حضرت آیت الله استاد جواد فاضل لنکرانی کا ارتداد کے شبہات کا جواب
25 December 2024
20:28
۴,۷۲۷
خبر کا خلاصہ :
١- مرتد کا قتل قرآن کی روشنی میں۔
2: مرتد کا قتل روایات کی روشنی میں۔
3: مرتد کا قتل اور لا قانونی کے رواج پانے کا مسئلہ
4: کیا مرتد کے قتل کرنے کا حکم دین کے سست ہونے کا سبب ہے؟!
5: کیا حدود کا اقامہ کسی معصوم علیہ السلام کے حضورسے مشروط ہے؟!
6: کیا مرتد کے قتل کا واجب ہونا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحمت ہونے سے مناسبت نہیں رکھتا؟!
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا : }وَ قَدْ تَرَوْنَ عُهُودَ اللَّهِ مَنْقُوضَةً فَلَا تَغْضَبُونَ،وَأَنْتُمْ لِنَقْضِ ذِمَمِ آبَائِكُمْ تَأْنَفُون{"تم عہد خدا کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہو اور تمہیں غصہ بھی نہیں آتاجب کہ تمہارے باپ دادا کے عہد کو توڑا جاتا ہے تو تمہیں غیرت آجاتی ہے "[1]
جس بناء پرحضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے سلمان رشدی کے مرتد اور واجب القتل ہونے کا حکم ہے اسی طرح مرجع عظیم الشان حضرت آیت اللہ العظمی حاج شیخ محمد فاضل لنکرانی قدس سرہ نے رافق تقی (جو کہ مرتد اورنبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گستاخ تھا ) کے واجب القتل ہونے کے حکم کو صادر فرمایا تھا اب ان ایام میں مجھے کچھ خطوط موصول ہوئے ہیں،جن میں سے ایک خط کسی ایسے شخص کا ملا جوکچھ ایام حوزہ علمیہ میں بهی گزارچکا ہے اورکچھ کتابیں بھی لکھ چکی ہے ،ان خطوط میں مرتد کے قتل کے حکم کے بارے میں کچھ علمی اعتراضات بیان ہوئے ہیں ،لیکن یہ سارے وہی پرانے اعتراضات ہیں،میں تواس انتظار میں تھا کہ یہ شخص کوئی جدید اعتراض کرے گا تا کہ دقیق وعمیق بحث ہوجائے لیکن ایسا نہیں ہے، میں معذرت چاہتا ہوں کہ ہرخط کا الگ الگ جواب نہیں دے سکا،اوریہی مناسب سمجھا کہ ایک کلی جواب دے دوں امید ہے جن کے دلوں میں دین 'منطق اوردلیل وبرہان کے لئے جگہ ہے وہ حقیقت کو پالیں گے اور اس پر یقین حاصل کریں گے۔
سب سے پہلے اس مطلب کو بیان کرناضروری سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی مسلمان اورمومن انسان کسی انسان کے منحرف ہونے اور اس کے عاقبت خراب ہونے پرخوش نہیں ہوتا،کوئی بھی مسلمان کسی انسان کے مارے جانے سے خوش نہیں ہوتا 'بلکہ جو چیز اسے خوشحال کرتا ہے وہ الہی احکام کا جاری ہونا اور خداوند عالم کے حکم کی اطاعت ہے،آئمہ معصومین علیہم السلام خصوصا امام حسین علیہ السلام کے گہربار کلمات میں جوچیز دین کے اہداف اورغایت کے طورپربیان ہواہے وہ حدود الہی کا قیام ہے، یہ بهی ان امور میں سے ایک ہے جس کے بارے میں بہت تاکید ہوئی ہے اوربہت سارے مادی اور معنوی برکات بھی ہیں ۔
علامه قطب الدین راوندی نے کتاب ''لب اللباب'' میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا :''حدیقام فِی الارضِ ازکی مِن عِبادِسِتِین سنة''خداوندمتعالی کے حدود میں سے ایک حد کا زمین پر جاری ہونا،ساٹھ (٦٠) سال عبادت سے بہتر اور افضل ہے ۔
تفصیلی جواب بیان کرنے سے پہلے میں یہاں پربابانگ دہل تمام مسلمانوں اور انسانوں سے عرض کروں گا کہ مرتد کے قتل کا واجب ہونا ان احکام میں سے ایک ہے جس کے بارے میں متقدمیں اورمتاخریں مجتہدیں میں سے کسی کو بھی کوئی شک نہیں ہے، یہ شیعہ اور سنی کے درمیان ایک اتفاقی مسئلہ ہے ، صرف ان چند سالوں میں بعض علماء جن کی تعداد ایک مشت سے بھی کم ہے انہوں نے اس میں شک وتردید پیدا کیے ہیں لہذا ان کی یہ بات سینکڑوں بزرگ مجتہدوں اور فقیہوں کے حکم سے قابل مقایسہ بھی نہیں ہے ،یہ حکم جس کے بارے میں کچھ وضاحت بیان کروں گا دین کی ضروریات میں شمار ہوتا ہے 'اوراہل اجتہاد اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ضروریات دین میں اجتہاد جائزنہیں ہے ،ہم یہاں افتخار کے ساتھ هر انسان سے بابانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ جس چیز کی کوئی قیمت اورحقیقت ہے وہ خداوند متعالی کا قانون ہے، اور اس کے مقابل میں کسی بھی قانون وقاعده کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، خدا کے علاوہ کوئی بھی یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ کوئی دین کا قانون بنائے ، یہ صرف خدا ہے کہ جس نے بشر کے لئے قانون بنایا ہے ،تمام مسلمان جان لیں کہ مرتد کے قتل کا واجب ہونا ایک مسلّم الہی قانون ہے ، یہ حکم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے میں اور امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں بھی اور ان کے بعد کے زمانوں میں بھی جاری ہوا ہے ، ہم یہاں پر اس بحث کے مختلف لحاظ سے علمی گفتگو کو مختصرطورپربیان کریں گے ، اس موضوع کے بارے میں اس کتابچہ میں چھ محور پر مشتمل مطالب کو بیان کریں گے :
محور اول : مرتد کا قتل قرآن کی روشنی میں۔
محور دوم: مرتد کا قتل روایات کی روشنی میں۔
محور سوم: مرتد کا قتل اور لا قانونی کے رواج پانے کا مسئلہ
محور چھارم: کیا مرتد کے قتل کرنے کا حکم دین کے سست ہونے کا سبب ہے؟!
محورپنجم: کیا حدود کا اقامہ کسی معصوم علیہ السلام کے حضورسے مشروط ہے؟!
محور ششم: کیا مرتد کے قتل کا واجب ہونا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحمت ہونے سے مناسبت نہیں رکھتا؟!
پہلا محور :مرتد کا قتل اور قرآن
بعض یہ گمان کرتے ہیں کہ مرتد کے قتل کا حکم کسی قرآنی آیت سے ثابت نہیں ہے ،بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ بتاتے ہیں کہ یہ حکم قرآن کریم کے روح سے سازگار نہیں ہے !! معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات ابتداء میں اہل سنت کے بعض علماء سے شروع ہوئی.
یہاں پرمقدمہ کے عنوان پریہ بیان کرتا ہوں کہ یه بات صحیح ہے کہ قرآن کریم میں مرتد کو قتل کرناواجب ہونے کے بارے میں کوئی صریح آیت موجود نہیں ہے ،اگرہم روایات اور اجماع بلکہ ضرورت دین کو چھوڑ کرمرتد کاقتل واجب ہونے کے لئے صرف قرآن کریم سے استدلال کرنا چاہیں تو یہ مشکل ہے ، لیکن یہاں پرچند مطالب کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے :
پہلا مطلب : کیا تاریخ میں کوئی بھی فقیہ یا مفسر نے اس حکم کے لئے قرآن کریم سے استدلال نہیں کیا ہے ؟ حکم ارتداد کے منکرین کی عبارت سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ طول تاریخ میں کسی بھی عالم دین نے مرتد کے واجب القتل ہونے کے لئے قرآن کریم سے استدلال نہیں کیا ہے ، یہ بات ان مخالفین کی آیات قرآن کریم میں دقت نہ کرنے یا ان میں سے بعض کے کم علمی کی علامت ہے ،اس مطلب کواور واضح کرنے کے لئے ہم یوں بتائیں گے.
الف:سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت ٥٤ سے یہ استفادہ کرسکتے ہیں کہ مرتد قتل کا هی مستحق ہے '' وَ إِذْ قالَ مُوسى لِقَوْمِهِ يا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلى بارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بارِئِكُم'' اور جب موسی نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم تم نے گوسالہ اختیار کرکے یقینا اپنے آپ پر ظلم کیا ہے پس اپنے خالق کی بارگاہ میں توبہ کرواوراپنے لوگوں کو قتل کرو تمہارے خالق کے نزدیک تمھارے حق میں یہی بہتر ہے۔
بنی اسرائیل میں سے بہت سے لوگوں نے فرعونیوں سے نجات اورغلبہ پانے اور حضرت موسی علیہ السلام کے الواح کو لینے کے لئے کوہ طورپرجانے کے بعد ، سامری کے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی ، اوردائره توحید سے نکل گئے ،جب حضرت موسی علیہ السلام واپس آئے تو آپ نے ان لوگوں سے فرمایا :اس انحراف کی وجہ سے تم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے لہذا اب تمہیں توبہ کرنا چاہئے اورتوبہ یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو قتل کر دو،اس میں ''قتل'' سے مراد جهاد بانفس ،نفس سے مبارزہ اورشہوانی ہوا و ہوس کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ حقیقی قتل جس سے روح جسم سے نکل جاتی ہے وہ مراد ہے ، واضح ہے کہ قتل کا یہ مسئلہ خداوند متعالی کی طرف سے بیان ہوا ہے ، اور اس کی علت بھی بنی اسرائیل کے لوگوں کا اللہ کے اتنے سارے معجزات کو دیکھنے کے بعد مرتد ہونا ہے ۔
اس آیت شریفہ سے استفاد ہ ہوتا ہے کہ ارتداد ، قوم یہود میں قتل کا موضوع تھا ، اورایسے کام کے مجازات قتل ہے ،دوسرے یہ کہ : گذشتہ شرائع کے احکام پراستصحاب جاری کرتے ہوئے ہم اس حکم کو شریعت اسلام میں بھی ثابت مان سکتے ہیں اوریہاں پر نسخ کے مسئلہ کو جاری نہیں کریں گے ،جی ہاں ! اگر کوئی اس میں استصحاب کو قبول نہ بھی کرے توصرف پہلے ہی مطلب پراکتفا کرے گا،لیکن ہماری بات کو ثابت کرنے کے لئے وہی کافی ہے ۔
آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے :'' توبتهم هو «القتل» إما في حقهم خاصة، أو توبة المرتد مطلقا في شريعة موسى عليه السلام'' ان کا توبہ قتل تھا یہ یا صرف ان سے مخصوص تھا یا حضرت موسی کی شریعت میں مرتد کا توبہ مطلقاً قتل تھا ۔
اس آیت کریمہ کے ذیل میں امام علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسی (علی نبینا علیہ وآلہ السلام ) سے سوال کیے: ہم کیسے توبہ کریں ؟ حضرت موسی نے ان سے فرمایا :جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کو قتل کرے اس طرح کہ بعض اپنے بھائی ،باپ اوربیٹے کو قتل کرے یہاں تک کہ بعد میں خدا کی طرف سے یہ حکم آیا کہ اے موسی (ع)اب اس کام کو بند کریں[2]۔
یہاں پرایک مطلب باقی رہتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ بتایا جائے : آیت شریفہ بچھڑے کی پوجا کرنے اوراجتماعی اورگروہی طورپرمرتد ہونے کے بارے میں ہے ، لہذا کسی ایک شخص کے مرتد ہونے کے حکم کو اس آیت کریمہ سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا ۔
جی ہاں! آیت کریمہ میں ''فتوبوا'' ذکر ہوا ہے کہ ان میں سے ہرایک پرمستقل طور پرتوبہ کرنا واجب تھا،اس بات سے استفاد ہ ہوتا ہے کہ مرتد کے واجب القتل کا حکم ہر ایک پر مستقل طورپرہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص کا مرتد ہونا قتل کے مستحق ہونے کاسبب ہے ۔
ب: '' وَ مَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دينِهِ فَيَمُتْ وَ هُوَ كافِرٌ فَأُولئِكَ حَبِطَتْ أَعْمالُهُمْ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَةِ وَ أُولئِكَ أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فيها خالِدُونَ ''[3]فخررازی نے تفسیر کبیرمیں اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے که '' أما حبوط الأعمال في الدنيا، فهو أنه يقتل عند الظفر به و يقاتل إلى أن يظفر به و لا يستحق من المؤمنين موالاة و لا نصرا و لا ثناء حسنا، و تبين زوجته منه و لا يستحق الميراث من المسلمين’’دنیا میں اعمال کے حبط ہونے سے مراد یہ ہے کہ :اگراس شخص تک دسترسی ہو تو اسے مارا جائے،اوراگر اس تک دسترسی نہ ہو تو جنگ کرنا چاہئے تا کہ اسے گرفتار کیاجائے اورمومنین کو چاہئے کہ اس کی مدد نہ کرے اوراس کی بیوی طلاق دئیے بغیرطاقت کی زور پراس سے جدا ہو جائے اورمسلمانوں سے اسے کوئی ارث بهی نہیں ملے گا ۔
واضح ہے کہ فخر رازی نے ان احکام کو دنیا میں اس کے اعمال حبط ہونے کے اطلاق سے استفادہ کیا ہے حتی کہ یہ اطلاق اس کے شہادتین اوروہ اسلام جو پہلے اسے پاک اوراحترام کے دائرے میں رکھا تھا اسے بھی شامل ہوتا ہے ، جب اعمال حبط ہو جائے تو سب کچھ جسے لفظی اورعملی طورپرانجام دیا ہے سب کچھ اعتبار سے ساقط ہو جائے گا،بعض معتبر روایات میں امام صادق علیہ اسلام سے نقل ہوا ہے '' الإسلام شهادة أن لا إله إلّا اللّه و التصديق برسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله، به حقنت الدماء، و عليه جرت المناكح و المواريث ’’اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ اس کلمہ شہادت کے نہ ہونے کی صورت میں پھر اس کا خون محقون(محفوظ ) نہیں ہے اوراس کا نکاح اور ارث ختم ہوجاتی ہیں۔
مرحوم محقق خوئی[4]فرماتے ہیں:ہمارے پاس متعدد روایات ہیں کہ اسلام میں،خون محفوظ ہونے ،ایک دوسرے سے ارث لینے اورنکاح جایزہونے کا ملاک اورمعیار اللہ کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی گواہی دینا ہے ،شاید اسی وجہ سے شیخ طوسی نے فتوا دیا ہے ،کہ اگر کوئی مسلمان حج کرنے جائے اور اس کے بعد مرتد ہوجائے تو اس کا حج بھی باطل ہے اگر ہم اس آیت شریمہ کی طرف دیکھیں تو شیخ طوسی کی یہ بات صحیح اور حق ہے ۔
اس استدلال میں دوسوالوں کا جواب بھی دیناچاہیئے:
پہلا سوال :اگرکوئی یہ کہے کہ حبط اعمال کا معنی صرف اجراخروی اورثواب کے لحاظ سے اعمال کا باطل ہونا ہے اور اس کا دنیاوی مجازات سے کوئی ربط نہیں ہے؟
اس کے جواب میں ہم یہ بتائیں گے کہ یہ تمھاری ناانصافی ہے کیونکہ خداوند متعالی تمام اعمال جیسے نماز،روزہ اوردوسری تمام عباداتیں ،نکاح وغیرہ بھی اور وہ تمام امور جن میں دینی رنگ ہواسی طرح اسلام کا کلمہ شہادت(توحید اورنبوت کی گواہی) کو مرتد ہونے کی وجہ سے باطل قراردیں ،اوراس کے بطلان ہونے کو دنیا اورآخر ت دونوں میں قراردیں ،اس بات کا لازمہ یہ ہے کہ ہم یہ بتائیں کہ دنیا میں "حبط اعمال" کا معنی وہی دنیوی سزائیں ہیں ۔
دوسرے الفاظ میں "حبط اعمال" سے مراد صرف نیک اعمال جن کے اخروی اجر و ثواب ہے ان کا ساقط ہونا نہیں ہے ،تاکہ یہ بتایا جائے کہ حبط سے مراد اعمال کے اخروی اجر وثواب نہ ہونا ہے ،بلکہ حبط کا معنی یہ ہے کہ گویا اس نے کوئی عبادت اوراعمال انجام ہی نہیں دیا ہے اوراس شخص نے کسی چیز کی گواہی نہیں دی ہے اوراب تک اس کے محترم ہونے کا جو سبب تھا وہ بھی ختم ہو چکا ہے ،اس کے ختم ہونے کے بعد اس کا کوئی احترام نہیں ہے ،اوراسی احترام کا نہ ہونا دنیا میں اس کے مجازات ہونے کا سبب ہے ، دوسرے الفاظ میں اگر ہم یہ قبول بھی کر لیں کہ آیہ کریمہ اور دنیا میں اعمال کے حبط ہونے کا اطلاق قتل کے موضوع میں اختصاصی ظہورنہیں رکھتا ہے، پھر بھی اصل دنیوی مجازات کو بعنوان معنی مطابقی یا عادی طور پرلازم جانیں گے ،اورمرتد کے واجب القتل کے مخالفین یہ دعوی کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں مرتد کے کسی بھی دنیوی مجازات کو بیان نہیں فرمایا ہے ،اوراس بارے میں نہ کوئی صریح آیت ہے اور نہ ہی کسی آیت کا اس بارے میں ظہور ہے ، ہمارا یہ استدلال ان کے ان باتوں کو کلی طور پر باطل قرار دیتا ہے ۔
تفسیر کنز الدقائق میں لکھا ہے:''لبطلان ما تخيّلوه و فوات ما للإسلام من الفوائد الدّنيويّة''[5] انہوں نے بھی آیہ کریمہ سے دنیوی فوائد کے ختم ہونے کوسمجھا ہے ،اورعام طورپراس کا لازمہ دنیوی مجازات ہے یعنی اعمال کا دنیا اورآخرت دونوں میں ضائع ہونا ہے، اس میں اتنا وسیع معنی پایا جاتا ہے،جیسے شراب پینا،زنا،اورکچھ دوسرے محرمات کے بارے میں روایات میں اعمال کے ضائع ہونے کے اسباب سے تعبیر ہوا ہے،لیکن دنیا اورآخرت دونوں میں عمل ضائع ہونے کے بارے میں صرف مرتد میں بیان ہوا ہے ،جس کے اطلاق میں ایسے آثار پائے جاتے ہیں ۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس آیه کریمہ میں موت کی قید لگائی ہے:''فَيَمُتْ وَهُوَكافِرٌ''اس قید کاظہوریہ ہے کہ دنیا اورآخرت میں اعمال کا ضایع ہونا اس صورت میں ہے جب انسان مرتد ہو جائے ،اورمرنے تک اسی ارتداد پر باقی رہے اور کفر کی حالت میں مرجائے ،لہذا ہم آیه کریمہ سے یہ استفاد ہ نہیں کر سکتے کہ صرف مرتد ہونا اعمال کے ضائع ہونے ،دنیوی واخروی ثواب کے مرتب ہونے کا سبب ہو ۔
جواب:سب سے پہلا جواب یہ ہے کہ کچھ دوسری آیات و روایات میں مشرک اور مرتد کو بغیر کسی قید کے اعمال کے ضایع ہونے کا سبب قرار دیا ہے جس میں موت کی کوئی قید بیان نہیں هوئی ہے جیسے یہ آیه کریمہ :'' وَلَوْأَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ ما كانُوا يَعْمَلُون''[6]اسی طرح یہ آیه کریمہ ''وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإيمانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُه''[7] علم اصول کے مباحث میں مطلق کو مقید پر حمل کرنے کے قانون میں یہ بات ثابت ہے کہ ایسے مواردجہاں دونوں عنوان مثبت ہوں وہاں مطلق کو مقید پرحمل کرنے کا قانون جاری نہیں ہوتا ،اور ان دونوں کے درمیان میں کوئی منافات اورتضاد نہیں ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا موضوع بحث آیہ کریمہ میں مرتد کے مصادیق میں سے ایک مصداق کو بیان کیا ہے ،لیکن کفر کی حالت میں مرنا خداوند متعالی کے مقصود ومطلوب میں کوئی خصوصیت نہیں رکھتا ،بلکہ یہ حکم ثابت ہے چاہے کفر کی حالت میں مرے یا نہ ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم اگربالفرض قبول بھی کرلیں کہ آیت کریمہ کے بارے میں مطلق اورمقید کا قانون جاری ہے ، لیکن یہ اس صورت میں ہے جب قید میں احتراز کا عنوان ہو،لیکن ہم یہاں یہ بتا سکتے ہیں کہ : یہ قید کنایہ ہے توبہ نہ کرنے کے لحاظ سے ، یعنی اگر کوئی مرتد ہوجائے اورتوبہ نہ کرے تواس کے متعلق ایسے احکام جاری ہوں گے۔
تیسراجواب یہ ہے کہ اگر ان کلمات کوقید قراردیں،تودنیا میں اعمال کے حبط اورضایع ہونے کا کوئی معنی اورمفہوم نہیں ہوتا ،در حالیکہ آیہ کریمہ کا ظہور یہ ہے کہ مرتد ہونا اسی دنیا میں اعمال کے ضایع ہونے کا سبب ہے ، لہذا حبط اورضایع ہونے کے عنوان کو عملی ہونے کے لئے یہ کہنا چاہیئے کہ پورا ملاک اورمعیار ،مرتد کا توبہ نہ کرنا ہے ،اوراگرہم یہ بتائیں کہ مرنے تک اس ارتداد پر کوئی حکم جاری نہیں ہونا چاہئے تو اس صورت میں دنیا میں اعمال کے حبط ہونے کا کوئی معنی و مفہوم نہیں ہے ۔
ج: شمس الدین سرخسی نے اپنی کتاب المبسوط[8] میں المرتدین کے باب میں لکھا ہے :''والاصل فی وجوب قتل المرتدین قولہ تعالی او یسلمون قیل الآیہ فی المرتدین''انہوں نے سورہ مبارکہ فتح کی آیت ١٦ سے مرتد لوگوں کے واجب القتل ہونے کو استفادہ کیا ہے ۔
د:مرحوم شہید ثانی نے مسالک الافہام[9] میں ارتداد کو کفر کے اقسام میں سے سب سے برا،بدترین عقوبت اوراحکام کے لحاظ شدیدترین اورسخت ترین بتانے کے بعد دو آیات کی طرف اشارہ کیا ہے :'' وَ مَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دينِهِ فَيَمُتْ وَ هُوَ كافِرٌ فَأُولئِكَ حَبِطَتْ أَعْمالُهُمْ فِي الدُّنْيا وَ الْآخِرَة''[10]اور یہ آیت '' وَ مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلامِ ديناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرينَ''[11]اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے استدلال کیا ہے'' لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث زنا بعد إحصان و كفر بعد إيمان و قتل نفس بغير نفس'' اس استدلال کا ظاہر یہ ہے کہ انہوں نے ان دو آیتوں سے مرتد کے واجب القتل ہونے کواستدلال کیا ہے،گرچہ اس بارے میں انہوں نے تصریح نہیں کی ہے ۔
ہ:مطلقا اعمال کے ضایع ہونے سے استدلال کرنے کے علاوہ ہم '' الْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ''سے بھی اپنے مدعا کے لئے استدلال کر سکتے ہیں کہ،اس میں فتنہ کے بارے میں دو قول پائے جاتے ہیں بعض نے اسے کفرسے تفسیرفرمایا ہے،اوربعض دوسرے مفسرین نے اسے ارتداد سے تفسیر فرمایا هے ،یعنی ارتداد کا فتنہ ؛ کہ کفار یہی چاہتے تھے کہ مسلمان دین سے پلٹ جائے یہ اس شخص کے قتل کرنے سے بہت ہی زیادہ شدید ہے (حضرمی) یہاں پرفتنہ اسم مصدر کے عنوان سے ذکر ہواہے نہ کہ مصدر کے عنوان سے ،مرتد ہونا ایک معمولی قتل سے کئی گنا بدتر اوربرا ہے،کیا ہم اس سے مرتد کے واجب االقتل ہونے کو استفادہ نہیں کر سکتے ؟اگر ایک عام قتل پرشرعی ،عقلی اورعقلائی لحاظ سے قاتل کو قصاص کے طورپر قتل کرنے کو جائز بتاتا ہے ،توکیسے مرتد جو کہ کئی گنا اس سے شدیداوربرترہے اس میں کیا یہ قابلیت نہیں ہے؟ کیا یہ اس کے قتل کا جواز نہیں ہے؟
اس بات کی طرف توجہ فرمائیں کہ ہم آیہ شریفہ سے قتل کے واجب ہونے کو استفادہ کرنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ آیہ کریمہ سے صرف اسی مقداراستفادہ کرنا ہے کہ ارتداد اس چیزکاسبب بن سکتا ہے کہ وہ شخص قتل کا مستحق ہوجائے،اس میں کیا مشکل ہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اورآئمہ معصومین علیہم السلام کے مرتد کے قتل جائز ہونے کے بارے میں جواقوال ہیں وہ اسی آیہ کریمہ سے ماخوذ ہوں؟یاد رہے اس آیہ کریمہ کے مطابق ہرقسم کاارتداد فتنہ ہے لہذا کوئی یہ خیال نہ کرے کہ بعض ارتداد فتنہ ہے اوربعض نہیں ،اس آیہ کریمہ میں ارتداد کو فتنہ سے تعبیر کرنے کی وجہ فقط اس کام کے برائی کی شدت کوبیان کرنا مقصود ہے ۔
و:ان سب کے علاوہ ہم قرآن کریم کی ایک اورآیہ کریمہ سے بھی اس سلسلے میں استدلال کرسکتے ہیں وہ آیہ کریمہ یہ ہے '' إِنَّما جَزاءُ الَّذينَ يُحارِبُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ يَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَساداً أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا''[12] شیخ طوسی نے کتاب المبسوط[13] میں ذکر کیا ہے :'' و قال قوم المراد بها المرتدون عن الإسلام إذا ظفر بهم الإمام عاقبهم بهذه العقوبة، لأن الآية نزلت في العرينيين، لأنهم دخلوا المدينة فاستوخموها فانتفخت أجوافهم'' کچھ لوگ جو مسلمان ہوئے تھے بعد میں مریض ہوئے اورمدینہ میں نہیں رہ سکےپھرپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم فرمایا کہ مدینہ سے باہر کہیں نکل جائیں اورایک اونٹ اور شتربان کو ان کے ساتھ بھیجا ،وہ لوگ کچھ دنوں بعد ٹھیک ہو گئے لیکن اسلام سے پلٹ گئے یہاں تک کہ اس شتربان کوقتل بھی کر دئیے اوراونٹ اپنے ساتھ لے گئے ،پیغمبر اکرم صلی اللہ وآلہ وسلم نے جب اس واقعہ کو سنا تو بیست(٢٠) آدمیوں کو ان کے پیچھے بیھجا اورانہیں مرتد ہونے کی وجہ سے قتل کر ڈالا ،کتاب التاج الجامع للاصول جو کہ پیغمبر اکرم (ص) کے احادیث کے بارے میں ہے اس کے حاشیہ پر اس واقعہ کوذکر کرنے کے بعد لکھا ہے ، آیه کریمہ کا شان نزول یہی مرتد لوگ ہیں اورتمام علمائے گذشتہ اورحاضرکا نظریہ بھی یہی ہے [14]۔
ز:ایک اوردلیل یہ ہے کہ بعض روایتوں کے مطابق امیرالمؤمنین علیہ السلام نےسورہ نساء کی آیت ١٣٧ کو مرتد کے واجب القتل ہونے کے حکم کوگواہ کے طور پر پیش کیا ہے،کتاب دعائم الاسلام[15] میں امام صادق علیہ السلام سے،انہوں نے اپنے پدر بزرگوار ....سے امیر المؤمنین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ :'' كَانَ لَا يَزِيدُ الْمُرْتَدَّ عَلَى تَرْكِهِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ يَسْتَتِيبُهُ فَإِذَا كَانَ الْيَوْمُ الرَّابِعُ قَتَلَهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُسْتَتَابَ ثُمَّ يَقْرَأُ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدٰادُوا كُفْراً لَمْ يَكُنِ اللّٰهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ و لا لیھدیھم سبیلا''۔
اس آیه کریمہ سے استشہاد کرنا ایک واضح دلیل ہے کہ حضرتؑ نے آیه کریمہ سے مرتد کے واجب القتل ہونے کو استفادہ کیا ہے اوراستدلال کی کیفیت ممکن ہے ہمارے لئے واضح نہ ہو لیکن یہ معلوم ہے کہ قتل کے واجب ہونے کو آیه شریفہ سے استفادہ کیا ہے،جی ہاں!دوعنوان ایک غفران الہی کا نہ ہونا جومطلق بیان ہوا ہے یعنی دنیا اورآخرت دونوں میں خدا کی بخشش نصیب نہیں ہوگی اسی طرح ہدایت الہی کا نہ ہونا کہ یہ بھی مطلق ہے ،ممکن ہے ان دونوں سے حضرت نے استفادہ کیا ہو،اگرکوئی یہ بتائے کہ آیت شریفہ صرف اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایسے افراد کا توبہ قبول نہیں ہے،تواس شخص کو کا ہم یہ جواب دیں گے کہ توبہ قبول نہ ہونے اورقتل کے واجب ہونے کے درمیان ملازمہ ہے کیونکہ فقہ میں کوئی ایسا مورد نہیں ہے کہ جس کا توبہ قبول نہ ہو اور اس کے باوجود اسے اپنی حالت پر چھوڑ دیں ۔
ان بیان شدہ مطالب کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض نے یہ ادعا کیا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیات مرتد کے واجب القتل ہونے کے بارے میں ظاہرہے اوراس حکم پر اعتراض کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی صریح آیت ہونی چاہئے یا کوئی واضح روایت ،ان کی یہ بات اجتہاد اورفقاہت سے کوسوں دورہے اورصاحبان علم بخوبی آگاہ ہیں کہ علم اصول کی بنیادی مباحث میں سے ایک،ظواہر کی حجیت کا مسئله ہے اوراس ظواہر میں فرق نہیں وہ قرآن کریم کی آیت ہویا روایت ، ماہرین علم اصول کے نزدیک یہ بھی ثابت ہے کہ "اطلاق"ظواہر کے مصادیق میں سے ایک ہے اورآج تک کسی بھی عالم نے حکم کے لئے نص اورصریح ہونے کو لازم قرار نہیں دیا ہے 'لہذا مرتد کے واجب القتل ہونے کے لئے قرآن کریم سے قطعی اوریقینی دلیل ہونے پر کسی کوشک نہیں کرنا چاہئے 'گرچہ آیات سے فقط استدلال مشکل ہے دوسرے الفاظ میں اگراس حکم پرواضح اورصریح روایات موجود ہوں تو ہم ان آیات کریمہ کو ان کے لیۓ موید کے طور پر استفادہ کر سکتے ہیں ۔
دوسرامطلب:کچھ لوگ کہتے ہیں: روح قرآن کریم ایسے حکم سے سازگارنہیں ہے،ان کا جواب یہ ہے:
١۔ کیسے آپ ایساادعا کررہے ہیں روح قرآن سے آشنااورمانوس ہونے کادعوا بہت ہی بڑاادعاہے اوربنیادی طورپریہ مطلب نہج استدلال کے مطابق نہیں ہے ، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ایسی چیزسے متمسک ہواہے جولاحاصل ہے،کیونکہ ہم آپ کے مقابلے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کاروح اس حکم سے بالکل مناسب ہے المختصر یہ روح سے تمسک کی دلیل ایک بے جان دلیل ہے اوریہ کسی کے لئے بھی فائده مند نہیں ہے ۔
٢۔قرآن کریم نے مرتد کے لئے جو آثار ذکر کیا ہے اگرہم ان کے بارے میں غور کریں توہم صحیح طرح یہ سمجھ سکتے ہیں کہ مرتد دنیامیں ہی بہت شدید سزا کا مستحق ہے ، قرآن کریم میں مرتد کے لئے آٹھ اثرات ذکر ہوئے ہیں :
پہلا اثر:اس کے اعمال دنیااورآخرت دونوں میں ضائع ہے ۔
دوسرااثر:آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا اوراس کے لئے کوئی بھی فرار کا راستہ موجود نہیں ہے ۔
تیسرا اثر:خداوند کریم کی مغفرت اسے حاصل نہیں ہے ۔
چوتھا اثر:ہدایت الہی کی توفیق اس سے چھینا جائے گا '' كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْماً كَفَرُوا بَعْدَ إيمانِهِم’’[16]
پانچواں اثر: جہنم میں داخل ہوگا ۔
چھٹا اثر: جہنم کی آگ میں وہ ہمیشہ کے لئے رہے گا۔
ساتوان اثر:شیطان برے کاموں کو ان کے لئے زینت دے کر دیکھتا ہے اور انہیں لمبی لمبی امیدوں میں گرفتار کرلیتا ہے ۔
آٹھواں اثر:قیامت تک خدا،ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت اس پررہے گی '' أُولئِكَ جَزاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَ الْمَلائِكَةِ وَ النَّاسِ أَجْمَعينَ''[17]یہ آثارات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مرتدہونا قرآن کریم کی نظر میں کتنا بڑا گناہ ہے (گناہ کبیرہ) اورشدید گناہوں میں سے ایک ہے۔
کیاان تمام دنیوی اوراخروی شدید آثار کے باوجود ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم کی روح اورجان مرتد کے دنیوی شدید مجازات سے سازگار نہیں ہے ؟جولوگ آزادای ،احترام اوردوسرے لوگوں کی عقاید اورافکار کی باتیں کرتے ہیں،وہ لوگ مرتد کے ان شدید اخروی آثار کے بارے میں کیا توجیہہ کر سکتے ہیں؟دوسرے الفاظ میں ان لوگوں کے افکارکے مطابق ارتداد نہ دنیوی مجازات کا موضوع واقع ہوسکتا ہے اورنہ ہی اخروی مجازات کا موضوع،یہ لوگ ارتداد کوآزادی فکر اورانسانی حقوق کے عنوان سے بیان کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں اس میں کوئی بھی برائی نہیں ہے ،جب اس میں کوئی برائی نہیں ہے تونہ دنیوی مجازات کا مستحق ہے اورنہ اخروی مجازات کا، نتیجتاً مرتد کے اخروی مجازات اورعذاب کا بھی منکر ہوناچاہئے ،لیکن اگر یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کے فی نفسہ قبیح اوربراہونے کو قبول کرتے ہیں اگر ایسا ہے تواس کے مجازات دنیوی کو بیان کرنے سے کیوں ڈرتے ہیں۔
لہذا ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں مرتد کے لئے جوسخت عقاب ذکر ہوا ہے یہ اوراس کے دنیوی مجازات کے درمیان میں ایک ملازمہ ہے ، پیغمبراکرم اورآئمہ طاہرین سے مرتد کی قتل کے بار ے میں جو روایات اورواقعات نقل ہوئے ہیں وہ اسی ملازمہ سے لیے گئے ہوں گے، یعنی ان حضرات نے اس ملازمہ کو آیات ارتداد سے استفادہ فرمائے ہیں ۔
تیسرا مطلب:جو لوگ یہ چیخ وپکار کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں مرتد کی دنیوی مجازات کے بارے میں کوئی چیز بیان نہیں ہوئی ہے ان سے یہ سوال کیا جائے کہ آیا دوسرے حدود جو قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں کیا تم اسے قبول کرتے ہو؟ کیازنا،چوری ،محارب اورزمین پر فساد پھیلانے والوں کی جو سزا قرآن کریم میں کھلے الفاظ میں بیان ہے کیا تمہیں وہ قبول ہے ؟یقینا جو لوگ آزادی اورحقوق بشر کے نعرے لگاتے ہیں اوراسی کو بنیاد بنا کر اپنے نظریات کو بیان کرتے ہیں وہ لو گ ان حدود کے بھی منکرہیں،اگر ان کے منکر نہیں ہیں تو وضاحت کریں کہ ان حدود اوراحکام الہی کو کیسے قبول کرتے ہیں اورمرتد کے حکم قتل کے منکر ہوتے ہیں ؟ جبکہ مرتد کا گناہ اوراس کی قباحت زنا اور چوری سے کئی گنا سخت ہے ؟
چوتھا مطلب:اگر ہم اسے قبول بھی کرلیں کہ قرآن کریم میں مرتد کے دنیوی مجازات کے مستحق ہونے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ہے تو پھر بھی یہ اس حکم کے ثابت ہونے میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی کیونکہ بہت سے فقہی احکام ایسے ہیں جو قرآن کریم میں ذکر نہیں ہے مثلاً حج ، نماز،روزہ اور...........کے ہزاروں مسائل ہیں جو قرآن کریم میں ذکر نہیں هوئے ہیں۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وآئمہ معصومین علیہم السلام کے کلام سے جدا کوئی الگ حقیقت تصور نہیں کرسکتے ، سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ اورآئمہ طاہرین علیہم السلام کی طرف رجوع کیے بغیر قرآن کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے ،خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے ''وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِم''[18]قرآن کا بیان پیغمبر اکرم اور اہل البیت علیہم السلام سے ہونا چاہئے ،خدانے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے''وَ ما آتاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ ''[19]یعنی جس چیز کو پیغمبر اکرم کلام الہی کی تفسیر کے عنوان سے یا کسی اورعنوان سے بیان فرماتا ہے مسلمانوں پر واجب ہے اس کا اتباع کرے ،لہذا اگر کسی حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا ہو کہ مرتد کو قتل کرنا چاہئے تو اس حدیث پر عمل کرنا قرآن پر عمل کرناہے اورآئمہ معصومین علیہم السلام کے حدیثوں کا بھی یہی حکم ہے کہ یہ حضرات قرآن ناطق اور قرآن کے واقعی مفسر ہیں کیونکه حدیث ثقلین خصوصاً جملہ ''لن یفترقا'' کی طرف توجہ اہل نظرکے لئے مطلب کو کامل طور پر واضح کردیتا ہے ،ان تمام تعبیرات کے مطابق قرآن حقیقی کبهی بهی عترت سے جدا نہیں ہے اورجدا ہو بھی نہیں سکتا ،کیونکه حدیث ثقلین کے مطابق روایات کی طرف توجہ کیے بغیرقرآن سے استدلال اسی طرح قرآن کی طرف رجوع کیے بغیر روایات سے استدلال باطل اور مردود ہے ۔
دوسرا محور:
مرتد کا قتل روایات کی روشنی میں
قرآن کریم میں مرتد کے واجب القتل ہونے کےسلسلے میں بحث وگفتگو کے بعد ضروری ہے کہ اجمالی طور پرروایات میں تحقیق کریں،کہ جو لوگ مرتد کی سزا کے مخالف ہیں ، وہ لوگ موجودہ روایات میں چند شبہات اور توہمات رکھتے ہیں:
پہلا توہم : مرتد کے واجب القتل ہونے پردلالت کرنے والی روایات کم ہے ۔
دوسرا توہم : یہ روایات خبرواحد ہیں اورخبر واحد کی حجیت میں مہم ترین دلیل بناء عقلاء ہے اور جب ہم عقلاء کی طرف رجوع کرتے ہیں توعقلاء خودمہم کاموں میں جیسے قتل اور مارنے میں خبر واحد پر عمل نہیں کرتے ۔
پہلے اعتراض کا جواب :
الف:مرتد کے موضوع پر فقہ اورروایات میں پانچ جگہوں پربحث ہوا ہے ،بحث طہارت میں ، نکاح میں ، شکاری اور ذبح کے مسائل میں ، موضوع ارث میں اور " حدود "میں ،کہ مرتد کی سزا کیا ہے؟ اگر انسان ان چند موضوعات میں مرتد کے بارے میں موجود روایات پرایک اجمالی نظر ڈالے تو اسے اچھی طرح پتہ چل جاۓ گا کہ مرتد کے بعنوان پر بیس(٢٠) سے زائد روایات موجود ہیں،مرحوم ثقۃ الاسلام کلینی نے اصول کافی[20] میں حد مرتد کے باب میں تیس(٢٣) روایات کو نقل کیا ہے کہ ان میں سے اکثرروایات صحیحہ ہیں اورفقہاء نے ان مذکورہ پانچوں ابواب میں ان روایات سے استدلال کیے ہیں،یہ روایات سند کے لحاظ سے صحیح ہونے کے علاوہ ان کے صدور بھی قابل اطمینان ہے کہ محققین کا خبرواحد کی حجیت کے سلسلے میں یہی ایک بنیاد ہے کہ بغیر کسی شک و شبہ کے یہ روایات معنوی اوراجمالی اعتبار سے تواتر کی حد تک پہنچتے ہیں ۔
فقہاء عظام فقہ کے دوسرے ابواب میں اگر ایک موضوع پر دس (١٠) روایات ہوں تو اسے تواتر کے عنوان سے قبول کیے ہیں یہاں تو تیس(٢٣) روایات ہیں، اوراگرروایتیں تواتر کی حد تک پہنچ جائے توپھروہاں سند کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے یہ فقہاء کے نزدیک ایک مسلم اورواضح قانون ہے ۔
ب: استدلال اوراستنباط کرتے ہوئے فقیہ صرف بعض روایات کو دیکھنے پراکتفاء نہیں کرتا بلکہ اس موضوع کے متعلق موجود تمام روایات کو دیکھتاہے، اگر مرتد کے موضوع کے بارے میں موجود روایات پرنظر ڈالیں تو ہمیں چند قسم کی روایتیں نظر آتی ہیں :
پہلی قسم ان روایات کی ہیں جو صراحت کے ساتھ مرتد کے واجب القتل ہونے پر دلالت کرتی ہیں:
الف:امام محمد باقر علیہ السلام سے محمد بن مسلم کا صحیحہ ''قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ علیہ السلام عَنِ الْمُرْتَدِّ فَقَالَ مَنْ رَغِبَ عَنِ الْإِسْلَامِ وَ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله بَعْدَ إِسْلَامِهِ فَلَا تَوْبَةَ لَهُ وَ قَدْ وَجَبَ قَتْلُهُ وَ بَانَتْ مِنْهُ امْرَأَتُهُ وَ يُقْسَمُ مَا تَرَكَ عَلَى وُلْدِهِ''[21] امام باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں مرتد وہ ہے جو اسلام سے منہ پھیر چکا ہواورجو کچھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ پر نازل ہوا ہے اس کا انکار کرے ایسے شخص کا توبہ قبول نہیں ہے اوراس کا قتل واجب ہے،اس کی بیوی بغیرطلاق کے مرتد ہونے کی وجہ سے خودبخود اس سے جدا ہوجاۓ گی اور اس کے مال ودولت اس کے اولادکے درمیان تقسیم ہو گا ۔
ب:ایک اورروایت جمیل بن دراج کا صحیحہ ہے ''فِي رَجُلٍ رَجَعَ عَنِ الْإِسْلَامِ قَالَ يُسْتَتَابُ فَإِنْ تَابَ وَ إِلَّا قُتِلَ[22]'' ایک شخص اسلام سے پلٹ گیا تھا (امام محمد باقر یا امام جعفرصادق علیہما السلام ) نے فرمایا :اگر توبہ کرے تو قبول ہے ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا ،اس حدیث میں مرتد کے واجب القتل ہونے کو صریحاً بیان فرمایا ہے ۔
ج: امام کاظم علیہ السلام سے منقول ہے '' سَأَلْتُهُ عَنْ مُسْلِمٍ تَنَصَّرَ قَالَ يُقْتَلُ[23]'' حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر کوئی مسلمان مسیحی ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے آنحضرت نے فرمایا : اسے قتل کر دیا جائے گا ۔
د:عمار ساباطی کہتے ہیں کہ امام جعفرصادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا:'' كُلُّ مُسْلِمٍ بَيْنَ مُسْلِمَيْنِ ارْتَدَّ عَنِ الْإِسْلَامِ وَ جَحَدَ مُحَمَّداً ص نُبُوَّتَهُ وَ كَذَّبَهُ فَإِنَّ دَمَهُ مُبَاحٌ لِكُلِّ مَنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْهُ[24]''جو بھی مسلمان دائرہ اسلام سے نکل جائے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا انکار کرے اس کا خون ان سب کے لئے مباح ہے جنہوں نے اس شخص سے ایسی بات کو سنا ہے ۔
ہ: عبد اللہ بن ابی یعفور نے بزیع نامی شخص کے بارے میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے عرض کیا :یہ شخص گمان کرتا ہے کہ وہ خود پیغمبر ہے اورپیغمبری کا دعوا بھی کرتا ہے ، حضرت نے فرمایا : '' إِنْ سَمِعْتَهُ يَقُولُ ذَلِكَ فَاقْتُلْهُ''[25] اگر تم نے اس شخص سے ایسے ادعا کرتے ہوئے سنا ہے تو اسے قتل کر دو ۔
و:اہل سنت کی بہت ساری کتابوں میں بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سے مروی حدیثیں جومرتد کے واجب القتل ہونے کے بارے میں نقل ہوئی ہیں جیسے کہ کتاب التاج الجامع للاصول فی احادیث الرسول[26] میں پیغمبر اکرم سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا :''«لا يحلّ دم امرئ مسلم يشهد أن لا إله إلّا اللّه و انّي رسول اللّه إلّا بإحدى ثلاث: الثيب الزاني، و النفس بالنفس، و التارك لدينه المفارق للجماعة» وہ کہتے ہیں کہ اس روایت کو بخاری ’مسلم ’نسائی ، ابوداود اورترمذی نے بھی نقل کیا ہے ،اس روایت کے مطابق رسول اکرم نے فرمایا :تین جگہوں پرانسان کا قتل کرنا جائز ہے ان میں سے ایک وہ ہے جو دین خدا سے ہٹ گیا ہو اورمرتد ہوا ہو،اس کے بعد عکرمہ سے نقل کرتے ہیں کہ علی بن ابی طالب علیہ السلام نے اسلام سے پلٹنے والے ایک گروہ کو قتل کر دیا پھر صحیح مسلم کے علاوہ اہل سنت کی تمام حدیثی کتابوں میں ابن عباس سے نقل ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :''من بدل دینہ فاقتلوہ''[27]جو بھی دین سے پلٹ جائے (وہ مرتد ہے ) اسے قتل کردو ۔
روایات کی دوسری قسم: وہ روایات ہیں جو مرتد ہونے والی عورتوں کے بارے میں نقل ہوئی ہیں جو اس کے قتل کے جایز نہ ہونے پر دلالت کرتیں ہیں اور تاکید ہے کہ اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تو اسے قتل کرنا جائز نہیں ہے ، یہ روایات دلالت کرتی ہیں کہ یہ مرتد کے حکم سے ایک استثناء ہے ،اورمرتد کا واجب القتل ہونا ایک مسلم اور یقینی حکم ہے ۔
روایات کی تیسری قسم:وہ روایات ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ وہ لوگ جو اصحاب کبائر میں سے ہیں اگر انہوں نے گناہ کبیرہ کو تکرار کیا توان کو بھی قتل کرنے کا حکم ہے، ارتداد گناہ کبیرہ بلکہ گناہ کبیرہ سے بھی شد ید تر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ، فقہاء اس مسئلہ میں متفق ہیں ،مرتداگر پہلی ہی مرتبہ قتل نہ کیا ، تودوسری ،تیسری اورچوتھی مرتبہ ضرور مارا جائے گا ، اس بارے میں امام کاظم علیہ السلام سے ایک روایت کو نقل کرتے ہیں کہ آ پ (ع)نے فرمایا:'' اصحاب الکبائر یقتلون فی الثالثۃ'' ۔
جی ہاں؛جس طرح زناکار کے بارے میں ہے کہ اگردومرتبہ اس پرحدجاری ہو جائے ،اورتیسری بارپھراس قبیح عمل کا مرتکب ہوجائے تو اسے قتل کر دیا جائے گا ،ارتداد کے موضوع میں بھی یقینا حکم ایسا ہی ہے ، جمیل بن دراج نے اسی باب کے پانچویں حدیث میں اسی مطلب کی تصریح کی ہے کہ ہمارامقصود یہ ہے کہ فقیہ کواس طرف بھی متوجہ رہنا چاہئے ،بالفرض اگرمرتد کے واجب القتل میں کوئی صریح روایت دلالت نہ کرتی تو بھی اس طرح کی روایات سے تمسک کر کے ہم مرتد کے واجب القتل ہونے کاحکم لگا سکتے ہیں گرچہ ہم تکرار سے ہی کیوں تمسک نہ کریں ۔
روایات کی چوتھی قسم:کچھ ایسی روایتیں ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ توحید اورپیغمبر اکرم (ص)کی نبوت کا اقرار اس شخص کے قابل احترام ہونے ’خون محفوظ ہونے ،نکاح صحیح ہونے اور وارث ہونے کا سبب ہے ، ان روایات کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ان دونوں چیز کا اقرار نہ کرے تو اس کا خون محفوظ نہیں رہتا ،مرحوم محقق خوئی نے "تنقیح"[28] میں فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس بہت ساری روایات ہیں جومحفوط الدم ہونے ،ارث لینے اورنکاح صحیح ہونے کے معیار اورملاک کوتوحید اورپیغمبر اکرم (ص)کی نبوت کے اقرارکو ثابت کرتی ہیں ، ان تمام روایات کا نتیجہ یہ ہے جو مرتد ہوتے ہیں اس کے بعد وہ پھر محفوظ الدم نہیں ہے اوراس کے خون کا کوئی احترام باقی نہیں رہتا ۔
روایات کی پانچویں قسم :کچھ روایات ہیں جو دلالت کرتی ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے کچھ مرتد افراد پر حکم جاری فرمایا۔
پہلی روایت: امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا :ایک مسلمان شخص نصرانی ہو گیا اوراپنی گردن میں صلیب ڈال لیا تولوگوں نے اسے امیر المؤمنین علیہ السلام کی خدمت میں لائے،آپ نے اس شخص سے فرمایا اگر تم شادی کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہاری شادی کروا دیں گے،اگر کسی نصرانی سے ارث لینا ہے اور یہ سوچ رہے ہو کہ ارث نہیں ملے گی توہم تمہیں ارث دلوادیں گے ،اس نے کچھ بھی قبول نہیں کیا ، تو امام علیہ السلام نے فرمایا : کیا تم واقعی نصرانی ہو جاؤگے ؟! ، اس نے کہا :جی ہاں؛آپ (ع) نے فرمایا : اللہ اکبر ، اس شخص نے کہا : المسیح اکبر، اسی وقت حضرت نے قتل کا حکم دے دیا[29]۔
دوسری روایت:امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:ایک گروہ امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور وہ لوگ آنحضرت (ع) سے یوں مخاطف ہوئے :'' السلام علیک یا ربنا ''امام علی علیہ السلام کو(نعوذ باللہ) خدا کے عنوان سے خطاب کئے ، حضرت ان کے ساتھ سختی سے پیش آئے اور فرمایا : توبہ کرو،انہوں نے انکا ر کیا ،حضرت نے ایک گڑھا کھدوایا اوراس میں آگ روشن کیااس کے ساتھ ایک دوسرا گڑھا کھدوایا، اوران دونوں کے درمیان میں ایک راستہ بنوایا ،جب دیکھا کہ یہ لوگ اپنے باطل عقیدے پر اڑہیں،تو ان سب کو اس دوسرے گڑھے میں پھنیک دیا اورساتھ والے گڑھے میں آگ جلائے ، اس طرح وہ سب کے سب مرگئے [30]توجہ فرمائے کہ ایسے موارد میں غلو ارتداد کے مصادیق میں سے ہے ۔
تیسری روایت: امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: قبیلہ بنی ثعلبہ میں سے ایک شخص جونصرانی ہواتھا اسے امیرالمومنین(ع) کی خدمت میں لایا گیا اورکچھ لوگوں نے اس کے خلاف گواہی بھی دی ،امیر المومنین (ع) نے فرمایا: کیا تم ان گواہوں کی گواہی کو قبول کرتے ہو ؟اس نے کہا :جی ہاں؛مجھے قبول ہے لیکن میں ابھی دوبارہ مسلمان ہونا چاہتا ہوں ،آپ نے فرمایا : اگر تم ان گواہوں کے گواہی کو قبول نہیں کرتے تو میں تمہیں قتل کر دیتا،یعنی اگران گواہوں کو جھٹلاتے تو معلوم ہوتا کہ تم اپنے دوسرے ادعا میں بھی جھوٹا ہے اورمرتد کے حکم کو تم پرجاری کرنا تھا ۔
ان روایات کا ظاہر یہ ہے کہ یہ مواردامیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ میں واقع ہوا ہے اورآپ (ع)نے متعدد موقعوں پرمرتد کے حکم کو جاری فرمایا ہے ، ہمارے پاس کوئی بھی ایسا قرینہ نہیں ہے جو یہ بتائے کہ آپ کی یہ قضاویتیں ایک خاص اورذاتی واقعہ کے عنوان سے ہو، بلکہ ان روایات کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام مصادیق پرایک کلی حکم کے تطبیق کے مقام پرتھے ' اہل سنت کی کتابوں میں ایک روایت موجود ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ایک گروہ جومرتد ہوا تھا اس کے قتل کا حکم فرمایا ،اس بارے میں ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں جس کے تفصیل کے لئے التاج الجامع للاصول الصحاح فی احادیث الرسول[31] کی طرف رجوع فرمائیں۔
کیا ہم ان تمام روایات سے یہ نتیجہ نہیں لے سکتے کہ اسلام میں مرتد کا حکم قتل ہے؟ کیا ان روایات سے مرتد کے واجب القتل ہونا سمجھ نہیں آتا کہ جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ مرتد ہوتے ہی اس کے اموال وارثین کے درمیان تقسیم ہوجاۓ گا اوراس کی بیوی طلاق کے بغیر اس سے جداہو کر وفات کی عدت پورا کرے گی ؟
ظاہراً جولوگ مرتد کے واجب القتل ہونے کے منکر ہیں وہ ان تمام احکام کے بھی منکرہیں یعنی اولاً یہ لوگ اسلام کو خون کے محفوظ ہونے کا سبب نہیں مانتے دوسرے یہ کہ اس کی بیوی کو اس سے جدا ہونے کو قبول نہیں کرتے ،اورتیسرے یہ کہ اس کے اموال کو وارثین کے درمیان تقسیم کرنا جائز نہیں سمجھتے، مرتد کے ذبح کیے ہوئے حیوان کو حلال جاننا چاہئے اوراس جیسے تمام فقہ میں مرتد کے جتنے احکام ذکر ہیں ان سب کا منکر ہونا چاہئے ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ صرف واجب القتل ہونے کے منکر توہوں اور دوسرےباقی احکام کو قبول کریں ۔
ہماری نظر میں ان تمام روایات کے ہونے کے بعد کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہتا کہ مرتد کے قتل کا واجب ہونا دین اسلام کے مسلم اورقعطی احکام میں سے ایک ہے ،اس بارے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ روایات حضرت علی امیرالمومین علیہ السلام کی دور حکومت یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے مخصوص نہیں ہے تا کہ ہم یہ احتمال دیں کہ مرتد کے قتل کا واجب ہونا ایک سیاسی حکم تھا یا ایک حکومتی ضرورت تھی جو کسی خاص زمانہ سے مخصوص ہوبلکہ آئمہ معصومین علیہم السلام جیسے امام محمد باقر،امام جعفرصادق ،امام موسی کاظم اورامام علی رضا علیہم السلام سے نقل ہواہے جو اس بات پردلالت کرتی ہے کہ مرتد کا حکم قیامت تک کے لئے ایک دائمی حکم ہے ،یہ روایات ایک قضیہ حقیقہ اورمرتد کے حکم کلی کے طور پربیان ہوئی ہیں۔
دوسرا اشکال :
یہ جوکچھ بتایاگیا ہے کہ مرتد کے واجب القتل ہونے کے بارے میں موجود روایات خبر واحد ہیں اور مہم کاموں میں خبر واحد حجت نہیں ؟ ۔
جواب:
١۔ واضح ہے کہ مرتد کے واجب القتل ہونے کے بارے میں موجود روایات تواتر معنوی یا تواتر اجمالی کی حد تک ہے جس سے انسان کو یقین حاصل ہوجاتا ہے ۔
٢۔ بالفرض یہ روایات خبر واحد ہیں لیکن ہم ان کے جواب میں یہ کہیں گے کہ خبر واحد کی حجیت میں مہم اورغیرمہم امور میں کوئی فرق نہیں ہے،اکثرفقہاءاوراصولیوں کا یہی نظریہ ہے ،قدیم سے لے کرجدیدفقہاء تک فقہ کے ابتداء سے لے کر انتہاء تک نفس اور غیر نفس ،اموال اورغیراموال ،عبادات اورغیرعبادات،سیاست اورغیرسیاست سب میں موثق خبرواحد پرعمل کرتے ہیں ،ان کی فقہی کتابیں اس مطلب پر واضح دلیل ہیں، البتہ درس خارج اصول میں حجیت خبر واحد کے بحث میں ہم نے اس بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے جوتفصیلاً ہمارے ویپ سائٹ پرموجود بھی ہے [32]۔
٣۔ مرتد کے واجب القتل ہونے کے بارے میں شیخ طوسی نے تصریح کے ساتھ فرمایا ہے کہ اس حکم پرامت مسلمہ کا اجماع ہے یعنی نہ صرف شیعہ اورسنی فقہاء کا اجماع ہے بلکہ اس پرپوری امت مسلمہ کا اجماع ہے،ان کی یہ تعبیر اس حکم کو ایک حکم ضروری کی حد تک لی جاتا ہے ،لہذا اس حکم کا مستند صرف خبر نہیں ہے ، بلکہ اس حکم کے لئے ایسا اجماع بھی موجود ہے اوریہ اجماع ان روایات کے ساتھ ضمیمہ بھی ہوتا ہے
٤۔بڑے اورچھوٹے حکم کو جدا کرنے کا معیار کیا ہے؟ فقہ میں خمس اورزکات کے مباحث میں کہ جو لوگوں کے اموال سے متعلق ہے اور بعض مواقع پر بہت زیادہ مال دینا پڑتا ہے وہاں پر انہیں اخبار احاد سے استدلال ہوا ہے ، کیا بہت سارے اموال کے لئے کوئی حکم ثابت کرنا ایک بڑا کام نہیں ہے ؟ زکات جو کہ ایک مسلّم قرآنی حکم ہے کسی بھی آیت میں اس کے شرائط ،خصوصیات (کب دسواں حصہ اور کب بیسواں حصہ واجب ہوتا ہے) بیان نہیں ہوۓہیں یہ صرف خبرواحد سے ثابت ہوتا ہے ،حج میں ہرسال بیس لاکھ سے زائد حجاج منی میں قربانی کرتے ہیں یہ حکم صرف ایک خبر واحد ''لا ذبح الا بمنی''سے ثابت ہے کہ فقہاء موثق خبر پر خود اسی کو عنوان بنا کر عمل نہیں کرتے بلکہ دوسرے شرائط جیسے گذشتہ فقہاء کا اس روایت پرعمل کرنا اوراس روایت کے لئے کوئی معارض کا نہ ہونا وغیرہ ....بھی لحاظ ہوتا ہے، لہذا اس میں کیا اشکال ہے کہ بہت اہم امورمیں جب خبر واحد ایسے شرائط کے ساتھ ہو تو ان پرعمل کریں ،مرتد کے واجب القتل ہونے کے بارے میں موجود روایات میں ایسی شرائط پائی جاتی ہیں ۔
٥۔ آپ نے یہ سنا ہو گا کہ فقہاۓ عظام خون بہانے ،عفت، اوراموال میں احتیاط کرتے ہیں اورہم پہلے ہی اسے ثابت کر چکے ہیں کہ بہت سارے فقہاء نے احتیاط واجب کا فتوا نہیں دیا ہے بلکہ بہت زیادہ رجحان ہونے اوربہت زیادہ مستحب ہونے کا فتوا دے چکے ہیں [33]۔
٦۔اگرروایات،اورگذشتہ روایات کے مختلف اقسام ، آیات اوراجماع مستقل طورپر ہر ایک ہماری مدعا پر دلالت نہ کرے ،تو اس میں بہر حال کوئی شک نہیں ہے کہ ان سب سے مجموعی طور پر فقیہ اورمجتہد کے لئے اس حکم کے ثابت ہونے کا اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔
تیسرامحور:کیا مرتدکا قتل لا قانونی کے رواج کا سبب ہے ؟
اس موضوع پر تحقیق شدہ بعض مطالب میں لکھا جا چکا ہے کہ مرتد کا واجب القتل ہونا بے قانونی رسم و رواج کا سبب ہے اور یہ مومنین کو قانون کے خلاف کرنے کی سازش ہے اورمزید لکھا ہے کہ ہرحکم کا ثابت ہونا اوراس کا اجراء ہونا خصوصاًوہ احکام جو انسانوں کے جان کا مسئلہ ہے وہ صرف صالح کورٹ کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔
اس بارے میں چند نکات کو بیان کروں گا :
١۔ کیا یہ مؤلفین اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ اگر صالح کورٹ میں کسی کا مرتد ہونا ثابت ہو جائے تو کیا وہ اس کے قتل کے جائز ہونے کو قبول کرلے گا؟ان کی باتوں سے جو چیز ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ ان افراد کو خود اصل حکم پر اعتراض ہے اوربالفرض صحیح کورٹ میں یہ ثابت ہو جائے تب بھی ایسے مجازات کے قائل نہیں ہیں ۔
٢۔ کوئی بھی فقیہ اورمجتہد مرتد کے موضوع ثابت ہونے سے پہلے اس حکم کے اجراء کا قائل نہیں ہے ، اگرامام خمینی (رضوان اللہ علیہ ) نے سلمان رشدی کے بارے میں ایسا حکم دیا ہے تو وہ اس موضوع کےکامل طور پر واضح ہونے کے بعد تھا ،اسی طرح آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی قدس سرہ نے "رافق تقی اف" کے بارے میں ایسا حکم دیا ہے تو یہ بھی اس وقت تھا جب مکرراً اس شخص کے مطالب ترجمہ ہوئے اور اس شخص کا مرتد ہونا ان نزدیک واضح ہوا جس کے بعد یہ فتوا صادر فرمایا، کیا کوئی جامع الشرائط فقیہ ان تمام شرائط کے بعد (جو اپنی جگہ پر بیان ہوا ہے) ایسے موضوع کو احراز نہیں کرسکتا؟ کیا کسی کورٹ کے انعقاد ہونے کا فلسفہ موضوع کواحراز کرنے کے علاوہ کچھ اوربھی ہوسکتا ہے؟ کیا کسی کورٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی حکم گھڑلیں یا اپنی طرف سے کوئی قانون بنالے یا کسی قانون کو اجراء کرے ؟
کیا ہائی کورٹ کا پہلے کے صادر شدہ احکام پر نظر ثانی کرنا موضوع کو صحیح طرح احراز کرنے کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے ؟
٣۔ یہاں پر ہمارا اصلی سوال یہ ہے کہ آپ کس کورٹ کو صالح کورٹ کہتے ہیں ؟
چونکہ حقوق بشرکے دھوکا دینے والے نعرے کے مطابق نہیں ہے اس لئے وہ کورٹ غیر صالح کورٹ ہے ؟ اگر ایسا ہے تو اکثر اسلامی قضاوتوں پراعتراض کرنا چاہئے ؟!کیا آپ کی نظر میں صالح کورٹ ،وہ شایستہ کورٹ ہے جو شرعی معتبر قوانین کے تطبیق کے لئے شایستہ ہے ،یعنی وہ کورٹ جو شرعی مقررات اورقوانین کے مطابق عمل کرے ،واضح ہے کہ یہ تطبیق ایک فقیہ کے ہاتھوں ہی بہترین صورت میں بڑی دقت نظر اور باریک بینی کے ساتھ انجام پا سکتے ہیں ۔
ایک مجتہد فقیہ مواقع اورمصادیق کی نسبت قانون اورحکم خدا کو بہت ہی باریک نظر اورصحیح طریقے سے تطبیق کرتا ہے ،یہ فقاہت کے وظائف میں سے ایک ہے، قضاوت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ،ائمہ طاہرین علیہم السلام اورجامع الشرائط فقہاء کے منصب میں سے ایک ہے یہاں تک کہ خود قضاوت میں اجتہاد شرط ہے اور اسلام میں حکم اولی کے مطابق غیرمجتہد منصب قضاء کا عہدہ دار نہیں ہوسکتا ۔
٤۔ یہ لوگ کیا خود اس حکم کو لا قانونی کا رسم و رواج سمجھتے ہیں یا اس حکم کے اجراء کو نقض قانون سمجھتے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں خود حکم پر اعتراض ہے یا اس کے اجراء ہونے کے طریقہ پر؟ کیا مرتدکا واجب القتل ہونا ایک الہی قانون نہیں ہے ؟ کیا اس وقت حقوق بشر کے نام سے جو قوانین ہیں اگران پراعتماد کرنے کا لازمہ حکم خدا کے منتفی اوراحکام خدا کے اجراء کا مانع ہوتو کیا یہ قانون کا حقیقی طور پرنقض نہیں ہے؟ کیا ہمارے زمانہ میں احکام الہی کو دیوار سے لگا کراس طرح کے انسانوں کے بنائے ہوئے بےحقیقت نعروں کے پچھے جانا چاہیے؟یا یہ محکم ترین اور مہم ترین قانون کے نقض کرنے کا بدترین طریقہ نہیں ہے؟ کیا یہ ہرج و مرج نہیں ہے؟!
انسانوں کو دین خدا کے اجراء کرنے کا شوق دلانا صحیح ہے یا حقوق بشر کے نام سے جہانی اعلانات کو اجراء کرنے کا شوق دلانا؟ کیا حقوق بشر کا یہ عالمگیرپیغام جس میں آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں اوراسی نعرے کے سایہ میں لوگوں کو ہمجنس بازی کا ہدیہ پیش کیا ہے کیا یہ بشرکی سعادت کا ضامن ہو سکتا ہے ؟ ہماری آخری بات یہ ہے کہ اس حکم پر اعتراض کرنے والوں کو یا اسلام کو قبول کرنا چاہئے یا حقوق بشر کے عالمی پیغام کو ، ان دونوں کو ایک ساتھ جمع نہیں کر سکتے ، اگر یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں اسلام اس عالمی اعلان کے مطابق ہونا چاہئے ،تو ہم ان سے یہی کہیں گے :کہ ان کی یہ بات حقیقت میں اسلام کی نفی کرنا ہے ، ہمیں توان لوگوں پربے حدتعجب ہے جو پریشان حال ہیں کہ کہیں حقوق بشر کا اشتہار پارہ پارہ نہ ہو جاۓ ،لیکن ان کی دینی غیرت تو دیکھیں کہ جو لوگ فضول اورہذیان بک رہے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کے خلاف ہوں اور ان پر غضبناک ہوں بلکہ ان کا دفاع بھی کرتے ہیں امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں''وَ قَدْ تَرَوْنَ عُهُودَ اللَّهِ مَنْقُوضَةً فَلَا تَغْضَبُونَ، وَ أَنْتُمْ لِنَقْضِ ذِمَمِ آبَائِكُمْ تَأْنَفُونَ.وَكَانَتْ أُمُورُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ تَرِدُ وَعَنْكُمْ تَصْدُرُ وَ إِلَيْكُمْ تَرْجِعُ، فَمَكَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِكُمْ،وَأَلْقَيْتُمْ إِلَيْهِمْ أَزِمَّتَكُمْ، وَأَسْلَمْتُمْ أُمُورَ اللَّهِ فِي أَيْدِيهِمْ،يَعْمَلُونَ بِالشُّبُهَاتِ وَيَسِيرُونَ فِي الشَّهَوَات''[34]۔تم عہد خدا کو ٹوٹتے ہوئے دیکھ رہے ہو اور تمہیں غصہ بھی نہیں آتا ہے جب کہ تمہارے باپ دادا کے عہد توڑا جاتا ہے تو تمہیں غیرت آجاتی ہے ایک زمانہ تھا کہ اللہ کے امور تم پر ہی وارد ہوتے تھے اور تمہارے پاس سے ہی باہر نکلتے تھے اور تمہاری ہی طرف پلٹ کر آتے تھےلیکن تم نےظالموں کو اپنی منزلوں پر قبضہ دے دیا اور ان کی طرف اپنی زمام امر بڑھا دی اور انہیں سارے امور سپرد کر دیئے کہ وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں اور خواہشات میں چکر لگاتے رہتے ہیں۔
٥۔ دین اسلام میں حدود کے اجراء کے لئے کچھ قوانین اور مبین شرائط ہیں ،حتی کہ اس کے اجراء کرنے والے کے بھی خاص شرائط مد نظرہے،لیکن اس بات سے بھی غافل نہ ہوں کہ کبھی مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اس حد کے جاری کرنے والے عام لوگ ہوں،یعنی تمام مکلف انسان ایک خصوصی حکم کے اجراء کرنے کا پابند ہوجائے ،مرتداورپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی ہتک حرمت کرنے والوں کے بارے میں تمام مسلمان مخاطب ہیں اوراس سلسلے میں سارے مسلمان ذمہ دار ہیں،جس کا فلسفہ یہ ہے کہ سب یہ جان لیں مرتد خدا کے نزدیک اتنا برااور قبیح ہے کہ وہ ایسے حکم کا مستحق ہواہے ، یہ دوسروں کے لئے بھی عبرت کا سامان ہے، مرتداورپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی ہتک حرمت کرنے والے کو مجازات کرنے والوں کا حکم اسلام سے دفاع کرنے کا حکم ہے ،اسلام جس کے تمام اصول اورفروع عقل ومنطق پراستوار ہے وہ ہمیں یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی انسان جسے دین اوراس کی حقانیت واضح ہونے کے بعد دوبارہ اس کا انکار کرے یا تمام مقدسات میں سب سے مقدس ہستی جوکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات با صفات ہے کی اہانت کرے ۔
یہ حکم دوسروں کو اسلام کی طرف جذب کرنے کے لئے نہیں ہے،تا کہ یہ بتایا جائے کہ یہ حکم دوسروں کے اسلام سے منھ موڑنے کا سبب بنتا ہے ،بلکہ یہ ایک قلعہ ہے،ایسا قلعہ جس میں مسلمان محفوظ رہ سکے،اوراپنے ہاتھو ں اپنے دین کو نقصان نہ پہنچاسکے،دوسری طرف سے طول تاریخ میں کافروں نے اسی ارتداد کے ذریعہ اسلام کو نقصان پہنچایا ہے ، اور خداوند عالم نے ہمیشہ کے لئے اس راستے کو بند کر دیا ۔
٦۔ کہتے ہیں کہ مرتداورپیغمبر کے گستاخ کومارنےاوران کا اعدام کرنے کے لئے فتواصادرکرنے کا لازمہ یہ ہے کہ اسلام ، تشیع اورفقاہت کا چہرہ قتل وغارت گری اور تنگ نظری میں بدل جاتا ہے......... جی ہاں!اگر کوئی اسلام کا صرف اسی راستہ سے تعارف کرانا چاہتا ہے،اوروہ بھی اس حکم کی خصوصیات اورشرائط کو بیان کیے بغیر صرف اس کے ظاہرکو بیان کرے اور اس کےتمام جزئیات کو بھول جائے ، تو ممکن ہے اس کا لازمہ کچھ ایسا ہی ہو، جیسا کہ یہ اغیار کہتے ہیں ، لیکن اگر بشریت کو اس بات کی طرف دعوت دی جائے کہ اسلام میں عقل و منطق حاکم ہے ،اورجہاں کہیں بھی کوئی سوال ہوخصوصاً مسلمانوں کے درمیان ،مکتب اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے دستور کےمطابق ان کے جواب دینے کے لئے کچھ افراد خدا کی جانب سے بصورت حجت موجود ہیں کہ ان کی طرف رجوع کر کے اپنے سوالات کے جواب حاصل کر سکتے ہیں،اوراگرایسا نہ کرے اور ان ذوات مقدسہ سے دشمنی کےتے ہوئے انکار کرے اورلوگوں کے درمیان اپنی اس انکار کا اظہار کرے تو اس کے لئے ایسے ہی مجازات ہوں گے ۔
حقیقت میں اگر دیکھیں تومرتد ہونا خود اپنی جگہ ایک دینی ہرج و مرج ہے اور یہ لوگ جوہرج ومرج کو بنیاد بنا کر باتیں بناتے ہیں وہ اس حقیقت پر کیوں توجہ نہیں دیتے ؟! مرتد اورگستاخ رسول کے واجب القتل ہونے کا حکم صدر اسلام سے اب تک واضح ہے ،اورکسی بھی زمانہ میں یہ اسلام کے چہرےکو خراب کرنے کا سبب نہیں بناہے،لیکن استعماری ممالک نے جب سے حقوق بشر کا نعرہ بلند کیاہے، در حقیقت جب سے ان ممالک نے اسلام کی مخالفت شرو ع کی ، اس وقت سے اس حکم کے خلاف نعرہ بلند کرنا بھی شروع کیا ہے ، اور یہ کہتے ہیں کہ یہ کونسا حکم ہے ؟
یہ تمام اعتراضات دین کے خلاف برے تبلیغات کی وجہ سے شروع ہوئےہیں جو اسلام کو عقل ، آزادی اور کرامت انسانی کے خلاف بتاتے ہوۓ ختم ہوتا ہے ۔
ہم مسلمان کیوں اسے اسے اتنا سادہ سوچتے ہیں،اوران عنوانوں کے فریب میں آتے ہیں ،ایک دن کسی چیزکوبہانہ بنا کر یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے احکام عقل سے سازگار نہیں ہے اوردوسرے دن اسلام کو آزادی کے مخالف قرار دیتے ہیں اورتیسرے دن اسے کرامت انسانی کے خلاف اوراسلام میں کرامت انسانی کی رعایت نہ ہونے کی باتیں کرتے ہیں ۔
یہ بات اپنی جگہ واضح ہے کہ کبھی بھی کسی جزئی حکم وہ بھی اس کے ایک ظاہری جنبہ کوحسن یا قبح کا ملاک قرارنہیں دینا چاہئے!دوسرے الفاظ میں یوں کہوں کہ ضروری نہیں ہے ایک مخصوص حکم کے متعلق مسئلہ حسن وقبح بیان ہو،بلکہ حکم کو تمام جہات و نوع کے لحاظ ملاک قرار دینا چاہئے ،انسان کو چاہیے کہ پہلے حکم کے تمام جہتوں اور نوعیت کو اچھی طرح سمجھے پھر فیصلہ کرے کہ کیوں ایسے (مرتد)شخص کے انکاراوردشمنی کا احترام کرتے ہو جس نے دین کے حقایق کو دیکھا، آیات اورنشانیان قائم ہوئیں ، لیکن اس پرعقاب کے مستحق ہونے کوبداخلاقی اورغیر منطقی بتاتے ہو؟ اگر کوئی شخص دن کی روشنی میں سورج کا منکر ہوجائے تو کیاآپ کی نظر میں اس کی کوئی قیمت وارزش ہے ؟کیوں مرتد ہونے کو استعمار ایک قسم کی فکری آزادی اوراس کے خلاف بولنے والوں کو آزادی فکری کا مخالف تصورکرتا ہے؟مرتد ہونا اصل میں غیرقابل انکار حقیقت کا انکار ہے ۔
کہتے ہیں کہ فکری وعلمی مباحث میں منطق ،جدال احسن اورمحکم استدلال کے ساتھ داخل ہونا چاہئے ، یہ بات بھی صحیح ہے ، لیکن ہمارا سوال یہاں پر یہ ہے کہ اگر کوئی اس طور و طریقے کے بعد بھی انکار کرے ، تو آپ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے ؟اگرکوئی شخص واضح چیزوں کا منکرہواوراس کا یہ انکار دوسرے افراد کے لئے بہت زیادہ خطرناک ثابت ہو تو وہاں پرآپ کی عقل اس کے بارے میں کیا حکم کرتی ہے ؟مرتد ایک مریض انسان کو کہتے ہیں اوراس کی یہ بیماری (یعنی اس کی ہوا وہوس اورحبّ دنیا کی وجہ سے انکارکرنا) دوسرے اشخاص تک سرایت کر سکتی ہے یہاں تک کہ دین پربھی اثر انداز ہوسکتا ہے توکیا ایسے انسان کو سزا نہیں ملنی چاہئے؟! ۔
اس حکم پراعتراض کرنے والوں نے اس آیہ شریفہ کی طرف اشارہ کیا ہے :'' ادْعُ إِلى سَبيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جادِلْهُمْ بِالَّتي هِيَ أَحْسَنُ''[35]آپ خود بتائیں کیااس آیہ شریفہ میں مرتد بھی شامل ہو سکتا ہے؟یہ آیت اورارتداد کے موضوع کی آیات کے درمیان کیا نسبت ہے؟کیا آپ نےکبھی ملاحظہ نہیں فرمایاکہ ارتداد کے سلسلے میں موجود آیات میں خداوند عالم فرماتا ہے :جوشخص مرتد ہوجائے اسے ہدایت اوراللہ کی مغفرت نصیب نہیں ہوتی ہے،واضح ہے کہ یہ آیہ کریمہ اس شخص کے بارے میں ہے جوابھی صراط مستقیم پرنہیں آیا ہے ، ہمیں چاہیے کہ اس شخص کو صراط مستقیم پرلائیں،لیکن جو شخص خدا کے راستہ پر ہے لیکن اب اس دین کی مخالفت کرنا چاہتا ہے تو وہ شخص اس آیہ کریمہ میں شامل نہیں ہے ،کیا ہم قاتل کو اس آیت شریفہ میں شامل کر سکتے ہیں،میری نظر میں کوئی بھی عقلمند ایسی بات نہیں کرسکتا،اور ایسی بھی بات نہیں ہے کہ کوئی شخص تمام لوگوں کومارنے کا ارادہ رکھتا ہو،اور بہت ساروں کو قتل کر ے ،اس کے بعد پھریہ کہا جائے کہ اس کے ساتھ موعظہ ،جدال احسن اورحکمت کے ساتھ پیش آنا چاہئیے ۔
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ مرتد کا حکم دوسرے لوگوں کواسلام کی طرف جذب کرنے کے لئے نہیں ہے ،بلکہ یہ ایسا عذاب ہے جو خود مسلمانوں سے مربوط ہے اور خود ان کے درمیان ہے اوریہ حکم اس لیے ہے کہ کافروں کا اسلام کے خلاف یہ براارادہ دوسرے مسلمانوں تک نہ پہنچ پائے، لیکن اس بات کو نوٹ کر لیں کہ دین اسلام کے جامع قانون ہونے کو بیان کرنے کے لئے (یعنی اس دین کے تمام پہلوں کے لئے مناسب حکم ہونے کو بیان کرنا چاہئے )یہ بتایا جائے کہ اسلام عقل،علم،اخلاق اوراجتماعی ،سیاسی اور دوسرے تمام امورمیں دخالت کی اجازت دیتا ہے ،اسلام کو دوسروں کے لیۓ تعارف کرانے کا بہترین راستہ یہی ہے، کیوں اسے بیان نہیں کرتے کہ اسلام کافراصلی کے بارے میں جب سے وہ پیدا ہوا ہے اوروہ آخری عمر تک اپنے کفر پرباقی رہتا ہے مگراس کے خلاف ایسا حکم نہیں رکھتاہے ، اس کے واجب القتل ہونے کاکوئی ایسا حکم نہیں ہے ۔
چوتھا محور: کیا یہ حکم دین کی سستی کا سبب نہیں ہے ؟
کہتے ہیں،اس طرح کا فتوادینا دین کے ارکان سست ہونے کا سبب ہے........ہمارا سوال یہ ہے کہ دین کے سست ہونے کا معیار کیا ہے ؟ یہاں پر چار احتمال وجود رکھتے ہیں کہ اس میں سے ہر ایک کو الگ الگ بحث کرنے کی ضرورت ہے ۔
احتمال اول: یہ بتایا جائے کہ ہروہ کام دین کے ضعف کا سبب ہے جسے دنیا کے عقلاء تمام زمان و مکان میں قبول نہ کریں ، اور ان کے من پسند نہ ہو ، اس فرض کے مطابق سب سے پہلے ہم یہ بتائیں گے کہ عقلاء کہیں بھی، کسی بھی وقت کسی ایک شخص کا ایک میلیارد سے زیادہ لوگوں کے مقدسات سے کھیلنے کو پسند نہیں کرتے بلکہ اس شخص کو سزا کا مستحق سمجھتے ہيں ، اور وہ جس مقدس چیز کی اہانت هو رہی ہے وہ جتنازیادہ مقدس ہوگی اس کی اہانت کرنے والے کو اتنا ہی شدید مجازات کا مستحق سمجھتے ہیں اور اگر اس کی اہانت دوسرے لوگوں کے انحراف کا سبب ہو یا دشمن کا اس سے غلط استفادہ کا سبب ہو اور اصل دین کی تضیعف کا سبب بن جائے تو اس کے ساتھ سختی سے پیش آنے کو لازم سمجھتے ہیں ۔
بالفرض عقلاۓ عالم مرتد اور گستاخ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کو بھی مجازات کا مستحق نہ سمجھیں ، پھر ہم یہ کہیں گے کہ اس موقع پر شارع نے اس کے اس عمل کو گناہ قرار دیا ہے اورجو شخص دائرہ اسلام میں داخل ہو ، وہ اگر مرتد ہوجائے تو اسے شدید مجازات کا مستحق سمجھتا ہے لیکن کافر اصلی جو اپنے کفر پر باقی رہتا ہے اسے دنیوی مجازات کا مستحق نہیں سمجھتا ۔
اس قانون کلی کو فقہ و اصول سے آشنا ہرشخص جانتا ہے کہ بعض جگہوں میں شارع مقدس عقلاء کے حکم کو باطل ٹھہراتا ہے ،اس مسئلے میں کوئی بھی اختلاف نہیں ہے ،جی ہاں ! مگرشارع عقل کے حکم کو باطل قرار نہیں دے سکتا کیونکہ عقل اور عقلاء کے درمیان موجود فرق میں سے ایک یہی ہے کہ اصول کے درس خارج میں مفصل اس موضوع پر بحث ہوئی ہے ۔
احتمال دوم:دین کے ضعیف ہونے کا ملاک اور معیار وہ عمل ہے جو انسان کے طبیعت کے مطابق نہ ہو اور خودانسان کا نفس اس سے نفرت کرتا ہو۔
اس فرض میں ہم یہ بتائیں گے کہ کسی بھی انسان کی فطرت ،مرتد کے مجازات کو اور پاک و پاکیزہ اور شریف انسان کی شان میں گستاخی کرنے والے شخص کو مجازات کرنے سے نفرت نہیں کرتا، یہ ایک واضح امر ہے ۔
احتمال سوم: دین کی تضعیف ہونے کا معیار او رملاک وہ عمل یا قول ہے جو غیر متدین افراد کے مرضی اور خواہش کے مطابق نہ ہو ، اس فرض کا نتیجہ یہ ہے کہ عبادات ، جزائیات ، معاملات ، سیاسات حتی کہ اخلاقیات کے بارے مےں اسلام کے احکام کو دین کے تضعیف کا سبب بتائے ، حتی کہ امر بہ معروف اور نہی از منکر کو دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرنا، بتانا ہو گا اوراس کی وجہ سے اسے دین کی کمزوری کا سبب بتانا ہوگا ، اسی طرح جہاد اور راہ خدا میں شہادت کو بھی دین کی تضعیف کا سبب بتانا ہو گا ۔
احتمال چہارم: تضعیف دین ہونے کا ملاک او رمعیار وہ کام ہے جو ہر قسم کے عقلی اور نقلی توجیہ سے خالی ہو ، اس نظریہ سے تضعیف دین کا صحیح وجہ معلوم ہوتا ہے ، اور ہم نے اس گفتگو میں واضح کر دیا ہے کہ مرتد اور گستاخ رسول کے واجب القتل ہونے کے حکم پر عقلی اور اس کے ساتھ نقلی دلائل بھی موجود ہیں ، خالق اور مالک حقیقی کا انکار کہ انسان کا تمام وجود اسی سے وابستہ ہے عقلی لحاظ سے اس کا یہ کام دنیوی عقاب کے مستحق ہونے کا سبب ہے کہ عقل اس چیز کو درک کرتی ہے کہ خداوند عالم جو تمام انسانوں کا خالق ہے وہ یہ حکم دے سکتا ہے ، اور یہ حکم جعل ہونے کے بعد عقل اس چیز کو برا نہیں کہتا ، دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اس بحث اور گفتگو کا اصلی سوال یہ ہے کہ کیا عقل کے اعتبار سے خداوند عالم ایسے حکم کو جعل کر سکتا ہے ؟ مرتد کے حکم کے منکرین میں سے بعض اسی مطلب کو بیان کرتے ہیں لیکن اگر ہم بالفرض اسے قبول بھی کر لیں کہ اگر احکام عقلی کے تمام ملاکات اور معیاروں کو "حسن عدل "و"قبح ظلم"(یعنی عدالت اچھی چیز ہے اور ظلم بری چیز ہے ) کی طرف پلٹائیں جیسا کہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ اصول کے بعض مباحث میں اس بارے میں اعتراض کرتے ہیں ۔ تو پھر بھی مرتد اور گستاخ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کے واجب القتل ہونے میں عقل کسی قسم کی قباحت اور ظلم کاتصور نہیں کرتا ، اور اسے قبول کرتا ہے ، اگر خداوند عالم انسانوں کے حقیقی مالک ہونے کے لحاظ سے کوئی ایسا حکم کرے تویہ ظلم نہیں ہے ،بلکہ صحیح ہے جسے خودعقل "مقام ثبوت "وامکان میں درک کرتا ہے اور "مقام اثبات "کے حوالہ سے سزا کے مستحق ہونے کو قبول کرتا ہے ، اور نقلی دلائل کے مطابق اقسام حکم کو بھی شارع مقدس نے بیان فرمایا ہے ۔
دین کی تضعیف کے بارے مےں جس اہم نکتہ کو بھلا دیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عنوان ایک ثانوی عنوان ہے جو مجبوری ، حرج، ضرراور تقیہ وغیرہ ہے ، یہ بات اپنی جگہ ثابت ہو چکی ہے کہ ایسے عناوین سارے موارد اور مصادیق میں قابل اعتبار نہیں ہوتے مثلا ً اگرتقیہ کسی کے خون ضائع ہوجانے کا سبب بنے تو وہاں تقیہ نہیں ہے ''اذا بلغت الدم فلا تقیۃ'' اسی طرح تضعیف کا یہ عنوان بھی کچھ جگہوں پرموضوعیت نہیں رکھتا ، مثلاً جہاں پر کافروں سے سختی سے پیش آنے کا مقام ہو اور جہاں پر مشرکین اور کافروں کو قتل کرنا ہو ،کوئی بھی مجتہد اور فقیہ یہ نہیں کہتا کہ اگر مشرکین کو قتل کرنا دین کے تضعیف کاسبب ہو وہا ں پر اسے قتل کرنا واجب نہیں ہے اس حقیقت کو فقاہت سے آشنا ئی رکھنے والے حضرات اچھی طرح جانتے ہیں ، لہذا مرتد کا مسئلہ یہی ہے اس عنوان(ارتدا دکے حکم کا اجراء دین کی تضعیف کا سبب ہے) کا کچھ بھی اثر نہیں ہے ،جی ہاں ! اگر سنگسار کرنا دین کی تضعیف کا سبب ہو تو کچھ مدت کے لئے چھوڑسکتے ہیں ،لیکن وہ حکم جس کی ذات اور ماہئیت ہی کافروں او رمنحرفین سے شدید طریقہ سے پیش آنا ہو ، اور مشرکین اور کافروں کو اس سے خوف بھی ہو اور ان کے نفرت اور پیچھے بھاگنے کا سبب بنے تواسے ہم اس عنوان سے محدود نہیں کر سکتے ۔
پانچواں محور:کیا حدود دین کو جاری کرنے کیلئے معصوم امام علیہ السلام کی موجودگی شرط ہے ؟
یہاں پر بتایا گیاہے کہ بہت سارے فقہاۓ اسلامیہ حدود کے جاری کرنے اور جہاد ابتدائی کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ یا کسی امام علیہ السلام کی موجودگی کو شرط بتاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بات تحقیق اور حقیقت سے دور ہے بلکہ حقانیت اس کے برعکس ہے ، قدیم ،مشہور فقہاء جیسے شیخ مفید [36]سلار[37]،ابو الصلاح حلبی[38]،ابن زہرہ [39]،ابن سعیدرحمهم الله [40]اور شیخ طوسی(ره) نے اپنی کتاب مبسوط میں صراحت کے ساتھ اور کتاب النہایۃ [41]میں بھی کچھ توجیہ کے ساتھ اور علامہ حلی نے کتاب تحریر[42]،قواعد[43]،ارشاد[44] ، تبصرہ[45] ،مختلف[46]شہید اول نے اپنی کتاب دروس[47]میں ،محقق ثانی نے حاشیہ شرائع میں ،شہید ثانی نے مسالک الافہام میں ، فاضل مقداد "التنقیح الرائع" میں اس کے مشروع ہونے اور غیبت امام زمان (ع)میں اس کے جائز ہونے کے معتقد ہیں ، جی ہاں ابن ادریس کی کتاب "سرائر" سے اس کے برخلاف استفادہ ہوتا ہے ، اور بعض فقہاء جیسے صیمری نے غایۃ المرام میں اور ابن فہد نے المہذب البارع میں اس کےمخالف ہونے کو استفادہ کیے ہیں ، لیکن جیسا کہ مرحوم سید محمد باقر شفتی نے "رسالہ اقامۃ الحدود فی زمن الغیبۃ[48] " میں ذکر کیا ہےکہ کتاب سرائر کی آخری عبارت سے استفادہ ہوتا ہے کہ ابن ادریس بھی مشہور کی طرح اس حکم کے زمان غیبت میں اجراء کے موافقین میں سے ہیں اور کتاب کی آخری عبارات سے نہ صرف جائز ثابت ہوتا ہےبلکہ موافقت پر ابن ادریس کا اصرار استفادہ ہے ،یہاں پر ہمارا سوال یہ ہے کہ کس دلیل و برہان کے تحت یہ دعوی کر ررہے ہیں کہ بڑے بڑےفقہاء حدود کے جاری کرنے میں امام معصوم علیہ السلام کی موجودگی کو شرط جانتے ہیں ، محقق حلی شرائع اور مختصر میں اس بارے میں کچھ بیان کرنے سے اجتناب کیا ہے نہ کہ مخالفت مےں کچھ فرمایا ہو ، مرحوم محقق خوئی اور محقق سید احمد خوانساری نے بھی محقق حلی اور ابن ادریس کو کچھ حکم نہ کرنے والوں میں سے بتایا ہے ۔
لہذا آپ جو بڑے ،بڑے فقہاء کا ادعا کررہے ہیں وہ کون ہیں ہمیں بھی بتائیں ؟!!
صاحب جواہر جو معاصر میں مرکز فقاہت ہیں اس کتاب[49] میں لکھتے ہیں :''لا اجد فیه خلافا الا ما یحکی عن ظاهر ابنی زهره و ادریس و لم نتحققه بل لعل المتحقق خلافه''
چھٹا محور:کیا مرتد کے واجب القتل ہونے کا حکم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے سے سازگار نہیں ہے ؟
منکرین حکم ارتداد کہتے ہیں کہ اس طرح کا حکم پیغمبر اکرم (ص )کے رحمۃ للعالمین ہونے کے برخلاف ہے۔
پہلا جواب یہ ہے کہ ایسی تعبیرات اور عبارات اجتہاد و فقہی استدلال کرنے والوں سے بعید ہے بلکہ یہ ایک جھوٹا نعرہ اور شعار ہے ، ان کی ان باتوں کو سن کے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر خداوند عالم ارحم الراحمین ہے تو اس نے جہنم کو کیوں پیدا کیا ہے؟! اور کچھ کو قیامت کے دن کیوں عذاب دے گا ؟اس قول کی بناءپر دین کی تمام حدو د کوزمانہ امام معصوم اور زمانہ غیبت امام معصوم میں منکر ہونا چاہئے ۔
دوسرا جواب:تاریخ کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے میں بعض افراد پر مرتد کا حکم (واجب القتل )جاری کیا اور انہیں قتل کیا گیا [50]اس کام کو کیسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحمت ہونے کے ساتھ توجیہہ کرسکتاہے ؟پھر آپ آیہ شریفہ ''اشد علی الکفار رحماء بینھم'' کی کیا تفسیر کریں گے ؟کیا آپ مرتد ہونے کے بعدبھی اسے مسلمانوں اور مومنوں میں داخل شمار کرتے ہیں ، واضح ہے ایسا نہیں ہوسکتا ، کیا قرآن کی نظر میں مرتد کافر سے بدتر اور پست تر نہیں ہے ؟
تیسرا جواب:مرتد کو قتل کرنا مسلمانوں کے لئے رحمت کا سبب ہے اوراسے ایسے ہی چھوڑ دینا مسلمان معاشرہ کے لئے نقصا ندہ ہے ، رحمت کو کیوں کسی خاص شخص ،معین فرد کے لئے مستقل طور پر بیان کرتے ہو؟
دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ پیغمبر اکرم رحمت کی صحیح تفسیر کیوں نہیں کرتے ؟ پیغمبر اسلام تمام بشریت و انسانیت کے لئے رحمت ہیں ، نہ کہ ہر فرد کے لئے مستقل طور پر۔
چند اہم نکات:
اول:ارتداد کا یہ حکم فقط دین اسلام سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ دوسرے ادیان میں بھی پایا جاتا ہے ، یہ مطلب اس آیت شریفہ سے استفادہ ہوسکتاہے 'وَ لَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَ إِلَى الَّذينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُك''[[51] اسی طرح سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت ٥٤ بھی اس موضوع پر دلالت کرتی ہے ، اور قرآن کریم کی تصریح کے مطابق حضرت موسی علیہ السلام کی قوم میں مرتد قتل کے مستحق ہوتےتھے ، اس لحاظ سے ارتداد کے کیفری احکام صرف دین اسلام سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے ادیان اور مذاہب جیسے یہودیت او رمسیحیت میں بھی اگر کوئی اس دین سے پھیرجاۓ تو اسے کافر حساب کرتے ہوۓ مرتد بتاتے تھے اور اس کو مجازات کرتے تھے[52]۔
دوسرا نکتہ : مجموع دلیلوں سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ باطنی ارتداد جب تک ظاہر نہ ہو جائے واجب القتل ہونے کا موضوع نہیں سکتاہے ،جی ہاں ! جب اظہار ہو جائے اورسر عام انکار کرے تو اس کو قتل کرنے کا حکم ہے ۔
تیسرا نکتہ : قرآن کریم سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ مرتد کا دنیوی و اخروی احکام اس صورت میں ہے کہ جب وہ شخص اسلام کے بارے میں علم و آگاہی حاصل کرلے اوراس کے بعدا س کا انکار کرے '' من بعد ما تببن '' اس لحاظ سے جو لوگ دین میں شک کرتے ہیں یا برے تبلیغات کی وجہ سے یا دوسروں کے ورغلانے کی بناء پر دین کے منکر ہوجاتے ہیں وہ لوگ اس حکم سے مستثنی ہیں ، البتہ ان موارد میں بھی بعض فقہاء احتیاط کرتے ہیں کہ اس میں تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہے ، مرحوم آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی قدس سرہ نے کسی استفتاء میں فرمایا تھا کہ: وہ جوان جو ابھی بالغ ہوئے ہے اور اسلام کے بارے میں شک کرے اس پر مرتد کا حکم نافذنہیں ہو گا بلکہ اسے مہلت دینی چاہیئے ۔
چوتھا نکتہ:مرتد کا توبہ اس کے دنیوی آثار کو ختم کرنے مےں موثر ہے یا نہیں ؟ یہ ایک مفصل بحث ہے جو فقہی اور تفسیری کتابوں میں تفصیلاًبیان ہوئی ہے ، یہاں پر ہما را فرض یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مرتد ہو جائے اور اپنے ارتداد سے توبہ نہ کرے تووہ قتل کا مستحق ہے ، یعنی ہم بحث کو قدر متقین پر محدود کرتے ہیں ۔
پانچواں نکتہ :ابتدائی اور فقہی نظر میں مرتد کے قتل کا لازم ہونا کسی فتوی اور مرجع تقلید کے حکم کا محتاج نہیں ہے ، چنانچہ اگر کسی مسلمان کوایسے مرتد سے سامنا ہو جائے تووه مسلمان ابتدائی شرعی نظر میں اس پر اس حکم کو جاری کر سکتا ہے ،عمار ساباطی کی روایت میں نقل هواہے'' فان دمه مباح لمن سمع ذلک '' جو شخص بھی ارتداد کو سن لے اس کے لئے جائز ہے اس حکم ارتدادکو اس پرجاری کرے ،جی ہاں!مگر احتیاط یہ ہے کہ مجتہد جامع الشرائط کے حکم سے ایسا کرے ۔
چھٹا نکتہ:یہ بات قابل توجہ ہے کہ مرتد اور وہ شخص جو کافر اصلی ہونے پر باقی رہتا ہے ان دونوں میں کیا فرق ہے ، اسلام میں اس کافر اصلی کے قتل کے بارے میں کیوں کچھ بیان نہیں ہوا ہے جو اپنی کفر پر بقرار رہتا ہے ، اس میں ایک راز پوشیدہ ہے جوشخص اسلام کے لباس کو پہنے اور خود کو مسلمانوں کے دائرے میں بتاۓ وہ شخص مرتد ہو کر گویا اس نےاسلام کے خلاف ساتھ جنگ کا اعلان کیا ہے ، تو یہ ایک عام بات ہے کہ اس سے سختی سے پیش آنا چاہئے لیکن جو شخص اپنی کفر اصلی پر باقی ہے وہ ایسا نہیں ہے لہذا اس پر ایسا حکم بھی نہیں ہے ۔
ساتواں نکتہ :بعض لوگوں نے مرتد کے واجب القتل ہونے کے حکم میں وسوسہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اوریہ بتایا ہے کہ :علماء کے درمیان "ضرورت دین "کے سلسلے میں جو تعریف ہوئی ہے اس میں اختلاف نظر ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے :
١۔ "ضروری دین" یہ ہے کہ جس چیز پر شیعہ و سنی کا اتفاق ہو اور اس کے صحیح ہونے میں استدلال کے طور پرحتی اجماع کی بھی ضرورت نہ ہو ۔
٢۔ بالفرض اگر "ضروریات دین" کی تعریف میں علماء کے درمیان اختلاف نظر بھی ہو لیکن مرتد کے بارے میں موجودہ روایات میں دو جگہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے :
الف:اسلام کے دائرہ سے نکل جانا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت کا انکار ۔
ب: قیامت کو جھٹلانا اور بعض روایات میں ہے کہ کسی ملحد کو امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں لایا گیا جو روزقیامت کو جھٹلاتا تھا ،آنحضرت (ع)نے اسے قتل کردینے کا حکم فرمایا ۔
لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت کا انکار اور معاد کو جھٹلانا مرتد ہونے کے اسباب میں سے ایک ہے ،کم از کم ہمیں انہیں موضوعات میں مرتد کے حکم کو قبول کرنا چاہئے ، دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ضروری کا یہ عنوان خود اپنی جگہ کوئی موضوعیت نہیں رکھتا ہے ،یہ صرف اس کے مصادیق تک پہنچنے کا ذریعہ ہے ، اور اگر اس کے کچھ مصادیق روایات کے ذریعہ واضح بھی ہو جائے تو اس مورد میں قتل کا حکم جاری ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ،اس میں فرق نہیں ہے کہ ان مصایق میں "ضروری" کا عنوان ہو یا نہ ۔
آٹھواں نکتہ : اس بارے میں موجود بعض شبہات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان افراد کو حوزات علمیہ میں موجود اجتہاد کے طور و طریقوں پر اعتراض ہے اور ان کے نظریہ کے مطابق انسان شناسی ، جہان شناسی اورعلم تفسیر اوردوسرے جدیدعلوم اجتہاد کے لئے سکھانا چاہئے ، ان لوگوں کی یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے یا نہیں ؟ اس کے لئے مستقل طور پر بحث کرنے کی ضرورت ہے ، لیکن جن مطالب کو ہم نے یہاں پر بیان کئے ہیں وہ روحانیت کے ہزار سالہ روش اجتہاد کے مطابق ہے ، اس لحاظ سے مرتد کے واجب القتل ہونے کے حکم میں کوئی شک و شبھہ نہیں ہے اور یہ حکم ایک دائمی حکم ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف ایک سیاسی حکم ہو ، گرچہ اس میں یہ پہلو بھی ہو سکتا ہے ، بعض لوگوں کی سفارش کو اگر ہم قبول کریں تو ہمیں بہت سارے دینی احکام کو بدلنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے جس کا نتیجہ دین کاخاتمہ ہے اور بشر کے ساختہ وپرداختہ قوانین کے آگے سر تسلیم خم ہونا ہے ،دوسرے الفاظ میں اس کا نتیجہ اہل بیت علیہم السلام کے آثار کا ختم ہونا اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کے فقہ کو خیر باد کہنا ہے ۔
نواں نکتہ :آخر میں ہم اس بحث کو کھولا ہوا چھوڑ یں گے کہ اگر کوئی جامع الشرائط فقیہ خاص شرائط کے ماتحت مرتد کے موضوع میں خدا وند عالم کے حکم کو جاری کرنے میں تاخیرکرے یا اس کےاصلاجاری ہی نہ کرنے کو مصلحت جانے،یا کہیں پراس کے بہت سارے مصادیق پیدا ہو جائے ۔ کہ اگر ابتدا سے ہی ایسے حکم کو جاری کرنا چاہتا بھی تو واقعا ً یہ فرض واقع نہیں ہوسکتا تھا تو کیا ایسے موارد میں جامع ا لشرائط فقیہ اس حکم کے توقف کا فتوی دے سکتا ہے یا نہیں ؟ حدود کے اجراء کے بارے میں موجود بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: اگر کہیں پر کوئی شرعی حد ثابت ہو جائے تومیں بھی اس حکم کو چھوڑ نہیں سکتا ،لیکن پھر بھی اس بحث کے بارے میں اور زیادہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے میں یہاں پر اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے یہ اعلان کرنا چاہوں گا کہ مرکز فقہی آئمہ اطہار علیہم السلام جو فقہی مسائل کا ایک خصوصی مرکز ہے یہ مرکز اس موضوع کے سلسلے میں بحث و مناظرہ کے لئے تیار ہے ، اور دین شناسان اور فقہ پڑھنے والے محققین سیاسی جنجال او یورپی افکار کی طرف مائل ہوئے بغیر اس مرکز کے ذریعہ اس موضوع کے بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں ۔
اس مختصر سے کتابچہ میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ مرتد کے حکم سے دفاع اور اس کے بارے میں مختصر سی وضاحت ہے ، اس کے بارے میں تفصیلی گفتگو کے لئے زیادہ وقت کی ضرورت ہے ، خداوند متعالی ہم سب کو حقیقت سمجھنے اور اس پر عمل کرنے اور دین کو سمجھنے اوراس پرعمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں انشاء اللہ
والسلام علی من اتبع الہدی
نہم محرم الحرام ١٤٣٣
قم ۔ محمد جواد فاضل لنکرانی
[1] -نهج البلاغه :خطبه 106
[2] ۔ تفسیر الدر المنثور کی طرف مراجعہ فرمائیں۔
[3] ۔ سورہ بقرہ آیت ٢١٧
[4] ۔ تنقیح :ج٣،ص٨٤
[5] ۔ کنز الدقائق ج١،ص٥١٦ ،چهاپ انتشارات جامعۃ مدرسین
[6] ۔الانعام : ۸۸
[7] ۔المائدہ : ۵
[8] ۔ المبسوط :ج ١٠،چاپ دارمعرفۃ بیروت ،ص٩٨
[9] ۔ مسالک الافہام : ١٥/٢٢
[10] ۔ البقرہ الآیہ:۲۱۷
[11] ۔آل عمران :۸۵
[12] ۔ المائدہ:۳۳
[13] ۔ المبسوط ’کتاب قطاع الطریق :ص١٢١ سلسلہ الینابیع الفقہیۃ ج٢
[14] ۔ کتاب التاج الجامع للاصول:٣/١٩
[15] ۔ دعائم الإسلام؛ ج2، ص: 479
[16] ۔آل عمران :۸۶
[17] . آل عمران :۸7
[18] .نحل :44
[19] .حشر:7
[20] ۔ج٧،ص٢٥٦
[21] ۔ الكافي (ط - الإسلامية)؛ ج6، ص: 174
[22] ۔ الكافي (ط - الإسلامية)؛ ج7، ص: 256
[23] ۔ مسائل علي بن جعفر و مستدركاتها؛ ص: 292
[24] ۔ الكافي (ط - الإسلامية)؛ ج7، ص: 258
[25] ۔ الكافي (ط - الإسلامية)؛ ج7، ص: 258
[26] ۔ ج٣،ص١٧،١٨
[27] ۔ مجتمع الزوائد ہیثمی :٦ / ٢٦١
[28] ۔ التنقیح ٣/٨٤
[29] ۔ مستدرک الوسائل :١٨/١٦٣
[30] ۔ کافی :ج٧،ص٢٥٦ ح ٨
[31] ۔ التاج الجامع للاصول الصحاح فی احادیث الرسول ج٣/ص١٧،١٨
[32] ۔ دروس خارج اصول: تعلیمی سال ٨٨۔٨٧درس ٧٧ تاریخ ١٦/ ١/ ١٣٨٧
[33] ۔تفصیل کے لئے میری کتاب تلقیح صناعی کی طرف رجوع کر سکتے ہیں
[34] . خطبہ/١٠٦
[35] ۔النحل :۱۲۵
[36] - المقنعہ /٨١٠
[37] - المراسم /٢٦٠
[38] - الکافی /٤٢١
[39] - غنیۃ النزوع/٤٣٦
[40] - الجامع للشرائع/٥٤٨
[41] - النہایۃ /٣٠١
[42] - تحریر ٢/٢٤٢
[43] - قواعد:١/٥٢٥
[44] - ارشاد:١/٣٥٢
[45] - تبصرہ:٩٠
[46] - مختلف:٤/٤٧٨
[47] - دروس:٢/٤٧
[48] - رسالہ اقامۃ الحدود فی زمن الغیبۃ :١٤٤
[49] - جواہر ج٢١، ص٣٩٤
[50] - کتاب التاج الجامع للاصول فی احادیث الرسول :ج٣،ص ١٨،١٩، اس کے علاوہ کچھ دوسرے تاریخی کتابوں کی طرف رجوع فرمائے
[51] -۔الزمر:۶۵
[52] - عہد قدیم ، سفر توریہ مثنی ،فصل ١٣ ؛ عہد جدید ،عبرانی یہودی نژاد مسیحیوں کے نام خطہ ، بند ١٠، جملہ ٢٦ تا ٣٢ تک ملاحظہ فرمائیں