مرجع تقليد حضرت آيت اللہ فاضل لنکراني (رضوان اللہ عليہ) کي برسي کے موقع پر آيت اللہ ہاشمي رفسنجاني کا پيغام
23 November 2024
22:19
۲,۱۹۹
خبر کا خلاصہ :
"تلك الدار الآخرة نجعلها للذين لا يريدون علوا في الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتقين"
آخرین رویداد ها
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
مرجع تقليد حضرت آيت اللہ فاضل لنکراني (رضوان اللہ عليہ) کي برسي کے موقع پر
آيت اللہ ہاشمي رفسنجاني کا پيغام
آيت اللہ ہاشمي رفسنجاني کا پيغام
" احیاء دین میں شیعہ مرجعیت کا رول" کی کانفرنس میں مرجع تقلید حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (رضوان اللہ علیہ) کی برسی کے موقع پرآیت اللہ ہاشمی رفسنجانی کا پیغام (۱۴،۲،۸۹)
"تلك الدار الآخرة نجعلها للذين لا يريدون علوا في الأرض و لا فسادا و العاقبة للمتقين"
علماء دين اور بزرگان ملت، فقہاء اسلام اور مراجع تقليد کي ياد کو تازہ کرنا، حقيقت علم اور تقوي کو بڑھاوا دينا اور راہ خدا ميه جہاد کرنا ہے يہ احياء دين کا لفظ نہايت مقدس کلمہ ہے کہ جس کي اصل اور بنياد کو مکتب عصمت و طہارت ميه تلاش کرنا چاہيے۔ وراثت انبياء ايک ايسا پرمعني اور بنيادي کلمہ ہے کہ جو انسان کو اس قدر خدا سے نزديک کرتا ہے کہ اس سے دين کے امانتدار اور مرسلين وجود ميه آتے ہيه ايک مکتب اور مذہب کے باعظمت ہونے کي علامت يہ ہے کہ ايسے افراد کي تربيت کرے کہ جو اس مکتب کي کرنيه بن کر ظہور کريه، اسلام ميه خدا کے لطف و کرم کےصدقے، قرآن کريم کي ہدايتوه کے صدقے اور آئمہ طاہرين (ع) کي تعليمات کے نتيجے ميه ايسے افراد نے تربيت پائي ہے کہ جن کي مثال کسي بھي مکتب فکر کے اندر نہيه مل سکتي۔ ايسے فقہاء اور مراجع نے عالم ظہور ميه قدم رکھا کہ جنہوه نے اپني پوري زندگياه خدا کے احکام کو سمجھنے ميه صرف کر ديه اور اس راہ ميه استقامت اور پائداري کے ساتھ اور خداوند عالم کے سامنے تسليم محض ہو کرپورے عشق و محبت کےساتھ احکام الہي کو سماج ميه نافذ کيا۔ اس ميدان ميه ايسے چہرے سامنے آئے کہ جو صرف اس بات کے معتقد تھے کہ سماج کي صرف دين کے ذريعے ہدايت ہونا چاہيے اور اپني تمام تر تلاش و کوشش اسلامي حکومت قائم کرنے اور انساني سماج کي مشکلات کو حل کرنےاور نسل جوان کي ہدايت کرنے ميه وقف کر دي۔
اسلامي انقلاب جو امام خميني (رہ) کي رہبريت اور ان کےعظيم ہنر کي بنا پر کامياب ہوا اس کےعلاوہ اس مرد بزرگوار کا ايک ہنر يہ بھي تھا کہ ايسے فقہاء اور مجتہدين کي تربيت کي کہ جن کي وجہ سے انقلاب ميه مزيد جوش اور ولولہ پيدا ہو گيا۔ وہ فقہاء جنہوه نے اپنے فتوؤه کے ذريعے انقلابي سماج کے معضلات کو حل کيا اور لوگوه نے ان کي زندگي ميه دين کو مجسم ديکھا ان ميه سے ايک حضرت آيت اللہ العظمي فاضل لنکراني (رضوان اللہ عليہ) تھے کہ جنہوه نے امام خميني (رہ) اور آيت اللہ بروجردي کے مکتب ميه تربيت حاصل کي۔ اور ايسي شخصيت وجود ميه آئي کہ اپني مثال آپ ہو گئے۔ انقلاب کے ابتدائي دور ميه جب حوزہ علميہ کي اونچي سطح کے مدرس تھے امام کي طرف سے مرجعيت کي تائيد کے ذريعے انقلاب کے عملي ميدان ميه داخل ہو گئے ، اور اسي وجہ سےدورو دراز علاقوه ميه تبعيد کرنے کي وجہ سے رنج و الم بھي اٹھانا پڑا۔ انقلاب کي کاميابي کے بعد آپ تمام حساس مواقع ميه حاضر ہو گئے اور حوزہ علميہ قم کي مديريت کے علاوہ دفاع مقدس کے ليے علماء اور فضلاء کو امادہ کرنے ميه نہايت اہم رول ادا کيا۔ امام کے علمي اور فقہي پہلو کو زندہ رکھنے کے ليے ايک وسيع شرح ستائيس (۲۷)جلدوه پر مشتمل تحرير الوسيلہ پر لکھي جو فقہي ميدان ميه بہت بڑا قدم ہے۔
آپ نے امام کے فقہي اور اصولي مباني اورقواعد کو امام کے عدم حضور ميه حوزہ علميہ ميه رائج کيا کہ آپ کا درس ايک ايسا علمي درس تھا کہ جس ميه امام کے مباني اور قواعد کا تجزيہ و تحليل کيا جاتا تھا۔
امام کي رحلت کے بعد پوري طاقت اور قدرت کے ساتھ اور امام کے راہ و روش کو اختيار کرتے ہوئے انقلاب اور مرجعيت کو رونق بخشي۔ سياسي مسائل ميه بہت اہم فتاويٰ خاص کر کے سلمان رشدي کے سلسلے ميه امام خميني (رہ) کے حکم کے دفاع ميه فتواي دينا مجھے کبھي بھي نہيه بھولتا۔ حوزہ علميہ کبھي بھي اس مرد بزرگوار کي خدمات کو فراموش نہيه کر سکتا۔
آپ کے کثير تعداد ميه شاگرد ہميشہ مختلف علمي مسائل ميه آپ کي ياد کو زندہ رکھيه گے۔آپ کي فقہ، اصول، اور اعتقاد کے موضوعات پر مشتمل کتابيه ہميشہ علماء اور محققين کے مد نظر رہيه گي۔ آپ کے کثير تعداد ميه آثار خاص کر کے مرکز فقہي آئمہ اطہار عليھم السلام کہ جو بيس سال سے علماء، فقہاء اور محققين کي تربيت کر رہا ہے انشاء اللہ مفيد اور جاوداني رہے گا۔
آپ کي ياد اور تمام علماء اور فقہاء کي ياد کہ جنہوه نے اپني زندگي کو اسلام کي راہ ميه قربان کيا ہے کو تازہ اور باقي رکھنے کي اميد کرتے ہيه اور خدا وندعالم سے آپ کے اہل بيت کے ليےخاص کر کے آپ کے فرزند ارجمند آيت اللہ محمد جواد فاضل کے ليے سلامتي اور توفيق کے طلبگار ہيه۔