اسلام عورت سے حرمت ، عظمت اور عورت کا اصلی مقام و منزلت چاہتا ہے

25 December 2024

19:56

۲,۷۳۷

خبر کا خلاصہ :
حضرت آیت الله فاضل لنکرانی(دامت برکاته) کا مدرسہ الزہرا (سلام الله علیها ) کرند غرب کے طالبات سے خطاب
آخرین رویداد ها


بسم الله الرحمن الرحیم الحمدلله رب العالمین و صلی الله علی سیدنا محمد و آله الطاهرین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین من الآن إلی قیام یوم الدین

سب سے پہلے آپ تمام  خواہران محترمہ کو شہر مقدس قم  اور حضرت معصومہ سلام الله علیها  کی زیارت پر تشریف لانے پر خوش آمدید عرض کرتا ہوں ، امید ہے  کہ یہ سفر مادی اور معنوی دونوں لحاظ سے مفید واقع ہو گا ۔

انقلا  ب کے ابتداء سے ہی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اس بارے میں خصوصی توجہ رکھتے تھے کہ خواہران بھی مردوں کے ساتھ ساتھ مختلف میدانوں میں خصوصا علمی اور معرفتی میدانوں میں مشغول رہے اور صرف سیاست کے میدان میں نہ رہیں ۔

انہی ایام میں امام (رہ) نے حوزہ علمیہ میں کچھ افراد کو خواہران کے تعلیمی کاموں  کا ذمہ دار قرار دیا تھا ، ہمارے والد گرامی ( رضوان اللہ تعالی علیہ) سے بھی یہ درخواست ہوئی تھی  کہ اس کمیٹی کے رکن پر تشریف رکھیں ، مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ آپ اس کام کے لئے کتنا وقت نکالتے تھے ، عام طور پر شب جمعہ کو اس بارے میں مٹینگ ہوا کرتا تھا جس میں بہت سنجیدگی کے ساتھ آپ شرکت فرماتے تھے ، الحمد للہ آج ہم پورے ملک میں حوزہ علمیہ خواہران کے رشد و نمو کو دیکھ رہے ہیں ، اور یہ حوزہ علمیہ کی کامیابیوں میں سے ایک ہے ، اور جسے ہم ایران اور پوری دنیا کے لوگوں کو حوزہ کی کامیابیوں میں سے بیان کر سکتے ہیں ۔

البتہ مجھ سے زیادہ اس بارے میں آپ لوگ زیادہ باخبر ہیں کہ ان حوزات کی کیا برکات ہیں ، اور اس نظام کے لئے فاضل اور پڑھی لکھی خواہران کا ہونا کتنا ضرور ی ہے ، خواتین کے حوزات علمیہ کی حمایت کا معنی یہ ہے کہ ہمارے حوزہ کے بزرگان ، مراجع تقلید اور رہبر معظم انقلاب   اس بارے میں عزم راسخ رکھتے ہیں کہ علمی مسائل حتی کہ حوزہ کے سخت ترین مسائل میں خواتین کو آنا چاہئے ۔

یہ خصوصی توجہ اس وجہ سے ہے کہ علم حاصل کرنا آپ کا حق ہے اور مسلم حقوق میں سے ہے ، اور اس حدیث میں اس حق کو بیان فرمایا ہے :«طلب العلم فريضةٌ علی کل مسلمٍ ومسلمة» اگر اس "کل مسلمٍ و مسلمة " کو نہ فرماتے تب بھی اصولی اصطلاح کے مطابق ہم یہ بتاتے کہ یہ حدیث مطلق ہے لیکن اس عبارت کا ذکر ہونا اس اطلاق پر تاکید ہے اور اطلاق سے تمسک کرنے سے بھی بالاتر ہے ، جسے ہم نص در اطلاق کہتے ہیں نہ ظہور در اطلاق ، اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ نص اور ظاہر میں کیا فرق ہے ، نص کی دلالت میں کوئی شک و تردید نہیں ہے ، اس کے ساتھ وہ روایت بھی ہے : «اطلب العلم من المهد إلی اللحد» یہ روایت بھی مطلق ہے اور صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے ، لیکن اوپر والی روایت تصریح اور نص ہے ، لہذا کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں ہے ، جس کے بعد  ہمیں فقہ میں اس نص کے کچھ آثار ملتے ہیں جیسے کسی مرد کو یہ حق نہیں ہےاپنے بیوی کو علم حاصل کرنے سے روکے ، مگر یہ کہ عقد ازدواج میں اسے شرط کیا ہو۔

یعنی فقہی نگاہ سے اس مسئلہ میں دو مختلف نظريے پائے جاتے ہیں : ایک یہ ہے کہ بیوی کو گھر سے باہر تعلیم حاصل کرنے  جانے کے لئے شوہر کی اجازت لینی چاہئے ، دوسرا نظریہ یہ ہے کہ نہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے باہر جاتے وقت اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے ، چونکہ تحصیل علم فريضہ ہے اور یہ اس کا حق ہے ، البتہ ہم یہ نہیں بتاتے کہ یہ بھی نماز کی طرح واجب ہے لیکن ایک  واضح مسئلہ ہے ، جی ہاں مرد نکاح کرتے وقت یہ شرط کر سکتا ہے کہ علم حاصل کرنے کے لئے باہر جانے  نہیں جائے گی ، اگر وہ عورت اس شرط کو قبول کرے تو گویا اس نے اپنے حق سے دستبردار ہوا ہے ، اس وقت اس نظریہ پر سب کا توجہ ہے اور ہماری نظر میں حقیقت یہی ہے ، چونکہ فقہی لحاظ سے تحصیل علم تمام مردوں اور عورتوں پر واجب کفائی ہے ، لہذا شوہر بیوی کے علم حاصل کرنے کی مخالفت نہیں کرسکتا ، حتی کہ ضمن عقد شرط بھی کر لیا ہو تب بھی   قابل غور و فکر ہے ،شاید ایسا شرط ہی باطل ہو لیکن بہت سے علماء نے اس عقد کے ضمن میں ہونے والی اس شرط کو قبول کیا ہے ۔

لیکن فقہی لحاظ سے جب ایک عورت پر علم حاصل کرنا واجب کفائی ہو خصوصا آپ کے علاقہ میں جہاں دوسرے مذاہب والے بھی رہتے ہیں ، شیعہ کی حفاظت اس میں ہے کہ ہم مکتب اہلبیت علیہم السلام کی حفاظت کے لئے کچھ خواتین   کی بھی تربیت کریں ، ایسے حالت میں علم حاصل کرنا آپ پر واجب عینی ہو جاتا ہے ، اور جب واجب عینی ہو اس کے بعد شوہرکو یہ حق نہیں ہے کہ اس سے منع کرے حتی کہ اگر عقد نکاح میں شرط کیا ہوا بھی ہو ، چونکہ واجب عینی ہونے کی صورت میں یہ شرط خود بخود باطل ہو جاتا ہے ، اگر واجب کفائی ہو تب بھی یہ شرط باطل ہے ، مگر یہ کہ کچھ حد تک خواتین نے یہ علوم حاصل کیا ہو ا ہو اس صورت میں یہ شرط صحیح ہے اور شوہر اس وقت اس کی مخالفت کر سکتا ہے ۔

خدا کا شکر کریں کہ اس وقت ہمارے سب بزرگان ، مراجع عظام ، رہبر معظم اور امام خمینی ( رضوان اللہ تعالی علیہ) سب  اس بارے میں تاکید کرتے ہیں کہ خواتین کو بھی حوزوی علوم کی طرف آنا چاہئے ، شاید خواتین پر آپ لوگوں کی تقریر کا اثر   ایک ہی صنف سے ہونے کی وجہ سے ایک فقیہ سے زیادہ ہو ،  ایک دفعہ ٹی وی پر کوئی خاتون پردہ کے بارے میں گفتگو کر رہی تھی فقہی لحاظ سے بہت ہی  گہرائی میں بات کر رہی تھی ، میں اپنی جگہ پر اس خاتون کی شاباش دی اور اپنے آپ سے بتایا کہ بہت اچھی طرح درس پڑھ لی ہے ،  ایسے انداز میں بیان کر رہی تھی کہ ہمارے بہت سے علماء فقہی لحاظ سے ایسی گہرائی میں بیان نہیں کر سکتے ، مطالب کو بہت ہی علمی ، ریزہ بینی اور علمی بنیاد پر بیان کر رہی تھی۔

میں یہاں اس مطلب کو بھی بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ، خوہران گرامی بہت اچھی طرح درس پڑھ  لیا کریں ، اور یہ نہ بتایا جائے کہ میں بہت زیادہ پڑھ کر فقیہ بھی بن گئی تو کیا ہو گا ، خصوصا اکثر فقہاء فرماتے ہیں عورت کی تقلید نہیں کی جا سکتی ، یہ بات اگرچہ  فقہاء کے درمیان محل بحث ہے ، لیکن جو شخص حوزہ میں اس نیت سے اگر درس پڑھتے ہو کہ میں مرجع بنوں گا تا کہ میری تقلید کی جائے ، ایسا شخص حوزہ میں آکر غلطی کی ہے ، فرق نہیں وہ کوئی مرد ہو یا عورت؟ ہم اس لئے درس نہیں پڑھتے ہیں کہ کوئی ہماری تقلید کرے ! ہم اس لئے درس پڑھتے ہیں تا کہ اسلام کو سمجھ لیں اور اسلام کی دفاع کریں ، اب وہ باتيں اپنی جگہ ہے کہ بعض لوگ جھوٹ بول کر  حوزہ علمیہ کے خلاف بیوقوفانہ باتیں  کرتے ہیں ، اور جب مراجع اور بزرگان ایسے شخص پر اعتراض کرتے ہیں تو انتہائی بےشرمانہ انداز میں کہتے ہیں کہ جب خود ان پر اعتراض  کرے یا کوئی انتقاد کرے تو برداشت نہیں کر پاتے لیکن جب دین پر   ہزاروں اشکال کرے تو  اس وقت یہ حضرات سکوت کر لیتے ہیں ، میں ان سے یہ بتاتا ہوں کہ آپ ایک جگہ ایسی بتا دو کہ جہاں دین کی اہانت ہوئی ہو اور حوزہ نے وہاں سکوت اختیار کیا ہو ؟ اول انقلاب سے لے کر ابھی تک ایک مورد بتا دیں ۔

علماء کسی بھی زمانہ میں دین کی اہانت پر خاموش نہیں رہے ہیں ، ہمارے مرحوم والدگرامی( رضوان اللہ علیہ) کے حیات کے زمانہ میں پارلیمنٹ میں ایک ایم اے خاتون نے اسلام شناسی کے عنوان سے پارلیمنٹ میں کوئی اظہار نظر کیا تھا ، اور اس وقت  ملک میں اس خاتون کی کچھ شخصیت بھی تھی ، ہمارے درس میں اس پر بہت سخت اعتراض کیا تھا اور فرمایا تھا : تم کون ہو کہ اپنے آپ کو اسلام شناس مانتی ہو ؟ میں 50 سال سے زیادہ ہوا ہے اسلام کو پڑھ رہا ہوں اور اسلام کے بارے میں بتاتا ہوں اس کے باوجود یہ جرائت نہیں کرتا ہوں کہ میں اسلام شناس ہوں !

لہذا مجھے یاد نہیں ہے کہ کسی زمانہ میں اسلام کے خلاف کوئی بات ہوئی ہو اور وہاں پر حوزہ علمیہ نے سکوت اختیار کیا ہو ، کیوں یہ لوگ بے تقوائی کا اظہار کرتے ہیں ؟ اور کب تک اس بے تقوائی اور حوزہ کے بارے میں بے اطلاعی کا اظہار کرتے رہیں گے ؟! آج اگر میڈیا آپ کے ہاتھوں میں ہے تو اسی طرح کے غیر صحیح باتوں کو بتاتے رہنا ہے ، حوزہ علمیہ نے ہمیشہ اسلام کی دفاع کی ہے ، مجھے یاد نہیں ہے اور نہ ہی سنا ہے کہ کوئی مرجع تقلید ، یا کوئی مجتہد خود اس کی ذات کی اہانت ہونے کی وجہ سے آواز بلند کی ہو ، آپ خود ملاحظہ فرمائيں کہ آجکل یہ سوشل میڈیا میں ہر روز پیغمبر ، آئمہ ، مراجع عظام ، رہبر معظم اور بڑے بڑے علماء کی اہانت کرتے رہتے ہیں ، اور کچھ لوگ ان سوشل میڈیا پر ہمیشہ انہی کاموں میں مشغول ہوتے ہیں ۔

جب انسان کے پاس تقوا نہ ہو ، اور قیامت کے دن اپنے آپ کو جوابگو نہ سمجھے ، وہ اپنے منہ کو کھول دیتا ہے اور دین ، پیغمبر اور بزرگان دین کے بارے میں بولتا رہتا ہے ، لیکن آپ یہ جان لیں جہاں پر بھی دین اور احکام اسلام ہو ، وہاں پر حجاب ، ربا ،حتی کہ مستضعفین لوگوں کی حمایت کی بات ہے اور مراجع عظام نے وہاں پر بات کی ہے ، لیکن بعض لوگ جو اپنے آپ کو انقلابی تصور کرتے ہیں  وہ لوگ ان ٹریبون سے یہ بیان کرتے رہتے ہیں کہ گویا مراجع اور حوزات علمیہ نہ اسلام کے بارے میں سوچتے ہیں ، نہ شیعہ کے بارے میں اور نہ عوام کے بارے میں ، بلکہ صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں ، یہی اسرائیل ، آمریکا اور برطانیہ کا سب سے بڑا ہدف ہے ، وہ لوگ اسی مطلب کو رواج دینے کے درپے ہیں ، لیکن اگر کھربوں ڈالر اس پر خرچ کریں کہ مراجع عظام کو خراب کریں ، کامیاب نہیں ہونگے ۔

عوامی ٹریبون سے  جھوٹی باتیں بتاتے ہیں ، اور جب مراجع عظام اعتراض کرتے ہیں تو وہاں پھر جھوٹ بولتے ہیں کہتا ہے جب علماء پر اعتراض کرے تو قبول نہیں کرتے ، کہتے ہیں آج کا حوزہ ، 40 سال پہلے کے حوزہ سے کوئی فرق نہیں ہوا ہے ، مراجع عظام ان افراد سے بتاتے ہیں حوزہ میں آکر نزدیک سے دیکھ لیں کہ حوزہ نے کیا کیا ہے ؟ حوزہ کے کاموں کا ایک نمونہ یہی خواہران کے لئے بنائے گئے حوزات ہیں ؛ 40 سال پہلے ہمارے ملک میں خواتین کے لئے کتنے حوزہ علمیہ تھے اور آج کتنا ہے ؟ اس وقت ہمارے ملک میں کتنے عالمہ خواتین موجود تھیں؟

اس وقت آپ میں سے جو بھی اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹيوں اور دوسرے علمی مراکز میں خدمات انجام دے رہیں ہیں ، مگر یہ سب اسی حوزہ علمیہ قم ، اور جامعہ الزہرا(سلام اللہ علیہا ) سے نہیں ہیں ، اس وقت علمی مراکز میں  کیا یہی خواتین نہیں ہیں ، کیا یہ حوزہ کاکام نہیں ہے ؟ کیوں بعض افراد آنکھیں بند  کر کے بغیر تحقیق کرے باتیں کرتے ہیں ، کہتے ہیں جو ہم بتاتے ہیں اور جس چیز کا ہم معتقد ہیں وہ آپ سمجھتے ہی نہیں ہے ، آپ کون ہے اسلام کو جاننے والا؟ ہمارے لئے اسلام رہبر معظم اور مراجع عظام بیان کریں گے ۔

بہنوں سے  میری یہی گزارش ہے ، کہ پڑھائی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں ، معارف اسلام بہت ہی زیادہ گہرا اور منطقی ہے کہ وہ تمام احکام جو خواتین سے مربوط ہے اگر ان سب کا  فقہیانہ اور عالمانہ تحلیل و تجزیہ کریں تو کامل طور پر قابل قبول واقع ہو گا ، البتہ کبھی کوئی شخص کسی حکم کو ایسے ہی بیان کرتا ہے اور اس حکم کے دوسرے جہات اور اقسام پر توجہ نہیں کرتا لہذا وہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیوں اسلام نے ایسی بات کی ہے ؟ لیکن اسلام جب خواتین کے لئے کسی حکم  کو قرار دیتا ہے ، جیسا کہ عورت کا گھر سے باہر جانے کے لئے شوہر کی اجازت ضروری ہے ، یہ حکم درحقیقت مرد کا احترا م نہیں ہے ، بلکہ عورت کا احترام اور تکریم ہے ، کیوں؟

اس لئے  اسلام مرد سے یہ بتاتا ہے کہ اس عورت کی حفاظت کا ذمہ دار تم ہو ، اگر گھر سے باہر بھی کوئی مشکل پیش آیا ، اس کی ذمہ داری تم پر ہے ، لہذا اگر گھر سے باہر جانا چاہتی ہے تو وہ بھی تمہارے حمایت کے ساتھ جانا چاہئے ، اب ہم اس حکم کو نہیں سمجھتے لہذا غلط معنی کرتے ہیں ، اس کے بعد ہمارے اوپر اعتراض ہوتا ہے کہ یہ کیسا اسلام ہے ؟ یا عورت کے گواہی کے بارے میں ہے کہ بعض جگہوں پر ایک عورت کی گواہی کافی نہیں ہے ، یہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام یہ نہیں چاہتا کہ عورت سب کے سامنے اور لڑائی جھگڑوں میں  اور کورٹ میں آجائيں ۔

آپ ملاحظہ فرمائيں کبھی ایک مرد گواہ میں یہ جرائت نہیں ہوتی ہے کہ وہ قاضی کے سامنے گواہ دینے چلا جائے کہتا ہے کہ میں اگر گواہی دے دوں تو بعد میں میرے لئے مشکلات پیدا کرے گا ، لہذا یہ عورت کی احترام کے لئے ہے ، اور اس کا کبھی بھی یہ معنی نہیں ہے کہ عورت عقل ، درک اور سوچ بوجھ کے لحاظ سے مرد سے کمتر ہو ! ایسان نہیں ہے ، گواہی میں عقل اور درک کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ، گواہی میں قوت بصارت اور سننے کی حس کی ضرورت ہے ، مثلا کسی کو قتل کرتے ہوئے دیکھے یا کسی بات کو کرتے ہوئے سن لے ،یہاں پر عقل کی بات نہیں ہے صرف دیکھنے اور سننے کی بات ہے ،  اس مسئلہ میں مرد  عورت میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن اسلام یہ نہیں چاہتا ہ ےکہ عورت ایسے کاموں کے لئے پیش ہو، یعنی جو چیز اسلام عورت سے چاہتا ہے ، وہ یہ ہے کہ عورت کی حرمت ، عظمت اور عورت کی اپنی اصلی وقار و عزت محفوظ رہے، اور جہاں تک ممکن ہو ان چیزوں میں اسے کوئی نقصان نہ ہو ، اب اگر کسی مرد کو کوئی مشکل پیش آئے تو اس کے پاس دفاع کی قوت ہے لیکن عورت ایسا نہیں ہے ۔

یہ جو اکثر فقہاء فرماتے ہیں کہ عورت قاضی نہیں بن سکتی ، اس کا ہرگز یہ معنی نہیں ہے کہ عورت سمجھ بوجھ نہیں رکھتی ، یا قضاوت کے قواعد و ضوابط کو درک نہیں کر سکتیں، بلکہ ان کو اچھی طرح درک کر سکتی ہے ، لیکن چونکہ قاضی کو ہمیشہ خطر لاحق رہتا ہے ، آپ خود ہمارے زمانہ میں ملاحظہ فرمائيں کہ کبھی کسی قاضی کو قتل کر دیتا ہے، کبھی اس کے بیوی بچوں کو تہدید کرتا ہے ، لہذا اسلام نے عورت  کی حفاظت کے خاطر اس ولایت اور قضاوت کو عورت کے لئے قرار نہیں دیا ہے ، اور یہ ان کی نا سمجھی یا قضاوت کی طاقت و قدرت نہ رکھنے کی وجہ سے نہیں ہے ، کبھی یہ بتاتے ہیں کہ عورتیں کے جذبات غالب ہوتا ہے ، البتہ  بعض جگہوں پر یہ بھی ممکن ہے ، لیکن یہ اصلی دلیل نہیں ہے ، اصلی دلیل یہ ہے کہ خدا وند متعالی چاہتا ہے کہ عورت مشکلات سے بچے رہے ، آپ خود گھر کے ہی بات کریں کہ باپ کو ولایت ہے لیکن ماں کو ولایت حاصل نہیں ہے کیوں؟ مگر ماں بچہ کے لئے زیادہ زحمتیں برداشت نہیں کرتی؟ حمل اور تربیت سے لے کر بڑا ہونے تک ، 80 ، 90 فیصد بچوں کی  زحمت ماں پر ہے ، باپ کی نسبت ، ماں کا حق زیادہ ہونے کے باوجود کیوں اسلام نے باپ کے لئے ولایت قرار دیا ہے ؟ اس وجہ سے کہ ولایت ایک مسولیت اور ذمہ داری ہے اور یہ ایک مزیت نہیں ہے کہ بتایا جائے خدا نے اسے مزیت کو مرد کو دیا ہے اور عورت کو اس سے محروم رکھا ہے ، نہیں ایسا نہیں ہے ، بلکہ ولایت ایک ذمہ داری ہے اور  اس ذمہ داری  کی کچھ وظائف ہے کہ باپ کو اپنے بچہ کا خیال رکھنا ہو گا کہ یہ کہاں جاتا ہے ، کس قسم کے لوگوں سے رابطہ ہے ؟ کیا کرتا ہے ؟  یہ سب باپ کے ذمہ پر ہے چونکہ باپ ولایت رکھتا ہے ، لیکن اسلام نے ماں کو اس ذمہ  داری سے آزاد رکھا ہے ۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اچھی طرح  تعلیم حاصل کریں ، عورتوں کے بارے میں موجود تمام سوالات کا جواب ہے ، یہ صرف ایک ہوائی بات نہیں ہے بلکہ اس انسان کی بات ہے جس نے کم از کم 40 سال فقہی مسائل میں کام کیا ہے ، خواتین سے متعلق تمام سوالات کا منطقی جواب ہے ، اس پردہ کے بارے میں جو آپ لوگوں کے سروں پر ہے یہ ہمارے افتخار کا سبب ہے ، اس سے لئے تمام مسائل کا جواب موجود ہے ، پردہ کے بارے میں قرآنی اور روایی دلیل ہے ، یہ بالکل غلط بات ہے کہ کہتے ہیں صفویہ نے چادر کو رائج کیا ہے اور  اس نے ایرانی خواتین کے سروں پر چادر رکھا ہے ، یہ بالکل غلط بات ہے ، لہذا  اچھی طرح تعلیم حاصل کریں تا کہ اسلام اور انقلاب کا دفاع کر سکے ، علم حاصل کریں تا کہ دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں شیعہ کی عظمت کو سمجھ جائے ، آپ شیعہ ہونے کی مزہ کو ہم سے زیادہ اپنے اندر احساس کر سکتیں ہیں ، اور یہ بہت ہی اہم بات ہے ۔

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته

برچسب ها :