عیدغدیرکے موقع پرقرآن چینل کے خصوصی پروگرام کے لیے حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (مدظلہ العالی)کاپیغام (٩١/٨/١)

24 November 2024

04:15

۶,۰۷۴

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

عید سعید قربان اوراسی طرح عید اللہ اکبر ،عید سعید غدیر کی آ مد پر تمام مسلمانوں ، خاص کر تمام شیعیان عالم کو مبارک باد اور تہنیت پیش کرتاہوں

ذی الحجۃ الحرام کے مہینے میں اسلامی عیدوں میں سے دو بڑا عید ہے جس میں سے ہرایک کے اپنے خاص اسرار اور بہت سے آ داب ہیں ۔ان دونوں میں سے عید غدیر کی اپنی ایک خاص اہمیت  ہے ۔

ہم تمام اعیاد خاص کر کے روزعید سعید غدیر کو اللہ سبحانہ تعالی کا خا ص زیارتی دن قرار دے سکتے ہیں،یعنی آج وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی نے مسلمانوں پربے حدوسیع فضل وکرم پھیلایاہے اورنہایت خاص عنایت و توجہ رکھتا ہے، حتی بعض روایات میں آیا ہے کہ جتنا اللہ تبارک وتعالی عید غدیر کے دن انسانوں کو اپنے بخشش ومغفرت سے نوازتاہے وه ماہ مبارک رمضان اور لیلۃ القدر سے بھی زیادہ ہے ۔

لہٰذاہمیں اس دو دن پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے ،ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ عید قربان سرزمین منی میں حاضر حاجیوں سے مخصوص اور اس کے آ داب کو صرف انہی کو انجام دینا چاہیے ،اوّلاً روایات اوردعاؤں کی کتابوں میں عید قربان کی رات اور دن کے لیے کچھ مستحبات ذکر ہوئے ہیں اور بہت سفارش کی گئی ہے کہ انسان عید قربان کو احیا اور شب بیداری اور اپنے پروردگار کے ساتھ راز ونیاز اور مناجات میں گزارے ،عید غدیر کے دن روزہ رکھنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ،٦٠سال کے گناہوں کا کفارہ اور زندگی میں ٦٠ مہینے روزے رکھنے کا اجروثواب رکھتا ہے ،اس دن کے کچھ آداب ہیں انشاء اللہ مؤمنین دعاؤں کی کتابیں اورجن بزرگ علماء نے اپنی تالیفات میں یہ آداب لکھے ہیں ان کی رجوع فرماکرضروراس پر توجہ دیں گے ۔

 یہاں مناسب ہے کہ امام ہشتم (ع) کی ایک روایت نقل کروں۔

168.jpg

محمد بن ابی نصر بزنطی کہتے ہیں میں آٹھویں امام کی خدمت میں تھا''والمجلس غاص باھلہ[1]''مجلس لوگوں سے بھری ہوئی تھی اور دوسرے کسی اور کیلئے جگہ خالی نہیں تھی ،عید غدیر کی بات چھڑ گئی ، کچھ لوگ نے عید غدیر کے دن کے بارے میں شک وتردید کیا ، امام ھشتم نے فرمایا''حدثنی ابی عن ابیہ علیہم السلام قال'' اپنے جد سے کوئی حدیث نقل کیا کہ آ پ ؐنے فرمایا''انّ یوم الغدیر فی السماء أشہر منہ فی الأرض''یعنی اے زمین پر رہنے والو یہ نہ سوچنا عید غدیر کا دن صرف تم زمین پر بسنے والوں کے لیے ہے بلکہ عید غدیر کے دن کی ایسی حقیقت اور ملکوت ہے کہ اہل آسمان میں زمین سے زیادہ مشہورہے اور اس روز آسمان میں شوروغول ہے۔

پھرفرماتے ہیں ''ان للہ عزوجل فی الفردوس الاعلی قصراً''اللہ کے لیے اپنے فردوس اعلیٰ میں سونے اور چاندی کا محل ہے ،(جس میں )ایک لاکھ خیمہ اور یاقوت سے بنے ہوئے گنبد ہے۔''ترابہ المشک وا لعنبر''اس کی مٹی مُشک اورعنبرہے ''فیہ أربعۃًأنہارنہرمن خمر ونہر من ماء و نہر من لبن ونہر من عسل''اس محل میں پانی ،دودھ ،شہد اور شراب کی چار نہریں جاریں ہیں ''حوالیہ اشجار جمیع الفواکہ ''ایسے درخت جوتمام میوے رکھتے ہیں اور مخصوص پرندے ان کے اردگرد ہیں ''فاذاکان یوم الغدیرورد الی ذلک القصر اھل السموات'' جب عید غدیر کا دن آتاہے اللہ تعالی اس دن کی برکت سے اہل آسمان کو اس قصر میں داخل کرتاہے ۔

یسبحون اللہ ویقدسونہ و یہللونہ ''اور وہاں اللہ سبحانہ کی تسبیح ،تقدیس اورتہلیل میں مشغول ہوجاتے ہیں ''فتتطایر تلک الطیور ''یہ پرندے وہاں اڑتے ہیں اوروهاں کے مشک و عنبر سے استفادہ کرتے ہیں ''انہم فی ذلک الیوم لیتہادّون نثارفاطمہ علیہا السلام ''عید غدیر کے روز ملائکہ اوراہل آسمان ایک دوسرے کو فاطمہ علیہا السلام کا نثارتحفے میں دیتے ہیں (نثار'اس درخت طوبی کے پتے ہیں جو حضرت زہرا 'اور امیرا لمومنین علیہم السلام کے ازدواج کی برکت وسعادت سے حضرت کی شب ِزفاف میں اہل آسمان کو ہدیہ کیا گیا۔( پھر آٹھوے امام فر ماتے ہیں ''یابن ابی نصرأینماکنت فحص یوم الغدیرعندأمیر المؤمنین''فرماتے ہیں غدیر کے روزجہاں بھی ہوامیرالمؤمنین (ع)کی قبرکے پاس جاؤ''فان اللہ تبارک وتعالی یغفر لکل مؤمنۃ ومسلم ومسلمۃ ذنوب ستین سنۃ ''اللہ تعالیٰ ساٹه سال کے گناہوں کو امیرا لمؤمنین (ع) کی برکت سے بخش دیتا ہے''ویعتق من النار ضعف ما اعتق من شہر رمضان''جتنے لوگوں کو ماہ رمضان میں جہنم کی آگ سے آزاد کیاہے اس سے دوگنا زیادہ غدیر کے روز آزاد کرتاہے ،اس روزایک درہم صدقہ دینا دیگر دنوں میں ہزاردرہم دینے کے برابر ہے اورمؤدمنین کو اس روز خوش کرنے کابہت زیادہ ثواب ہے۔اس روایت میں اہم نکا ت ہیں جن کا جائزہ لینا چاہیے۔

192.jpg

سب سے اہم بات یہ ہے کہ امامت قرآن کریم کی صارحت کی بناپر ہمارے دین کے اصول میں سے ہے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ''یاایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ ''؛اے ہمارے رسول جو کچھ ہماری جانب سے تم پر نازل ہوا ہے لوگوں تک پہنچاؤاور اگر تم نے یہ کام نہ کیاتو تم نے اللہ کی رسالت کو انجام نہیں دیا ہے ،اس کے معنی ہیں کہ پیغمبر (ص)کی تمام زحمات ،سعی وکوشش اور مجاہدت و جنگیں جو آ پ نے اللہ کے لیے انجام دیا ۔ اس کے باوجود کہ ابتدا ئی دنوں میں ہی سب کے لیے مثال ونمونہ بن چکا تھااور مختلف مناسبتوں میں امیرا لمؤمنین (ع)کے بارے میں فرماچکے تھے ،لیکن اس اجتماع میں اوراس خصوصیت کے ساتھ کہ لوگ حج سے واپس لوٹ کر آتے ہیں پیغمبر (ص) حکم دیتے ہیں کہ سب کھڑے ہو جائیں اور جمع ہوں،ایک لمبی اور تفصیلی خطبہ دیتے ہیں ۔

میں یہاں اپنے عزیزوں کو سفارش کرتاہوں کہ ضروررسول اللہ (ص)کے خطبہ غدیر کی طرف رجوع کریں ،اگر کوئی انسان مسلمان رسول اللہ (ص) نے جو خطبہ روز غدیردیا اسے دیکھے تو اس کے دل میں امیرا لمؤمنین (ع) کی ولایت کے بارے میں کوئی  شک باقی نہ رہے گا،مگر کوئی ایسا شخص ہوجو چاہتا ہے کہ انصاف اورعقل ومنطق کو کنارے پر رکھے ۔

آپ ؐ نے ایک خطبہ دیا اورفرمایا: ''من کنت مولاہ فہذاعلی مولاہ ''اس آیت میں بھی اللہ تعالی فرماتاہے ؛اے ہمارے رسول اگرآپ اس الٰہی حکم کو لوگوں تک نہیں پہنچائیں گے تو آ پ نے اللہ کی رسالت کو انجام نہیں دیا،یعنی یہ فریضہ وذمہ داری ادا نہ کرنا رسول اللہ کی رسالت کی تمام زحمات ختم ہونے کے برابر ہے ،ہم شیعون کا عقیده ہے کہ نماز ولایت امیر المؤمنین کے بغیر نماز نہیں ہے ،روزہ بغیر ولایت امیر المؤمنین ' روزہ نہیں ہے ،اصل میں عبادت بغیر ولایت ِامیر المؤمنین اور ان کی اولاد کے ،عبادت هی نہیں ہے ۔

ممکن ہے کہ دیگراہل مذاہب میں سے بعض ہم سے کہیں آپ لوگ کس دلیل کی تحت یہ بات کرتے ہیں ؟ کیا قرآن کریم سے کوئی دلیل ھے ؟ہم کہتے ہیں جی ، سورہ مائدہ کی اسی آیت سے جب یہ طے پائے کہ اگر رسول اللہ (ص) ولایت کا اعلان نہ کریں آ پ ؐ کی رسالت کالعدم( ختم شدہ ) گردانا جائے ،یقیناًاورترجیحی طورپر بغیر ولایت کی نماز،کالعدم اورایسا ہے جیسا که نماز هی نہ پڑھا ہے اور اس کا کوئی اثر نہیں ہے ،نماز اہم تر ہے یا رسالت ، روزہ اہم تر ہے یا رسالت ؟لہٰذا ہم اسی آیت سے یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ دین کی تمام روح ولایت ہے ،دین کا تمام جو ہر اور حقیقت ولایت ہے ،ہمیں عید غدیر کے روزواقعاً ولایت کو زیادہ اور بہتر سمجھنا چاہیے ،ولایت کی حقیقت کو ، ولایت سے تمسک کو زیادہ سمجھنا چاہیے ،عید اس انسان کے لیے عید ہے جو ولایت کی حقیقت کو اپنے قلب میں زیادہ متجلی( روشن اور درخشاں) کرے ۔

اس دُعا کو ان دنوں میں زیادہ پڑھنا چاہیے ''اللّہُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَانَّکَ انْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَمْ اَعْرفْ رَسولَکَ ، اللّہُمَّ عَرِّفْنِی رَسولَکَ ، فَانَّکَ انْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسولَکَ ، لَمْ اَعْرفْ حُجَّتَکَ اللّہُمّ عَرِّفْنِی حُجّتَکَ فانّکَ انْ لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجّتَکَ ضَلِلْتُ ''ہم عید غدیر کے روز اللہ تعالی سے کہتے ہیں اے اللہ ہمارے حی اور زندہ حجت کو' ہمارے امام زمانہ کو ہمیں زیادہ پہچنوائیں ،ولایت کو ہمارے وجود کی گہرائی میں قرار دیں اورعجیب بات یہ ہے کہ روایت میں وارد ہے ،پیغمبر (ص) نے امیرا لمؤمنین (ع) کو حکم دیا کہ غدیر کے دن کو عید کا دن قرار دو۔

پھر اسی روایات میں وارد ہو ا ہے کہ تمام گذشتہ انبیاء (ع) نے اپنے اوصیا ء کو سفارش اور وصیت کرتے تھے کہ غدیر کے دن کو ،اس کے باوجود کہ اس دور میں ابھی تک ظاہاً نہ کوئی رسول اللہ (ص) تھے اور نہ امیرا لمؤمنین (ع)!لیکن گذشتہ انبیاء کی سفارش او ر وصیتوں میں سے ایک یہ تھی کہ غدیر کے دن کو عید مانایا جائیں ۔

عید قربان کا دن بھی بہت اہم ہے ،اللہ تعالی کی بندگی کی عید ہے ،ہمیں ضرورعید قربان کے دن اپنی بندگی کے حوالہ سے تجدید نظر(نظرثانی) کرنا چاہیے اور اس کی تقویت کرنا چاہیے اور اسے نیچے اورسطحی ومعمولی رتبہ پر نہیں پڑارہنا دینا چاہیے ،عید قربان کے آداب ان افراد کے لیے اختصاص نہیں رکھتا جو حج پر ہیں ،عید قربان کی رات بیداری کرنا اور عید کے روز سے مربوط اعمال اورجودعائیں اس سلسلہ میں وارد ہوئیں ہیں وہ تمام مؤمنین کے لیے ہیں ۔

یہاں میں عزیزومحترم عوام سے عرض کرتاہوں وہ لوگ اہل دعا ہیں ،اگر چہ مرحوم محدث قمی (رہ) کی مفاتیح الجنان ہماری دعائی سرمایوں میں سے ہے لیکن یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ دعائیں صرف اسی کتاب ِ مفاتیح الجنا ن میں ہیں ،سیدبن طاووس کی کتاب اقبال کی دعائیں ،مفاتیح الجنان سے کئی گنا زیادہ ہیں ۔ہمیں یہ دعائیں پڑھنی چاہیے اور ان کی روح ومعنی سے بہرہ مند و مستفید ہوناچاہیے ۔

عید قربان میں اللہ تعالی خالق کائنات کو اس کی بندگی کے مراتب اورعید غدیر میں صاحب ِولایت کبری امیر المؤمنین (ع) سے ولایت کے مراتب ودرجات کو بڑھائیں کہ ولایت اوراللہ سبحانہ تعالی کی بندگی دو جو ہر ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط اورجوڑے ہوئے ہیں ،اللہ تعالی کی بندگی امیرالمؤمنین کی ولایت کے بغیر امکان پذیر نہیں ہے مجھے امید ہے کہ اس دو دن کی برکات و آثار سے ہم سب بہرہ مند ومستفید ہوجائیں انشاء اللہ ۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ



[1] -اس روایت کا کامل متن یوں ہے :

مُحمَّدُبْنُ اَحْمَدَ بْن دَاوُدَ عَنْ اَبِی عَلِیّ اَحْمَدَ بْن مُحَمّدِبْن عَمّار الْکُوفِیّ قَالَ حَدَّثَنَا اَبی قَالَ حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَن بْن فَضّالٍ عَنْ مُحَمّدِ بْن عَبْدِاللّہِ بْن زُرَارَۃَ عَنْ اَحْمَدَ بْن مُحَمّدِ بْن اَبی نَصْر قَالَ ؛ کُنّا عِنْدَالرّضَا(ع) وَالْمُجْلِسُ غَاصٌ باَھْلِہِ فَتَذَکَّرُوا یَوْمَ الْغَدِیر فَاَنْکَرَہُ بَعْضُ النّاس فَقَالَ الرّضَا (ع) حَدَّثَنِی اَبی عَنْ اَبِیہِ (ع) قَالَ اِنّ یَوْمَ الْغَدِیر فِی السّمَاءِ اَشْھَرُ مِنْہُ فِی الْاَرْضِ اِنّ لِلّہِ فِی الْفِرْدَوْس الْاَعْلَی قَصْراً لَبنَۃٌ مِنْ فِضّۃٍ وَلَبنَۃٌ مِنْ ذَھَبٍ فِیہِ مِائۃُ اَلْفِ قُبّۃٍ مِنْ یَاقُوتَۃٍ حَمْرَاءَ وَ مِائَۃُ اَلْفِ خَیْمَۃٍ مِنْ یَاقُوتٍ اَخْضَرَ تُرَابُہُ الْمِسْکُ وَالْعَنْبَرُ فیہِ اَرْبَعَۃُ اَنْہار نَہَرٌ مِنْ خَمْر وَ نَہَرٌ مِنْ ماءٍ وَ نَہَرٌ مِنْ عَسَل وَحَوَالَیْہِ اَشْجَارُ جَمِیع الْفَوَاکِہِ عَلَیْہِ طُیُورٌ اَبْدَانُہَا مِنْ لُؤْ لُؤْ وَاَجْنِحَتُہَا مِنْ یَاقُوتٍ تَصوُتُ بِاَلْوانِ الْاَصْوَاتِ اذَا کَانَ یَوْمُ الْغَدِیر وَرَدَ ذَلِکَ الْقَصْر اَھْلُ السّمَاوَاتِ یُسَبّحُونَ اللّہَ وَ یُقّدِّسُونَہُ وَ یُھَلِّلُونَہُ فَتَطَایَرُ تِلْکَ الطُّیُورُ فَتَقَعُ فِی ذَلِکَ الْمَاءِ وَ تَتَمَرّغُ عَلَی الْمِسْکِ وَالْعَنْبَر فَاذَا اجْتَمَعَتِ الْمَلَائِکَۃُ طَارَتْ فَتَنْفُضُ ذَلِکَ عَلَیْہمْ وَاِنّہُمْ فِی ذَلِکَ الْیَوْمِ لَیَتَہَادَوْنَ نُثَارَ فَاطِمَۃَ (ع) فَاِذَا کَانَ آخِرُ ذَلِکَ الْیَوْمِ نُودُواانْصَرفُوا الَی مَرَاتِبکُمْ فَقَدْ اَمِنْتُمْ مِنَ الْخَطَاِ وَ الزّلَل اِلَی قَابل فِی مِثْل ھَذَا الْیَومِ تَکْرمَۃً لِمُحَمَّدٍ(ص) وَ عَلِيٍّ(ع) ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ أَبِي نَصْرٍ أَيْنَ مَا كُنْتَ فَاحْضُرْ يَوْمَ الْغَدِيرِ عِنْدَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ(ع) فَإِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ لِكُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ وَ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَةٍ ذُنُوبَ سِتِّينَ سَنَةً وَ يُعْتِقُ مِنَ النَّارِ ضِعْفَ مَا أَعْتَقَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ لَيْلَةِ الْفِطْرِ وَ الدِّرْهَمُ فِيهِ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ لِإِخْوَانِكَ الْعَارِفِينَ فَأَفْضِلْ عَلَى إِخْوَانِكَ فِي هَذَا الْيَوْمِ وَ سُرَّ فِيهِ كُلَّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ ثُمَّ قَالَ يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ لَقَدْ أُعْطِيتُمْ خَيْراً كَثِيراً وَ إِنَّكُمْ لَمِمَّنِ امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ مُسْتَقَلُّونَ مَقْهُورُونَ مُمْتَحَنُونَ يُصَبُّ عَلَيْكُمُ الْبَلَاءُ صَبّاً ثُمَّ يَكْشِفُهُ كَاشِفُ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ وَ اللَّهِ لَوْ عَرَفَ النَّاسُ فَضْلَ هَذَا الْيَوْمِ بِحَقِيقَتِهِ لَصَافَحَتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ فِي كُلِّ يَوْمٍ عَشْرَ مَرَّاتٍ‏ وَ لَوْ لَا أَنِّي أَكْرَهُ التَّطْوِيلَ لَذَكَرْتُ مِنْ فَضْلِ هَذَا الْيَوْمِ وَ مَا أَعْطَى اللَّهُ فِيهِ مَنْ عَرَفَهُ مَا لَا يُحْصَى بِعَدَدٍ؛ ( إقبال الأعمال‏1: 468 - وسائل الشيعة، ج‏14، ص: 388(
روایت کا ترجمہ :

احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی سے منقول ہے کہ ہم کچھ لوگ حضرت امام رضا(ع) کے حضور میں تھے اور وہ گھر محدثان ( حدیث شناس) سے بھرا ہو اتھا۔چنانچہ روز غدیر کی حکایت وذکر چھڑگیا۔اہل سنت میں سے کچھ نے کہا یہ واقعہ معلوم نہیں ہے یا اس دن کی فضیلت ظاہر نہیں ہے ۔حضرت نے فرمایا روز ِغدیر کی شہرت آسمانوں میں اہل زمین کے درمیان موجود شہرت سے زیادہ ہے ۔

حقیقتاًاللہ تعالی کے لیے فردوس اعلی میں ایسا محل ہے جس کی ایک اینٹ چاندی اور ایک سونے سے ہے اور اس محل میں ایک لاکھ گھرسرخ یاقوت سے ہے اور ایک لاکھ خیمہ یاقوت سبز کا ہے ا ور اس کی مٹی مشک اورعنبر سے ہے اور اس میں چار نہریں ہیں : ایک شراب اور ایک پانی اور ایک دودھ اورایک شہد کی ،اور ان کے ارد گرد تمام پھلوں کے درخت ہیں اور درختوں پر ایسے پرندے ہیں جن کی بدن مروارید سے ہیں اور ان کے بال یاقوت اور مختلف آوزوں میں نغمہ سرائی کرتے ہیں اورجب غدیر کا دن آتاہے تمام آسمانوں کے فرشتے اس قصر میں آتے ہیں اوراللہ سبحانہ تعالی کی تقدیس اور تہلیل کرتے ہیں ؛پھر وہ پرندے اڑتے ہیں اور اس پانی میں غوطہ لگاتے ہیں اور مشک اورعنبر کی مٹی پر کڑوتیں کھاتے ہیں؛جب فرشتے جمع ہوتے ہیں وہ پرندے اڑتے ہیں اور اپنے پروں کوان کے لیے جھاڑتے ہیں اور اس روز حضرت فاطمہ زہرا(صلوات اللہ علیہا) کے نثار کو ایک دوسرے کو بطور ہدیہ دیتے ہیں اوردوسرے کے لیے تحفہ بھیجتے ہیں ۔
اورمنقول ہے کہ حضر ت امیرالمؤمنین اورفاطمہ زہرا(علیہما السلام ) کی شب ِزفاف میں ،طوبی یاسدرہ کا درخت بہت عظیم سازوسامان اور پتّے اُٹھانے پر مأمورہوااور اہل جنت میں سے حوراور غلمان سب کے سب اس درخت کے نیچے حاضر ہوگئے اور راحیل نے انتہائی فصاحت اور بلاغت والا خطبہ پڑھااور حضرت جبرئیل (ع) نے جنا ب حضرت امیرا لمؤمنین (ع) کی جانب سے خطبہ  نکاح پڑھااور حق سبحانہ وتعالی نے حضرت فاطمہ کی طرف سے ایجاب کیا اور حضرت جبرئیل (ع) نے حضرت امیر المؤمنین (ع)کی جانب سے قبول کیا ؛ پھر درخت طوبی یا سدرۃ المنتہی یا دونوں نے مرواردید اور جواہر اور اپنے پتے ان پر نچھاور کیا اورحوراور غلمان میں سے ہر ایک نے اپنا حصہ لیااورغدیر کے دن ہر کوئی یہ دوسرے کی جانب سے ہدیہ بھیجتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہرایک کے لیے خاص بو اور زینت ہے جو دوسرے کی نہیں اور پورے سال میں دوسری عید کے آ نے تک ان سے یہ خوش بو مہکتی رہے گی ۔اور جب دن کے آخری وقت آ پہنچتاہے تو صدا آتی ہے کہ اپنی جگہوں کی طرف لو ٹ جائیں کہ تم لوگوں کو آئندہ سال اس روزتک خطا اور گناہ س
ے محفوظ کرلیا ہے حضرت محمد (ص) اور حضرت امیر المؤمنین ( علیہما السلام ) کے اعزاز وا کرام کے طفیل و بر کت سے ۔

پھرحضرت نے فرمایا اے ابو نصر کے بیٹے !تم جہاں بھی ہو کوشش کرو کہ غدیر کے دن حضرت امیر المؤمنین (ع) کے پاس حاضرہوجاؤ کیوں کہ حضرت حق ۔ اللہ سبحانہ و تعالی ۔ تمام مؤمنین و مؤمنات اور مسلمین و مسلمات بخش دیتا ہے اور ان کے ساٹه سالہ گنا ہوں سے در گزر کرتا ہے اور دوزخ کی آ گ سے آزادکرتا ہے اس سے دو گنازیادہ جتنا ماہ رمضان اور شبِ قدر اور شبِ فطر میں آ زاد کر چکا ہے ،اور جو کوئی اس دن ایک درہم صدقہ دے اس کے برابر کے شیعیان اثنی عشری کو ایک ہزار درہم دے ؛ لہٰذا جتنا تمہارے لیے مقدور و ممکن ہواپنے مؤمن بھائیوں پر احسان کرو اورہر مؤمن اور مؤمنہ کو اس روز خوش ومسرور کرو ۔

پھرآ پ نے فر مایا اے اہل کوفہ ! حق ۔ سبحانہ تعالی ۔ نے تم لوگوں کو بہت زیادہ خیر وبرکت عطا کیا ہے اور حقیقتاً تم لوگ ان مو منین میں سے ہو جن کے دلوں کو اللہ سبحانہ تعالی نے ایمان کے حوالے سے امتحان کیاہے اوراس کے بعد تم خواری و ذلت میں ہو گے اور تمہارے دشمن تم پر بہت سے مظالم ڈھائیں گے اور امتحان اور آ زمائشیں تمہارے تو سط سے ہوں گے او ر بلا و مصیبتیں پے در پے تم پر ڈھائیں جائیں گی اورغم ومصیبت دور کرنااسی کے ہاتھ میں ہے ،تم سے سنگین و بڑے بلاؤں کو دور کرے گا ؛اور اللہ کی قسم ! اگر لوگ اس روز کی فضلیت کو جان لیں اور چنانچہ اس کی شرائط و آداب پر عمل کریں ،ہرروز دس مرتبہ آسمانوں کے فرشتے ان کے ساتھ مصا فحہ کریں گے اور اگر مجھے بات زیادہ لمبی ہونے کا خوف نہ ہوتا تو ضروریه بیان کرتا که اس روز کی فضیلت اور اس دن کی معرفت رکھنے والوں کوجو رتبہ ومقام جو اللہ سبحانہ و تعالی نے عطا فر مایا ہے جس کی مقدار اور اندازہ الله کے علاوہ کوئی اور بیان اور حساب و کتاب نہیں کرسکے گا۔

 

برچسب ها :