حضرت آیۃ اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی مدظلہ العالی سے کراچی کے ائمہ جمعہ اور جماعت کا دیدار
25 December 2024
09:24
۲,۲۸۲
خبر کا خلاصہ :
سب سے پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں شیعہ علماء پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو علمی لحاظ سے مسلح کریں.
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں سب سے پہلے کراچی سے تشریف لائے ہوئے علمائے کرام اور ائمہ جماعت کو خوش آمدید
کہتا ہوں ، فاضل محترم جناب حجۃالاسلام و المسلمین آقائے صلاح الدین صاحب کا بھی
شکریہ ادا کرتا ہوں کہ واقعاً موصوف بہت قابل قدر ، خدمت گزار اور فعّال علماء میں
سے ہیں ، موصوف جب سے پاکستان واپس گئے ہیں اس وقت سے ہی پاکستان کے علماء پر بڑی
توجہ اور اہمیت دی ہے ۔
میں آپ کی خدمت میں مختصر طور پر چند نکات عرض کرتا ہوں :
سب سے پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں شیعہ علماء پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو علمی لحاظ سے مسلح کریں ۔ شاید آج سے دس یاپچاس سال پہلے ایک شیعہ عالم کے لئے ایک حد تک احکام و عقائد اور کچھ اخلاقیات کا جاننا کافی تھا ۔ لیکن آج یہ مقدار کافی نہیں ، کیونکہ انسانوں کی فکری سطح بدل گئی ہے خاص طور پر جوانوں کی معلومات کی سطح ماضی کی نسبت بڑھ گئی ہے ۔ آج ایک عام جوان بھی ایک اَن پڑھ عالم کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا اور نہ ایسے عالم کو وہ کوئی اہمیت دیتا ہے ۔ وہ تو ایسے عالم کی تلاش میں ہے کہ جس کا مطالعہ و سیع اور معلومات گہری ہوں ، صحیح اور دلیل کے ساتھ بات کرتا ہو ، آج کا جوان ایسے علماء کی تلاش میں ہے ۔ جبکہ دوسری جانب آ ج کے دور میں کئی قسم کے سوالات بھی ہوتے ہیں ، یعنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت ایک مہینے کے اندر مراجع اور علماء سے جو سوالات کئے جاتے ہیں وہ گزشتہ دور میں ہونے والے چند سالوں کے سوالات کے برابر ہیں ۔ آج ٹیلفون ، انٹرنٹ اور دوسری مختلف ذرائع سے سوالات کئے جاتے ہیں ۔ یہ انٹرنٹ واقعی ایک عجیب دنیا ہے ؛ آدمی جس کسی سے جو بھی سوال رکھتا ہے اسی وقت سوال کر لیتا ہے ، لیکن جو چیز ضروری ہے وہ ان سوالات کا جواب ہے ۔ ان سوالات کا ٹھیک جواب تو وہی شخص دے سکتا ہے جو علمی کام کرچکا ہو ، علمی کام اور دوسرے کاموں کے درمیان جو فرق ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ دوسرے شعبوں میں اگر ایک شخص کوئی صنعتی کام سیکھتا ہے تو وہ جاکر اسی صنعت میں کام شروع کرتا ہے ۔ لیکن ہمارا ایک فکری کام ہے ، ہمارا کام تو ایسا ہے کہ جس سے ہماری فکر و نظر واقف بھی ہو اور اس کام پر عبور بھی حاصل ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی عالم یہ کہدے کہ میں نے نجف اشرف میں بیس سال تک تعلیم حاصل کی ہے اور اسی پر بات ختم ہوتی ہے تو یہ عالم غلطی کر رہا ہے ۔ یہ تو ابتدائے کار ہے ۔ اس لئے کہ اس عالم کا مطالعہ بھی عصر حاضر کے مطابق ہونا چاہئے اور اسے دیکھنا چاہئے کہ عوام کے مسائل کیا ہیں ، یونیورسٹیوں کے تقاضے کیا ہیں ۔
لہذا پہلی بات جو میں اپنے لئے بھی اور آپ سے بھی کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ہم اپنا زیادہ وقت علمی مطالعہ کے لئے وقف کریں ۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ روزانہ کتنے گھنٹے مطالعہ کرنا ہے۔
حجۃ الاسلام فلسفی مرحوم جو ایران کے ٹاپ کے مقرر تھے ، ان کو اسلام کی زبان اور اسلام کی بولتی زبان کہا جاتا تھا ۔ تقریر و منبر کے اوپر ان کو غیر معمولی مہارت حاصل تھی ، اور بڑے عجیب حافظہ کے مالک تھے ، وہ کہتے تھے کہ اپنی عمر کے آخری دنوں میں بھی ہر تقریر کے لئے تین سے چار گھنٹے مطالعہ کرتا ہوں ۔ جبکہ بعض ایسے ہیں جو کسی تیاری کے بغیر منبر پر جاتے ہیں ، وہ خیال بھی نہیں رکھتے کہ سامعین نے اپنا وقت اس کو سننے کے لئے دیا ہے ، اس کے احترام میں جمع ہوئے ہیں اور ان کو سننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ، لیکن اس قسم کے مقررین آدھ گھنٹہ بھی کوئی نئی بات پیش نہیں کر پاتے ۔ ہمارے والد محترؒم فلسفی مرحوم کے بارے میں کہتے تھے کہ جب وہ منبر پر جاتے تھے تو جب تک مذہب شیعہ کا کوئی قطعی اصول یا عقیدہ کو بالکل ثابت نہ کرتے منبر سے اترتے نہیں تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کا اپنی زندگی میں ایک منظم ٹائم ٹیبل تھا ۔ پس عالم کو چاہئے کہ اپنا علمی مطالعہ جاری رکھے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آج ایک عالم یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تو صرف نماز پڑھاتا ہوں باقی کاموں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ اگر عقائد کے متعلق اس سے سوال کریں مثلاً پوچھیں کہ حدیث کساء کی سند کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے ؟ تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا ان چیزوں سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ یا پوچھا جائے کہ زیارت عاشورا کے بارے میں آپ کا عقیدہ کیا ہے ؟ تو جواب نہ دے ۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا ۔ جبکہ متاسفانہ ایسے اعتراضات ہرروز زیادہ ہوتے ہیں ۔ لہذا ایک عالم دین یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا تو بس ایک شعبہ کی حدتک ذمہ داری ہے باقی معاملات سے میرا واسطہ نہیں ۔
پُرانے علمی حوز وں کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ ان حوزوں میں پڑھنے والا طالب علم ایک جامع انداز سے تربیت پاتا تھا ۔ یعنی یہ طالب علم فقہ ، ادبیات ، تفسیر ، عقائد اور تاریخ پر بھی عبور رکھتا تھا ، لیکن بد قسمتی سے ہمارے حوزوں میں آج اس کی اہمیت کم ہو گئی ہے ۔ البتہ ہمیں اس امر سے غافل نہیں ہونا چاہئے ۔ ہمیں اپنے مطالعہ کے ٹائم ٹیبل میں یہ بھی رکھنا چاہئے کہ روزانہ کچھ فقہ ، تفسیر ، عقائد اور تاریخ کا مطالعہ کریں ۔ میں نے سنا ہے کہ بعض بڑے مراجع یہاں تک کہ آخر عمر میں بھی روزانہ پندرہ منٹ تک کے لئے ادبیات کا مطالعہ کیا کرتے تھے ، ہمیں بھی ہر لحاظ سے جامعیت کا حامل ہونا چاہئے ۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمیں یقین کرنا چاہئے کہ آج خود اسلام اور خاص طور پر مذہب شیعہ کے اُوپر دشمن طرح طرح کے حملے اور دشمنیاں کر رہا ہے ۔ ایسی عداوتیں کہ جن کی مثال ابھی تک نہیں ملتی ، آپ دیکھئے کہ ایران میں شیطان پرستی کو رواج دیا جارہا ہے اور یقینا پاکستان اور افغانستان میں بھی موجود ہوگی ۔ یعنی دشمنوں نے شیطان پرستی کو ایک دوسرے رنگ اور نئے انداز سے شروع کر دیا ہے ۔ البتہ ان تمام عداوتوں کی جڑ امریکہ کی CIA ہے ۔ یہ ایک دو دن کا کام بھی نہیں ہے ۔ ممکن ہے کہ اس پر پچاس سال کام کیا ہو گا اور یہ دیکھا کہ لوگ دین کے پیچھے ہیں اور اس کے نمونے کی تلاش میں ہیں ، ان کو ایک پیشوا اور رہنما کی ضرورت ہوتا ہے ۔ لہذا انہوں نے ایک ایسا بناوٹی رہنما تیار بھی کردیا جو اندر سے گمراہ ہو ، لیکن بظاہر یہی گمراہ لیڈر عوام سے کہے کہ ہم تمہاری مدد کو آئے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے ایک بناوٹی دین اور عقیدہ بنا دیں ۔ انہی گمراہ باتوں کو اب معاشرے میں لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔ پس علماء کا کام بھی بڑا مشکل ہو چکا ہے ۔ دشمنوں نے جھوٹے عرفان کو ترویج دی ہے ، کچھ باطل چیزیں آمادہ کردی ہیں اور جوانوں سے کہتے ہیں کہ تم خدا تک پہنچنا چاہتے ہونا ، تو بس آؤ اس راستے سے خدا تک پہونچو ۔ ایسے راستے کہ جن کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ جوان نماز و روزہ اور اسلام کی ابتدائی اور واضح تعلیمات کو چھوڑ دیتا ہے ۔ جھوٹے عرفانوں کے مشترک نکات میں سے ایک یہی ہے کہ جو شخص بھی اس قسم کے ہتھکنڈوں کا شکار ہوتا ہے وہ رفتہ رفتہ اسلام کی تمام تعلیمات کو ترک کردیتا ہے ۔ یہاں تک کہ ان کے نزدیک نکاح بھی کسی اور انداز سے پیدا کرتا ہے اور ان جھوٹے عرفان میں مبتلا ہونے والے سے کہتے ہیں کہ وہ بھی اسی طریقے سے نکاح کرے ۔ یہ چیزیں اس بات کا انکشاف کرتی ہیں کہ دشمن اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ شب و روز اسلام کے خلاف منصوبے بناتے ہیں ۔
اب ہم ان حالات میں کیا کچھ کرتے ہیں ؟ قیامت میں خدا کو کیا جواب دیں گے ؟ ہم رسول اکرم (ص) اور امام زمانہ (عج) کو کیا جواب دیں گے ؟ طالب علم ہونے کا مطلب تو یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ پیغمبر اکرم (ص) کے دین کا مروج اور مکتب اسلام کا مبلغ ہوجاؤں ، لیکن ہم نے کیا کیا ہے ؟ اس سوال کا سچ مچ کوئی اطمینان بخش جواب بھی ہمارے پاس ہے یا نہیں ؟ ہم نے جوانوں کی ہدایت کے لئے کونسا قدم آٹھا یا ہے ؟
ہمارے کام روز مرہ کے کاموں کی نوعیت میں بدل نہ جانا چاہے کہ ایک دیدار اور ملاقات پر منحصر ہو اور اس میں صرف ایک میٹنگ اور کچھ باتیں ہوں ، ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اسلام کے لئے کونسا بنیادی کام ہم نے کیا ہے ؟ کونسا قدم اٹھا یا ہے ؟ یہ بات بہت اہم ہے ۔ پس عداوتیں اور دشمنیاں بہت ہیں اور سازشیں اور بڑے منصوبے بن رہے ہیں تو ہماری تیاری بھی روزانہ زیادہ ہونی چاہئے ۔ واقعی خداوند متعال نے ہمیں ایک بڑی نعمت دی ہے کہ ہم اہل بیت (ع) کے دسترخوان پر بیٹھے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ اس نعمت سے ہم صحیح فائدہ نہیں اٹھا رہے ۔ ہماری روایات میں ابھی تک کتنے گہرے مطالب چھُپے ہوئے ہیں ، جن سے ہم خود مطلع نہیں ہیں ۔ ہمیں اہل بیت (ع) سے رابطہ زیادہ رکھنا چاہئے اور علمی اعتبار سے نظم کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے ۔ یہ اتحاد جو جناب آقائے صلاح الدین صاحب کے توسط سے کراچی کے ائمہ جمعہ و جماعت میں قائم ہوا ہے ، بہت قابل قدر ہے کہ ایک ممتاز عالم دین نے اس اتحاد و اتفاق کی داغ بیل ڈال دی ہے ۔ البتہ یہ ہیئت اس بات کی تمہید ہے کہ آپ آپس میں مل بیٹھیں اور سوچے ان حالات میں پاکستان میں اسلام کے لئے کیا کام کیا جاسکتا ہے ؟ عوام کے سامنے کیا بات کہی جاسکتی ہے ؟کیا بگاڑ درپیش ہے اور اس کو کس طرح روکا جاسکتا ہے ؟ ( حل سوچیں ) آپ اسلام کی بنیادی مشکلات پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ کوئی بات نہیں کہ کچھ ضمنی اور جزئی چیزیں اگر بیچ میں ہوں تو یہ بہر حال قابل برداشت ہیں ۔ لیکن دیکھئے کہ دشمن ہمارے بنیادی اصول و عقائد اور توحید کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔ امامت اور قرآن کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔ آپ نے سنا ہے کہ کویت میں ہی کچھ سال پہلے امریکہ نے ایک قرآن چھاپ دیا ، جس سے جہاد والی آیات اور ظلم وستم سے مقابلے والی آیات کو حذف کردیا تھا ۔
پس جو اجلاس بھی بلایا جاتا ہے اس میں ہرشخص مسؤل ہے کہ اسلام کے بارے میں بات کرے اور خلوص کے ساتھ تجاویز دی جائیں ۔ جب نیت خالص ہوگی تو خدا مدد کرتا ہے ۔ اگر ہم دنیا کی خاطر اکٹھے ہو جائیں تو خدا نہ صرف ہماری مدد نہیں کرتا بلکہ آدمی سے اعراض بھی کرتا ہے ۔ اگر ہم دنیا کی خاطر ، عہدہ ، حیثیت اور پیسہ کے لئے جمع ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں بنتی ہے کہ خدا آدمی کی مدد کرے ۔ لیکن اگر ہم خدا کے لئے مل بیٹھیں تو خداوند عالم انسان کے دل میں اپنے انوار ڈال دیتا ہے، کرم فرماتاہے اور وہ مادی مشکلات بھی خود بخود حل ہو جاتی ہیں ۔ پس اگر انسان خدا کی راہ میں ہو تو خداوند عالم ہی اس کا کفیل ہوتا ہے ۔
مجھے امید ہے کہ یہ جو ہیئت ( ائمہ مساجد ) بنی ہے اس کی برکت سے سب سے پہلے تو پاکستان میں موجود دینی مدارس روزبروز مضبوط ہو جائیں گے ۔ جن چیزوں کی جانب علماء حضرات کو توجہ کرنی چاہئے ان میں سے ایک دینی مدارس کا استحکام ہے ۔ دینی مدارس کو روز بروز مضبوط تر ہونا چاہئے ۔ عوام الناس ، یونیورسٹی والے ، دانشوروں اور اسکالرز کے ساتھ علماء کا رابطہ بھی زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونا چاہئے ، جو میٹنگ بھی ہوتی ہے وہ علمی گفتگو اور تبادلہ خیال پر مبنی ہونی چاہئے اور شیعہ عقائد کو منطق واستدلال کے ساتھ بیان کردیا جانا چاہئے ۔ ہمارے والد مرحوؒم کہتے تھے کہ شیعہ ابتدائی مسئلے سے لے کر آخری مسئلے تک منطق واستدلال رکھتا ہے کسی بھی مسئلے میں تعصب اور جمود نہیں ہے ۔ بلکہ سارا استدلال اور منطق ہے ۔
پاکستان کے علماء دوسرے علماء پر جو امتیازرکھتے ہیں اس پر ہمیں فخر کرنا چاہئے ، آدمی دیکھتا ہے کہ دنیا کے دوسرے ایک کونے میں بھی اسلام کے بارے میں کوئی سمینار ہوتا ہے تو اس کا بانی بھی ایک پاکستانی عالم ہی ہوتا ہے ۔ بعض دفعہ جب ہمیں ایسی خبریں ملتی ہیں تو بہت خوشی ہوتی ہے ۔ ایک جوا ن عالم امریکہ کی اہم یونیورسٹی میں اسلام اور شیعہ کے بارے میں سمینار کرتا ہے ۔ آج آدمی امریکہ اور یورپ کے جس علاقے میں بھی جائے وہاں ایک پاکستانی عالم موجود ہے ۔ یہ بات آپ کے واقعی اہتمام کی عکاسی کرتی ہے اور شکر کا مقام بھی ہے ۔
امید ہے کہ آپ کی قم میں تشریف آوری ایک علمی اور معنوی سفر ہو انشاء اللہ ۔ اور آپ کے لئے بہت آثار و برکات کا سبب بھی ہو ۔ نیز پاکستان میں موجود علماء حضرات کی ظاہری و روحانی زندگی میں ترقی و تبدیلی کا سرچشمہ بھی بن سکے ۔ جناب صلاح الدین صاحب کو ہمارا سلام کہدیں اور ہم ان کے حق میں واقعاً دعا کرتے ہیں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ