دینی معاشرہ کی بنیاد فقہ ( احکام)
27 November 2024
15:11
۹۴۶
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
بسم الله الرحمن الرحیم الحمدلله رب العالمین
و صلی الله علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آله الطیبین الطاهرین المعصومین
و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین
اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ حوزات علمیہ خاص کر کے فقہ اور فقہاء پر بہت اعتراضات کرتے ہیں ، حتی کہ بعض نے فقہ کی موت کی بات بھی کر دی ہے ، لیکن میں اسے بارے میں کچھ اظہار خیال کرنا نہیں چاہتا ہوں ۔
بات یہ ہے کہ کیوں یہ اعتراضات کرتے ہیں ؟ کیونکہ فقہ ،دینی معاشرہ کی بنیاد ہے ، فقہ کے ذریعہ ہی معاشرہ اسلام کے مورد نظر ہدف تک پہنچ سکتا ہے ، اور فقہ کے بغیر اس ہدف تک پہنچنا ممکن نہیں ہے ۔
یہ ناروا نسبت جو دی جاتی ہے کہ اس وقت حوزات علمیہ میں وہی فقہ ہے جو انقلاب سے پہلے تھا اور چند صدیوں سے چلے آ رہے ہیں ، یہ بات ان افراد کی کم علمی اور مغرضانہ ہے ، انقلاب کے بعد کے اسی کم مدت میں فقہ نے بہت ترقی کی ہے اور اب معاشرہ کے ہر ہر کاموں میں داخل ہو چکا ہے ، مخالفت کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔
اسی کرونا کے بارے میں دیکھیں کہ اس مختصر مدت میں حوزہ علمیہ کے بعض اساتید گرانقدر نے چھوت کی بیماری کے بارے میں فقہی مسئلہ کو بیان کیا ہے اور اب بھی اس بارے میں مختلف نظریا ت رد و بدل ہو رہے ہیں ، یہ ایک عالمی بیماری ہے کہ ابھی پوری میں یہ پھیل چکی ہے ، لیکن فقہی احکام کے لحاظ سے اس کے اپنے خاص قوانین موجود ہے ، یہ ہماری فقہ کی قدرت ہے کہ جب بھی کوئی نیا مسئلہ پیش آتا ہے فقہ وہاں پر آتا ہے اور اس کے بارے میں اپنا جواب پیش کر دیتا ہے ۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا ہو گا کہ اسی کرونا کے بارے میں کتنے مسئلے بیان ہوئے ہیں ، تکلیفی لحاظ سے ، وضعی لحاظ سے ، فردی ، اجتماعی ، حکومتی لحاظ سے ، کہ اس بیماری کے بارے میں حکومت کی کیا ذمہ داری ہے ، معاشرہ میں عام انسانوں کی کیا ذمہ داری ہے ؟ ہمارا فقہ ان تمام مسائل کا بہترین انداز میں جواب دے سکتا ہے ، الحمد للہ ہمارے بزرگوں نے ان مسائل کو بیان بھی کر دیا ہے اور اب بھی اس بارے میں تحقیق کرنے میں مشغول ہیں ، اب کیسے بتاتے ہیں کہ فقہ ختم ہو چکا ہے ؟ کیا فقاہت کی موت ممکن ہے ؟
فقہ ختم ہو جائے تو اس کے ساتھ دین بھی ختم ہو جائے گا ، یہ بیہودہ باتیں یا کم علمی کی وجہ سے بتاتے ہیں ، یا خدانخواستہ کچھ اور نیت رکھتے ہیں ، البتہ کبھی یہ چیزیں علمی لحاظ سے کمزور ہونے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے ، یعنی بعض افراد میں مسائل کو صحیح اور دقیق طریقہ سے تجزیہ اور تحلیل کرنے کی قدرت و طاقت نہیں ہوتی ہے اس وجہ سے یہ غلطی کر بیٹھتا ہے ۔
دنیا میں اس وقت ہزاروں قسم کی جو معاملات وجود میں آئے ہیں ان تمام کے بارے میں فقہی احکام بیان کرنے کی ضرورت ہے ، صحت عامہ کے مسائل، قضاوت کے مسائل ، اجتماعی زندگی کے مسائل ، اور سیاسی مسائل ۔۔۔۔۔ جو مختلف طریقوں سے بیان ہوتے ہیں ، ان تمام کے بارے میں فقہ کو آگے آکر ان کے احکام کو بیان کرنا چاہئے ۔
جو طلاب گرام فقہ کے بارے میں زحمتیں اٹھاتے ہیں ان کی قدر دانی کرنی چاہئے ۔
ملاحظہ فرمائیں ہمارے آئمہ معصومین ( علیہم السلام ) فقہ کو بہت اہمیت دیتے تھے ، امام صادق اور امام باقر علیہما السلام ) نے اپنی امامت کی پوری مدت کو فقہ بیان کرنے میں گزارے ، دوسرے آئمہ اطہار(ع) کی بھی زیادہ تر کوشش احکام بیان کرنے اور اسے معاشرہ میں تحکیم کرنے میں گزارتے تھے ، خاص کر کے اس مبناء کے مطابق جسے ہم نے عرض کیا تھا کہ ہمارے آئمہ (ع) پیغمبر کی طرح مشرع اور تشریع کرنے والے بھی ہیں ، یہ مشرع کا مسئلہ بہت ہی ہم مسئلہ ہے اور یہ اثر گزار بھی ہے ۔
اصحاب جب آئمہ (ع) کی خدمت میں آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کا ثواب کتنا ہے ؟ امام پہلے فرماتے ہیں کہ ہر قدم پر ایک حج اور عمرہ کا ثواب ہے ، اس کے بعد فرماتے ہیں دس حج اور عمرہ کا ثواب ہے ، اس کے بعد فرماتے ہیں سو حج اور عمرہ کا ثواب ہے یہاں تک کہ ایک ہزار حج اور ایک ہزار عمرہ تک پہنچ جاتا ہے ۔
اس بارے میں حقیقیت یہ ہے کہ امام کا یہ فرمان اخبار نہیں ہے بلکہ یہ انشاء ہے ، جو فرماتا ہے خداوند متعالی اسی بنیاد پر مقدر کرتا ہے یعنی ان حضرات کی انشاء ، خداوند متعالی کا جعل اور انشاء ہے ۔
ایک دوسری روایت میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے توبہ کے بارے میں فرمایا ہے : اگر کسی شخص نے مرنے سے ایک سال پہلے توبہ کر لیا تو اس کی تمام گناہیں معاف کر دی جائے گی ، جس کے بعد فرماتا ہے یہ مدت زیادہ ہے ؛ اگر مرنے سے ایک مہینہ پہلے توبہ کر لے تو اس کی تمام گناہیں معاف ہو گی ، اس کے بعد پھر فرماتا ہے یہ بھی زیادہ ہے اگر مرنے سے ایک دن پہلے توبہ کر لے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد فرماتا ہے اگر مرنے سے ایک دن پہلے توبہ کر لے اس کی تمام گناہیں معاف ہو گی ۔ میری نظر میں یہ راوندی کے نوادر میں سے ہے ۔
پیغمبر اکرم (ص) نے ایک سال سے شروع کرنے کے بارے میں دو احتمال ہے ایک یہ ہے خداوند متعالی کی طرف سے جو ان تک وحی ہوا ہے اس کے بارے میں خبر دینا چاہتا ہے ، یہ بہت زیادہ خلاف ظاہر ہے ، اس کا ظاہر یہ ہے کہ یہ اخبار نہیں ہے ، بلکہ خود پیغمبر اکرم (ص) کا انشاء ہے ، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تشریع کا دائرہ صرف احکام تک محدود نہیں ہے بلکہ اعمال کے ثواب اور اجر کے بارے میں بھی ہے ۔
امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کے ثواب کے بارے میں جو روایات ہیں خاص کر کے وہ روایات جو کامل الزیارات میں ہیں ، ان کی کیا توجیہ ہو سکتی ہیں ؟ سوائے اس کے خداوند متعالی نے جعل اور تشریع کی قدرت کو ( اور وہ بھی اس کے اصلی اور واقعی معنی میں ، نہ کہ عرفی معنی میں ) ان ذوات مقدسہ کے اختیار میں بھی دے دی ہے ، کہ حتی کہ ثواب معین بھی کر سکتے ہیں ، کہ فلان کام کے لئے اس قدر ثواب ہے ، خلاصہ کلام یہ ہے کہ احکام کا جعل اور تشریع حتی کہ ثواب کی مقدار تعیین کرنا آئمہ (علیہم السلام) کے اختیارات میں سے ہے جو خداوند متعالی کی عنایت سے حاصل ہوئی ہے ۔
لہذا ہمارے آئمہ (علیہم السلام) لوگوں کی اعتقادات کے بارے میں فکرمند ہونے کے علاوہ ؛ فقہ اور فقاہت کے استحکام پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے ۔
فقہی کاموں کی اہمیت کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں ، سنہ 2008 میں بیوی کا زمین کے حصہ سے محروم ہونے کے بارے میں ماہ رمضان میں درس کا سلسلہ جاری رکھا تھا ، اور وہ کتاب کی شکل میں چھپ بھی گئی ہے ، کچھ عرصہ بعد تین عدد یہ کتاب دفتر کے افراد میں سے کسی ایک کے ساتھ نجف کے تین مراجع عظام کی خدمت میں ارسال کیا تھا ، بعد میں ، میں خود بھول گیا ، لیکن شب قدر کی راتوں کے بعد ایک رات میں نے خواب دیکھا ی ( البتہ بندہ اس کا موافق نہیں ہوں کہ خواب نقل کرتا رہوں ، چونکہ آجکل لوگوں کی دیانت کے لئے ایک پریشانی اور مصیبت بے بنیاد خوابوں کو بیان کرنا ہے ، لیکن یہ خواب انشاء اللہ سچے خوابوں میں سے ہو ۔
میں نے خواب میں دیکھا ؛ حضرت آیت اللہ العظمی بہجت ( رضوان اللہ تعالی علیہ) اور دو سید عالم جنہیں میں نے نہیں پہچانا ! نجف سے امیر المومنین (علیہ السلام) کی طرف سے ہمارے گھر تشریف لائے ہیں ، آقای بہجت نے مجھ سے فرمایا ؛ ہم نے سنا ہے کہ تم نے فقہی ایک کتاب چھاپی ہے ، ہم ابھی امیر المومنین (علیہ السلام) کی طرف سے تمہارا شکریہ ادا کرنے آيا ہوں ، اس کے بعد مجھ سے فرمایا اس کتاب کو مجھے دے دوں تا کہ دیکھ لوں ، جس کمرہ میں ، میں تھا اس میں یہ کتاب نہیں تھی ، تو میں نے معذرت خواہی کیا اور عرض کیا یہ کتاب ابھی میرے پاس نہیں ہے ، میں بعد میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، جس کے بعد اٹھ گیا تا کہ ان کی خاطر تواضع کر لوں اور ایک الماری کا دروازہ کھول لیا ، جب دروازہ کھول لیا تو دیکھاتین عدد وہ کتاب اس الماری میں ہے ، میں نے کتاب کو اٹھایا اور ان تینوں بزرگوں کی خدمت میں پیش کیا ، میں بہت توجہ سے دیکھ رہا تھا کہ دیکھوں یہ حضرت کیا کرتے ہیں ؟ آيت اللہ بہجت نے جب کتاب کھول لی تو میں نے دیکھا کہ ان کی ایک تصویر کتاب کی پہلی صفحہ پر چھپی ہوئی ہے ، میں نے اسی خواب کی حالت میں اپنے آپ سے بتایا کہ ہم نے تو ان کی تصویر نہیں چھاپی تھی ، کیسے ان کی تصویر کتاب میں آئي ہے ؟
میرا اصلی مقصد یہ ہے کہ انہوں نے صفحات کو پلٹاتے گئے اور دعا دیتے رہے ، اور یہ میرے لئے بہت زیادہ خوشی کا سبب تھا ، جب خواب سے بیدار ہوا ، تو میں نے اپنے آپ سے کہا دیکھو فقہی ایک مسئلہ کی کتنی اہمیت ہے ، آئمہ معصومین ( علیہم السلام) خصوصا امیر المومنین(علیہ السلام) کے کس حد تک مورد عنایت قرار پاتا ہے کہ اس طرح ایک ناچیز طلبہ کی تشکر اور قدردانی کرتے ہیں ، البتہ بیوی کا زمین کے حصہ سے محروم ہونے کا بحث مصحف امیر المومنین(ع) میں ہے ، چونکہ آئمہ (ع) کے زمانہ میں اصحاب کہتے تھے ہم اس حکم کو لوگوں کے لئے بتاتے ہیں لیکن لوگ ہم سے قبول نہیں کرتے ، امام باقر یا امام صادق(علیہماالسلام) نے اپنے غلام سے فرمایا ، جاو جاکر ہمارے جد بزرگوار امیر المومنین( ع) کی مصحف کو لے آو، جب اس مصحف کو لايا گیا تو فرمایا : ہذا واللہ خط جدی" اس خواب کی ایک وجہ شاید یہ مسئلہ بھی ہو ۔
اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ حضرات فقہ کے لئے زیادہ اہمیت دے دیں ، اور ان باتوں پر توجہ نہ دیں کہ بتاتے ہیں فقہ معاشرہ کی کیا کام آتے ہیں ، فقہ انسان کے شخصی اور اجتماعی حرکت سے وابستہ ہے ،فقاہت کے بغیر انسان قرب خدا اور معرفت خدا تک نہیں پہنچ سکتا ، بعض لوگ کچھ غلط بات کرتے ہیں کہتے ہیں کہ نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے ، نماز دین کا ظاہر ہے ، اور یہ ابتدائی مرحلہ ہے تا کہ خدا تک پہنچ جائے ، لیکن جب ہم حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں اس کے بعد ظاہر کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، یہ بالکل بیہودہ باتیں ہیں ، شب قدر کے دعاوں میں سے ایک دعا جسے ہم پڑھتے ہیں یہی ہے کہ خدایا ہماری عمر گزر گئی اور ابھی تک صحیح طرح سے دو رکعت نماز پڑھنا نہیں آیا ، ہمیں یہ توفیق عنایت فرمائے ۔
ان شاء اللہ شب قدر کی ان راتوں کے بعد ہم بدل جائیں گے ، ہماری عبادت اور بندگی میں تبدیلی آئے گي ، بعض نمازیں جیسے نماز شب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آخر عمر شریف تک واجب تھی ، ہمارے آئمہ اطہار(علیہم السلام) حیات مبارک کے آخر تک نماز پڑھتے تھے ، امام حسین ( علیہ السلام) نے عاشور کے دن شہادت سے کچھ گھنٹہ پہلے بھی نماز پڑھ لیے، خدا کی معرفت کے لحاظ سے ہم آئمہ (علیہم السلام) کے ناخن تک بھی نہیں پہنچ سکتے ۔
ہم کیسے کہہ سکتے ہیں اب اور نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے ، جب تک نماز ، روزہ ، حج اور یہ تمام مسائل جو اس وقت پیش آتے ہیں موجود ہوں فقہ بھی زندہ ہے ، فقہ ہمیشہ زندہ ہے ، اب ہر زمانہ میں کچھ اس کے مخالفت بھی کرتے ہیں ۔
بہر حال ہمیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے ، اس وقت کا حوزہ علمیہ انقلاب سے پہلے کے حوزہ جیسا نہیں ہے ، اگرچہ امام خمینی اور رہبر معظم کے مورد نظر حد تک ابھی نہیں پہنچا ہے ، لیکن پھر بھی پہلے کی نسبت بہت زیادہ بہتر ہے، حوزہ کے بہت سارے علوم میں ترقی ہوئے ہیں ، اس وقت حوزہ میں سینکڑوں تفسیر کا درس ہے ، لیکن انقلاب سے پہلے کتنے تفسیر کے درس ہوتے تھے ؟ اس وقت سینکڑوں تحقیقی مرکز حوزہ میں دن رات مشغول ہیں ، کہ انقلاب سے پہلے ایسا ایک مرکز بھی نہیں تھا ، اس وقت کہاں اس طرح کے مختلف شعبوں میں تحقیقات ہوتے تھے ؟۔
لہذا قدرت و قوت اور انگيزہ کے ساتھ فقہ اور دوسرے تمام علوم کو پڑھنا چاہئے ، ہم اس مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع) میں زیادہ تر توجہ فقہ پر دیتے ہیں الحمد للہ آئمہ معصومین(ع) کی عنایت سے اچھی ترقی ہوئی ہے اور بہت اچھے اور ماہر علماء اس مرکز سے نکلے ہیں ، لیکن میری یہ سفارش ہے کہ فقہ کے لئے زیادہ اہمیت کا قائل ہو جائے ۔
امید ہے کہ اس
قدر کے دن ہماری مقدرات میں سے ہو کہ
فقاہت کے میدان میں، تفسیر، اعتقادات میں زیادہ سے زیادہ ترقی کرے ، تا کہ بشریت
اور اسلامی معاشروں کے احتیاجات کا جوابگو
ہوں ، اور امام زمان (عجل اللہ فرج الشريف) کو بھی کچھ جواب دے سکے إن شاء الله.