شیعہ فقہ میں بشریت کی تمام احتیاجات کو پورا کرنے کے لئے مضبوط ترین قواعد و ضوابط موجود ہے
23 November 2024
21:04
۹۱۸
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
مرکز فقهی ائمه اطهار(علیهم السلام) فقہ اور فقاہت کے آفاق کو بلند کرنے اور بلند ترین چوٹیوں پر پہنچانے کے سلسلے میں جو قدم اٹھایا ہوا ہے اسی کاوش کے سلسلے میں بتاریخ 18 /4/ 1399 کو " فقاہت کے راہ میں" کے عنوان سے ایک سمینار منعقد کیا گیا ، کہ مرکز فقہی آئمہ اطہار(ع) کے محترم فضلاء نے جوق درجوق شرکت فرمائے۔
مرکز فقهی ائمه اطهار(علیهم السلام)کے رئیس حضرت آیت الله حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی(دام عزہ) نے اپنے ارزشمند بیانات سے اس سمینار کے رونق کو دوبالا کیا ۔
بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمدلله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
یہ سمینار "فقاہت کے راہ " سےآشنا کرنے کے لئے ہے ، البتہ نہ فقاہت اس کے خاص معنی میں ، جو احکام اور فروع دین سے مربوط ہے ، بلکہ یہاں پر مراد فقاہت کے عام معنی کہ وہی دین شناسی ، ہے یہ روایت امام صادق(علیہ السلام) سے معروف ہے کہ آپ نےفرمایا : «إذا أرادَ الله ُ بعَبدٍ خَيرا فَقَّهَهُ في الدِّينِ» خداوند متعالی اگر کسی انسان کو خير پہنچانا چاہتا ہے تو اسے دین میں فقیہ بنا دیتا ہے ۔
اس حدیث میں فقہ سے مراد اصطلاحی فقہ نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اسے دین میں مجتہد بنا دیتا ہے ، اسی طرح اس سے مراد دین کے تمام پہلوں پر مختصر آگاہی رکھنا نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد دین کے تمام ابعاد پر تسلط پیدا کرنا ہے اور یہ تسلط پیدا کرنا تفقہ اور اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔
حوزہ اور حوزہ سے باہر ایک غلط بات ذہنوں میں ہے کہ یہ سوچتے ہیں اجتہاد یا فقاہت صرف احکام سے مربوط ہے اور کہتے ہیں : احکام فقہ اصغر ہے اور فقہ اکبر کے مقابلہ میں فقہ اصغر کی کوئي حیثیت نہیں ہے ، در حالیکہ اجہاد اور فقاہت دین کی بنیاد سے مربوط ہے ، جب تک انسان اجتہاد کے درجہ تک نہ پہنچے وہ دین شناس نہیں ہو سکتا ، اس مطلب پر اچھی طرح توجہ دیں کہ بہت سارے سوالوں کا جواب اسی میں موجود ہے ۔
کبھی یہ سوال ہوتا ہے : ہمیں کتنے مراجع کی ضرورت ہے کہ مجتہد اور مرجع کی تربیت کے لئے اتنی ساری عمارتیں اور علمی مراکز بنائے جاتے ہیں ؟ ان افراد کو معلوم نہیں ہے کہ اجتہاد کا پھل دین کو بہتر طریقہ سے جاننا ہے ، اور ہماری بات بھی یہی ہے کہ ہم یہ نہیں کہتےہیں کہ صرف اجتہاد دین سمجھنے کا راستہ ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں اجتہاد کے بغیر کوئی دین شناس نہیں ہو سکتا ، ا س کے بغیر وہ اخلاق ، احکام اور اعتقادات کے حدود کو تشخیص نہیں دے سکتا ہے ، جب کوئی شخص دین میں مجتہد ہوتا ہے اور دین شناس بنتا ہے تو وہ دین کے اعتقادی مسائل اور ان کے ملاکات اور احکام اور اس کے ملاکات پر بخوبی تسلط پیدا کر لیتا ہے ۔
جو شخص دین میں مجتہد بن جائے وہ بدعت شناس بھی ہوتا ہے اور
فورا سمجھ سکتا ہے کہ کیا چیز جو دین میں نہیں تھا وہ دین میں داخل ہوا ہے کہ وہی
بدعت ہے «ادخال ما لیس من الدین فی الدین» ۔
«اجتهاد»، ایک بہت بڑی نعمت اور کمیاب ہے ، بہت سے انسان اس کے مدعی
ہیں لیکن صرف مدعی ہونے سے یہ صفت اس کے اندر پیدا نہیں ہو سکتی ۔
انسان جب اخلاقی روایات اور فقہی روایات کے درمیان حدود کو تشخیص دے سکے تو ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا بھی کر سکتا ہے ، اعتقادات میں جب یہ سمجھ جائے کہ عقلی حکم کس حد تک جاری ہو سکتا ہے وہاں پر عقل کو سب سے پہلے قرار دیتے ہیں ، اخلاقیات میں عقل کی کچھ معیارات اور ملاک ہے جو اعتقادات کے معیارات سے فرق کرتا ہے ، او ر احکام میں بعض موارد میں عقل کی گنجايش ہی نہیں ہے حتی کہ کبھی تو عقل کو قرآن اور سنت کے ساتھ لانا ہی نہیں چاہئے ۔
ان چیزوں کو کون تشخیص دے سکتا ہے ؟ صرف ادعا کرنے سے یا ایک مقالہ یا کتاب پڑھنے یا حتی کہ کسی کتاب کی تدریس سے بھی اس حد تک نہیں پہنچ سکتا ، جو شخص اجتہاد پر فائز ہو وہ تشخیص دے سکتا ہے کہ اعتقادات کی معیار و ملاک کیا ہے اسی طرح احکام فقہی کا معیار کیا ہے ؟ اور اسی کے ذریعہ ہی فردی ، اجتماعی ، سیاسی ۔۔۔۔۔۔ معیارات کو سمجھ سکتا ہے ۔
پس پہلا مطلب ، اجتہاد کی قدر و قیمت کو جاننا ہے ، اسے ایک معمولی کام نہ سمجھے ، اجتہاد ایک بہت ہی اہم کام ہے ، پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم ) کی یہ روایت بہت ہی اہم اور توجہ طلب ہے کہ آپ (ص) فرماتے ہیں : «نعم الرجل الفقیه فی الدین..»(دعوات راوندی:221) انسانوں میں سے سب سےبہترین دین میں فقیہ انسان ہے ، اگر لوگوں کو اس کی ضرورت ہو تو وہ ان کے لئے کام آنے والا ہے ، اور لوگوں کو اس کی ضرورت نہ ہو تو وہ اپنے آپ کے لئے نافع ہے ، یہاں پر فقیہ اس کے عام معنی میں یعنی دین شناس مراد ہے ، فقیہ ہمیشہ اپنے اجتہاد سے خدا کی نسبت صحیح معرفت پیدا کر سکتا ہے ۔
جب آپ یہ جان لیں کہ ظواہر حجت ہے ، اس کے بعد اس سے مستثنی کو بھی جان لیں ، جیسے وہ ظاہر جو عقل قطعی سے سازگار نہ ہو ، اس وقت سمجھ جاتا ہے کہ قرآن کریم میں کچھ آیات ہیں جن کا ظاہر مراد نہیں ہے جیسے یہ آيت کریمہ:«ید الله مبسوطة» اس میں "ید" سے مراد ظاہر ہاتھ نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد خدا کی قدرت اور طاقت ہے ، یہ اجتہاد کے بارے میں ایک چھوٹا سا مثال ہے ۔
اجتہاد ہی ہے کہ جس کے ذریعہ سے انسان اعتقاد ی مسائل سیکھ سکتا ہے ، آج حوزات کی ایک کمی یہ ہے کہ اعتقادی کتابوں کے بارے میں اجتہادی طورپر کام نہیں ہوا ہے ، مثلا معاد کے بارے میں موجود آیات (کہ ہم خود چند سال سے اس بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ) میں جب ہم اجتہادی طریقہ سے گفتگو کرتے ہیں تو بہت ہی مختلف نتائج مل جاتے ہیں ، اگر رایج طریقہ سے تفسیر کرے حتی کہ قرآن سے قرآن کی تفسیر ہی والی روش کو اپنائے جیسا کہ علامہ طباطبائی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی روش ہے کہ شیعہ کے افتخارات میں سے ایک ہے پھر بھی یہ اجتہادی تفسیر نہیں ہے ! اگر ہم اجتہادی روش سے تفسیر ، اعتقادات اور اخلاقیات کے بارے میں گفتگو شروع کریں ، اس وقت ہم سمجھ جائيں گے کہ اجتہاد ایک بہت بڑی ، کمیاب ، گرانقدر نعمت ہے ۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ علمی مراکز جیسے مرکز فقہی آئمہ اطہار(علیہم السلام)کہ سنہ 1376 میں تاسیس ہوا ہے اور 23 سالوں سے مشغول ہے ، اسی طرح حوزہ میں دوسرے بھی مراکز موجود ہے کہ ایک کا طلاب کی استعداد کو بڑھانے کے لئے اپنا ایک خاص پروگرام ہے تا کہ نتیجہ تک پہنچ جائے ، اگر کسی کو کچھ دیر پڑھنے کے بعد کہیں نوکری کرنا ہے تو ان کو ان مراکز میں آنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ حوزہ کے عمومی دوروس کو پڑھ لیں تو کافی ہے ۔
یہ مراکز ان افراد کے لئے ہے جو دین کے علوم میں بہت زیادہ گہرائي تک جانا چاہتے ہیں ، جو دین شناس ہونا چاہتے ہیں ،اور نسل نو تک دین پہنچانا چاہتے ہیں ، ہمارے یونیورسٹیوں اور کالجز میں بہت سارے شبہات پیدا کرنے او ر دشمنان دین ، دین کے خلاف پروپگنڈا کرنے کے باوجود لوگوں کا دین کی طرف ہی آنے کا زمانہ ہے ، ہم ایک دفعہ دشمن کو جمہوری اسلامی کے نظام کے خلاف ہونے کے لحاظ سے دیکھتے ہیں اور ایک دفعہ یہ دشمن بہت ہی وسیع پیمانہ پر دشمنی دیکھتے ہیں کہ جو ہمارے دین کا ہی دشمن ہے ۔
ہمارے لئے نظریہ پیش کرتے ہیں تا کہ یہ بتائے کہ اب زمانہ عقلانیت کا زمانہ ہے ، لہذا دین کو چھوڑ دیں اور عقل کے پیچھے جانا چاہئے ، اس طرح کی باتیں زبان سے بولتے بھی ہیں اور قلم سے لکھتے بھی ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بشریت آج دین کی طرف آنے لگے ہیں ، خصوصا اس کرونا وائرس نے انسان کو بشری قدرت سے ما فوق کسی قدرت و طاقت کی طرف توجہ کرنے پر مجبور کیا ہے ، لہذا یہ زمانہ دین کی طرف آنے کا زمانہ ہے ، اگرچہ ہم عمومی طور پر لوگوں سے پوچھے تو ممکن ہے یہ اظہار ہو جائے کہ دین داری اور دین پر عمل کرنا کچھ حد تک کمزور ہوا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دین کے بارے میں اطلاع پیدا کرنا اور دین کی طرف توجہ تمام جوامع بشری میں زیادہ ہوا ہے ، اس کے لئے ہمیں ایسے افراد کی ضرورت جو دین شناس ہوں جو انہیں دین کی معرفی کرے ، لہذا یہ تصور نہ ہو کہ فقاہت کے اس درجہ تک پہنچنے کے لئے درس پڑھنے اور سختیاں برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
اس وقت معاشرہ میں ایک حقیقی دین شناس کی ضرورت ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر سے بہت زیادہ ہے ، یہ صرف ایک دعوا اور تعصب نہیں ہے ، بلکہ ایک حقیقت ہے ، جب ہم دین کو صحیح طرح بیان نہ کرسکے تو اس وقت داعش وجود میں آتا ہے ، جو یورپ ممالک ، آمریکا اور دوسرے مختلف ممالک سے جوانوں کو اپنے لئے جذب کر لیتے ہیں ، سلفیہ ، وہابیت ، اور جھوٹے عرفان وجود میں آتے ہیں ، اور ہر روز جعلی مذاہب نکل آتے ہیں ۔
اگر آپ ان جھوٹے عرفان اور جعلی مذاہب وجود میں آنے کی وجہ کوجاننا چاہئے ، تو یہی کہنا ہو گا : چونکہ دنیا کے قدرتمندان اور مستکبرین عالم اود دشمنان دین جانتے ہیں بشر کی دین کی ضرورت ہے ، لہذا اصل دین سے منحرف کرنے کے لئے ، ایک جعلی اور حقیقت سے خالی دین وجود میں لاتے ہیں ، لہذا اس بارے میں ہمارے پاس پروگرام ہونا چاہئے ، اور آپ با استعداد طلبہ ہونے کے حوالہ سے ہمیشہ اس بارے میں اپنے اساتید سے مشورت کرتے رہیں اور آیندہ کے لئے اپنے علمی مسیر کو مشخص کرنے لئے اپنے استعداد اور شوق کا امتحان لیتے رہیں ۔
جس طلبہ کے پاس فقہ اور اصول پڑھنے کی استعداد نہیں ہے اس چاہئے کہ ان مراکز میں نہ آئے ، اگرچہ اس کا رزلٹ بہت اچھا ہی کیوں نہ ہو، چونکہ خود اس فقہ اور اصول کےلئے ایک خاص استعداد اور خصوصی بہت زیادہ صبر اور حوصلہ کی ضرورت ہے ، امام خمینی ( رضوان اللہ تعالی علیہ ) کا یہ فرمان آپ نے ضرور سنا ہو گا ، ہمارے دینی بزرگوں کی فرمایشات ہمارے لئے حجت ہے ، امام کے نواسوں میں سے ایک جب حوزہ میں علم کی حصول کے لئے آنا چاہتا تھا تو اس نے امام سے پوچھا ہے کہ مجھے کتنے سال اس حوزہ میں درس پڑھنا چاہئے ؟خود اس کے ذہن میں یہ بات تھی کہ امام فرمائيں کے دس سال ، لیکن امام نےفرمائے: کم از کم 70 سال ، چونکہ ان جیسا مجتہد جو فقاہت ، عرفان ، سیاست اور فلسفہ کے چوٹی پر ہو وہی دین کی قدر و قیمت اور دین حاصل کرنے کے لئے جو صبر اور حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے اسے درک کر سکتے ہیں ۔
ہم سب خداوند متعالی کا شکر گزار ہیں کہ انقلاب اسلامی کے اہم آثار اور برکات میں سے ایک حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں میں علوم کے مختلف شعبہ وجود میں آئے ہیں ۔
ہمارے مرحوم والد گرامی (رضوان اللہ تعالی علیہ) فرماتے تھے ، اگر کوئی شخص فلسفہ ، عرفان ، تفسیر اور دوسرے علوم کو چھوڑ کر صرف فقہ میں صاحب نظر ہونا چاہتا ہے تو ایک طبیعی عمر اس کے لئے کم ہے " اس وقت فقہ میں کچھ ایسے موضوعات بھی وجود میں آئے ہیں جن میں بعض کے لئے اس مرکز میں سات سال درس خارج ختم ہونے کے بعد پروگرام بنایا گیا ہے ، اور سات سال درس خارج پڑھنے کے بعد ان شعبوں میں داخلہ ہوتا ہے ، جیسے فقہ ڈاکٹری ، فقہ قضائی ، فقہ سیاسی ، فقہ میڈیا اور دوسرے فقہ ، ابھی ڈاکٹری فقہ کے لئے ایک عام عمر انسانی کافی نہیں ہے، کیونکہ ہلتھ کے حوالہ سے بہت سارے مسائل ہیں جس کے مختلف پہلووں پر عبور حاصل کرنے کے لئے ایک عام عمر سے زیادہ وقت درکار ہے ۔
انشاء الله آنے والے وقتوں میں فقہ اقتصاد ، فقہ ڈاکٹری ، فقہ سیاسی ، فقہ خواتین، بچوں سے متعلق فقہ ، اور انٹرنیشنل کے احکامات ، فقہ میڈیا ۔۔۔۔۔۔ صاحب نظر فقہاء میسر ہوں گے ۔
کبھی طلاب کے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ فقہ میں جو کچھ بیان ہونا تھا وہ سب کچھ ہو چکا ہے ، اب سب تکرارمکررات ہے ، ابھی احوط کو اقوی کہنے اور اقوی کو احوط کہنے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ، یہ غلط باتیں ہمیں فقاہت کے مسیر کو طے کرنے میں سستی کا سبب نہیں ہونا چاہئے ، میں یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ انقلاب اسلامی تقریبا 20 فیصد فقہ سے برپا ہوا ہے اور امام میدان میں آئے ، ابھی اس کا 80 فیصد فقہ باقی ہے اور اس بارے میں کچھ کام نہیں ہوا ہے ، انقلاب سے پہلے آیات الاحکام ، نماز ، حج ، روزہ ، ارث اور نکاح۔۔۔۔کے ابواب تک محدود تھے ۔
لیکن اس وقت صحت عامہ سے متعلق فقہ کہیں بھی نہیں تھا ، لیکن اب اس سے متعلق آیات کو جمع کیا گیا ہے ، میڈیا اور ہنر خود ایک وسیع باب ہے ، ان تمام ابواب کے باوجود آجکل فقہ کے ناکارآمد ہونے کے بارے میں شبہہ ایجاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں : فقہ کا دائرہ بہت ہی چھوٹا ہے ، حتی صراحت کے ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہم فقہ کو بہت زیادہ پھیلا رہے ہیں ، فقہ سے کیا مربوط ہے کہ فلان واقعہ کے بارے میں نظر دے دیں ، درحالیکہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا موضوع نہیں ہے جس میں بشر کے لئے فقہ کی ضرورت نہ ہو ۔
یہ نہ سوچیں کہ صرف متدین اور دیندار افراد کی فقہ کی ضرورت ہے ، شیعہ فقہ بشر کے تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لئے قواعد و ضوابط رکھتے ہیں ، مثلا معاملات میں ، لین دین صحیح ہونے کے لئے ایک صحیح اور مضبوط عقلی ملاک اور ضابطہ کی ضرورت ہے جو ہمارے لئے فقہ بیان کر سکتا ہے ، اسی طرح ہلتھ ، قضاوت اور بشر کی زندگی کے دوسرے تمام مواقع کے لئے ۔
اس بارے میں ضرور سوچیں کہ اس دنیا میں کوئی بھی ایسا موضوع نہیں ہے جس میں فقہ داخل نہیں ہوتا ہو اور کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس میں بشر کے لئے فقہ کی ضرورت نہ ہو ۔
انہی موضوعات میں سے ایک موضوع ایٹم بم اور قتل عام کرنے والے اسلحہ جات بنانا ہے ، مرکز فقہی ائمہ اطہار(علیہم السلام) کے افتخارات میں سے ایک یہ ہے کہ ایٹم کے بارے فقہ کے موضوع کو شروع کیا اور اس بارے میں تحقیقاتی کاموں کو انجام دیا اور اس بارے میں موجود کچھ مقالات چھپ بھی چکی ہے ، رہبر معظم انقلاب نے جو فتوا صادر فرمایا تھا جو وائٹ ہاوس کے اندر تک بھی چلا گیا ، کہ خود اوباما نے چند دفعہ اس فتوا کے بارے میں اشارہ بھی کیا تھا ، یہ فقہ کی اہمیت کو بیان کرتا ہے ، یہ انسان کو فقہ ضرورت ہونے کو بیان کرتا ہے ، لہذا یہ نہ بتایا جائے کہ ہمیں فقہ کی کیا ضرورت ہے ؟
لہذا ہمارا فقہ جامع اور کارآمد ہے ، فقہ کے بارے میں جتنے شبہات بیان کرتے ہیں سب کے سب کا جواب بھی موجود ہے ، اور اس بارے میں ذمہ دار افراد کو حکم کرتا ہوں کہ فقہی شبہات کے جواب کو بھی اپنے تعلمی شیڈول میں شامل کرے ۔
لہذا ہدف ، اور انگیزہ رکھنا چاہئے، اور اس راہ میں خداوند متعالی سے مدد بھی طلب کرے ۔
ہمارا فقہ اور ہمارا دین ، خداوند متعالی ، انبیاء و مرسلین اور ان میں سے بھی سب سے اوپر پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم ) اور آئمہ معصومین (علیہم السلام)ہیں، لہذا ہم اسے خدا ، پیغمبر اکرم اور آئمہ سے ارتباط کے بغیر حاصل نہیں کر سکتے اور نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے ہیں ۔
ہمیشہ خداوند متعالی سے ارتباط میں رہیں اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم ) اور آئمہ اطہار (علیہم السلام) سے مدد طلب کرتے رہیں اور یہ یقین کریں کہ امامت اور ولایت کے بارے میں جتنا ہمارا اعتقاد زیادہ ہو گا فقہی مسائل میں علمی نورانیت پیدا کر سکتے ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ تہذیب نفس بھی ضروری ہے ، اگر مجتہد مہذب نہ ہو ، تو اس کے اجتہاد کا نتیجہ ضروریات دین کی انکار پر ختم ہو گا ، قرآن کریم میں فرماتا ہے :«ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذينَ أَساؤُا السُّواى أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللهِ وَ كانُوا بِها يَسْتَهْزِؤُنَ»" اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ہوا کہ انہوں نے خدا کی نشانیوں کو جھٹلادیا اور برابر ان کا مذاق اڑاتے رہے"(سوره روم: 10)جو لوگ گناہ کی طرف جاتے ہیں ان کی عاقبت آیات الہی کو جھٹلانے کی طرف ہو گا ،ممکن ہے کوئی شخص مجتہد ہو ، لیکن جب وہ مہذب نہیں ہے تو وہ انہی آیات کا انکار کرے ، بولے نماز واجب نہیں ہے ، اور اسی طرح تمام احکام دین کو ایک ایک کر کے جھٹلائے ، ان شاءاللہ آپ سب کا علمی ، دینی اور معنوی عاقبت اچھی ہو۔
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته