امیر المومنین ( ع) کو خدا وند متعالی نے پیغمبر اکرم(ص) کا جانشین مقرر فرمایا

25 December 2024

19:55

۱,۴۵۴

خبر کا خلاصہ :
حضرت آيت الله فاضل لنكراني(دامت بركاته) کا شب قدر، شب بيست و يكم ماه مبارك رمضان 1439، کو امام بارگاہ آسيد حسن قم میں خطاب
آخرین رویداد ها

بسم الله الرحمن الرحيم
الحمدلله رب العالمين و الصلاة و السلام علي سيدنا و نبينا و حبيب قلوبنا ابي القاسم محمد و علي آله الطيبين الطاهرين المعصومين و لعنة الله علي اعدائهم اجمعين

 آج کی رات ماہ مبارک رمضان کی اکیسویں رات ، شب قدر اور حضرت امیر المومنین علی بن ابیطالب ( علیہ الصلاۃ و السلام) کی شہادت کی رات ہے ، اور ایک احتمال کے مطابق 19 کی رات سے زیادہ احتمال ہے شب قدر ہونے کا، یہ لحظات اذان صبح تک بہت زیادہ مہم ہے ۔

23 کی رات کے علاوہ (ان شاء اللہ اس رات کی برکات بھی ہم سب کو نصیب ہونگے ) پورے سال میں ان لحظات سے مہم لحظات نہیں ہے۔

لہذا ہم سب کو چاہئے کہ خداوند متعالی کی فيوضات کو کسب کرنے کےلئے اپنے آپ کو تیار کریں ، جو بھی زیادہ سے زیادہ اپنے آپ کو تیار کرے اور عالم ملکوت سے رابطہ کو مضبوط کرے اور خداوند متعالی اور ملائکہ سے رابطہ کو بڑھائے ، اور اس دنیا سے محبت کو کم کرے، اس کو بتانا بہت آسان لیکن اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے ، وہ اپنی زندگی میں انقلاب لا سکتا ہے ۔

شب قدرانسان کے مقدرات کی تقدیر  اور انسان کی اصلی ولادت کی رات ہے ، اس رات انسان اپنے اختیار سے ، اپنے اعمال سے اور اپنی توجہ سے ایک نئی ولادت پیدا کرتا ہے کہ یہ اختیاری ولادت ہے ۔

چونکہ آج کی رات امیر المومنین ( علیہ السلام) کی رات ہے لہذا آپ کے بارے میں کچھ مطالب بیان ہونا چاہئے کہ یہ شب قدر کے لئے تیار  ہونے  کے لئے مفید ہے ۔

اگر ہم سے پوچھے کہ شیعہ کون ہے ؟ آپ کا امام کون ہے ؟ رسول خدا ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کس کے پیروکار ہیں ؟ ہم فخر کے ساتھ کہتے ہیں امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے پیروکار ہیں ۔

دوسرا سوال جو یہاں بیان ہوتا ہے یہ ہے کہ کیوں علی (ع) کو رہبر کے طور پر اختیار کيے ہیں ؟ صحیح جواب یہ ہے خداوند متعالی نے حکم دیا ہے، اور آپ(ع) کو امامت اور پیغمبر اکرم (ص) کی جانشینی کے طور پر معین کیا ہے ۔

یہ بات غلط ہے کہ بتایا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے جانشین کو معین فرمایا ، پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے جانشین کو خدا نے جسے معین فرمایا تھا اسے لوگوں تک پہنچایا ہے ، یعنی امیر المومنین (ع) کے پیغمبر اکرم(ص) کے جانشین ہونے کو خدا نے معین فرمایا تھا ، نہ کہ خود پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی خواہش کے مطابق فرمایا ہو علی میرا داماد اور میرا چچازاد بھائی ہے ، علی (ع) پہلا شخص ہے جس سے اسلام لایا ، لہذا میں اپنی خواہش کے مطابق اسے اپنا جانشین قرار دیتا ہوں، نہیں ایسا نہیں ہے ! رسول خدا (ص) کے تمام اوصیاء کو خداوند متعالی نے معین فرمایا ہے ، امیر المومنین (ع) سے لے کر حضرت حجت (عج) تک سب کو خدا نے ہی معین فرمایا ہے ۔

 پس شیعہ کی افتخارات میں سے ایک  یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ایک ایسی شخصیت کے تابع ہوئے جسے خود خدا نے معین فرمایا ہے : «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرين» قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ شیعہ سنی تمام مفسروں کے ہاں بالاتفاق امیر المومنین (علیہ السلام )کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

خداوند فرماتا ہے اے رسول(ص) میں نے جو تم پر نازل کیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو کہ میں نے علی (ع) کو تمہارا جانشین قرار دیا ہے، یہ شیعہ کا افتخار ہے ، لیکن دوسرے کہتے ہیں کہ رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد  کچھ لوگ آپس میں بیٹھ گئے اور کسی شخص کو پیغمبر کے خلیفہ کے طور پر معین کيے، اب آپ خود بتائيں کہ جس شخص کو خدا خود معین کرے اور دوسرے شخص کو جسے 6، 7 نفر نے آپس میں مل بیٹھ کر معین کیا ہے عقل کیا کہتا ہے کہ کس کو انتخاب کرے ؟

 دوسرا سوال یہ ہے کہ خدا نے کیوں علی (علیہ السلام) کو انتخاب کیا ؟ ملاحظہ فرمائيں کہ سوالات کیسے منطقی طریقہ سے ہو رہا ہے ، کیا خدا کا معین کرنا ، لوگوں کے انتخاب کرنے کی طرح ہے ؟ علی(ع) تمام فضائل کا مالک ہونا چاہئے ، تمام کمالات ان میں ہونا چاہئے ، علی (علیہ السلام) خدا کے ہاں بہت زیادہ محبوب ہوناچاہئے ، تا کہ انہیں اپنے رسول کا جانشین قرار دیں، یعنی اگر ہم یہ بتائيں کہ خدا نے اس کےعلاوہ کچھ اور کیا ہے تو اس کا یہ معنی ہے کہ ہم نے خدا کو نہیں پہچانا ہے ۔

وہ خدا جس کا ہم معتقد ہیں اس کا سب کام حکمت کے مطابق ہے ، وہ خدا جو حکیم ، علیم اور آگاہ ہے اور جانتا ہے کہ کڑوڑوں انسانوں میں کون سب سے زیادہ فضيلتر ہے ، پس خداوند متعال کا امیر المومنین(ع) کو معین کرنے کی علت یہ ہے کہ علی (علیہ السلام) رسول خدا (ص) کے بعد خدا کے نزدیک سب سے زیادہ فضیلت ترین شخص ہے ، یعنی اگر رسول خدا(ص) کے بعد کوئی ایسا شخص تھا جس کا مرتبہ امیر المومنین(ع) کے درجہ سے آدھا درجہ یا ان کے برابر درجہ رکھتا تھا تو اس وقت یہ سوال کر سکتا تھا کہ کیوں خدا نے امیر المومنین(ع) کو انتخاب کیا ؟

آپ(ع) کے مخالفین یہ اشکال کرتے تھے کہ امیر المومنین(ع) جوان ہے ، لہذا رسول خدا(ص) کا جانشین نہیں ہو سکتے ، جب خدا کے نزدیک آپ(ع) کے اتنے فضائل ہیں تو ان کا جوان ہونا کوئی مشکل نہیں ہے ۔

امیر المومنین(علیہ السلام) کے مہم فضائل میں سے ایک آپ کی عبادت ہے ۔

تاريخ اسلام اور تشيع میں حضرت علی (ع) کے  محب اور عاشق اور دوستداروں کو صوفی کے نام سے پہچانوایا گیا ہے جن کا کام یہ ہے  کہتے ہم نماز نہیں پڑھتے ہیں لیکن علی(ع) کے پیروکار ہیں ۔

یہ ایک غلط بات ہے ، کیا علی (ع)  نماز کی حالت میں شہید نہیں ہوئے ؟ ہم جو اپنے آپ کو امیر المومنین (ع) کا پیروکار مانتے ہیں آئيں دیکھيں ہماری نماز ، روزہ اور عبادت و بندگی امیر المومنین(ع) کے عبادات کے ایک کنارے تک پہنچنے کا قابل ہے یا نہیں ؟

امام باقر(عليه السلام) ‌فرماتے ہیں : «مَا أَطَاقَ أَحَدٌ عَمَلَهُ» امیر المومنین(ع) کی عبادات کو کوئی انجام ہی نہیں دے سکتا «كَانَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ(عَلَيْهِمَاالسَّلَامُ) لَيَنْظُرُ فِي الْكِتَابِ مِنْ كُتُبِ عَلِيٍّ(عَلَيْهِ السَّلَامُ)، فَيَضْرِبُ بِهِ الْأَرْضَ، وَ يَقُولُ: مَنْ يُطِيقُ هذَا؟»؛ امام سجاد (علیہ السلام) اميرالمؤمنين( علیہ السلام ) کے  مصحف کو دیکھتے تھے ، اس مصحف میں جن عبادات کو ایک انسان کے لئے بجا لانا چاہئے وہ لکھا ہوا تھا اور جن عبادات کو امیر المومنین(علیہ السلام) انجام لاتے تھے اسے لکھا ہوا تھا ، جس کے بعد فرماتے تھے کہ کس کے پاس طاقت ہے جو اس طرح خدا کی عبادات بجا لائے ؟!

خود امیر المومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :«عبدت الله مع رسول الله(ص) سبع سنين قبل أن يعبده أحدٌ من هذه الامة»،اس امت سے کسی کا خدا کی عبادت کرنے سے  7 سال پہلے ،میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عبادت کرتا تھا ۔

«مَا تَرَكْتُ صَلَاةَ اللَّيْلِ مُنْذُ سَمِعْتُ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَاةُ اللَّيْلِ نُورٌ»؛ ‌فرماتے ہیں ، جس وقت سے میں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے نماز شب نور ہے ، میں نے کبھی بھی نماز شب کو  نہیں چھوڑا ہے ۔

ابن کواء نامی ایک شخص نے امیر المومنین( علیہ السلام) سے سوای کیا ، کیا جنگ کے ان سخت اوقات میں ، خصوصا جنگ صفین کے ان سرد راتوں میں بھی نماز شب ترک نہیں ہوئی ؟ فرمایا: جی ہاں ! حتی کہ لیلۃ الہریر جو کہ صفین کے سخترین راتوں میں سے ایک تھا اس رات بھی نماز شب نہیں چھوٹی ۔

ابن ابی الحدید معتزلی نہج البلاغہ کی شرح میں امیر المومنین(علیہ السلام) کی عبادات کے بارے میں جب بات کرتا ہے تو لکھتا ہے : جنگ صفین میں لیلۃ الہریر والی رات میں امیر المومنین (ع) کے لئے ایک چمڑا بچھایا گیا جس پر آپ نے نماز  و مناجات اور دعا پڑھنا شروع کیا کہ اس وقت آپ کے دائیں بائيں طرف سے تیر گزر رہا تھا اور آپ اسی حالت میں عبادت کو انجام دیتے رہے اور عبادت سے فارغ ہوئے ۔

ایک اور جگہ پر ابن ابی الحدید لکھتا ہے : «كَانَتْ جَبْهَتُهُ كَثَفَنَةِ الْبَعِيرِ لِطُولِ سُجُودِه» اميرالمؤمنين(ع) کے بارے میں کیا بتاوں؟اس قدر زیادہ سجدہ کیے تھے کہ آپ کی پیشانی  اور سینہ کی طرح ہوا تھا ۔

ہمارا سوال یہ ہے کہ اس طرح کی عبادات دوسرے مذاہب کے کونسے پیشوایان انجام دیتے تھے ؟

آئمہ معصومین( علیہم السلام) اور وہ بھی امام سجاد( علیہ السلام) فرماتے ہیں «من يطيق هذا؟»؛ کس کے پاس یہ قدرت و طاقت ہے کہ ہمارے جد بزرگوار جیسے عبادت انجام دیں ؟

کیا تاریخ میں ان افراد کی ایسی عبادات کا ذکر ہے جو غاصبانہ طور پر پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی جگہ پر بیٹھے تھے ؟یا یہ عبادات صرف امیر المومنین (علیہ السلام) سے مخصوص ہے ؟

خدا وند متعالی نے اگر امیر المومنین(ع) پیغمبر اکرم (ص) کا جانشین معین فرمایا ہے تو وہ اسی وجہ سے ہے کہ باقی بندوں میں سے کسی میں بھی امیر المومنین(ع) جیسی عبادت خدا کا شائبہ  بھی نہیں ہے ۔

یہ مطلب زیادہ نقل ہوا ہے کہ امام خمینی (رہ) امیر المومنین(علیہ السلام) سے اس جملہ کو نقل کرتے ہیں کہ فرماتے ہیں :«إِلَهِي مَا عَبَدْتُكَ خَوْفاً مِنْ عِقَابِكَ»، اے میرے خدا میں جہنم کی عذاب سے ڈر کر تمہاری عبادت نہیں کرتا ہوں ، «وَ لَا طَمَعاً فِي ثَوَابِكَ»،اور بہشت کے لئے تمہاری عبادت نہیں کرتا ہوں ، کیا حضرت علی (علیہ السلام) کے علاوہ کسی میں عبادت کے بارے میں یہ درک پایا جاتا ہے ؟

جن لوگوں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جگہ کو غاصبانہ طور پر لیا ہے ان جیسے لاکھوں اور کڑووں افراد کو جمع کر لیں تو کسی  ایک میں بھی عبادت کے بارےمیں اس حقیقت کو درک کرنے  کی قدرت و طاقت نہیں ہے ، لیکن امیر المومنین(علیہ السلام) بہت ہی سادہ الفاظ میں فرماتا ہے : خدایا! میں اگر تمہاری عبادت کرتا ہوں تو یہ جہنم سے ڈر کر یا بہشت میں جانے کے لئے نہیں ہے ،«وَ لَكِنْ وَجَدْتُكَ أَهْلًا لِلْعِبَادَةِ فَعَبَدْتُكَ»  بلکہ یہ عبادت اس لئے ہے کہ میں صرف تمہیں عبادت کا سزاوار سمجھتا ہوں ، تنہا تمہاری ہستی ایسی ہے کہ اپنی پوری وجود کے ساتھ تمہارے سامنے سجدہ ریز ہو جاوں۔

البتہ ہم تو بہت کمزور ہیں ، ہم سے پوچھتے ہیں کیوں نماز پڑھتے ہو؟ کیوں مستحبی نمازیں پڑھتے ہو؟ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ انشانء اللہ بہشت میں جانے کے لئے ، جہنم کے عذاب سے بچنے کے لئے ، لیکن ہمارا امام فرماتا ہے میں نے صرف خدا کو عبادت کا سزاورا پایا ہے ،ہمیں بھی اس بارے میں کچھ کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس مرحلہ تک پہنچ جائے ۔

عبادت انجام دینے تین مرحلے ہیں ، ایک مرحلہ عذاب سے ڈر کر ہے ، کبھی ماں باپ بچوں سے کہتے ہیں نماز پڑھ لو ورنہ جہنم یمں جاو گے ، کوئی مشکل نہیں ہے ، ہم نہیں کہتے ہیں یہ غلط بات ہے ، قیامت میں اہل جنہم سے پوچھیں گے کیوں جہنمی ہوئے ہو ؟ وہ لوگ جواب دیں گے : «لَم نَكُ مِنَ المُصَلِّين»،ہم اہل نماز نہیں تھے ۔

اس میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ لوگوں کو شوق دلانے کے لئے یہ بولا جائے کہ اگر بہشت میں اوپر کے درجات تک جانا چاہتا ہو تو نماز کو اول وقت میں ادا کرو۔

لیکن امیر المومنین(علیہ السلام) ہمیں یہ سکھتا ہے کہ ان دومراحل سے بھی اوپر ایک مرحلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کو خود اسی کے لئے عبادت کرے ، نہ کہ جہنم اور بہشت کے لئے ، آپ(ع) کا یہ فرمان انسان میں کتنی تبدیلی لاتی ہے ؟۔

 امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ ) سے کسی وقت یہ بات زیادہ نقل ہوتے تھے کہ آپ نے فرمایا تھا: میں ابھی تک یہ نہیں بتا سکتا ہوں کہ دو رکعت نماز خدا کے لئے پڑھا ہوں، شاید ان کا مراد یہی تھا ، یعنی اگر نماز پڑھا ہے تو بہشت کی شوق میں یا جہنم سے ڈر کر، لیکن نماز کو خدا کے لئے پڑھنا چاہئے ۔

اسی طرح فقہی لحاظ سے کہتے ہیں نماز کو خدا کے حکم کی اطاعت کی نیت سے پڑھنا چاہئے ۔

لیکن ان تمام ک باوجود امیر المومنین (علیہ السلام) اس سے بھی بالاتر ہے ، میں نماز پڑھتا ہوں چونکہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے تو میں اپنی ذمہ داری کو انجام دے رہا ہوں ، یہ ایک الگ بات ہے ، لیکن میں اگر نماز پڑھوں  اس لئے کہ خدا عبادت اور ستايش کا سزاوار ہے ، یہ الگ بات ہے ، نماز پڑھوں تا کہ خدا کی بندگی تک پہنچ جاوں اور اپنی بندگی کو ثابت کروں ۔

شب قدر ایسی رات ہے جس میں انسان ان چیزوں کو اپنے اندر زندہ کر سکتا ہے ، آئیں ہم اپنے ایک سال کی نماز پر  توجہ کریں ، یہ فرض کریں کہ قیامت برپا ہوئي ہے اور نامہ اعمال کو دیکھايا جا رہا ہے ، کیا ہمارے نامہ اعمال میں نماز ہے یا نہیں ہے ؟ اگر ہے تو خداوند متعالی کے ہاں اس کی کتنی قدر  وقیمت ہے ؟

اگر ہم امام علی ( علیہ السلام) کے پیروکار بننا چاہتے ہیں تو نماز کو اہمیت دینا چاہئے ، یہ دھوکہ باز صوفی جو دین خدا سے دور ہیں ، کیسے دین خدا کو خراب کیے ہیں ؟ علی(علیہ السلام) کی عشق کو کھیلونا بنا کر کہتے ہیں ہم تو اب یقین کے مرحلہ تک پہنچے ہیں لہذا نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔یہ بیوقوف لوگ نہیں جانتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام) فرماتے ہیں : امیر المومنین(علیہ السلام) جتنے آخر عمر سے نزدیک ہو رہے تھے ان کی عبادات زیادہ سے زیادہ ہوتی تھی، اور عمر کے آخری ایام میں ، ہر روز ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ انسان وہاں تک پہنچ جائے کہ بولے اب مجھے عبادت کی ضرورت نہیں ہے ؟! پیغمبر خدا (ص) بھی ایسے فرمائے ، فرشتے بھی خدا کی عبادت میں مشغول ہیں ، شیطان 6 ہزار سال عبادت کے بعد خدا کی ایک نافرمانی کی جس پر وہ ملعون ہوا ، اب میں اور آپ نماز کو چھوڑ دیں؟ یا یہ بولیں کہ امیر المومنین(علیہ السلام) نے میرے بدلے میں نماز پڑھی ہے ؟!

بہت ہی غلط باتیں ہیں کہ تشیع کے چہرہ کو مسخ کرنے کے لئے کہاں سے یہ چیزیں دین میں شامل کر لیتے ہیں ؟

ہمیں چاہئے کہ عبادت اور خدا کی بندگی کو اپنے اندر کامل کرے ، اگر کسی کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ الحمد للہ میری نماز اور عبادت اچھی ہے ، تو یہی اس کی بدبختی کی پہلی سیڑھی ہے ۔

ہمیں چاہئے کہ ہر نماز کے بعد یہ بولیں : خدایا میں تم سے بہت ہی شرمسار ہوں ، ہمیں تمہاری عبادت کرنا نہیں آتی ، ہماری راہنمائی فرمائے ، نماز کے اول سے لے کر آخر تک کب تمہارے یاد میں تھا؟ کب میں نے تمہیں پایا ؟ سر کو سجدہ گاہ پر رکھ کر دوبارہ اٹھا لیا لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا ، یہ امیر المومنین (علیہ السلام) ہیں کہ رکوع میں جاکر اتنے زیادہ گریہ کرتے ہیں ، کہ پاوں کے نیچے تک گيلا ہو جاتا ہے ، یہ ہے عبادت۔

حَبّه‌‌ي اُرَنِي نامی شخص کہتا ہے : میں اور ونوف سونا چاہ رہے تھے ، دیکھا کہ امیر المومنین( علیہ السلام) سر کو پریشان انسانوں کی طرح دیوار سے لگایا ہوا ہے اور سورہ آل عمران کی اس آیت کریمہ کی تلاوت فرما رہے ہیں : «إِنَّ في‏ خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ اخْتِلافِ اللَّيْلِ وَ النَّهارِ لَآياتٍ لِأُولِي الْأَلْباب. الَّذينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِياماً وَ قُعُوداً وَ عَلى‏ جُنُوبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ في‏ خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ رَبَّنا ما خَلَقْتَ هذا باطِلاً سُبْحانَكَ فَقِنا عَذابَ النَّار».

اس کے بعد  اميرالمؤمنين(علیہ السلام )نے مجھ سے فرمایا حبہ سورہے ہو یا بیدار ہو ؟ میں نے جواب دیا بیدار ہوں۔

اس کے بعد میں نے عرض کیا : آپ(ع) جب پريشان انسانوں  جیسے اپنے خدا سے دعا و مناجات کرتے ہیں ، تو ہم کیا کریں ؟ «قَالَ فَأَرْخَى عَيْنَيْهِ فَبَكَى»؛ اميرالمؤمنين گريه كرد و فرمود «يَا حَبَّةُ إِنَّ لِلَّهِ مَوْقِفاً وَ لَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ مَوْقِفٌ لَا يَخْفَى عَلَيْهِ شَيْ‏ءٌ مِنْ أَعْمَالِنَا»؛ میں اسے وقت کے سوچ میں ہوں کہ قیامت برپا ہو جائے اور ہمیں خدا کے حضور میں حاضر کرے اور ہمارا کوئی بھی عمل اس سے پوشیدہ نہیں ہے «يَا حَبَّةُ إِنَّ اللهَ أَقْرَبُ إِلَيْكَ وَ إِلَيَّ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ»؛ خدا وند متعالی ہمارے گردن کے رگوں سے بھی زیادہ نزدیک ہے ۔

اس کے بعد حضرت (ع) نے نوف سے سوال کیا ، سوئے ہو یا بیدا ر ہو ؟ نوف نے عرض کیا : مولا میں نے بھی آج خدا کی ياد میں بہت گریہ کیا ہے ۔

کتنا اچھا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں ایک اہل معنی عالم کو پا لیں ، نہ ایسے لوگ جو صرف اہل معنی ہونے کا ادعا کرتے ہیں ، بلکہ ایسا عالم دین جو حقیقتا اہل حقیقت اور اہل معنی ہو ، امیر المومنین(علیہ السلام) کا اپنے اصحاب کے ساتھ ایسا تھا کہ ان کے ہاتھ کو تھام لیتے تھے اور خود جس راستہ پر چلتے تھے اسی پر ان کو بھی لے جاتے تھے ۔

نوف نے جب امیر المومنین(ع) سے عرض کیا کہ میں نے آج کی رات خدا کے خوف میں بہت گریہ کیا ہوں، تو امیر المومنین(ع) نے فرمایا : «إِنْ طَالَ بُكَاؤُكَ فِي هَذَا اللَّيْلِ مَخَافَةً مِنَ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ قَرَّتْ عَيْنَاكَ غَداً بَيْنَ يَدَيِ اللهِ عَزَّ وَ جَل»؛ نوف ! جان لو، اس دنیا میں خدا کے خوف سے جتنا گریہ کرے ، چاہئے شب قد ر میں ، یا غیر شب قدر میں، البتہ شب قدر میں ایک  قطرہ دوسرے ایام کے ہزاروں قطرہ کے برابر ہے ، خدا کے خوف میں ایک قطرہ اشک بہانا ، قیامت کے دن خدا کے پیشگاہ میں خوشی اور روشن ہونے کا سبب ہوتا ہے ، «يَا نَوْفُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ قَطْرَةٍ قَطَرَتْ مِنْ عَيْنِ رَجُلٍ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ إِلَّا أَطْفَأَتْ بِحَاراً مِنَ النِّيرَان»؛خوف خدا میں ایک قطرہ آنسو بہانا ، آگ کے بہت سے  درياوں کو بجھا دیتا ہے ۔

«يَا نَوْفُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ أَعْظَمَ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللهِ مِنْ رَجُلٍ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللهِ وَ أَحَبَّ فِي اللهِ وَ أَبْغَضَ فِي الله»،خداوندمتعالی کے نزدیک کوئی انسان بلندمرتبہ نہیں ہے جو اس کے خوف میں آنسو بہاتا ہے ، اگر خدا کے نزدیک مقرب ہونا چاہتے ہو اور خدا کے ہاں اپنے لئے قدر و منزلت پیدا کرنا چاہتے ہو ، تو آج کی رات، خوف خدا میں آنسو بہادو۔

 اميرالمؤمنين(ع)سے مدد مانگيں ، تا کہ خدا سے نزدیک ہو جائے ، شیعہ اعتقادی مبانی کے مطابق امیر المومنین (ع) کی ولایت کو اپنے اندر نچوڑ نچوڑ کر رکھیں ، اور اپنی عبادات کو خلوص نیت سے انجام دیں ۔

خدایا اس شب قدر کو ہماری زندگی کے بہترین شب قدر قرار دیں۔

برچسب ها :