آيت الله شيخ محمد جواد فاضل لنکراني دامت برکاته کا شهر قم کي يونيورسٹي کے شعبه جهاد کے سربراه سے ملاقات
25 December 2024
08:40
۲,۴۲۰
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
بسمه تعاليٰ
سب سے پهلے آپ لوگوں کي تشريف آوري پر شکر گزار هوں اور دانشگاه ميں شعبه جهاد سے متعلق جو گزارش پيش فرمائي هے قابل استفاده هے۔ خدا کا شکر هے که دانشگاه ميں جهادي امور پر کام وسيع پيمانه پر هو رها هے۔ اور جيسا که اس کے عنوان سے هي ظاهر هے دانشگاهوں ميں علمي تلاش و کوشش کے ساتھ ساتھ جهادي اور ديني رنگ دينا بھي بهت ضروري هے اور يه الله کي بهت بڑي توفيق هے که جو انقلاب کے بعد هماري يونيورسٹيوں کو نصيب هوئي هے۔ ميں اس شعبه کے افتتاح کے داران سے هي آشنا هوں که يه شعبه ڈاکٹر کاظمي صاحب (ره) کے ذريعے تاسيس هوا۔ اميد هے که اس شعبه کو اور زياده ترقي ملے۔ مزيد شاخيں اس ميں قائم هوں تاکه بهتر نتائج سامنے آئيں۔
آپ بخوبي جانتے هيں که شيعه فقه ايک بهت غني فقه هے آخر کچھ سالوں ميں جو فقه شيعه کے اندر جديد تحقيقات انجام پائي هيں وه اهل سنت کي فقه کے ساتھ اصلا قابل مقايسه نهيں هيں۔ شيعه محققين نے جو بعض نئے موضوعات کے سلسلے ميں بيان کيا هے بهت زياده قوي اور غني هے۔ ليکن افسوس سے جو خلاء پايا جاتا هے علمي اور تحقيقي مراکز کا حوزه علميه سے روابط کي کمي پائي جاتي هے اس کو دور هونا چاهيے۔ علمي مراکز اور علماء کے ساتھ گهرا رابطه هونا چاهيے تاکه دقيق آثار سامنے آئيں۔ اور شيعه فقه کے اندر اور مزيد تحقيقات کے ابواب کھل جائيں۔مثال کے طور پر مياں بيوي کے درميان مصنوعي تلقيح کرنا که جو بے اولاد هيں شرعي طور پر کوئي اشکال نهيں رکھتا ۔ ليکن اگر يه تلقيح کسي اجنبي مرد و عورت کے درميان کي جائے اگر چه بعض فقهاء کي نظر ميں جائز هے ليکن اس کے پشت سر آنے والے شرائط کو بررسي کيا جائے، اس ليے که اگر يه کام رائج هو جائے تو دس سال بعد هم ديکھيں گے که هماري نسلوں کے حسب و نسب کا پته نهيں رهے گا۔ اور مجهول النسب هو جائيں گے بهت سارے لوگ سماج ميں بغير کسي نسب کے وجود پائيں گے۔ حالانکه ايک اهم مسئله جس کي همارے دين ميں تاکيد هوئي هے يه هے که هم اپنے خاندان کي حفاظت کريں۔ يه جو شريعت باپ کے ليے بيٹے کي نسبت ولايت کي قائل هے اس کي ايک وجه يه هے که باپ اور اولاد کے درميان ايک رابطه قائم رهے۔
الغرض فقه شيعه تمام زمانوں کے سوالوں کے جواب دينے پر قادر هے مرکز فقهي آئمه اطهار(ع) ميں هم ۷۔۸ سال کي مدت سےبچوں کے بارے ميں احکام ان کے پيدا هونے سے پهلے سے لے کر سن بلوغ تک کو ۸ جلدي کتاب ميں جمع کروا رهے هيں۔ که جو واقعا ايک نظير کام هے۔ جيسے گھروں کے اندر ديکھنے کي حرمت، کسي دوسرے کے گھر ميں جھانکنے کا حکم شرعي منابع ميں، يا مثلا وه روايات جو همسايه کے درختوں کے ذريعے مزاحمت ايجاد کرنا، کنويں سے پاني نکالنا جبکه وه کنواں دوسرے کي زمين ميں هو اور پاني ميں کمي هو ، اولاد کا اجازت لينا والدين کے گھر ميں داخل هونے سے پهلے، وغيره ايسے نمونه هيں که جن کے بارے ميں ديني منابع کو تلاش کر کے ان کا حکم معلوم کيا جا سکتا هے۔ بهر حال هم خوشحال هيں آپ کے اس اقدام سے اور واقعا حيف هے وه سماج جس کے اندر اتنے عظيم محققين هوں ان سے اس طرح کے مسائل کے بارے ميں سوال نه کيا جائے، اميد وار هيں که خدا توفيق عنايت کرے مزيد اس کام ميں اپني تلاش و کوشش جاري رکھيں۔
والسلام عليکم و رحمۃ الله و برکاته۔