امام جواد (ع) کی ولادت کے موقع پر قم کے مرکزی قید خانہ میں قیدیوں کے درمیان ایک محفل جشن میں آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی کی تقریر
25 December 2024
09:29
۲,۲۱۷
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
امام جواد (ع) فرماتے ہیں: المومن یحتاج الی ثلاث خصال توفیق من اللہ و واعظ من نفسہ و قبول ممن نصیحتہ۔ مومن تین خصلتوں کا محتاج ہے اگر یہ تین خصلتیں اس کے اندر پائی جاتی ہوں تو اس نے اپنی زندگی سے صحیح فائدہ اٹھایا ہے۔ اور وہ اپنے لیے اور اپنے خاندان والوں کے لیے مفید انسان کہلائے گا اور کبھی بھی کسی جرم کا مرتکب نہیں ہو گا۔ سب سے پہلی خصلت اللہ کی توفیق ہے یعنی خدا سے رابطہ۔ انسان یہ کوشش کرے کہ ابتدا میں ہر روز اس فکر میں رہے کہ کس نے ہمیں وجود عطا کیا ہے۔ اور کون کون سی نعمتیں اس نے ہمیں دی اور وہ ہم سے کس بات کا منتظر ہے۔
اگر کوئی قوی رابطہ خدا سے رکھے ہو غیر خدا کے لیے کسی بزرگی اور عظمت کا قائل نہیں ہو گا۔ اور یہ جان لےگا کہ جس شخص کا جتنا مقام بلند اور بالا ہو گا گویا خدا نے اس کو اس نعمت سے نوازا ہے خدا اس کے دل کو دوسروں کی نسبت نرم کرتا ہے۔ جرائم کے ارتکاب کا ایک اہم عامل خدا کی نسبت غفلت اور فراموشی ہے۔ چور سے پوچھا جاتا ہے کہ کیوں چوری کی؟ کہتا ہے مال حاصل کرنے کے لیے۔ حلانکہ رزق و روزی اللہ کے ہاتھ میں ہے جب قرآن یہ کہہ رہا ہے جو نماز پڑھتا ہے وہ فحشا اور منکر انجام نہیں دیتا۔ ہمیں چاہیے کہ منکرات کو ختم کرنے کے لیے سماج کے اندر عبادت کا رواج زیادہ کریں۔ صبح کی ایک نماز ادا کرنا گھر میں بہت ساری برکات لاتا ہے۔ اور ان کی رزق و روزی میں اضافہ کرتا ہے۔ ہمیں جرائم اور برائیوں کو ختم کرنے کے لیے لوگوں کو دین کی طرف زیادہ متوجہ کرنا پڑے گا۔
کیوں اسلام کے اندر مرحلہ اول میں قید اور زندان نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگراسلامی احکام سماج کے اندر نافذ ہو جائیں کوئی جرم وجود نہیں پائے گا کہ زندان کی ضرورت پڑے۔ جب جرم وجود پائے گا تو اس وقت زندان کی بحث بھی سامنے آئے گی۔
میں میڈیا اور ٹی وی والوں سے تقاضا کرتا ہوں کہ وہ سزائیں جو اسلام میں مجرمین کے لیے ثابت ہیں لوگوں کے لیے بیان کریں تا کہ لوگ ان سے آگاہ ہو کر جلدی سے کسی جرم میں ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ کریں۔ البتہ ممکن ہے قانونی سزاؤں اور مجازات کو بیان کیا ہو لیکن یہ کہ خدا نے ان جرائم کے لیے کیا سزا مقرر کی ہے اس سے بھی ایک مسلمان کو آگاہ ہونا چاہیے۔
لوگوں کو مثلا چوری کی دنیوی اور اخروی سزا کے بارے میں پتا ہونا چاہیے۔ یا دوسرے کی ناموس میں تجاوز کرنے، یا دوسروں کے حریم میں داخل ہونے وغیرہ کی سزا ۔ ان گناہوں کا ایک اثر یہ ہے کہ فقر و فاقہ گھر میں آتا ہے۔
الحمد للہ مراجع عظام درون اور برون ملک ثقافتی اور فرہنگی مسائل کی طرف عنایت رکھتے ہیں اور ان کے برناموں میں سے ایک یہ کہ قید خانوں میں بھی کچھ تربیتی پروگرام انجام دیئے جائیں کہ جن کے بعض نمونوں کا آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں پس کوشش کریں ہمارا رابطہ خدا سے قوی ہو۔
دوسری خصلت اور صفت واعظ من نفسہ ہے انسان جب کسی گناہ کی طرف قدم اٹھائے تو اسے اپنے آپ کو سر زنش کرنا چاہیے اور اپنے گناہ سے توبہ کرنا چاہیے اور اسے جان لینا چاہیے کہ شیطان ہمیشہ اس کی کمین میں ہے لہذا اس کے پھندوں سے بچ کر رہنا چاہیے۔
تیسری خصلت نصیحت کرنے والوں کی نصیحت کو قبول کرنا ہے۔ انسانوں کی گرفتاریوں میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کوئی اس کو نصیحت کرے اس کی نصیحت کو قبول کرے۔ شیطان کے پھندوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو نصیحت قبول کرنےسے غافل کر دیتا ہے۔
وہ عزیز جو زندان میں گرفتار ہیں انہیں چاہیے کہ آزادی کے بعد اپنے غرور کر درکنار کر دیں کتب خانوں اور مساجد کی طرف رجوع کریں تا کہ دوسری مرتبہ کبھی انہیں اس ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
خدا وندعالم سے چاہتے ہیں کہ ایک اچھی اور شرافت مندانہ زندگی گذارنے کی توفیق عنایت فرمائے اور شہر قم کے مسؤلین قضائی کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جو جرائم کو ختم کرنے کے لیے حد سے زیادہ زحمات اٹھاتے ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔