیمت نہیں ہونی چاہئے، میں تمہیں ضرورت کے موقع پر تنہا نہیں چھوڑوں گا ، اور جب بھی کوئی چیز مجھ سے مانگے میں دے دوں گا ۔
اعتکاف اس کے لئے بہترین راہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خدا کے علاوہ ہر چیز سے خالی کر لے ،اور خدا کا خالصانہ عبادت انجام دے ، اعتکاف خود عبادت ہونے کے علاوہ اس کے اندر بھی عبادات انجام پاتا ہے «وَ عَلَيَّ أَنْ أَسُدَّ فَاقَتَكَ»،تمہاری جو بھی ضروریات ہو میں اسے پورا کروں گا «وَ أَمْلَأَ قَلْبَكَ خَوْفاً مِنِّي»،اگر اپنے دل اور وجود کو صرف میری عبادت کے لئے خالی کرے ، یہ ایک جملہ ہے لیکن اس کا واقع ہونا بہت ہی مشکل ہے ؛ یعنی انسان عبادت کے وقت خود اپنے آپ کو بھی مد نظر نہ رکھے ، یہ نہ بولے خدایا میں تمہاری عبادت کر رہا ہوں ، بلکہ خود کو بھی بھول جائے ، خدا فرماتا ہے کہ اگر تم نے ایسا کر لیا اور صرف اور صرف میری عبادت کر لی ، میں تمہارے دل کو اپنی خوف سے بھر لوں گا ۔
رجب اور شعبان میں جو دعائیں پڑھی جاتی ہیں ان میں سے ایک دعا یہ ہے :«اللّهم اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ مَعَاصِيك»،خدایا میرے دل کو اپنے خوف اور خشیت سے بھر لیں ،کہ جب گناہ اور معصیت کے روبرو ہو جاوں تو یہ تمہاری خوف اور خشیت گناہ اور میرے درمیان حائل ہو جائے اور میں گناہ کا مرتکب نہ ہو جاوں ۔
خدا فرماتا ہے اگر تم صرف میرے لئے عبادت کرے تو میں تمہارے دل کو اپنی خوف سے بھر لوں گا ، اس کے بعد اس کے مقابل میں فرماتا ہے:«وَإِنْ لَاتَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ قَلْبَكَ شُغُلًا بِالدُّنْيَا»، لیکن اگر تم نے اپنے دل کو میرے لئے فارغ قرار نہیں دیا اور خالصانہ عبادت نہیں کیا تو میں تمہارے دل کو دنیا طلبی سے بھر لوں گا تا کہ ہر دن دنیا کے کسی ایک چیز کے پیچھے رہ جائے اور پھر بھی سیراب نہ ہو« لَا أَسُدَّ فَاقَتَكَ وَ أَكِلْكَ إِلَى طَلَبِك»، تمہاری جو بھی حاجت ہو میں تمہیں عطا کروں گا اعتکاف کا نتیجہ یہی ہونا چاہئے ۔
یہ اعتکاف پریکٹس ہونا چاہئے انسان کا اپنے دل کو خدا کی معرفت سے بھر لینے اور غیر خدا سے خالی کرنے کا ، یہ تربیت نفس ہے ، سینکڑوں اخلاقی استاد اور عارف تمہارے لئے تقریر کرے وہ اس دو تین دن کے اعتکاف کے برابر نہیں ہو سکتا ، ان دو تین کے آثار بہت ہی زیادہ ہیں ۔
انبیاء ، اولیاء ، آئمہ ہدی، امیر المومنین، امام مجتبی اور امام حسین علیہم السلام سب اعتکاف میں بیٹھے ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کچھ ایسے اسرار ہیں جن سے ہم بے خبر ہیں ۔
لہذا اعتکاف کے آداب کا خیال رکھنا چاہئے ، جب آپ اعتکاف میں قرآن پڑھتا ہے تو چونکہ قرآن خدا سے انسان کا سخن ہے لہذا یہ آپ کو ایک خاص معنی دینا چاہئے ، اور اس کی تلاوت سے انسان کو لذت آنا چاہئے ، اسی طرح نماز اور دوسرے دعاوں سے۔
خدایا ہمارے جوانوں کو اور پورے معاشرے کو اپنے خاص بندوں میں سے قرار دیں ۔
خدایا عبادت کی لذت ، بندگی کی لذت ، خود سے راز و نیاز کی لذت کو ہمیں نصیب فرما۔
خدایا ان اعتکاف میں بیٹھنے والوں کے لئے یہ ان کا آخری اعتکاف قرار نہ دیں ۔
خدایا اس اعتکاف کے سبب سے اپنی رحمت کے دروازہ کو اس ملک کے مسولین اور خدمتگزاروں پر کھول لیں اور ہم سب پر رحمت نازل فرما۔
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته