امام حسن مجتبی (ع) کے فرمان میں انسان کے ہلاکت کے اسباب
23 November 2024
19:17
۷۰۹
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحيمْ
الْحَمْدُ للّه رَبِّ الْعَالَمِينْ وَصَلَى الله عَلَىٰ سَيِّدَنَا مُحَمَّدٍ وَآلِهِ الطَّاهِرِينْ
آج چونکہ 15 رمضان المبارک اور حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) کی روز ولادت ہے لہذا آپ کی اس روایت کو بیان کرنا
مناسب سمجھتا ہوں ۔
آپ فرماتے ہیں :«هلاک الناس فی ثلاثٍ؛ الکبر والحرص والحسد» انسان کی ہلاکت اور نابودی تین چیزوں میں ہے ؛ یعنی ان تینوں میں سے ہر ایک تنہا انسان کو نابود کرسکتا ہے ۔
«فالکبر هلاک الدین»، تکبر دین میں ہلاکت کا سبب ہے ، یہ دیکھنا ہو گا کہ تکبر اور دین کی ہلاکت کے درمیان کیا رابطہ پایا جاتا ہے ؟
انسان جب متکبر ہو جاتا ہے ، اس کی انانیت بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجہ میں اس کا خضوع اور عبادت آہستہ آہستہ کم ہوتا جاتا ہے ، انسان کی تمام مشکلات اسی انا پرستی میں ہے ، یہاں تک کہ حتی کہ دعا کرنے میں بھی ہمیشہ صرف اپنی مشکلات اور پریشانیوں کو مد نظر رکھتا ہے ، لیکن ہونا تو یہ چاہئے کہ انسان زیادہ سے زیادہ خداوند متعالی کی حمد و تسبیح اور تہلیل والی دعائیں جیسے دعاسحر وغیرہ پڑھے ۔
دعا سحر کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ انسان خدا کی اسماء اور صفات میں زیادہ غور و فکر کرتا ہے ، اگر ہم خداوند متعالی سے کوئی چیز طلب کرتا ہے تو اس کا یہ طلب اسماء الہی کا بلند درجہ ہے ، نہ کہ اس کی خواہشات نفسانی ۔
بہت ساری دعاوں اگرچہ آئمہ سے منقول دعائيں ہی کیوں نہ ہوں انسان کی دنیاوی حاجات بیان ہوا ہے ، لیکن وہ دعا جس میں تقریبا انسان کی کوئي بھی انا پرستی کا اظہار نہیں ہوا ہے ، اور پوری دعا خداوند متعالی کی اسماء اور صفات پر مشتمل ہے اور بلند ترین درجات کی درخواست ہے وہ یہی دعا سحر ہے ، لہذا اس دعا کو پڑھنے بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے ، ماہ رمضان آکر چلا جاتا ہے ، اور ہم ہر سال کی عادت کے مطابق دعا سحر کو پڑھ لیتے ہیں ، اور ٹی وی ریڈیو کے ذریعہ گھروں میں بھی آواز آتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے مضامین کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے ۔
دعا سحر اس لئے ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان اسماء اور صفات کے ساتھ نزدیک کرے ، بلکہ خداوند متعالی کے لطف و کرم سے اپنے آپ کو ان اسماء اور صفات میں سے بعض کا متصف بھی ہو جائے ، لیکن اس دعا کی بنیاد خود اسماء و صفات الہی کو بیان کرنا ہے ۔
جیسا بھی ہو تکبر کہ جس کی بنیاد انا پرستی ، خود خواہی اور خود پرستی ہے ، دین کی ہلاکت کا سبب ہے اور انسان کو اس مرحلہ تک پہنچا دیتا ہے کہ کہتا ہے کہ میرا عقل یوں سمجھتا ہے ، خدا نے اگر فلان حکم کو مثلا پردہ کے بارے میں ایسا حکم فرمایا ہے ، تو ہو لیکن میرا عقل اس طرح سمجھتا ہے ، تکبر سبب ہوتا ہے کہ انسان صرف اپنی ادراکات پر یقین کرے ، لہذا ہمیں متوجہ رہنا چاہئے کہ یہ بری صفت ہمارے اندر داخل نہ ہو جائے ۔
تکبر کی علامت یہ ہے کہ انسان یہ بولے کہ میں سب سے بہتر سمجھتا ہوں ، حتی اگر انسان صرف اپنے آپ سے یہی بولے ، اور اپنے خیال کے مطابق اس نتیجہ پر پہنچے کہ میں ہی سب سے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں ، میری قدرت و طاقت ، میرا مال و دولت اور میری حیثیت سب سے زیادہ ہے ، یہ انسان کے اندر موجود تکبر کی خصوصیات ہے ، کہ جو آخر میں انسان کے دین کی ہلاکت اور نابودی کا سبب بنتا ہے ، «وبه لعن ابلیس» ابلیس جو خداوند متعالی کے لعنت کا سزاوار ہوا تھا اسی تکبر کی وجہ سے تھا ۔
«والحرص عدو النفس»؛ انسان کی ہلاکت کا دوسرا سبب ، لالچ ہے ، لالچ نفس کا دشمن ہے ، البتہ جو مذموم لالچ ہے ، جیسے دنیا کے بارے میں اور دنیا طلبی کے بارے میں لالچ کرنا ، ورنہ آخرت کے بارے میں اور علم اور تقوا کے کسب میں حرص اور لالچ اچھی چیز ہے ۔
دنیا کے بارے میں لالچ کرنے کا معنی یہ ہے کہ آج میرے پاس یہ چیز ہے لیکن میں اس سے بہتر لینے کے پیچھے ہو ، جب اس سے بہتر کو لے لوں تو اس کے بعد بھی اس سے بہتر چیز کے پیچھے ہو ، یہ لالچ انسان کا دشمن ہے ؛ چونکہ انسان جب دنیا کی کسی مرحلہ تک پہنچ جاتاہے تو اس کی نفس کی خواہشات اسے اس سے اوپر کی طرف لے جاتا ہے ۔
مثلا مال کسب کرنے کے بارے میں کبھی یہ کہتا ہے کہ اگر اتنے مقدار میں میرے پاس پیسہ ہوتا تو مجھے کوئي پریشانی نہیں تھی ، قرآن کریم کی بعض آیات میں بھی ہے کہ خداوند متعالی اسے وہ مقدار پیسہ عطا کر لیتاہے ؛ لیکن اس کے بعد وہ کیا کرتا ہے ؟ اس کی لالچ بڑھ جاتی ہے ،کہتا ہے اس کا ڈبل ملنا چاہئے ، اس کے بعد اس کے چار برابر چاہئے ، اسی طرح وہ زیادہ طلبی کرتا جاتا ہے ، لہذا لالچ انسان کا دشمن ہے ، اگر کھانے میں لالچی ہو تو اسے بہت زیادہ کھانے والا بنا دیتا ہے ، اگر بولنے کا حرص ہو تو اسے بہت زیادہ بولنے کا حریص بنا دیتا ہے ، اسی طرح دنیاوی دوسرے امور ہے۔
«وبه أخرج آدم من الجنة» جو چیز حضرت آدم ( علی نبینا و آلہ وعلیہ السلام) کے بہشت سے نکال دینے کا سبب بنا یہی لالچ تھی ، خداوند متعالی نے بہشت میں آدم کے لئے تمام چیزیں مہیا رکھا تھا لیکن فرمایا تھا صرف اس درخت کے نزدیک نہیں جانا ! لیکن حضرت آدم شیطان کے وسوسہ میں آگیا اور ترک اولی کا مرتکب ہوا کہ کچھ لوگ یوں بتاتے ہیں ، یا بعض دوسرے کے مطابق یہ شیطان کہ یہ وسوسہ حضرت آدم کی نبوت سے پہلے تھا لہذا یہ ان کی نبوت کے لئے کوئی نقصان نہیں پہنچاتا ہے ، اس بارے میں اور بھی اقوال ذکر ہیں جنہیں ہم نے اصول کے درس میں انبیاء کی عصمت کے باب میں ذکر کیا ہے وہاں پر ہم نے ترک اولی والے قول کو قبول کر لیا ہے ۔
«والحسد رائد السوء»، حسد انسان کو بری چیزوں کی طرف لے جانے والا کمانڈر ہے ۔
جب انسان دوسرے سے حسد کرنے لگتا ہے کہ کیوں فلاں شخص علم کے اس درجہ پر پہنچ گیا ہے ، تو اس کے خلاف بول کر اس کی شخصیت کو ختم کرنا شروع کرتا ہے ، پھر اس کی شخصیت کشی پر بھی وہ اکتفاء نہیں کرتا بلکہ آگے بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ اپنی جگہ توجہیات کے مطابق اسے کے قتل کو بھی جايز سمجھنے لگتا ہے ، حسد اس طرح کی بہت بری چيز ہے ۔
میں کچھ دن حرم حضرت معصومہ (سلام الله علیها ) مشرف ہوا تھا میرے کنار دو طلبہ بیٹھے تھے ان میں سے ایک سن رسیدہ بزرگ تھے ؛ جو جوان عالم تھا وہ اس بزرگ سے سیر و سلوک اور معنویات کے بارے میں سوال کر رہے تھے ، اسی دوران حوزہ کے کسی استاد کے بارے میں بات چھیڑی ، وہ بزرگ جو ظاہری طور پر مرشد تھے ، انہوں نے اس استاد کی اہانت کرنا اور اس کی غیبت کرنا شروع کر لیا ، میں اپنی جگہ پریشان ہو گیا خدایا ماہ مبارک رمضان ہے ، شب جمعہ ہے ، حضرت معصومہ کا حرم ہے ، اور یہ طلبہ ان سے سیر و سلوک اور معنویات کے بارے میں کچھ سوال کرنے آیا ہے ، لیکن یہ شخص خود کیسے شیطان کی جھال میں پھنس گیا ہے ؟ یہ حسد ہے ، طول تاریخ میں اس حسد کی وجہ سے کیا کیا واقع نہیں ہوا ہے ، حتی کہ انہیں حوزات علمیہ میں ، عوام کے درمیان میں تو مختلف اقسام کے پایا جاتا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو حسد سے بچا کر رکھنا چاہئے ، اگر کسی کے علم زیادہ ہونے کے بارے میں سن لیں تو بولیں الحمد للہ ، ان شاء اللہ سب اس سے استفادہ کریں گے ، اگر سنیں کہ کوئی اچھی کتاب لکھ لیتا ہے ، یا اچھا مبلغ ہے ، تو تمہیں خدا کا شکر بجا لانا چاہئے ، اور یہ بولیں کہ اس سے بہتر تمہارے لئے نصیب کرے ، یقین کریں کہ خدا عطا کرے گا ، لیکن اگر اسی ابتداء لحظہ میں جب شیطان انسان کے پيچھے آجاتا ہے اور اسے اس انسان کی شخصیت کشی پر اکساتا ہے ، اور اس کے علم ، تقوا اور عقل و اخلاق کے خلاف بولنے لگتا ہے ، یہی اس کے لئے ایک برا راہنما ہے اور انسان کو آہستہ آہستہ برائی کی طرف لے جاتا ہے ۔
«ومنه قتل قابیل هابیل»،[بحارالانوار 75: 11] حسد ہی ہابیل کا قابیل کے ہاتھوں قتل کا سبب بنتا ہے
امام حسن مجتبی (علیہ السلام) ہم سے یہ فرماتا ہے : انسان کی ہلاکت ان تینوں صفات میں سے ہر ایک میں ہے ، تکبر، لالچ اور حسد، اپنا مراقبت کریں کہ یہ بری صفات ہمارے اندر پیدا نہ ہو جائے ، ان شاء اللہ ۔
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته