انجمن خادم الشہداء کے جانبازوں اور جانثاروں سے حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (دام عزہ ) کاخطاب
27 November 2024
15:25
۸۱۶
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
امام حسین (علیہ السلام ) کلمۃ تام خداوند (1)
بسم الله الرّحمن الرّحیم
«وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ إِنَّهُمْ لَهُمْ الْمَنصُورُونَ وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمْ الْغَالِبُونَ»
بہت ہی باشکوہ اور با عظمت محفل ہے ، اور اس محفل کا اصلی محور ماہ محرم اور عزاداری حضرت ابا عبد اللہ الحسين (ع)کی تیاری ہے ، ساتھ میں دفاع مقدس کے شہداء کی تجلیل اور گرامیداشت بھی ہے ، جو کہ انصار اباعبد اللہ الحسين (ع) میں سے ہیں ، شہداء کے محترم گھر والوں اور جانبازوں کے حضور سے ہمیں انقلاب کے بارے میں امیدوار بناتے ہیں ، یہ حضرات انقلاب کے زندہ ہونے اور انقلاب کے صحیح سمت کی طرف ہونے کی واضح نشانی ہے ۔
آیات اور روایات کی تحقیق میں ہمیں ایک عنوان مل جاتا ہے جو «کلمة الله» کے نام سے ہے ، یہ بہت ہی مہم قرآنی اور روایی مفہوم صرف مکتب اہل بیت میں معنی رکھتا ہے ، نماز جعفر طیار کے آخری سجدہ میں ہم پڑھتے ہیں: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِمَعَاقِدِ الْعِزِّ مِنْ عَرْشِكَ وَ مُنْتَهَى الرَّحْمَةِ مِنْ كِتَابِكَ وَ اسْمِكَ الْأَعْظَمِ وَ كَلِمَاتِكَ التَّامَّةِ الَّتِي تَمَّتْ صِدْقاً وَ عَدْلًا».
اور امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت میں آپ کے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے ہم یہ بولتے ہیں : «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَيُّهَا الرَّبَّانِيُّونَ أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَ نَحْنُ لَكُمْ تَبَعٌ وَ أَنْصَارٌ أَشْهَدُ أَنَّكُمْ أَنْصَارُ اللهِ جَلَّ اسْمُهُ وَ سَادَةُ الشُّهَدَاءِ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ صَبَرْتُمْ وَ احْتَسَبْتُمْ وَ لَمْ تَهِنُوا وَ لَمْ تَضْعُفُوا وَ لَمْ تَسْتَكِينُوا حَتَّى لَقِيتُمُ اللهَ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَى سَبِيلِ الْحَقِّ وَ نُصْرَةِ كَلِمَةِ اللهِ تَعَالَى التَّامَّةِ»؛
آپ سب خدا کے انصار اور دنیا اور آخرت میں شہداء کے سردار ہیں ، آپ لوگوں نے خدا کی راہ میں کوئی سستی یا کمزوری نہیں دیکھائے ، جو کچھ کر سکتے تھے وہ سب دین خدا کی بلندی کے لئے انجام دیا ، حق کے راستہ پر قدم رکھے اور خدا کے کلمہ تام کی مدد کے درپے تھے ۔
شہداء نے کلمات تام خدا کی مدد کے لئے قیام کيے ، دین خدا کی مدد کرنا ، دین خدا سے دفاع اور امر بہ معروف اور نہی از منکر ایسے تعبیریں ہیں جنہیں آپ نے زیادہ سنے ہیں ،یہ عناوین ، اما م حسین (علیہ السلام) کے قیام میں بھی اور ہمارے اپنے انقلاب میں بھی مصداق رکھتے ہیں ۔
وہ جانثاراں جو جنگ میں چلے گئے اور یہ سب افتحار ات ملے ، کہ ان کے بارے میں جتنا بھی بولے پھر بھی ان کا حق اداء نہیں ہو سکتا ، یہ سب کس لئے تھے ؟ اس لئے تھے کہ خدا کا دین باقی رہے ، امر بہ معروف اور نہی از منکر پر عمل کرنے اور ظلم سے مقابلہ کے لئے تھا ، ہمارا انقلاب ظلم کو ختم کرنے اور دین خدا کو حاکم کرنے کے لئے تھا ، لیکن یہ تعبیر جو کیا جاتا ہے کہ یہ حضرات کلمۃ اللہ کی مدد کے لئے جنگ میں گئے تھے ، یہ کلمۃ اللہ کیا ہے ؟ اگر ہم محرم اور عاشورا کی حقیقت تک پہنچانا چاہتے ہیں ، اگر ہم ان محافل میں ہمارے شہداء کے حق کو اداء کرنا چاہتے ہیں ، تو اس چیز کو سمجھنا ہو گا کہ ان حضرات کی سوچ کیا تھی اور کس چیز کے درپے تھے ۔
اگر امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) اس بارے میں اصرار کرتے تھے کہ شہداء کے وصیت نامہ کو پڑھے ، اس سے ان کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ ان وصیت ناموں کو پڑھیں تا کہ صرف جو ظاہری باتیں ہیں جن کے انجام دینے کے بارے میں شہداء نے بتایا ہے انہیں انجام دیں ، بلکہ شہداء کے وصیت نامہ سے ان اصلی رمز تک پہنچانا مقصود ہے جس رمز کے ذریعہ یہ شہداء دشمن کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے ہیں تا کہ اسے نسل جدید کے اختیار میں بھی قرار دے ۔
محرم اور عاشورا کی حقیقت ان چیزوں میں خلاصہ ہوتا ہے ، امام حسین (ع) کلمۃ اللہ ہے ، امیر المومنین (ع) کلمۃ اللہ ہے ۔
قرآن کریم میں خداوند متعالی نے کچھ چیزوں کو کلمۃ اللہ بتایا ہے ، حضرت عیسی کلمۃ اللہ ہے ، احکام الہی کلمۃ اللہ ہے ، معارف کلمۃ اللہ میں سے ہے ، لیکن ان سب کے درمیان خداوند متعالی کا کلمہ تام آئمہ معصومین (علیہم السلام ) ہیں ، یہ بہت ہی اہم مطلب ہے ، کہ اس مطلب کے گہرائی تک پہنچنے کی ضرورت ہے ، اگرچہ اس مطلب کے گہرائی تک پہنچنا ہم جیسے انسانوں کی حد سے بہت بلند و بالا ہے ۔
شیعہ اعتقادات اور معارف اتنے عظیم ہے کہ دنیا کے تمام مکاتب اس کے مقابلہ میں ناچیز ہیں ، ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ خداوند متعالی کے کلمات ہیں ، اور ان کلمات کے آپس کے کچھ مراتب اوردرجات ہیں ، ان کلمات کے سب سے اوپر کا درجہ و مرتبہ اور کلمہ تام ، امام معصوم (علیہ السلام) ہے ، ایک روایت کے مطابق امام حسین(علیہ السلام ) نے اپنے اصحاب سے فرمایا : «إِنَّ اللهَ جَلَّ ذِكْرُهُ مَا خَلَقَ الْعِبَادَ إِلَّا لِيَعْرِفُوهُ فَإِذَا عَرَفُوهُ عَبَدُوهُ فَإِذَا عَبَدُوهُ اسْتَغْنَوْا بِعِبَادَتِهِ عَنْ عِبَادَةِ مَنْ سِوَاهُ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا ابْنَ رَسُولِ اللهِ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَمَا مَعْرِفَةُ اللهِ قَالَ مَعْرِفَةُ أَهْلِ كُلِّ زَمَانٍ إِمَامَهُمُ الَّذِي يَجِبُ عَلَيْهِمْ طَاعَتُهُ»؛
خداوند متعالی نے اپنے بندوں کو خلق کیا تا کہ اسے پہنچان لے ، اگر خدا کو پہنچان لیا تو اس کی عبادت کرے گا ، اگر خدا کو صحیح طرح پہچان لیا اور اس کی عبادت کر لی، تو غیر خدا کی عبادت سے بے نیاز ہو جائے گا ، کسی نے سوال کیا ، اے فرزند رسول(ص) خدا کی معرفت کیا ہے ؟
آپ نے فرمایا : خدا کی معرفت اپنے زمان کے امام کی معرفت سے ہے ، اگر ہر زمانہ میں لوگ اپنے زمانہ کے امام کو یعنی خدا کے اس کلمہ تام کو پہچان لیا ، کلمہ تام یعنی وہ مبارک وجود کہ تمام اسماء اور صفات میں مظہر تام خداوند متعالی ہے ، علم ، قدرت ، شجاعت اور باقی تمام چیزوں میں ، اس میں کوئی نقص یا عیب نہیں ہے ، امام حسین (ع) فرماتے ہیں : اگر تم خدا کو پہچانا چاہتا ہے تو اپنے امام کو پہچان لو ، امام کی معرفت خود معرفت خدا ہے ، یہ خدا کی معرفت کے لئے مقدمہ نہیں ہے ۔
اس مطلب کا تمام راز اس میں ہے کہ امام حجت خدا ہے ، امام ایک انسان ہے ، لیکن اس کے باوجود اگر امام کو نہیں پہچانا تو خدا کو نہیں پہچانا ، چونکہ امام کبھی بھی کسی کو اپنی طرف دعوت نہیں دیتا بلکہ انسان سے یہ کہتا ہے کہ تمہارا صرف ایک خدا ہے ،اسی کی پرستش اور عبادت کرنا چاہئے جس طرح میں اس کی عبادت کرتا ہوں۔
یہ شیعہ اعتقادات میں سے ہے ، کہ امام معصوم کلمہ تام خداوند متعالی ہے ، کسی بھی مذہب میں ایسی چیز موجود نہیں ہے ، جو لوگ امام حسین (علیہ السلام ) کے ساتھ دشمنون سے جنگ لڑے ، انہوں نے امام کو پہنچان لیا لیکن دوسروں نے نہیں پہنچانا ! کیونکہ دنیا کی لالچ ، پیسہ اور منصب ۔۔۔۔ نے کچھ لوگوں کو امام حسین (ع) کے مقابل میں لا کھڑا کیا ، سوال یہ ہے کہ کیوں یہ انسان ایسا ہو جاتا ہے ؟ کیوں انسان دنیا پرست ہو جاتا ہے اور ہوا و ہوس کے پيچھے جاتا ہے ؟ کیوں خیانت اور جنایت کرتے ہیں ؟ آج کیوں سعودی عرب یمن کو اسلام کے نام پر مار رہاہے ؟ یہ سب اس لئے ہے کہ چونکہ انسان کے خدا پرست ہونے کا جو بنیادی محور ہے جو کہ معرفت امام ہے اس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے ، ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ہم خدا کو مانتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ، لیکن یہ سب بے فائدہ ہے ۔
امام کی معرفت کے بغیر خدا کی شناخت نہیں ہوتا ہے ، امام کی معرفت نہ ہو تو واقعہ عاشورا رونما ہوتا ہے ، کچھ لوگوں نے جان لیا کہ امام اور امامت کیا ہے ، لیکن کچھ لوگوں نے نہیں جاننا ، اور اکثر لوگ انہیں نہ جاننے والوں میں سے ہیں ۔
اگر ہم شہداء کی معرفی کرنا چاہے تو یہی بتانا ہو گا کہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے امامت کو اچھی طرح پہچان لیا ، ان کے وصیت نامے، ان کے باتوں ، ان کے انٹرویو جو کبھی کبھار نشر ہوتا ہے ، ان سے سوال کرتا ہے کہ کیوں جنگ میں آئے ہو ؟ کہتے ہیں امام اور اپنے رہبر کے حکم کی اطاعت کرنے آیا ہوں ۔
رہبر انقلاب اس عظیم امامت کی ایک کرن ہے ، وگرنہ اگر ہم یہ بتائے کہ وہ اور امام معصوم کے درمیان اگر زمین اور آسمان کے درمیان کا فاصلہ ہے تب بھی کم بتایا ہے ، آئمہ (ع) کی عصمت ایک ایسی چيز ہے کہ کوئی اس کے نزدیک تک بھ نہیں پہنچ سکتا ۔
شہداء یہ کہتے تھے: نائب امام نے آج ہمیں جبہہ میں جانے کا حکم کیا ہے ، لہذا ہم آگئے ہیں ، جو شخص یہ بات بتاتا ہے وہ خود امام زمان کو اپنے رہبر سے پہلے قبول ہے ، امام زمان کے بارے میں اس کی معرفت صحیح ہوا ہے کہ اس کے نائب کی اطاعت کرتا ہے ۔
اگر ہم آج معاشرتی اور سماج میں موجود مشکلات کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، اور اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا یہ انقلاب اپنے صحیح راہ کی طرف گامزن رہے ، تو اس کا راستہ یہ ہے کہ امامت کے بارے میں اپنے سوچ کو قوی اور مضبوط کرے ۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارا اور باقی مذاہب کے درمیان فرق صرف یہ ہو کہ ہم بتائے رسول خدا (ص) کا جانشین یہ شخص تھا اور دوسرا کسی دوسرے کو بتائے ، نہیں ، ایسا نہیں ہے ، بلکہ یہاں پر کلمہ تامہ اور حجت خدا کی بات ہے ۔
حدیث قدسی میں خداوند تبارک و تعالی امام حسین (علیہ السلام) کے بارے میں فرماتا ہے: «فَهُوَ أَفْضَلُ مَنِ اسْتُشْهِدَ وَ أَرْفَعُ الشُّهَدَاءِ دَرَجَةً جَعَلْتُ كَلِمَتِيَ التَّامَّةَ مَعَهُ وَ حُجَّتِيَ الْبَالِغَةَ عِنْدَه»؛ خداوند متعالی نے فرمایا : امام حسین (ع) افضل ترین فرد ہے جو شہید ہوا ، ان سے بڑھ کر کوئي شہید نہیں ہے ، اس کے بعد خداوند متعالی امام حسین (ع) کے بارے میں کچھ فرمانا چاہتا ہے تو کہتا ہے میں نے اپنے کلمہ تامہ کو اس عزیز وجود کے ذریعہ قرار دیا ہے ، لہذا امامت کی نسل امام حسین(ع) سے ہے ، ہمیں چاہئے کہ ان حقایق کو پہچان لیں ۔
اگر ہم ہر سال محرم ہمارے لئے اثر پذیر ہونا چاہتے ہیں تو یہ دیکھنا ہو گا کہ اس محرم میں ہم امامت سے کتنا نزدیک ہوئے ہیں ؟ تمام باتیں اسی کلمہ میں پوشیدہ ہے ، ہم کس قدر امام حسین(علیہ السلام ) اور کربلا کی حقیقت سے نزدیک ہوئے ہیں ؟ ہم تو ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہیں : «یا لیتنی کنت معکم فأفوز فوزاً عظیما» خدا نہ کرے یہ لقلقہ زبانی نہ ہو ، بلکہ اس کے ذریعہ سے ہم امامت کی حقیقت اور امام حسین(ع) کی حقیقت سے نزدیک ہو جائے ۔
آپ اس حدیث شریف میں جو بحار الانوار میں نقل ہے غور و فکر کرے ، امیر المومنین (علیہ السلام ) نے سلمان اور ابوذر سے فرمایا : میں وہ شخص ہوں جس نے خدا کے حکم سے نوح کو کشتی میں لے گیا ، میں نے یونس کو خدا کے اذن سے نہنگ کے پیٹ س باہر لے آیا ، میں نے خدا کے اذن سے موسی کو دریا پارکروایا ، میں نے ہی ابراہیم خلیل کو آگ سے نجات دلایا ، میں نے بہشت کے نہروں اور چشموں کو جاری کیا ، میں ہی وہ خضر ہوں جو موسی کے ساتھ تھا ، ۔۔۔۔۔ اس کے بعد فرماتے گئے اور یہاں تک پہنچ گیا کہ فرمایا میں ،محمد ہوں اور محمد میں ہے ۔
خود اسی آیہ مباہلہ میں کہ جسے ہم مباہلہ کے دن پڑھتے ہیں ، خود خدای تبارک و تعالی نے امیر المومنین (ع) کو نفس پیغمبر بیان فرمایا ہے «أنفسنا و أنفسکم».
میں نے ایک روایت کو دفاع مقدس کے نام منعقد پروگرام میں بیان کیا تھا ، کہ جنگ جمل میں کسی شخص نے امیر المومنین( علیہ السلام) سے عرض کیا ؛ میرا ایک بھائی تھا وہ مر گیا ، اس کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ دشمنوں سے جنگ میں شریک ہوجائے ،آپ (ع) نے فرمایا : واقعا ایسا ہی تھا اور کیا وہ چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ رہے ؟
عرض کیا : جی ہاں ، فرمایا : اگر دل سے ہمارے ساتھ رہنا چاہتا تھا تو وہ ابھی بھی ہمارے ساتھ ہے ، اور جان لو! آیندہ آنے والے ، اور وہ لوگ جو ابھی مردوں کے صلبوں اور ماووں کے ارحام میں ہیں وہ بھی اگر ہمارے ساتھ ہونا چاہتے ہیں تو وہ لوگ بھی اس جنگ میں ہمارے ساتھ ہیں ۔
میں نے نہج البلاغہ میں امیر المومنین(ع) کے اس کلام کے مطابق عرض کیا تھا ، دفاع مقدس میں شرکت کرنے والے تمام افراد کو امیر المومنین (ع) کے جنگوں ، رسول خدا (ص) کے جنگوں اور واقعہ عاشورا میں معصومین کے ساتھ شریک ہیں ۔
یہ ایک اعتقادی کام ہے تا کہ ہمارے جنگ کا محور کلمۃ اللہ ہو ، ہم کیوں دور چلے جائے ؟ قرآن میں فرماتا ہے : «فتلقی آدم من ربه کلمات...» آدم جب توبہ کرنا چاہتا تھا اس وقت خدا کی طرف سے جو کلمات حضرت آد م کو سیکھایا تھا یہی تھے ، آپ خود بھی ہمیشہ اس دعا کو پڑھتے ہو : «یا حمید بحق محمد...»، حضرت آدم نے خداوند متعالی کو خود اس کے کلمات تام کے ذریعہ قسم دیا ، ہمیں چاہئے کہ اس " کلمۃ اللہ " کے محور اکو جان لیں اور اس پر ایمان لے آئے ، اور اس سے توسل کرے ۔
ایک بات جو ہمارے لئے نقل ہوئی ہے اس کے مطابق مرحوم علامہ طباطبائي (رضوان الله تعالی علیه) نے فرمایا : معنویت کے جتنے دروازے مجھ پر کھلے ہیں سب کے سب امام حسین (ع) کی زیارت سے کھلے ہیں ، امام حسین (ع) پر جو آنسو بہائے ، امام حسین (ع) سے جو توسل کیا اس سے کھلے ہیں ۔
یہ اس بات کی نشانی ہے کہ ماہ محرم میں ہم خدا کے کلمہ تام ؛ حسین بن علی (علیہ السلام ) سے توسل پیدا کرے اور ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معرفت پیدا کرے ۔
خدایا ، خود اپنی معرفت ،تمہارے رسول کی معرفت ، اور تمہارے کلمات تامہ کی معرفت کو ہمارے لئے نصیب فرمایا ۔
اس انقلاب کے شہداء کو امام حسین (ع) کے ساتھ محشور فرما ، ہمیں شہداء کا قدر دان قرار دے ، شہداء کے راہ کو سمجھنے کی قدرت ہمیں عنایت فرما ، ہمارے انقلاب کو ہر قسم کے گزند سے محفوظ فرما ، خدایا اس نظام اور انقلاب کے دشمنوں کے ہاتھوں کو کاٹ دے ، اس نظام کے خدمت کرنے والے مسولین اور رہبر معظم انقلاب کی تائيد فرما.والسلام علیکم ورحمة الله و برکاته