حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی دامت برکاتہ سے کردستان کے اہل سنت آئمہ جمعہ اورجماعت کی ملاقات

24 November 2024

01:21

۲,۲۷۳

خبر کا خلاصہ :
اس وحدت کے دو بنیادی رکن ہے ؛پہلا رکن اپنے مشترکات کی محافظت ہے
دوسری بنیاد :مشترک دشمن کے مقابلہ میں اتحاد ہے یعنی آج ہم اپنے دشمن کو پہچان لیں ، یقین پیدا کریں کہ یہ ہمارے دشمن ہیں ان سے مقابلہ کریں ۔
آخرین رویداد ها

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے میں آپ اہل سنت علماء کرام کو قم المقدس میں خوش آمدید کہتا ہو ں اورساتھ ساتھ پیغمبر اکرم(ص) کی ولادیت کے ایام کی مناسبت سے تمام مسلمانوں کی خدمت میں تبریک اورتہنیت پیش کرتا ہوں ۔
 عصرحاضرمیں علماء اسلام (فرق نہیں وہ شیعہ ہویا سنی ) کی ذمہ داری بہت عظیم ہے اگرہم اسے دوسرے الفاظ میں یوں بتائیں کہ آج روحانیت اسلام کے وظائف رسول خدا(ص) کے صحابہ کے وظائف سے بہت سنگین ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہو گا،آج اسلام اپنی پوری وجود کے ساتھ میدان میں آیا ہے اگرآج سے پچاس سال پہلے مسیحت ، یہودیت ،کفاراوراستکباراسلام کےمختلف پہلوؤں کے بارے میں بے خبرتھے اورصرف یہ جانتے تھے کہ اسلام ادیان عالم میں سے ایک دین ہے ،اسلام کے جوہراورحقیقت سے آگاہ نہیں تھے،لیکن آج  انہیں اس بارے میں آگاہی حاصل ہوئی ہے اوردشمنان اسلام آج یہ سمجھ چکے ہیں کہ اسلام کے پاس انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کے بارے میں خاص پروگرام ہے ،بلکہ اس نتیجہ تک پہنچے ہیں اگر حتی قرآن کے ظواہرپربھی عمل ہوجائے توظلم ،ظالم اورستمگر کے لئے دنیا میں کوئی جگہ باقی نہیں ہے ۔
 کفارکا مسلمانوں پرسلطہ پیدا نہ ہونے کا مسئلہ اس آیہ کریمہ میں بیان ہوا ہے  «لن يجعل الله للكافرين علي المؤمنين سبيلاً» یہ آیت خود ایک قانون ہے اور ان آیات میں سے ایک ہے جو فقہ سیاسی اسلام میں بیان ہوا ہے ،حتی اگرمیاں بیوی مسیحی ہواوربیوی مسلمان ہوجائے ہمارے فقہی احکام کے مطابق شاید اہل سنت کے فقہ کے مطابق بھی ایسا هی ہو کہ یہ نکاح باقی رہنے کے قابل نہیں،تا که اسی حد تک بهی کوئی کافر کسی مسلمان عورت پر تسلط پیدا نه کرسکے اوراس کے ساتھ زندگی نه گزارے عرف عام میں یہ سبیل ہے اوراسلام اسے قبول نہیں کرتا ۔
دشمنان اسلام آج یہ جان چکے ہیں کہ اگرآج اسلام کے معارف دنیا کے جوانوں کے کانوں تک پہنچ جائے تو ان کے لئے مشکل ہے ، آپ ملاحظہ فرمائے کہ شیعہ اوراہل سنت کے فقہ میں کس قدردقیق اور باریک بینی موجود ہے کہ اگر دنیا کے حقوقی کتابوں کو ایک طرف رکھیں اورعلماء اسلام نے قرآن اوراحادیث سے جو قوانین لکھے ہیں اسےدوسری طرف جمع کرے تو آپ دیکھیں کہ یہ دونوں آپس میں  قابل مقایسہ ہی نہیں ہے ،دنیا کے ریسرچ سنٹر آج اسی نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں ،آپ نے سنا ہوگا آج کل یورپین ممالک میں مذهب اسلام کی طرف آنے والے کتنے زیادہ ہوئے ہیں ،ان چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آج  اسلام میدان میں آیا ہے ،اوردشمنان اسلام بھی کسی قسم کے الزام اوربہتان لگانے سے دریغ نہیں کرتا ،اگرہم یہ سوچتے ہیں کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اوران کوبھی ہم سے کوئی کام نہیں ہے ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہئیے تو یہ ہماری ایک بہت بڑی غلطی ہے ،یعنی اگرآج مسلمان خصوصاً علماء اسلام (فرق نہیں وہ سنی علماء ہویاشیعہ علماء) احساس تکلیف نہ کرے اور میدان میں نہ اترے تو دشمنان اس کے درپے ہیں کہ اسلام کو بیخ سے ہی ختم کر لے ان کے لئے شیعہ اورسنی میں کوئی فرق نہیں ہے شیعہ اورسنی کے درمیان میں موجود مشترک چیزوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ استکبار کے نظام سلطہ کے خلاف ہیں ،البتہ ہمارے درمیان فقہی فروعات میں اختلاف ہیں ،اوریہ اختلاف بھی کم نہیں ہیں جیسا کہ خود شیعہ علماء کے درمیان بھی ان علمی مسائل کے میں درمیان اختلاف ہیں،خوداہل سنت علماء کے آپس میں بھی اختلاف ہیں ،مذاہب اربعہ کے درمیان میں اختلاف ہے ،فقہی فروعات میں اختلاف ہیں ،اصول فقہ کے مسائل میں اختلاف ہے ، یہ ایک معمولی چیز ہے یہ چیزیں دشمنوں کے لئے کوئی نقصاندہ نہیں ہیں بلکہ جو چیز دشمنوں کے لئے نقصاندہ ہے وہ ہماری مشترکات ہیں ،خود اللہ کی کتاب ہے یہ ان کے لئے نقصاندہ ہے ۔
آپ نے سناہوگا کہ کچھ سال پہلے کویت میں ایک قرآن چھپ گیا جس میں سے جہاد، شہادت، کفاراورمشرکین کے ساتھ مبارزہ کے بارے میں موجود آیات کو حذف کیا تھا ،آج اگر انٹرنٹ پر دیکھیں تو کوئی ہفتہ ایسا نہیں ہے جس میں قرآن کے بارے میں کوئی شبہہ پیدا نہ کیا ہو اس بارے میں انہوں نے ادیبوں سے  کام لیا ہے ،متکلمین اوروہ افراد جنہوں نے اعتقادات کے بارے میں کچھ کام کیے ہوں انہیں استعمال کیا ہے تا کہ یہ لوگ قرآن کے بارے میں کوئی شبہہ پیدا کرے اور کچھ اعتراضات مسلمانوں پرلگائے اس طرح قرآن کو باطل قراردے یا قرآن کے اعتبارکو ختم کرے ۔
قرآن کریم کی تحریف جس کی کوئی بنیاد نہیں ہے کے بارے میں وہی پرانے نزاع کی ترویج کرتے ہیں کہ آج الحمد للہ پایہ اول کے شیعہ علماء، مراجع اور مجتہدین اورمحققین سب کے سب اس چیز کے قائل ہیں کہ قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے ،اس آخرسو سالوں میں شیعہ علماء میں کوئی ایسا فرد نہیں ہے جو قرآن کے تحریف کا قائل ہوں ،اہل سنت علماء بھی تحریف قرآن کا قائل نہیں ہے ،دشمن آتے ہیں اس تحریف قرآن کی تہمت کو بیان کرتے ہیں تا کہ ہمیں آپس میں لڑائے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کھڑا کرے ، قرآن میں تحریف نہ ہونے کے بارے میں اتنی ساری کتابیں لکھی جاچکی ہے لیکن آتے ہیں شیعہ کو کمزور کرنے کے لئے کچھ ایسی روایات جو تحریف معنوی پر دلالت کرتی ہیں انہیں تحریف ظاہری اور لفظی پرحمل کرتے ہیں ۔
ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس اختلاف کا اصلی ریشہ اور بنیاددنیا اسلام سے خارج ہے ، دشمن حتی کہ ہمارے فقہی فروعات کے بارے  میں بھی اطلاع رکھتے ہیں ،کس کو یقین ہو گا کہ آج سے بیس(٢٠) تیس(٣٠) سال پہلے اسرائیل میں شیعہ شناسی کا شعبہ موجود ہو؟ وہ لوگ کیوں شیعہ شناسی کا شعبہ رکهتے ہیں ؟ اس لئے ہے تاکہ اختلافی موارد کوجان سکے ، اور یہ جان سکے کہ ہم کیسے شیعہ اور سنی کے درمیان میں اختلاف ایجاد کر سکتے ہیں ! یہ لوگ اس طرح سے کام کرنے میں مشغول ہیں ۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب دشمن اپنی پوری وجود کے ساتھ میدان میں اتر آئے ہیں اور ہمارے اعتقادات کو خراب کرنا چاہتا ہے، ہماری فقہ اور سیاست کو خراب کرنا چاہتا ہے ، ہمارے گھریلو نظام میں خلل ڈالنا چاہتا ہے اس طرح وہ مسلمانوں کے تمام چیزوں کو خراب و برباد کرنا چاہتا ہے تو اس مقام پر علماء کی بہت بڑی ذمہ داری ہے آپ دیکھیں جس وقت امریکانے عراق پر حملہ کیا تو انہیں ابتدائی ایام میں اسرائیل نے عراق کے اہم لائبیریوں سے کتابوں کو اٹھا کر لے گئے ،جب یہ افغانستان میں داخل ہوئے تو وہاں جوانوں کے درمیان برائیاں پھیلائے ،خود عراقی علماء یہ بتاتے ہیں کہ چھ سات سال پہلے شیعہ اور سنی جوانوں کے ہاتھوں میں برے سے برے سی ڈیز مفت میں تقسیم کیے ،یہ سب ایک منظم پروگرام کے تحت ہورہا ہے ،لہذا ہم کبھی بھی اس خیال خوش میں نہ رہے کہ اگر ہم انہیں چھوڑ دیں تو انہیں بھی ہم سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔
انہوں نے یہ سنا ہوا هےکہ قرآن کریم کی آیات کریمہ کے مطابق ایک دن ایسا آنے والا ہے جس میں اسلام دوسرے تمام ادیان پر غالب آنے والا ہے هو الذي ارسل رسوله بالهدي و دين الحق ليظهره علي الدين كلّه ولو كره المشركون یا بعض دوسری آیات میں «ولو كره الكافرون»  ہے اوریہی رسولوں کے آنے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علہ و آلہ کی رسالت کا فلسفہ ہے ۔
مہدویت کے بارے میں دلیل کے طور پر پیش ہونے والی آیات میں سے ایک یہی آیہ شریفہ ہے ،صدراسلام میں دین اسلام جہانی نہیں ہوا ،لیکن ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ دین اسلام ایک دن جہانی ہونا ہے ،اس میں شیعہ سنی سب کا اتفاق ہے ،اب اس میں ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ حضرت حجت (عج) متولد ہوئے ہیں اور ابھی موجود ہیں لیکن آپ لو گ یہ عقیدہ رکھتے ہیں ایک دن متولد ہوگا البتہ آپ کے بعض کتابوں میں بھی یہ ہے کہ متولد ہوا ہے ،لیکن اصل بات یہ ہے کہ دشمن کو ان جزئیات سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ لوگ اس اصل کے خلاف کمر بستہ ہیں وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک دن ان کا یہ دین پوری دنیا پر پھیل جانا ہے اس وقت مسیحیّت اور یہودیت کو ختم ہونا ہے ،یہ لوگ اس سے ڈرتے ہیں 'ایک شیعہ عالم دین جو پندرہ سال اسرائیل کے جیل میں رها تھا جب آزاد ہوا توایک دن ہمارے والد محترم کے خدمت میں شرفیاب ہوئے اور کہہ رہا تھا کہ یہ لوگ ہمیشہ مجھ سے یہی کہتے تھے کہ جس مہدی کے بارے میں آپ لوگ کہتے ہیں کہ ایک وہ آئیں گے اور ساری دنیا کو اسلام کی طرف دعوت کریں گے اور ظالم حکومتوں کو ختم کر ڈالیں گے ،یہ کون ہے اور کہاں ہے ؟ حضرت موسی علیہ السلام کی ولادت کی واقعہ کی طرح کہ فرعون نے سب لڑکوں کو مار ڈالا لیکن خدا کی چاہت یہ تھی کہ حضرت موسی متولد ہو جائے یہ لوگ اپنے باطل خیال کے مطابق یہ سوچ رہے تھے کہ سب کچھ انہیں کے ہاتھوں میں ہے اسی نیت سے وہ لوگ سب لڑکوں کو مار ڈال رہے تھے ،میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج ہماری دشمن ہمارے مشترکات سے بخوبی آگاہ ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ جو چیز ان کے لئے نقصان دہ ہے وہ یہی ہماری مشترکات ہے  «لن يجعل الله للكافرين علي المؤمنين سبيلاً» «هو الذي ارسل رسوله بالهدي و دين الحق ليظهره علي الدين كلّه»  یہ ہماری مشترکات ہیں اوریہی دشمن  کو ریشہ سے ختم کرنا چاہتا ہے اسی لئے وہ ہمیں ختم کرنے کے درپے ہیں ،ہمارے درمیان اختلافات پھیلانے کے درپے ہیں ، اگر ہمارے درمیان میں اختلاف علمی گفتگو تک محدود ہوں تو یہ قابل قبول ہے ،ہم کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر علمی حوالہ سے ہمارے پاس ہمارے فکر اورعقیدہ کے لئے دلیل ہوں اسے دور چھوڑ دیں اور اسی طرح  آپ لوگ بھی ہیں ، علمی لحاظ سے  «لا اکراه فی الدین»  کا ایک معنی یہی ہے کہ فکر ،ذہن اور علم میں کسی کو مجبور نہیں کر سکتا !لیکن یہ لوگ ہمارے درمیان اختلاف پھیلانا چاہتا ہے ،اس پہلو سے علماء اسلام کو آج ہر زمانہ سے زیادہ آگاہ رہنے کی ضرورت ہے ۔
یہ ایام ہفتہ وحدت کے ایام سے نزدیک ہیں واقعاً جمہوری اسلامی کے برکات میں سے ایک یہی شیعہ سنی اتحاد اور شیعہ سنی علماء کے درمیان ہماہنگی پیدا هوناہے ۔
اس وحدت کے دو بنیادی رکن ہے ؛پہلا رکن اپنے مشترکات کی محافظت ہے ،قرآن ہماری مشترکات میں سے ہے ،ہم اس کے تحریف نہ ہونے کے معتقد ہے اسی طرح آپ بھی اس کے تحریف نہ ہونے کے معتقد ہیں ، جو بھی یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں تحریف ہوا ہے ا س کے زبان کو بند کرنا چاہئیے ،کسی کو ایسی کتاب لکھنے کی اجازت نہ دے کہ وہ یہ لکھے کہ شیعہ اور علماء شیعہ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں ! چند سال پہلے مجهےایک کتاب کو دیکھنے کو ملی جو سعودی عرب سے چھپ چکی تهی ،اس کے مصنف کا اصرار تھا کہ علماء شیعہ تحریف کے قائل ہیں بلکہ اس نے لکھا تھا تحریف ہونے کے بارے میں شیعوں کا اجماع ہے ! شیخ طوسی کی تفسیر تبیان یہ ہمارے پانچویں صدی کی تفسیر ہے ، کیا اس تفسیر میں موجود آیات اوریہ قرآن جو آج ہمارے  اور آپ کے پاس ہے ان کے آیات میں کوئی فرق ہے ؟
شیخ طوسی شیخ  الطائفہ ہے ، آپ  ہمارے کلامی ،فقہی اور تفسیر کے میدان میں پایہ کے عالم ہے ، ہمارے فقہاء جیسے شیخ مفید ، سید مرتضی اور دوسروں نے اپنے فقہی مباحث میں کتنے جگہوں پر قرآن کریم کی آیات سے استفادہ کیا ہے اگر کسی کتاب میں تحریف ہوئی ہو تو اس سے استدلال نہیں ہوتا ، آئمہ فرماتے ہیں : اگرہم سے کوئی حدیث سنے تو اس حدیث کے صحیح اورغلط ہونے کو سمجھنے کے لئے اسے قرآن کے سامنے پیش کرو ،اور اگر وہ حدیث قرآن کے مخالف ہو تو فرماتے ہیں «اضربوه علي الجدار»  اسے دیوار سے دے مارو، دیکھیں آئمہ طاہرین علیہم السلام قرآن کو کتنی اہمیت دیتے ہیں ۔
قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کے بارے میں ہمیں بیدار رہنا چاہئے ، کبھی بھی اس کی اجازت نہ دے کہ اس کے بارے میں ہمارے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے ، تحریف کا یہ مسئلہ ایک تہمت ہے ،یا دوسری طرف سے یہ کہیں کہ سنی علماء اہل بیت علیہم السلام کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ،مگر ایسا ممکن ہے ؟ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ''اہل بیتی امان لاہل الارض'' یہ نہیں فرمایا میری اہل بیت شیعوں کے لئے امان ہے بلکہ فرمایا : میری اہلبیت اہل زمین کے لئے امان ہے ،یعنی سب کے لئے ، حتی کہ غیر مسلمانوں کے لئے بھی ، یہ ایک واضح چیز ہے ۔
پس وحدت کی دو بنیاد ہے ،پہلی بنیاد مشترکات کی حفاظت ہے ،کتاب خدا کی حفاظت کرنا ہے ، پیغمبر اکرم ص نے جس چیز کے بارے میں فرمایا ہے اس کی حفاظت کرے ، پیغمبر اکرم ص کے دستورات میں سے ایک جسے قرآن کریم سے لیا ہے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یگانگی پیدا کرنا ہے «واعتصموا بحبل الله جمیعاً ولا تفرقوا» یہ پیغمبر اکرم ص کے ان دستورات میں سے ایک ہے جس کے بارے میں آپ نے تاکید فرمایا ہے ،یہ ہماری مشترکات ہے جسے حفظ کرنا چاہئے ۔
دوسری بنیاد :مشترک دشمن کے مقابلہ میں اتحاد ہے یعنی آج ہم اپنے دشمن کو پہچان لیں ، یقین پیدا کریں کہ یہ ہمارے دشمن ہیں ان سے مقابلہ کریں ۔
امید ہے کہ خداوند متعالی علماء اسلام اور ہم سب کو اپنے الطاف خاصہ میںشامل فرمائے ، اس زمانہ میں علماء اسلام کی ذمہ داری رسول خدا کے زمانہ کے صحابہ کرام کی ذمہ داری سے سنگین ہے ، اس بارے میں کوئی شک و گمان نہ کرے ،چونکہ آج اسلام اپنی پوری وجود کے ساتھ دنیا میں پھیلا ہے ،اوردنیا کفر اور استکبار اپنی پوری وجود کے ساتھ اسلام پر ہجوم لایا ہواہے ،ہماری ذمہ داری ہے کہ اس ہفتہ وحدت ( جو کہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی یادگار ہے )کا احترام کریں اور اس ہفتہ میں جو کنفرانس اورجلسات منعقد ہوتے ہیں او رشیعہ اور سنی بڑے بڑے علماء آپس میں جمع ہو تے ہیں مسلمانوں کے لئے اس کے فراوان آثار اور برکات ہیں اور اسلام کے بدن میں ایک نئی روح پھونک دی  هے،یہ ہفتہ وحدت ایک زبانی پروگرام میں بدل نہ جائے ،ایران میں ہو یا ایران سے باهر دوسرے ممالک میں،  ہفتہ وحدت سے علماء اسلام اچھے نتائج لے لیں اور خداوند متعالی کے اس عظیم امانت کا اچھا امانتدار بن جائے ،قرآن کریم کے محافظین میں سے ہوں او ر انشاء اللہ روز قیامت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ کے سامنے روسفید ہو جائے ۔

و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين

برچسب ها :