حضرت علی(عليه ‌‌السلام)؛ ايمان کا معیار اور قرآن کی حقیقت

23 November 2024

19:18

۱,۷۸۹

خبر کا خلاصہ :
قیامت کے دن انسان مومن کے نامہ عمل کا اصلی عنوان ، نماز ، روزہ ، حج اور باقی تمام اعمال اور عبادات سے پہلے علی بن ابی طالب (ع) کی محبت ہے ۔
آخرین رویداد ها

حضرت علی(عليه ‌‌السلام)؛ ايمان کا معیار اور قرآن کی حقیقت

بسم الله الرحمن الرحیم

 الحمدلله رب العالمین و السلام و الصلاة علی سیدنا و نبینا و حبیب قلوبنا ابی القاسم محمد و علی آله الطیبین الطاهرین المعصومین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین

امیر المومنین (علیہ السلام ) کی شخصیت کے بارے میں قیامت تک ہمارے پاس بتانے کے لئے باتیں ہیں ، اور  یہ کوئی مبالغہ  والی بات بھی نہیں ہے ، انسان جب آپ (ع) کے بارے میں کچھ بولنا چاہتا ہے تو حیران و پریشان رہ جاتا ہے کہ کیابولا جائے ۔

اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ امیر المومنین (ع) کے اکثر فضائل رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل ہیں ، اور 300 سے زیادہ قرآن کریم کی آیات کا شان نزول بھی علی بن ابی طالب (علیہ السلام ) ہے ، اسلام کے راہ میں جتنے سعی و کوشش اورمجاہدت  آپ(ع) نے کی وہ بھی سب کے سامنے ہیں لیکن ان سب کے باوجود کیسے ہوا کہ رسول خدا (ص) کے بعد جامعہ اسلامی میں انحراف واقع ہوا ، اور کامل الہی شخصیت  جس کی ولایت، خداوند متعالی کی طرف سے مومنین پر معین ہوا تھاوہ  خانہ نشین ہوگئے ۔

امیر المومنین (ع) کے بارے میں ایک روایت نقل ہے کہ اگر ہم اس روایت کا کچھ تحلیل کر سکے اور اسے کچھ حد تک  صحیح طرح سمجھ سکے ، تو آپ (ع) کے بارے میں بہت سارے مطالب ہمارے لئے واضح ہو جائيں گے ۔

ہماری تمام تر  مشکلات خدا کی معرفت نہ  ہونے ، رسول خدا (ص) ، امیرالمومنین (ع) اور اولیاء الہی کو نہ پہنچانے کی وجہ سے ہے ، اگر ہم ان کو پہنچان لیں ، تو ہدایت  کا راستہ ہمارے لئے کھل جائے گا ، جس کے بعد انسان  خدا کے راہ پر اتنے تیزی سے حرکت کرے گا جسے بیان نہیں کیا جا سکتا ۔

اس روایت میں ، انس بن مالک سب سے پہلے خدا وند لاشریک کا قسم کھا کر کہتا ہے کہ اس روایت کو یپغمبر اکرم (ص) سے سنا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی اہمیت والی بات بتانا چاہتا ہے ۔

کہتا ہے کہ میں نے اپنی کانوں سے پیغمبر اکرم (ص) سے سنا کہ فرمایا: «عِنْوَانُ صَحِيفَةِ الْمُؤْمِنِ حُبُّ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ».

اس حدیث کے بارے میں بہت زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ، روایت کا ظاہری اور ابتدائی معنی یہ ہے کہ قیامت کے دن مومن کا نامہ عمل، علی بن ابی طالب (ع) کی محبت کے ساتھ مہر لگا ہوا  ہو گا  ، قیامت کے دن انسان مومن کے نامہ عمل کا اصلی عنوان ، نماز ، روزہ ، حج اور باقی تمام اعمال اور عبادات سے پہلے علی بن ابی طالب (ع) کی محبت ہے ۔

اس حدیث کے معنی واضح ہونے کے لئے کچھ دوسری  احادیث کو بھی اس کے ساتھ رکھنا ہو گا ، ایک حدیث میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حضرت علی (علیہ السلام) سے فرماتا ہے :"لا یُحِبُّکَ إلا مُؤمِنٌ و لا یُبغِضُکَ إلا مُنَافِقٌ»، اے علی ! صرف مومن  ہی تجھ سے محبت کرتا ہے ، اور صرف منافق ہی تم سے کینہ اور بغض رکھتا ہے ۔

ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم (ص) فرماتاہے :«وَلَوْ لا اَنْتَ يا عَلِيُّ لَمْ يُعْرَفِ الْمُؤْمِنُونَ بَعْدي»،اے علی ! اگر تم نہ ہوتے تو میرے بعد مومن کو پہچانے نہیں جاتے ،کیونکہ اس وقت مومن کو غیر مومن سے  جدا کرنے  کا کوئي معیار اور ملاک نہیں ہوتا ۔

یہ بہت  ہی عجیب بات ہے ، کیوں قیامت کے دن مومن کے نامہ عمل کا عنوان علی بن ابی طالب(ع) کی محبت ہے ؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ علی بن ابی طالب کی محبت کے بغیر خدا کے محبت کا کوئی معنی نہیں ہے ، یہ صرف ایک شعار نہیں ہے بلکہ ، بہت سارے دلائل کی بنیاد پر ہمارے اصلی اور بنیادی اعتقادات میں سے ہے ، اگر کسی کو علی (ع) پر اعتقاد نہیں ہے تو اس کا خدا ، دین اور قرآن پر بھی اعتقاد نہیں ہے ۔

ایک اور روایت میں پیغمبر اکرم (ص) امیر المومنین(ع) سے فرماتا ہے :«مَثَلُکَ فِی الناسِ کَمَثل سُورةِ «قُل هُوَ اللهُ اَحَدٌ»»،اے علی ! لوگوں کے درمیان تمہاری مثال ، سورہ قل ھو اللہ احد کی مثال  ہے ، جس طرح  کوئي شخص اگر ایک بار سورہ قل  ہو اللہ احد کو پڑھ لیں  ، تو اسے ایک تہائي قرآن پڑھنے کا ثواب ملے گا  ، اگر کوئی دو دفعہ اس سورہ کو پڑھ لیں تو دو تہائي قرآن پڑھنے کا ثواب اور اگر تین بار پڑھ لیا تو  اسے پورے قرآن ختم کرنے کا ثواب ملتا ہے ،اسی طرح اگر کسی نے صرف زبان سے تجھے قبول کیا ، تو  اس کے ایمان کا ایک تہائي صحیح ہے اور اگر کسی نے زبان کے ساتھ دل سے بھی تجھے قبول کر لیا تو اس کا دو تہائي ایمان صحیح ہے ، اور اگر کسی نے زبان اور دل سے تم پر ایمان لے آئے اور اپنی ہاتھوں سے تمہاری مدد بھی کر لے تو اس کا ایمان کامل ہے ۔

اگر ان روایات کا الگ الگ معنی کرے تو ہم حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے ، لیکن ان روایات کو اگر ہم ایک ساتھ رکھ لیں تو اس وقت ہم مطلب کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں ۔

ان سب روایات کو ملاحظہ فرمائيں ایک روایت میں ہے :«عِنْوَانُ صَحِيفَةِ الْمُؤْمِنِ حُبُّ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ»، دوسری روایت میں ہے :«لا یحبّک إلا مؤمنٌ و لا یبغضک إلا منافقٌ» يا «وَلَوْ لا اَنْتَ يا عَلِيُّ لَمْ يُعْرَفِ الْمُؤْمِنُونَ بَعْدي»، یا یہ روایت جس میں بتاتا ہے کہ تمہاری مثال ، سورہ توحید کی مثال ہے اور ایمان کامل کے درجہ پر  علی بن ابی طالب (علیہ السلام) پر زبانی ، قلبی اور عملی لحاظ سے اعتقاد پیدا کرنے سے ہی فائز ہوتا ہے ،ایمان کے ساتھ رابطہ  امیر المومنین (ع) سے محبت سے ہی معلوم ہوتاہے ۔

کتنا عجیب معنی ہے  یہ کہتا ہے اے انسان تمہارا اصل ایمان علی (ع) کے ساتھ ہی ہے !

افسوس کی بات ہے کہ ان روایات کے معانی کو وہابی سمجھ نہیں سکتے ، لہذا شیعوں پر شرک کی تہمت لگاتے ہیں ، ان روایات کا معنی یہ نہیں ہے کہ ہم علی (ع) کی پرستش اور پوجا کرتے ہیں ، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ علی پر ایمان لائے بغیر ، علی پر اعتقاد رکھے بغیر خداوند متعالی کا واقعی عبادت کرنے والا ہونا  ممکن نہیں ہے ، یہ صرف ایک شعار یا ایک جذباتی نعرہ نہیں ہے جسے خداوند متعال ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہو ،اور یہ بتائے کہ اے انسان میرا دل چاہتا ہے کہ تم علی کو قبول کرے تا کہ میں بھی تمہیں قبول کروں ، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے ۔

علی توحید اور خدا پر ایمان کا مظہر ہے ، علی کے ساتھ انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے ، اگر کوئي خدا کے اس مظہر کو قبول نہ کرتا ہو تو کیسے ممکن ہے وہ خدا کو قبول کرتا ہو ، بہر حال ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں خداوند متعال نے ایمان کے معیار اور ملاک کو علی ابن ابی طالب قرار دیا ہے ؟ کیوں قیامت کے دن علی(ع) قسیم الجنۃ و النار ہیں ؟

روایات میں ایک اور عنوان بھی موجود ہے وہ بھی عجیب ہے وہ یہ ہے : «عَلِیٌّ مَعَ القُرآن وَ القُرآنُ مَعَ عَلِیٍّ»، یہ چیز صرف امیر المومنین (ع) سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے آئمہ طاہرین (ع) بھی اس میں شامل ہیں ۔

جب غدیر خم کا واقعہ وقوع پذیر ہوا تو ، پہلے اور دوسرے نے ، بخ بخ کہتے ہوئے امیر المومنین(ع) کو مبارک باد  دی لیکن ان کے دل کو سکون نہیں تھا ، لہذا پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آکر سوال  کيے کہ  جس ولایت کے بارے میں آپ فرما رہے ہیں یہ کیا صرف علی سے مخصوص ہے ، یا دوسروں کو بھی اس میں سے کچھ ملے گا ؟ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا یہ ولایت جسے میں نے خدا وند متعالی کی طرف سے تم لوگوں تک پہنچایا ہے یہ علی کے لئے ہے اور ان کے بعد حسن اور ان کے بعد حسین او ر ان کے بعد حسین کے فرزندوں میں سے 9 فرزندوں کے لئے ہے ۔

یہ روایت ان روایات میں سے ایک ہے جسے اہل سنت کے بہت ساری کتابوں میں بھی نقل کيے ہیں ، اور یہ "حدیث اثنی عشر "کے نام سے مشہور ہے ،حدیث اثنی عشر یعنی ان 12 اماموں کے نام جن کے بارے میں ہم شیعیان امیر المومنین سے لے کے حضرت حجت (عج) تک عقیدہ رکھتے ہیں ، پیغمبر اکرم (ص) نے بیان فرمایا ہے ، خود اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ روایت متواتر  ہے ۔

 غدیر کے دن پیغمبر اکرم (ص) اولاد علی (علیہم السلام ) کے اسامی گرامی کو ذکر کرنے کے بعد اس جملہ کو فرمایا :«هُم مَعَ القُرآنِ وَ القُرآنُ مَعَهُم لَن یَفتَرِقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الحَوضُ»،یہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے او ر قیامت تک یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ۔

میرا  مقصد اس جملہ کی طرف توجہ کرانا ہے کہ علی بن ابی طالب کی محبت مومن کے نامہ اعمال کا عنوان   ہونے کی وجہ یہ ہے کہ علی(ع) اور ان کے اولاد طاہرین  ،حقیقت قرآن ہیں ، اور ایک دوسرے سے جدا بھی نہیں ہو سکتے ، اب اگر کوئی  عمر بھر قرآن کی تلاوت کرے لیکن علی (ع) پر اعتقاد نہ ہو ، تو اس کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہے ، نہ علی کے بغیر اس کتاب کا کوئی معنی و مفہوم ہے اور نہ قرآن کے بغیر علی (ع) کا کوئی معنی ہے ۔

یہ دونوں ایک ساتھ ہونا چاہئے ، جب دونوں ساتھ ہو تو اس وقت یہ معنی پیدا کر لیتا ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک ساتھ انسان کے ایمان کو قائم کرتا ہے ، علی (ع) حقیقت قرآن کی تجلی ہے ۔

پیغمبر اکرم(ص) جو فرماتا ہے کہ قیامت کے دن مومن کے نامہ عمل کا عنوان علی بن ابی طالب (ع) کی محبت ہے ، یہ اس لئے ہے کہ علی (علیہ السلام) حقیقت قرآن ہے ، اور قرآن سے جدا نہیں ہے ، ؛ «عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِي». علی پر ایمان  ، قرآن پر ایمان ہے ، اور قرآن پر ایمان ، علی بن ابی طالب پر ایمان ہے ، پس جس کے ایمان میں یہ دونوں جدا ہو وہ کوئی صحیح ایمان نہیں ہے ۔

پیغمبر اکرم(ص) نے امیر المومنین (علیہ السلام) کے مناقب  کے بارے میں اتنی زیادہ روایات بیان فرمایا ہے کہ جس کا کوئي حد و حساب نہیں ہے ، بات یہاں تک ہے کہ جس کے بعد یہ فرماتا ہے : اے علی ! تمہارے بارے میں بہت سارے مطالب جن کو میں جانتا ہوں اسے لوگوں کے لئے بیان نہیں کیا ہے ، چونکہ مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر یہ سب بیان ہو جائےتو لوگ خدا کے بجائے تمہاری پرستش کرنے لگ جائے ۔

برچسب ها :