حضرت امام صادق علیہ السلام کی روز شہادت کی مناسبت پر آیت اللہ فاضل لنکرانی مدظلہ کا بیان

25 December 2024

09:18

۲,۲۸۷

خبر کا خلاصہ :
25 شوال کا دن رئیس مذہب شیعه حضرت امام صادق علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے ، ایک ایسی مبارک وجود کہ یہ تمام حوزات علمیہ اور یہ علوم جن پر آج شیعہ افتخار اور مباہات کرتے ہیں انهی علیہ السلام کی با برکت حیات طیبہ سے ہے
آخرین رویداد ها

بسم الله الرحمن الرحيم و به نستعين

25 شوال کا دن رئیس مذہب شیعه حضرت امام صادق علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے ، ایک ایسی مبارک وجود کہ یہ تمام حوزات علمیہ اور یہ علوم جن پر آج شیعہ افتخار اور مباہات کرتے ہیں انهی علیہ السلام کی با برکت حیات طیبہ سے ہے ، آپ دیکھیں آپ علیہ السلام  سے ہمارے پاس کتنی روایات موجود ہیں ، کتنے اصحاب اورافراد اور بزرگوں نے راوی کے عنوان سے آپ علیہ السلام سے تمام فقہی مسائل میںروایات نقل کی ہیں ۔

آج میں یہاں پر دو مطلب کو بیان کرنا چاہتا ہوں :

١۔ حافظان دین کی تکریم کے بارے میں امام صادق علیہ السلام کی سیرت: وہ لوگ جو امام صادقعلیہ السلام کے عقیدہ کے مطابق حافظان دین تھے آپ کے پاس ان کی کتنی عزت و احترام تھی یہ چیز ہمارے لئے بہت اہمیت کے حامل ہے کیونکہ ہمارا بهی یہ دعوی ہے کہ ہم اسی  راہ پر گامزن ہیں اورہم حافظان اور حاملان دین ہونا چاہتے ہیں ، اگر ہم امام صادق علیہ السلام کی اس سیرت پر توجہ کریں تو ہمیں ہمارے کام کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور دوسروں کے لئے یہ مسؤلیت آور ہے ، جب انسان کو یہ پتہ چلتا ہے کہ دین کے حافظوں کا امام صادق علیہ السلام  کی نظر میں کتنی اہمیت ہے تو اس کے بعد وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور هوتے هیں کہ روحانیت ، مراجع ایک عام اور معمولی انسان نہیں ہے اور دینی نظر سے ان کی ارزش اور اعتبار دوسرے لوگوں سے کهیں زیاده هیں.

! میں یہاں پر چند روایات نقل کرتا ہوں :

فضل بن عبد الملک کہتا ہے : سمعت ابا عبدالله عليه السلام يقول أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ أَحْيَاءً وَ أَمْوَاتاً أَرْبَعَةٌ بُرَيْدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْعِجْلِيُّ وَ زُرَارَةُ وَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَ الْأَحْوَلُ وَ هُمْ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ أَحْيَاءً وَ أَمْوَاتاً»

 میرے نزدیک سب سے محبوب ترین انسان زندہ ہوں یا مردہ چار افراد ہیں : برید ، زرارہ ،محمد بن مسلم اور احول ۔

جمیل بن دراج کی روایت میں فرماتا ہے : « بَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ بِالْجَنَّةِ بُرَيْدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْعِجْلِيُّ وَ أَبُو بَصِيرٍ لَيْثُ بْنُ الْبَخْتَرِيِّ الْمُرَادِيُّ وَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَ زُرَارَةُ أَرْبَعَةٌ نُجَبَاءُ أُمَنَاءُ اللَّهِ عَلَى حَلَالِهِ وَ حَرَامِهِ لَوْ لَا هَؤُلَاءِ انْقَطَعَتْ آثَارُ النُّبُوَّةِ وَ انْدَرَسَتْ»

آپ  اپنے چار نجباء کا نام لیتے هوئے فرماتے ہیں اگر یہ چار نہ ہوتے تو آثار نبوت مٹ جاتا ، یہاں پر بھی انہیں چار افراد کا نام لیتے ہیں ،البتہ یہاں پر برید ، محمد بن مسلم ، زرارہ ، ابا بصیر اور لیث بن البختری بھی ہے ۔

داود بن صرحان امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے : «إنّه قال إنّ أصحاب أبيه كانوا زيناً أحياءاً و امواتاً»

امام صادق علیہ السلام  نے فرمایا میرے بابا امام باقرعلیہ السلام کے اصحاب دین اور لوگوں کی زینت ہے زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ، یہ تاکید اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ ان افراد کی اہمیت ان کی زندگی سے منحصر نہیں ہے ،دنیا سے جانے کے بعد بھی ان کی اہمیت باقی رہتی ہے ، اس کے بعد ان چار افرد کا نام لیتے ہیں : زرارہ ، محمد بن مسلم ، ابوبصیر اور برید، اس کے بعد فرماتا ہے : ''«هولاء القوامون بالقسط، هولاء القوالون بالصدق»'' یہ لوگ عدل کو قائم کرنے والے ہیں یعنی قرآن کریم میں آیہ قسط کی طرف اشارہ ہے ، اورسچ بولنے والے ہیں یه لوگ  هؤلاء السابقون السابقون اولئك المقربون اينها السابقون السابقون ہیں ،اب اگر کوئی پیغمبر ۖ کے زمانہ میں تھے لیکن صحیح طرح آپ ۖ کی سیرت پر عمل نہ کیا ہو ، کیا ہم یہ بول سکتے ہیں کہ چونکہ یہ پہلے تهے لہذا ان کو السابقون السابقون کہہ سکتے ہیں ، ایسا نہیں ہے ! السابقون السابقون وہ لوگ ہیں جو حفظ دین ، بیان دین اور تقویت دین میں دوسروں پر سبقت لے گئے ہوں ، اس میں پہل سے زمانی پہل مراد نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ دیں چونکہ ایک شخص زمان کے اعتبار سے دوسروں پر مقدم ہے لہذا مقدم ہیں یہ صرف زمان کے اعتبار سے ہے ۔

ایک اور روایت کہ کچھ تفصیل ہے : جمیل بن دراج کہتا ہے ایک دن امام صادق علیہ السلام کی خدمت حاضر ہوا اس وقت ایک شخص آپ  کی خدمت سے نکل کر جارہے تھے،حضرت نے فرمایا : «لقيت الرجل الخارج من عندي» جو شخص میرے پاس سے نکل کر جارہے تھے، کیا تم نےاسے دیکھا ؟۔

فقلت  بلی'' عرض کیا : جی ہاں! «هو رجلٌ من اصحابنا من أهل الكوفه» پہلے جمیل نے کہا : یہ ہمارے اصحاب میں سے ہیں اور کوفہ کے رہنے والے ہیں، امامعلیہ السلام نے فرمایا: «لا قدّس الله روحه و لا قدّس مثله» ، خدا وند اس کے روح کی تزکیہ نہ کرے ! یہ جمله یا نفرین ہے یا یہ   ایک ایسی دعا ہے کہ عام طور پر ہم کرتے ہیں قدس اللہ نفسہ ، حضرت فرماتے ہیں : یہ دعا اس شخص کے لئے نہیں ہے کہ نفرین سے ایک درجہ کم ہے ! یا نفرین ہی ہے کہ ممکن ہے نفرین ہی ہو ، یا ہم یہ بولیں کہ اگر آپ اس شخص کو نفرین کرنے کی مقام پر نہیں ہے تو اس سے ایک درجہ کم پر واقع ہے ، یعنی یہ دعاجو اولیاء خدا کے لئے ہے ، اس آدمی کے لئے نہیں ہے ! «إنّه ذكر اقواماً» حضرت اس شخص کو نفرین کرنے کی علت کو بیان فرماتا ہے کہ اس شخص نے میرے سامنے ان افراد کی بدگوئی کرنا شروع کیا جو میرے اور میرے پدر بزرگوار کے مورد اطمینان تھے اور میرے والد بزرگوار ان پر اعتماد کرتے تھے ، ذکر اقواماً یعنی عیبجوئی کیا کہ «كان أبي ائتمنهم علي حلال الله و حرامه» یعنی ایسے افراد کا میرے سامنے بدگوئی اور عیبجوئی کیا جوحلال اور حرام خدا میں میرے والد کے امین تھے  "وکانوا عیبة علمہ" یہ لوگ میرے والد کے علم کے مخزن تھے «وكذلك اليوم هم مستودع سرّي» آج بھی میرے اسرار ان کے پاس امانت ہے ، دین کے تمام اسرار کو میں نے ان تک منتقل کیا ہے «اصحاب أبي حقّاً إذا أراد الله لأهل الأرض سوءاً صرف بهم عنهم السوء» یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر خداوندتبارک وتعالی تمام اہل زمین پر عذاب نازل کرنا چاہئے تو انہیں تین چار افراد کی بابرکت وجود سے اس عذاب کو ان سے ٹال سکتا ہے ، «هم نجوم شيعتي احياءاً و امواتاً» یہ لوگ میرے شیعوں کے آسمان کے ستارے ہیں زندگی میں بھی اورمرنے کے بعد بھی ، «يحيون ذكر أبي» یہ لوگ میرے باپ اور اجداد مطہرعلیهم السلام کے ذکرکو زندہ رکھتے ہیں ، «بهم يكشف الله كلّ بدعةٍ» ان کے وسیلہ سے ہر بدعت واضح ہوتی ہے اور لوگوں کے لئے بیان ہوتی ہے کہ یہ ایک بدعت ہے ، بدعت  اور بدعتوں کو واضح کرنے والے یہی ہیں «ينفون عن هذا الدين إنتحال المبطلين و تعوّل الغالين» یہ لوگ ان افراد کو جو مبطلین میں سے ہیں اور بغیر کسی ملاک اورمعیار کے خود کو ہمارے دین سے منسوب کرتے ہیں ان کی نفی کرنے والے ہیں ۔

یہاں پر ایک نکتہ عرض کروں : اگر واقعاً کسی زمانہ میں زرارہ ، محمد بن مسلم ، برید......میں یہ خصوصیات تھیں کہ امام صادق علیہ السلام نے انہیں بیان فرمایا اور ان خصوصیات کی وجہ سے امام صادق علیہ السلام نے اس شخص کی نفرین کی جس نے ان کی بدگوئی اور عیبجوئی کی تھی ، ہمارے زمانہ میں حافظان دین کون ہیں ؟ ہمارے زمانہ میں حفظ دین کن افراد اور کن مراکز کے دوش پر ہے ؟ علماء ، حوزہ ہای علمیہ ، بزرگان اور مراجع دین هی حافظان دین ہیں اور یہ '' لا قدس اللہ مثلہ و لا قدس اللہ روحہ '' وہی نفرین ہے جسے امام صادق علیہ السلام  نے اس زمانہ میں فرمایا تھا جس میں ہمارے زمانہ کے مراجع سے بے اعتناء افراد بهی شامل ہوتے ہیں ، بلکہ ابهی یہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ جوچیز یہ بزرگان بیان کرتے ہیں ان کو خراب کریں ،مگر ہمارے زمانہ میں حلال و حرام کو بیان کرنے والے کون ہیں ؟ ہمارے مراجع حجاب اور پردہ کے بارے میں چیخ و پکار کرتے ہیں ، اور اس بارے میں نگرانی کا اظہار کرتے ہیں ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری طرف سے اس بارے میں مخالفت ، مختلف تعبیروں سے پر مجلات اور دوسری چیزیں جو مد مقابل نظرات فقہاء ہیں منتشر ہوتے ہیں ۔

اس روایت میں ہے کہ ''ثم بکی'' بہت ہی تعجب ہے ، کسی شخص نے زرارہ کی عیبجوئی کی ہے یا محمد بن مسلم اور برید کی بدگوئی ہے ،توامام صادق  علیہ السلام اس قدر ناراض ہوتے ہیں کہ اس کے مقابل میں آتے ہیں اور اس کے بعد گریہ کرتے ہیں کہ اس نےکیوں ایسا کیا؟ ۔

پھر آگے فرماتے ہیں '' علیہم صلوات اللہ ورحمتہ احیاء و امواتاً '' یہ افراد زندہ ہو یا مردہ خدا کی صلوات اور رحمت ان پر ہو ، امام کا یه فرمان  ہمیں اپنے کام کی اہمیت کے بارے میں متوجہ کراتا ہے ، یہ بحث و گفتگو ، یہ طولانی دروس کہ حوزات علمیہ میں موجود ہے یہ سب اس لیے ہےحلا ل اور حرام مشخص ہو جائے ! اس سے بڑھ کر کوئی اور افتخار نہیں ہے کہ انسان خدا کے حلال او رحرام کا امین واقع ہو جائے ، خدا کے حلال اور حرام کا حافظ بن جائے ، جہاں کہیں کوئی حلا ل چیز نظر آئے تو بتا دیں یہ حلال ہے اور اگر کوئی حرام نظر آئے تو اس کا مقابلہ کرے ! ڈرے نہیں ، حلال اور حرام کے امینوں کی بنیادی خصوصیات یہی ہے کہ اسے کوئی خوف نہ ہوتا هو،کوئی ڈرنه هو،اگر کوئی خوف کی وجہ سے یا اپنے مقام و منصب کی وجہ سے کسی حرام کو حرام نہ کہہ سکیں تو اس کے بعد یہ پھر امین نہیں ہے ! حلال اور حرام میں خدا کے امین وہی ہے جو واقعاً حلال کو حلا ل کہیں اور اگر کسی جگہ پر حرام ہو اسے حرام کہنے میں اسے کوئی ڈر وخوف نہ ہو ۔

روایت میں ہے کہ منصور دوانقی نے ایک دن امام صادق علیہ السلام  سے عرض کیا : «لم لا تغشانا كما يغشانا ساير الناس»جس طرح دوسرے لوگ ہمارے ساتھ لگ گئے ہیں اور ہمارے اردگرد جمع ہوتے ہیں ،آپ لوگ کیوں نہیں آتے؟ معلوم ہوتا ہے کہ یه ابتدائی دور کی بات ہے،وگرنہ اواخر میں خود اسی منصور کے ہاتھوں امامعلیہ السلام شہید ہوئے! حضرت اس کے جواب میں فرماتا ہے : لیس لنا ما نخاف من اجلہ '' بہت ہی اچھی تعیبر ہے ، فرمایا : ہمارے پاس کوئی ایسی چیز جس کی وجہ سے تم سے ڈریں نہیں ہے ، یعنی ہمیں کوئی ڈرنہیں ہے کہ اس ڈراورخوف کی وجہ سے تمہارے پاس آکر محفوظ ہوجائیں ، ''ولا عندک من امر الاخرة ما نرجوک لہ،، اور آخرت کے لحاظ سے بھی تمہارے پاس کوئی چیز نہیں ہے کہ ہم اس کے امید سے تمہارے پاس آئے ،اگر تمہارے پاس آنے سے کوئی ثواب ملتا ، یا خدا سے قرب پیداہوتا اورآخرت کے لئے مفید هوتی تو هم آتے،لیکن ایسی کوئی چیز نہیں ہے «ولا أنت في نعمةٍ فنهنّيك عليها» اور ایسا بھی نہیں ہے کہ تم کسی نعمت میں غرق ہو کہ ہم تمہیں مبارک باد دینے آئے، اور جو عمومی نعمت ہے وہ سب کے پاس ہے «ولا تراها نقمةٌ فنعزيك» اور نہ کوئی مصیبت تم پر آپڑی ہے کہ ہم تمہیں تسلیت دینے آئے ، دیکھو امام(ع) اسے کس طرح جواب دیتا ہے ، یہ ان افراد کی خصوصیات میں سے ہے جو خداوند تبارک و تعالی میں محو ہوتے ہیں ، ایسے افراد کسی چیز کا ملاحظہ نہیں کرتے ،کہ آیا یہاں پر کوئی دنیوی فائدہ ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ آیا آخرت کے یاد میں ہے یا نہیں ، ہمارے لئے بھی یہی ملاک اورمعیار ہونا چاہئے ، لوگوں سے ہمارا رابطہ ، لوگوں کی تعریف و تمجید ،سب کے سب اسی ملاک اورمعیار کے مطابق ہونا چاہئے ،اگر کسی سے کوئی ارتباط کرنا چاہئے تو دیکھیں آیا واقعاً اس کے پاس کچھ علمی معلومات ہیں تا کہ اس سے استفادہ کر سکیں ؟ اور تقوی کو دیکھیں ، ایک چیز جو پہلے زمانہ میں حوزات علمیہ میں تھے لیکن صد افسوس!ابھی نہ صرف یہ فراموش ہوا ہے ، بلکہ کسی اور چیز نے اس کا جگہ بھی لے لیا ہے !پہلے زمانہ میں حوزہ میں طلاب ان افراد کے پیچھے ہوتے تھے جس نے اپنی عمر کو تہذیب نفس میں گزارا ہو ، خدا کے لئے درس پڑھنے میں گزارا ہو ،خد اکے لئے زحمتیں اٹھایا ہو ،ایسے افراد کے جستجو میں ہوتے تھے تا کہ اس سے اپنی نفس کے لئے معنوی ارتزاق کرے ،اب یہ ختم ہو چکا ہے !ہم میں سے کتنے افراد ابھی ایسے افراد کے پیچھے گئے ہیں؟ اب آتے ہیں کچھ جعلی کرامات گڑھ لیتے ہیں ، کچھ خواب اور بے بنیاد چیزوں کے پیچھے جاتے ہیں ، ہمیں واقعاً یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم کن افراد سے رابطہ پیدا کر رہے ہیں ،ہمارا رابطہ کس بنیاد پر ہے ؟ کسی مسول سے اگر رابطہ کرنا چاہئیں تو آیا یہ خدا کے لئے ہے ؟ یا انقلاب کی تقویت کے لئے ہے ؟ یا نہیں ! بلکہ اپنی دنیوی مقاصد کے لئے ہے ، خدا نہ کرے ہم ایسے مسائل کے پیچھے ہو !

امام صادقعلیہ السلام کا حافظان دین کی نسبت عملی سیرة یہی ہے ، اور جودین کے کسی کام نہیں آتے ہیں ان کے ساتھ کس طرح رواداری رکھتے تھے یہ بھی بیان ہوا کہ حضرتعلیہ السلام منصوردوانقی سے کس طرح پیش آئے ،اوراسے کس طرح کے دندان شکن جواب دیئے، یہ پہلا مطلب۔

دوسرا مطلب: امام صادق علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام موسی کاظمعلیہ السلام سے ایک جامع وصیت کی ہے ،کہ آپ  فرماتے ہیں : ''یا بنی'' اگر اس وصیت پر عمل کرے تو ''تعیش سعیدا و تموت حمیداً''  کہ اس وصیت میں اخلاقی اور تربیت  کے بہت اچھے ضوابط بیان ہوئے ہیں،اس کا ضرورمطالعه فرمائیں.

و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين

23 شوال المکرم 1432

 

 

برچسب ها :