انسان کی ترقی اور تنزلی کے اسباب )19/ 04/ 2017(
23 November 2024
23:28
۱,۱۵۶
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمدلله ربّ العالمين و صلي الله علي
سيدنا محمد و آله الطاهرين
امام باقر (علیه السلام) فرماتے ہیں :
«ثَلَاثٌ دَرَجَاتٌ وَ ثَلَاثٌ كَفَّارَاتٌ وَ ثَلَاثٌ
مُوبِقَاتٌ وَ ثَلَاثٌ مُنْجِيَات»؛ تین چیزیں انسان کے درجات بلند ہونے اور ترقی کا سبب ہے ؛
«فأَمَّا الدَّرَجَاتُ فَإِفْشَاءُ السَّلَامِ»واضح الفاظ میں سلام کرنا، بلند آواز سے سلام کرنا ، جواب سلام کی بات نہیں ہے بلکہ خود سلام کو بلند آواز سے کرنے کے بارے میں ہے ، پرانا زمانہ میں خصوصا علماء کے درمیان یہ کام بہت زیادہ پایا جاتا تھا ، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ابھی یہ ترک ہو گیا ہے ، ابھی تو کچھ لوگ سلام ہی نہیں کرتے ہیں بلند آواز سے سلام کرنا تو دور کی بات ہے ، اس بارے میں کچھ توجہ کرنے کی ضرورت ہے ، یہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی سنت میں سے ہے کہ کوئی بھی سلام کرنے میں آپ (ص)سبقت نہیں لے سکے ، اس روایت کے مطابق بلند آواز سے سلام کرنا خود انسان کا درجہ بلند ہونے کا سبب ہے ، خدا کے نزدیک انسان کے درجہ کو بلند کرتا ہے ، انسان کے لئے اس سے بہتر اور کیا چیز ہو سکتی ہے ؟۔
«وَ إِطْعَامُ الطَّعَام» کھانا کھلانا ، اور دسترخوان بچھائے رکھنا ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم چونکہ علمی کاموں میں مشغول ہوتے ہیں لہذا وقت نہیں نکال سکتے کہ کسی کو دعوت کر کے کھانا کھلائے ، یقینا علمی کاموں میں خلل نہیں آنا چاہئے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ کبھی بھی کسی کو کھانا نہ کھلائے ، کھانا کھلانے کے بارے میں جو روایات موجود ہیں ان کو دیکھیں ، کہ اس کے بہت اچھے آثار ہیں ، اور اس روایت کے مطابق کھانا کھلانا انسان کی ترقی اوربلند مرتبہ کا سبب بنتا ہے ۔
«وَ الصَّلَاةُ وَ النَّاسُ نِيَام» تیسری چیز جو انسان کا مرتبہ بلند ہونے کا سبب ہے وہ نماز شب ہے ، اس بارے میں ہم سب کو پابند ہونا چاہئے ، جب رات ہو جائے اور تاریکی بڑھنے لگے تو انسان اپنے دل میں رات سے محبت کرنے لگے کہ نماز شب کا وقت نزدیک ہو رہا ہے ، اس وقت انسان نماز شب پڑھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے ، اگر انسان واقعا خداوند متعالی سے نماز شب کے لئے اٹھنے کا مدد مانگے ، خداوند متعالی یقینا اس کا مدد کرے گا ، لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے وہ خداوند متعالی سے طلب کرے اور دن میں اس سے کوئی گناہ مرتکب نہ ہو جائے ، جو شخص دن میں گناہ کا مرتکب ہو ، رات میں اسے نماز شب نصیب نہیں ہو سکتا ، اگر بیدار بھی ہو تب بھی اسے نماز شب پڑھنے کی توفیق نہیں ہوتی ہے ، بہرحال اگر خداوند متعالی کے ہاں اپنے لئے درجہ اور مقام پیدا کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے نماز شب پڑھے ، اب اس کے آثار بھی اپنی جگہ بیان ہوئے ہیں ، ابھی ان تمام کو بیان کرنا نہیں چاہتا ہوں ، صرف اپنے لئے اور آپ تمام کی یاد دھانی کے طور پر یہ بیان کیا ہے ، یہ تین چیزیں انسان کے مرتبہ اور درجہ بلند ہونے کے اسباب ہیں ۔
تین چیزیں ہیں جو کفارات کا سبب ہے ، یعنی یہ چیزیں سبب بنتی ہے انسان کے گناہان صغیرہ ختم ہو جائے ، «نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُم[1]» برائيوں کی کفارہ کا سبب ہے. «فَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ بِالسَّبَرَاتِ» وضو کرتے وقت سب جگہوں پر پانی کو پہنچانا ، ڈارھی کے اندر ، سب جگہوں پر پانی پہنچانا ؛ «أَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظاهِرَةً وَ باطِنَة[2]» یعنی انسان وضو کو کامل کر لیں ، صحیح طرح انجام دیں ، دقت کے ساتھ انجام دیں ، وضو کے تمام اعضاء پر پانی کو پہنچا دیں ، یہ انسان کے گناہان صغیرہ کے بخشے جانے کا سبب بنتا ہے ۔
«وَ الْمَشْيُ بِاللَّيْلِ وَ النَّهَارِ إِلَى الصَّلَوَاتِ» رات اور دن میں نماز جماعت کے لئے جانا ، نماز جماعت کے لئے جاتے وقت ہر قدم گناہوں کے کفارہ کا سبب بنتا ہے ۔
«وَ الْمُحَافَظَةُ عَلَى الْجَمَاعَات»
انسان نماز اول وقت کا پابند رہے ، انسان اپنی زندگی میں کم از کم ، اپنے گھر میں اہل و عیال کے ساتھ ، گھر پر مہمان ہو یا نہ ہو ، کہیں پر مہمانی میں ہو یا نہ نماز کو اول وقت میں ادا کرے ، اس میں کبھی کوتاہی نہ کرے ، اگر گھر پر مہمان ہیں تو گھرمیں ہی اول وقت میں نماز پڑھ لیں ، گھر میں تمام گھر والوں کو بھی اس کا پابند کرے کہ اول وقت میں نماز پڑھ لیں اور اس وقت کوئی بھی کام انجام نہ دیں ، اگر ایسا کیا تو بچے بھی اسی کے عادی ہو جائيں گے ، نماز اول وقت کے کتنی برکات ہیں انسان کے لئے ، انسان کی سعادت میں بہت زیادہ موثر ہے ، اس روایت میں گناہوں کا کفارہ بیان ہوا ہے ، انسان کے عاقبت بخیر ہونے کے اسباب میں سے ایک یہی اول وقت کی نماز ہے ، انسان جب خدا کے حکم اور دستور کا رعایت کرے ، خداوند متعالی بھی اس کا مراقب رہے گا ، اسی کہیں گرنے نہیں دے گا ، اس کی زندگی میں سخت مشکلات آنے نہیں دے گا ، ضرورت کے موقع پر خدا اس کا مدد کرے گا ، لہذا انسان کو ہر حال میں اول وقت میں نماز ادا کرلینا چاہئے ۔
موبقات انسان ؛ تین چیزيں انسان کی بدبختی کے اسباب میں بیان ہوا ہے فرماتا ہے :
«فَشُحٌّ مُطَاع» دوسری روایات میں اس کا اللہ کے بارے میں غلط سوچ تفسیر ہوا ہے، اگر انسان خدا کے بارے میں اچھا سوچ نہ رکھے ، یہ بولے کہ خدا میری مدد نہیں کرتا ، خدا میری طرف کوئی توجہ نہیں کرتا ، جتنا بھی دعا کرلوں مستجاب نہیں ہوتی ہے ، خدا نے مجھے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے (نعوذ باللہ ) تو یہ سب خدا کے بارے میں غلط سوچ ہے ، انسان کو چاہئے کہ ہمیشہ خدا کے بارے میں اچھا سوچ رکھے ، اور یہ بولے کہ خدا یقینا مجھے عطا کرتا ہے ، اچھا سوچ رکھنے کا معنی یہی ہے ، کہ خدا مجھے توجہ کرتا ہے ، اگر خدا سے کوئی چیز طلب کروں تو خدا عطا کرتا ہے ، روایات میں حسن ظن کے بارے میں ہے کہ انسان خدا کے بارے میں اتنا اچھا سوچ رکھے کہ گویا تمہاری حاجت کو ابھی ابھی پوری کر رہا ہے ، دعا مستجاب نہ ہونے کے اسباب میں سے ایک یہی ہے کہ انسان دعا کرتے وقت ناامید ہو کر دعا کرتا ہے ، لیکن اگر واقعی طور پر خدا سے یہ بولے کہ خدایا ! میں یہ چیز تم سے مانگ رہا ہوں ، تمہاری ذات مقدس سے طلب کر رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے تو مجھے عطا کرے گا ، مگر یہ کہ اس میں میری مصلحت نہ ہو ، یا کوئي مانع ہو ، وگرنہ یہ دعا مستجاب ہو جائے گی اور اسی وقت عطا ہو گا ، دوسری روایات میں شح کا معنی سوء ظن( برا سوچ) کیا ہے ۔
البته یہ انسان کے بخل اور کنجوسی سے بے ربط نہیں ہے ، یا انسان خدا کو اپنے لئے بخیل تصور کرتا ہے ، یا معرفت کے لحاظ سے اپنے بخل کو خدا سے نسبت دیتا ہے ، یہ بھی ایک قسم کا برا سوچ ہے ، معرفتی لحاظ سے انسان کی کنجوسی ہے ، خدا کے بارے میں برا سوچ رکھنا یہ ہے کہ خدا کو حاضر تصور نہ کرے ، خدا کو قادر نہ سمجھے ، نعوذ باللہ خدا کو محدود سمجھے ، یہ سب کنجوسی کے ساتھ مربوط ہے ، لیکن روایت میں اس کا سوء ظن(برا سوچ) معنی کیا ہے اور وہ روایت بھی معتبر روایت ہے ، یہ انسان کو بدبخت کرتا ہے ۔
«وَ هَوًى مُتَّبَع» خواہشات کی پیروی کرنا ، کہ ہم سب اسی میں گرفتار ہیں ، کوئی مقام و منصب کے پیچھے ہے کہ انسان کی خواہشات نفسانی اسے بتاتا ہے اس مقام کے پيچھے جاو ، تمہارے علاوہ اس مقام کا کون سزاوار ہے ، صرف تم ہی اس ملک کو نجات دے سکتا ہے ، یہی «وَ هَوًى مُتَّبَع»، صرف تم اس زمانہ کا عالم ہے ، تمہارے علاوہ کون ہے جو لوگوں کی جہالت کو ختم کرے ، صرف تم ایک بڑا خطیب ہو ، تم صرف محقق ہے ، یہ خواہشات ایسی چيز ہے جس میں سب انسان گرفتار ہیں ، خدا رحمت کرے امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ ) کو کہ زمانہ جتنا گزرتا ہے انسان کو ان کی عظمت کا زیادہ علم ہوتا ہے ، فرماتا ہے : جو انسان خواہشات نفسانی میں گرفتار ہوتا ہے وہ اختلاف پیدا کرتا ہے ، تمام اختلافات کا سبب خواہشات نفسانی ہے ، وگرنہ اگر انسان خواہشات نفسانی کو چھوڑ دیں وہ انسان کسی سے کوئی اختلاف نہیں کرتا ، اس کے بعد فرماتا ہے کہ اگر ایک زمانہ میں دو پیغمبر ساتھ مبعوث ہوتے تو کیا ان دونوں کے درمیان اختلاف ممکن ہے ؟
علماء سے فرماتے تھے ، تمہارے درمیان یہ اختلاف ، خواہشات نفسانی کی وجہ سے ہے ، شیطان انسان کو اس طرف لے جاتا ہے ، خواہشات نفسانی اور شیطان کی پیروی کرنے کی وجہ سے ہے ، اگر کسی جگہ سے خدمت کا موقع اٹھایا جائے تو بعد میں آنے والے کے خلاف دن رات بولنے لگتا ہے یہ سب اسی خواہشات نفسانی کی پیروی کی وجہ سے ہے ۔
البتہ بیان کرنا آسان ہے ، اس بارے میں روایات کا مطالعہ
فرمائیں ، ان روایات کو سب سے پہلے اپنے آپ پر تطبیق کرے ، کہ میرے اندر خواہشات
نفسانی ہے یا نہیں ہے ؟ جی ہاں ہے لیکن کم ہے ، یا کم بھی نہیں ہے ، سب سے پہلے اس
خواہشات نفسانی کا علاج کرے اور علاج ہو گیا تو اس کے بعد جا کر دوسروں کو نصیحت
کرے ، اس کے بعد جا کر بولیں کہ فلان شخص کتنا غلط کام کر رہا ہے ، بہر حال انسان
کو بدبخت کرنے کے اسباب میں سے ایک خواہشات نفسانی کی پیروی کرنا ہے ۔
«وَ إِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِه» ایک اور چيز جو
انسان کے بدبخت ہونے کا سبب ہے وہ خود پسندی ہے ، ، انسان کو چاہئے کہ ہمیشہ
دوسروں کو اپنے آپ پر مقدم رکھے ، یہ بولے کہ فلان شخص تقوا میں مجھ سے بہتر ہے ،
دوسرے مجھ سے اچھے ہیں ، علم میں مجھ سے بہتر ہے ، اپنے آپ سے یہ چیزیں بیان کرتے
رہے تا کہ یہ خودپسندی اپنے اندر سے ختم ہو جائے انشاء اللہ[3].
وصلّی الله علی محمد و آله الطاهرین
[1] - نساء، 31.
[2] - لقمان، 20.
[3] - المحاسن، ج1، ص: 4 و معاني الأخبار، النص، ص: 314: عَنْهُ عَنْ هَارُونَ بْنِ الْجَهْمِ عَنْ أَبِي جَمِيلَةَ مُفَضَّلِ بْنِ صَالِحٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ طَرِيفٍ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: ثَلَاثٌ دَرَجَاتٌ وَ ثَلَاثٌ كَفَّارَاتٌ وَ ثَلَاثٌ مُوبِقَاتٌ وَ ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ فَأَمَّا الدَّرَجَاتُ فَإِفْشَاءُ السَّلَامِ وَ إِطْعَامُ الطَّعَامِ وَ الصَّلَاةُ وَ النَّاسُ نِيَامٌ وَ أَمَّا الْكَفَّارَاتُ فَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ بِالسَّبَرَاتِ وَ الْمَشْيُ بِاللَّيْلِ وَ النَّهَارِ إِلَى الصَّلَوَاتِ وَ الْمُحَافَظَةُ عَلَى الْجَمَاعَاتِ وَ أَمَّا الْمُوبِقَاتُ فَشُحٌّ مُطَاعٌ وَ هَوًى مُتَّبَعٌ وَ إِعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهِ وَ أَمَّا الْمُنْجِيَاتُ فَخَوْفُ اللَّهِ فِي السِّرِّ وَ الْعَلَانِيَةِ وَ الْقَصْدُ فِي الْغِنَى وَ الْفَقْرِ وَ كَلِمَةُ الْعَدْلِ فِي الرِّضَا وَ السَّخَطِ.