آیت اللہ شیخ محمد فاضل لنکرانی ک امام خمینی (رہ) کی شخصیت اور ولایت فقیہ کے بارے میں ایک انٹرویو۔
25 December 2024
09:24
۵,۰۳۱
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
آیت اللہ شیخ محمد فاضل لنکرانی ک امام خمینی (رہ) کی شخصیت اور ولایت فقیہ کے بارے میں ایک انٹرویو
قم ٹی وی چینل کے نامہ نگار نے آیت اللہ شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ) سے امام خمینی (رہ) کی شخصیت کے سلسلے میں اور جمہوری اسلامی ایران کے نظام کی حمایت میں بعض خصوصی افراد کا رول اور ولایت فقہ کے بارے میں ایک انٹرویو لیا جس میں آپ نے فرمایا:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام خمینی (رہ) عصر حاضر میں بہت اہم سیاسی ابعاد کے حامل ہیں ۔ آپ کی شخصیت ایک معنوی اور الٰہی شخصیت تھی۔ جب ہم اس عظیم شخصیت کی زندگی کے اندر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام کا الٰہی اور للٰہی جلوہ اس قدر درخشاں ہے جو آپ کی شخصیت کو بے نظیر بنا دیتا ہے کہ ہر کوئی آپ کا احترام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب ہم انسانی سماج کے اندر نگاہ کرتے ہیں وہ لوگ جو کسی حد تک معنوی شخصیت کے حامل ہوتے ہیں تو سماج میں ان کا احترام کیا جا تا ہے چہ جائے کہ امام کی شخصیت کہ جو معنوی لحاظ سے، تقوی اور پرہیزگاری کے حوالے سے ،عدالت اور شرافت کے اعتبار سے بلند مقام کی حامل تھی۔ ہم اگرامام کے مسئلہ رہبری اور مرجعیت کو ایک طرف اورانکے معنوی پہلو کو دوسری طرف قرار دیں تو امام کا معنوی پہلو زیادہ بھاری نظر آتا ہے۔ ہم معتقد ہیں وہ تمام برکات کہ جو انقلاب اسلامی کو نصیب ہوئیں یہ عظیم انقلاب کی نعمت کہ جو خدا وند عالم نے اس قوم کو عنایت کی امام کےاس معنوی پہلوکے وجہ سے تھی ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے ایک معمولی انسان اتنی جرأت پیدا کر لیتا ہے کہ امام کے فوٹوکی توہین کرے۔ مگر یہ کہ بہت پست ذہنیت کا مالک اور پست کردار کا حامل ہو۔ میں مطمئن ہوں ایران کی عزیز قوم و ملت کے درمیان کہ جو امام سے بے پناہ عشق و محبت رکھتی ہے کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہو گا جو ایسی جسارت کرے۔ یہ دشمنوں کا آلودہ ہاتھ ہے کہ جو اس خام خیالی میں مبتلیٰ ہیں کہ انقلاب اسلامی میں رخنہ اندازی کریں گے اور لوگوں کے اندر اختلاف ایجاد کریں گے۔
امام خمینی (رہ) کے معنوی پہلو سے قطع نظر کرتے ہوئے بھی امام کا بہت زیادہ حق ہے ایرانی قوم و ملت پر ایرانی تاریخ پر بلکہ بشریت اور دین پر یعنی اگر ہم ادیان کے ظہور کی تاریخ کا مطالعہ کریں دیکھیں گے عصر امام خمینی (رہ) دین اسلام کے لیے ایک ظہور مجدد کا زمانہ ہے۔ وہ اسلام جس کا اسی ملک میں کوئی اثر باقی نہیں رہ گیا تھا۔ استکبار اور استعمار یہ سوچ رہا تھا کہ اسلام کی شمع گل ہو چکی ہے۔ لیکن اس مرد عظیم نے اسلام کو دوبارا انسانی زندگی میں جگہ دی اور قوم و ملت میں مقام عطا کیا۔ یعنی یہ شخصیت دین پر بھی حق رکھتی ہے بشریت پر بھی حق رکھتی ہےاور تاریخ ایران پر بھی۔ اگر ہم چاہیں کہ ان حقوق کو جو اس شخصیت کے ہمارے اوپر ہیں شمار کریں شمار نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس شخصیت کی اہانت کرنا دین کی اہانت ہے ایرانی قوم کی اہانت ہے کل بشریت کی اہانت ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ جب ہماری قوم نے اس ناگوار خبر کو سنا کس طریقے سے اس کا عکس العمل دکھایا۔ عوام کے لیے یہ مہم نہیں ہے کہ کس نے یہ توہین کی کس نے یہ برا فعل انجام دیا۔ خود یہ عمل ان کے لیے بہت ناگوار تھا۔ البتہ اس بات میں شک نہیں ہے کہ جس نے اس کام کو انجام دیا یقینا ایک برنامہ ریزی اور پلاننگ کے تحت انجام دیا۔ اور یہ ایک ایسا پروپگنڈہ ہے کہ جو مغرب کی طرف سے رچایا گیا ہے۔ وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر امام کا فوٹو پھاڑ دیا گیا امام کے فوٹو کی اہانت کی گئی تو امام کی عظمت لوگوں کے درمیان کم ہو جائے گی۔ حالانکہ ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے۔ امام ہمارے دلوں میں اور ایرانی قوم کے دلوں میں بلکہ تمام پاک اور آزاد منش رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں رسوخ کر چکے ہیں ۔ امام کی اہانت کرنا تمام شہداء کے خون کی اہانت ہے۔ اس انقلاب اسلامی کے شہداء کی اہانت ہے۔ ہم ان ایام میں دیکھ رہے ہیں کہ دشمن نے چند کاموں کو اپنے پروپگنڈے کا محور قرار دیا ہے ان میں ایک یہی امام کی شان میں گستاخی تھی۔ ہمارا وظیفہ ہے کہ ہم امام کی شخصیت کی حفاظت کریں۔ اور اجازت نہ دیں دشمن اس طریقے سے ہمارے اندر داخل ہو۔
ہم اس ناقابل برداشت فعل کو محکوم کرتے ہیں چاہے جس نے بھی انجام دیا ہو اور عوام الناس اور سماج کے سرکردہ افراد کے شکر گذار ہیں کہ جنہوں نے اپنے تظاہرات سے رہبر معظم انقلاب کے ساتھ تجدید بیعت کی۔ امید ہے کہ خدا اس انقلاب کی حفاظت کرے اور ہم اپنے شہداء کے مقروض نہ رہیں۔
ایک نکتہ جو رہبر معظم نے ان آخری ایام میں بیان کیا ہے اور اس مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے وہ بعض خاص لوگوں کا مسئلہ ہے کہ جن کی ایک خاص ذمہ داری ہے ۔ واضح ہے کہ سماج کے اندر جتنی بھی اس طرح کی زشت حرکتیں وجود پاتی ہیں ان کے پیچھے کچھ خاص لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ خواص ہمارے سماج میں روحانی،اساتید دانشگاہ، سیاسی اور علمی شخصیات ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو سماج کے اندر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ ہم نے تاریخ کے آئینہ میں دیکھا ہے کہ جب بھی خواص نے اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا اور اپنے آپ کو سیاست سے کنارہ کش سمجھتے رہے اور فقط دین پر عمل کرنے کے پابند رہے نتجہ اچھا نہیں ہوا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ امام نے جب ۴۱ یا ۴۲ میں آواز بلند کی اکیلے تھے۔ اور یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ حوزہ کی شخصیات کس حد تک امام کا ساتھ دیں گی۔ لیکن آپ نے اپنے شرعی وظیفہ پر عمل کیا اور خدا نے بھی ان کی مدد کی ان تنصر اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم۔ خواص کو حکومت دینی کے سلسلے میں یہ جاننا چاہیے کہ فتنہ و فساد کے مقابلہ میں کیسی رفتار رکھیں۔ اور کیا کریں کہ لوگ اپنے اصلی راستے سے منحرف نہ ہوں ہماری مراد خواص سے صرف سیاسی گروہ نہیں ہیں کہ سیاسی افراد آئیں اور سیاسی مسائل لوگوں کو سمجھائیں ہماری حکومت چونکہ ایک دینی حکومت ہے ہمارے سماج کے خواص کو چاہیے کہ ایسے ملاک اور معیار پیش کریں کہ جو دین کے اندر پائے جاتے ہوں جسیےحق حاکمیت، حق الناس۔ ان لوگوں کا حق کہ جن کے طفیل یہ حکومت قائم و دائم ہے۔ بعض لوگ جو دیوانوں کی طرح فکر کرتے ہیں کہ اس نظام کو بدل کر ان کے لیے آزادی کی فضا ہموار ہو جائے گی کہ وہ اپنے افکار و نظریات کو دنیا والوں تک پہنچا سکیں گے، یہ غلط فکر کر رہے ہیں۔ یہ فکر احمقوں والی فکر ہے اور انشاءاللہ وہ اسی فکر کے دائرے میں محدود رہیں گے۔ ہمارے سماج میں جو بھی گروہ رشد اور ترقی کرنا چاہتا ہے اسلامی نظام کے سائے میں رہ کرترقی کرے البتہ ہمارے سماج میں انتقادی مسائل میں بہترین علمی اور قوی بحثیں ہوتی ہیں اور ہونا چاہیے لیکن نظام کی مخالفت در حقیقت خود اپنی مخالفت ہے۔
ہمیں موقع نہیں دینا چاہیے کہ دشمن یہ خیال کرے کہ ایران میں ایک گروہ ،ولو بہت مختصر، اسلامی نظام کو بدلنا چاہتا ہے۔ یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ انقلاب میں خیانت ہے دین میں خیانت ہے حتی خود اپنی نسبت خیانت ہے۔ یہ خیال نہ کریں کہ ایسی فضا فراہم کریں گے کہ اپنے اھداف کو پہنچیں گے میں گزارش کروں گا تمام گروہوں اورپارٹیوں سے کہ آئیں امام کی ان فرمائشات کے اوپر توجہ کریں کہ جو انہوں نے انقلاب کے پہلے دنوں میں بیان کی ہیں۔ امام نے دو اہم محور بیان کئے تھے ایک اسلام اور دوسرا وحدت۔
امام نے اپنی ایک تقریر میں اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے یہ انقلاب کا مسئلہ ہے جو بھی ایسی حرکت کرے کہ جس سے اسلام کی حرمت پر چھوٹا سا دھبہ پڑے اسے سوچنا چاہیۓ کہ اس نے کیا کیا ہے اور وہ کہاں جائے گا۔
امام اپنی تمام تقاریر کے اندر وحدت پر تاکید کرتے ہیں۔ میں اس فتنہ پرور گروہ کی خدمت میں عرض کر دوں کہ اگر تم لوگ اپنے کاموں سے باز نہیں آؤ گے تو سماج کی وحدت پامال ہو جائے گی۔ وہ سماج جس میں وحدت نہ ہواس میں نہ تم کام کر پاؤ گے نہ کو ئی دوسرا۔ تمام پارٹیوں سے میری گزارش ہے کہ ان دو بنیادی اصول کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ اسلام اور وحدت۔
امید کرتا ہوں کہ یہ تمام مشکلات آپس میں بحث و مباحثہ سے حل ہوجائیں گی اور ہم ملت ایران کے اندر ترقی اور پیشرفت کا مشاہدہ کریں گے۔
والسلام علیکم۔