تحریر الوسیلہ کانفرنس میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی دامت برکاتہ کا خطاب

24 November 2024

06:24

۲,۰۵۳

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها


بسم الله الرّحمن الرّحیم الحمدلله رب العالمین

اس نورانی محفل میں جہاں ہم اساتید ،بزرگان اورعلماء و فضلا ء کی خدمت میں ہیں دو حصوں پر مشتمل کچھ عرائض پیش کروں گا ؛ایک حصہ تحریر الوسیلہ اورامام خمینی (رہ) کے بعض فقہی شؤنات کے بارے میں ہے اوردوسرےحصے میں تفصیل الشریعہ کے بارے میں کچھ عرایض پیش کروںگا کہ یہ اس کتاب تحریر الوسیلہ کے بارے میں لکھی ہوئی پہلی شرح ہے ۔
جہاں تک پہلے حصہ کے بارے میں ہے ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ یہ بھی دنیا کے ایک ناسزاوار کاموں میں سے ہے کہ مجھ جیسا انسان امام (رہ) اورامام کے فقہی آراء کے بارے میں حتی کہ کچھ اشارہ کروں ، اپنے اس علمی بے بضاعتی کے باوجود میں یہ سوال کروں گا کہ تحریر الوسیلہ کا متن ایک کامل فقہی متن ہے ،کتاب جہاد کو چھوڑ کر فقہ کا ایک مکمل کورس ہے ،کیسا انسان فقہ میں ایک متن تحریر کرسکتا ہے ؟یہ ایک مہم سوال ہے ، جو شخص بھی فقہ میں مختصر سی آشنائی رکھتا ہو کیا وہ فقہی متن کا  ایک مکمل کورس لکھ سکتا ہے یا نہیں ؟
یہ واضح ہے کہ امام (رہ) کا وسیلہ کے حواشی کو متن میں داخل کرنے کا مقصد صرف فتوا دینا نہیں تھا اور اس لیے بھی نہیں تھا کہ ایک عربی متن لکھا جائے جیسا کہ ہمارے زمانہ میں یہ رایج ہوا ہے بعض مراجع ایک عربی متن کو لکھتے ہیں تا کہ ان کے فتوا عربی زبان میں بھی ہو،امام(رہ) اس بات کی طرف متوجہ تھے کہ تحریر کو متن قرار دیں اس نظریہ کے تحت اس کتاب کو لکھا ہے ،جو شخص ایک کامل کتاب لکھنا چاہتا ہے تو اسے پورے فقہ پرپوری طرح عبور حاصل ہونا چاہئے ،فقہ کے بعض ابواب پر عبور حاصل ہونا کافی نہیں ہے،ایسا انسان ہونا چاہئے جس کے محکم اورمضبوط نظریات ہوں،اگرکوئی کمزورنظریہ کے حامل ہوتووہ ایک کامل متن نہیں لکھ سکتا ۔


تحریر الوسیلہ کانفرنس میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی دامت برکاتہ کا خطاب

امام(رہ) کے فقہی روش میں ایک اہم بات جسے میں نے ملاحظہ کیا ہے وہ ان کا نصوص کے سامنے متعبد ہونا ہے ،کتاب البیع ، کتاب الطہارة اور امام کے مختلف فتووں میں ہم یہ ملاحظہ کرتے ہیں کہ دوران غیبت کے قریب کے فقہاء کی طرح کہ یہ حضرات آئمہ معصومین علیہم السلام کے کلمات کے متعبد تھے اسی طرح امام(رضوان اللہ تعالی علیہ) بھی روایات کی نسبت اور ان سے تجاوز نہ کرنے میں ایک خاص حساسیت رکھتے تھے ، اس مطلب کی طرف توجہ کرنا آج ہمارے حوزوی معاشرہ اور محققین کے لئے بہت ضروری ہے ،اگر اہل سنت کے ہاں آج مقاصد الشریعہ ہے اور تقریباً رسول اللہ (ص) کے نصوص کو چھوڑ دیتے ہیں اور آہستہ آہستہ حقوق بشر میں بیان شدہ کچھ قوانین کی طرف آگئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی فقہ نصوص سے متعبد نہیں ہے اور امام(رہ) بنیادی طور پر فقہ جواہری  پر مسلسل تاکید اور اپنے علمی روش اور طریقہ بھی نصوص پرمتعبد ہونا ہے ، امام (رہ) جو عقلی لحاظ سے جیساکہ ہمارے استاد معظم حضرت آیت اللہ العظمی جوادی نے فرمایا ہمارے  اس زمانہ میں ایک عقلی مسائل کے سب سے اونچے درجہ پر فائز ہے اورعقلی قوانین پر پوری طرح مسلط ہیں لیکن جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ فقہ میں عقل اور نقل کے درمیان تعارض کو کیسے حل کرتے ہیں ۔
کتاب البیع میں ایک بحث میں دلیل نقلی اورعقلی کے درمیان تعارض میں جیسا کہ مرحوم صاحب جواہر اور مرحوم شیخ انصاری فرماتے ہیں کہ اگر دلیل نقلی قطعی اور دلیل عقلی کے درمیان تعارض ہو، تو عام طور پر دلیل عقلی کو مقدم کرتے ہیں ، البتہ بعض  نے توقف بھی کیا ہے لیکن امام فرماتے ہیں دلیل عقلی اورقطعی نقلی دلیل کے درمیان تعارض کی صورت میں حتی الامکان نص اور روایت کی تحفظ کرنا چاہئے ، حتی کہ اگر تکلفات اور دورتوجیہات کے ذریعہ حفظ کرنا پڑے تو اس صورت میں بھی ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ ہمارا عقل کسی چیز کے بارے میں کوئی حکم کررہا ہے اس کے بارے میں وارد روایات کو چھوڑ دیں ، فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ایسا کرے ، ایک نظریہ ہے کہ فرماتے ہیں نص پر عمل کرنا ممکن ہونے کی صورت میں اس پر عمل کرنا چاہئے اگرچہ ہمارا عقل اس مسئلہ کو صحیح طرح نہ سمجھیں ،اگر چہ عقلی موازین سے دور ہو !
کبھی کبھارکچھ افراد کہتے ہیں کہ مسئلہ ربا میں ہم یہ استفادہ کرسکتے ہیں کہ امام مقاصدی فقیہ ہے میں اپنے ان حوزوی دوستوں سے کہتا ہوں ، ایسا نہیں ہے ! یہ امام(رہ) پر صرف ایک تہمت ہے ، امام(رہ) کبھی بھی مقاصدی فقیہہ نہیں ہے ، مقاصدی فقیہ وہ ہے جو نصوص پر متعبد نہ ہوں اور اسے کسی مشکل کے چھوڑ دیتا ہو اور یہ کہتا ہے کہ اب میرا عقل یا ہمارے زمانہ کے عقلاء جسے پسند کرتا ہے وہ کیا ہے میں اسے اپنا تا ہوں،کتاب البیع کی جلد اول صفحہ ٣٨٢ پر فرماتے ہیں : عقل اور نقل کے درمیان تعارض ہونے کی صورت میں اس کام کو انجام دینا چاہئے ۔
امام کے فقہی روش میں ایک اور جہت جس کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ امام(رہ) کے تحریر الوسیلہ کے فتواؤں سے استفادہ ہوتا ہے کہ فقہ الاجتماع اور فقہ حکومت کے مسائل سے مربوط ہے اور اسلام کے بنیاد سے مربوط مسائل ہے اور وہ عام شرائط جسے فقہاء تکلیف کے لئے بیان کرتے ہیں انہیں بیان نہیں کرنا چاہئے۔
فقہاء متقدمین کہتے تھے کہ قدرت رکھنا تکلیف کے شرائط میں سے ہے ، لہذا اگر قدرت میں شک کرتے تو وہاں برائت جاری کرتے تھے ، مثلاً اگر ہمیں معلوم نہ ہو کہ کسی کام کے انجام دینے کی قدرت ہے یا نہیں ؟تو یہاں پر برائت جاری ہو گا ، لیکن امام (رضوان اللہ تعالی  علیہ) فرماتے ہیں قدرت تکلیف کے منجز ہونے کے لئے شرط ہے ۔
لیکن امام کے فتوؤں سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ بحث شخصی تکالیف سے مربوط ہے ،لیکن جب حکومت کی بات ہواورجب اجتماع اور فقہ الاجتماع کی بات ہو تو وہاں ایسا نہیں ہے ،تحریر الوسیلہ میں امر بالمعروف اورنہی ازمنکر کی بحث کو ذرا پڑھیں کہ امر بہ معروف اور نہی از منکر کے بارے میں سب سے زیادہ محکم کتاب یہی کتاب ہے ، اس میں فرماتے ہیں : «لو کان فی سکوت علماء الدین و رؤساء المذهب، خوف ابن یصیر المنکر معروفا او المعروف منکرا، یجب علیهم الاظهار»اگرعلماء کی خاموشی کسی معاشرہ میں کسی منکر کے انجام پانے یا کسی معروف کے ترک ہونے کا سبب ہو تو اس وقت ان علماء پر بیان کرنا واجب ہے «ولا یجوز السکوت. ولو علموا عدم تأثیر انکارهم« ان کو خاموش رہنا جائز نہیں ہے اگرچہ ان کو ان کی بات کا کوئی اثر نہ ہونے کے بارے میں علم بھی ہو یعنی نہ صرف شک کی صورت میں بلکہ اگر موثر نہ ہونے کے بارے میں علم ہو کہ اگر اس کو بیان کرے ،اگر ان کی احیاء کے لئے زندان جائے یا مقابلہ کرے تو بھی کوئی اثر نہیں ہے فرماتے ہیں اگر موثر نہ ہونے کا یقین ہو تب بھی بیان کرنا چاہئے ۔
ایک اور قابل غور بات قواعد لا ضرر اور لا حرج میں ہے ؛انقلاب اسلامی کے آنے سے پہلے ہمارے کچھ بزرگان کہتے تھے«و لا یلاحظ الضرر و الحرج مع کون الحکم مما یهتمّ به الشارع الأقدس»طاغوت سے مقابلہ کرنا حرجی ہونےکی بنا پرواجب نہیں ہے ، طاغوت سےمقابلہ کرناضرری (نقصاندہ) ہے اس لحاظ سے یہ واجب نہیں ہے ،لیکن امام (رہ) فرماتے ہیں:«ولا یلاحظ الضرروالحرج مع کون الحکم مما یهتمّ به الشارع الأقدس»ایسے موارد میں جہاں شارع مقدس نے خاص اہمیت دی ہو وہاں پرضرراور حرج کی بات نہیں ہوتی ،امام (رہ) کے فقہی اس روش سے جو نتیجہ ہم لے سکتے ہیں یہ ہے کہ یہ عمومی شرائط اور وہ قوانین جو ادلہ اولیہ پرحاکم ہے جیسے لاضرر کا قانون اور لا حرج کا قانون …یہ سب شخصی تکالیف میں ہے ،لیکن جب اسلام کی بنیاد کی بات ہو تو وہاں ان قوانین کی بات نہیں ہے ۔
میں یہاں پرانہیں دو مطالب پراکتفاء کرتا ہوں؛لیکن آپ تمام سے ایک درخواست کرتا ہوں جیسا کہ ہمارے بعض بزرگ فرماتے ہیں ،امام (رہ) کا اس ملک اوراس انقلاب اور ہم سب پر جو حق ہے وہ اپنی جگہ لیکن اس کے علاوہ اگر ہم فقہ کے رشد ونموکے حق میں ہوں ،اگر ہم اس چیز کے طالب ہوں کہ ہمارا فقہ ایک متوقف فقہ نہ ہوبلکہ یہ اپنے حرکت تکاملی کو جاری رکھے تو امام(رہ) کے فقہی کلمات میں تحقیق کرنا ہم سب کا وظیفہ ہے ،واقعاً امام(رہ) نے اپنے دورہ فقہی اور فقہی عمر میں کچھ ایسے بنیاد ڈالے ہیں کہ اگر کوئی محقق تحقیق کے پیچھے ہو اور اگر واقعا فقہ کے رشد ونمو کے لئے جستجو کرتا ہوتوان مطالب کی طرف جانے کی ضرورت ہے ،حوزات علمیہ اگر فقہ کی حقیقت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ امام کی فقہ سے ارتباط پیدا کرے ،امام(رہ) کے فقہ سے الگ ہونا ان کے لئے بہت نقصاندہ ہے اور خود ان کے لئے بہت ضرر ہے ،امام(رہ) نے فکری ایجادات اور اپنے نئے نئے نظریات کو اپنی کتابوں کے درمیان ارث چھوڑ کر گئے ہیں اور واقعاً (میں ابھی آٹھ سال سے امام(رہ) کے مکاسب محرمہ اور بیع کے بحث کو بیان کر رہا ہوں) کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ ان کی کتاب میں ایک دقیق اور گہرا اورجدید مطلب پیدا نہ ہوا ہو ۔
یہی تعبیر جسے علامہ جوادی نے فرمایا:آپ نے واقعا فقہ کو پیچیدگیوںاورٹنوں مٹی سے باہر نکال کرہمارے حوالہ کیا ہے،آج حوزات علمیہ کو ان کا قدرداں ہونا چاہئے ۔
میرا دوسرا مطلب تفصیل الشریعہ کے بارے میں ہے ؛میں یہ کبھی نہیں بھولتا کہ ہمارے والد مرحوم (رضوان اللہ تعالی علیہ) نے یزد میں ایک درس شروع کیا ،ساواک نے انہیں اس سے منع کیا اور درس دینے کی اجازت نہیں دی، اس وقت میں چھوٹا تھا پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا ،درس دینے کی اجازت نہ دینے کے چند دن بعد مجھ سے فرمایا :خداوند متعالی نے میرے ذہن میں ایک بڑی بات ڈال دی ہے اور میں ایک بہت بڑا کام کرنا چاہتا ہوں ،ہم نے صرف یہی سمجھا اور بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا یہ کام امام(رہ) کی کتاب کا شرح لکھنا تھا۔
فرماتے تھے کہ میں اس سوچ میں تھا کہ میں امام (رہ) کے شاگر د ہونے کے لحاظ سے ان کی کیا خدمت کرسکتا ہوں،اس وقت انقلاب اسلامی کے کامیاب ہونے کی بات کسی کے ذہن میں نہیں تھی اور اس کا احتمال بھی نہیں دیتے تھے ! فرمایا :بہترین خدمت یہ ہے کہ امام (رہ) کی کتاب کی ایک شرح لکھوں اوراستاد بزرگوار آیت اللہ العظمی آقای وحید دام ظلہ العالی نے والد محترم کے زمان حیات میں ایک دن مجھ سے فرمایا آقای خمینی کی ایک اچھی قسمت یہ ہے کہ آپ کے والد جیسی شخصیت ان کی کتاب کا شرح لکھ رہا ہے ۔
کون امام کی تحریر کا شرح لکھ سکتا ہے ،کون ان کی تحریر پر تعلیقات لکھ سکتا ہے ،یہ بھی اپنی جگہ ایک اہم مطلب ہے ۔
امام کی تحریرکا شرح ایسا انسان لکھ سکتا ہے  جوامام کی نظریات سے پوری طرح واقف ہو،خودامام نے ہمارے والد مرحوم کی کتاب الطہارة جو کہ امام کی بحث طہارت کو لکھا ہے اس بارے میں ایسا فرمایا ہے :یہ مطالب خود میرا ہے لیکن جس طرح آقای فاضل لکھ رہا ہے میں اس طرح نہیں لکھ سکتا ،اس بات کو بعض علماء نے جو اب مرحوم ہو چکے ہیں امام کے زبانی مجھے نقل کیا ہے ، اس پر شرح وہ لکھ سکتا ہے جو واقعاً نظریات کو جانتا ہو اور اگر امام کے اصولی نظریات سے واقف نہ ہو تو وہ کیسے تحریر الوسیلہ پر شرح لکھ سکتا ہے !
دفتر نشر آثار امام(رہ) خصوصاً ہمارے برادر بزرگوار حجة الاسلام و المسلمین حاج سید حسن آقا کا شکریہ اداء کرتا ہوں کہ تحریر الوسیلہ اورامام (رہ) کی دوسری کتابوں کو کافی مقدار میں طلاب اور فضلا کے لئے دستیاب رکھے ، معلوم ہوا ہے کہ اسی آخری دس  سال میں بعض حوزات علمیہ جیسے خراسان کے حوزات میں امام کے فقہی اوراصولی کتابوں پر کام ہوا ہے ، ان کے اساتید کہتے تھے کہ ہم نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ امام کے اصولی نظریات ہے ،لیکن ابھی معلوم ہو رہا ہے کہ امام کے بہت ہی قوی اور محکم نظریات ہے ، واقعاً ان افراد کو شرح لکھنا چاہئے جو امام کے اصول اور فقہ میں کاملا عبور رکھتا ہو ۔
ہمارے والد مرحوم بھی اس نظریہ کو قبول کرتے تھے اور کبھی جب امام کے فتوؤں پر پہنچتے تو کہتے تھے یہاں پر امام کے خطابات قانونیہ کی بنیاد پر امام کے اس فتوا کو عوض کرنا چاہئے اور یہ فتوا ایسا ہونا چاہئے ، امام کے نظریات کو ملاحظہ کرنے کے بعد خود تحریر بھی تحریر کے نیازمند ہے ، لیکن صرف اس کا اہل یہ کام کریں !وہ لوگ جو اس کا اہل ہو ، ایک سادہ عبارت نہیں ہے کہ یہ بتایا جائے کہ جیسا بھی ہو ان کے بعض الفاظ اوربعض عبارات پر کچھ شرح لکھا جائے ۔


تحریر الوسیلہ کانفرنس میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی دامت برکاتہ کا خطاب

لیکن تفصیل الشریعہ کے بارے میں میں یہ عرض کرتا ہوں ؛ اس بارے میں فضلاء گرامی دو باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیں ، پہلی بات یہ ہے کہ ا س کتاب کے دو حصے ہیں،ایک حصہ کو ہمارے مرحوم والد گرامی نے تدریس اور تالیف کیا ہے جیسے کتاب الحج ، کہ نو سال میں ختم ہوا،یاانقلا ب کے ابتدائی ایام میں قاضیوں کو کتاب الحدود اور کتاب القصاص کو تدریس کیا ، اور کتاب الاجارہ کو مرحوم حاج آقا مصطفی کے ساتھ مباحثہ کیاتھا ، یہ جو تدریس اورلکھا گیا ہے بہت ہی تفصیلی اور عمیق ہے ، لیکن دوسرا حصہ جو بہت ہی مختصر ہے اسے انہوں نے کہیں پڑھایا نہیں ہے ، صرف شرح کو کامل کرنے کے لئے اسے لکھا ہے ۔دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایک حصہ کو بیمار ہونے سے پہلے لکھا تھا اور ایک حصہ کو بیمار ہونے کے بعد لکھا ہے ، یہاں بھی ملاحظہ فرمائیں یہ خدا کی طرف سے ایک بہت بڑی توفیق ہے ،ایسی شخصیت جو امام کے آخری دس سالوں میں حوزہ کی مسولیت ان کے ذمہ پر تھی ، جامعہ مدرسین کا صدر بھی تھا ، جامعة الزہراء (س) اور جامعة المصطفی کے ہئیت امناء کا عضو تھا ،اور ہمیشہ مختلف میٹنگوں میں ہی ہوتے تھے ، مختلف شخصیات سے ملاقات ، سیاسی میدان میں ہمیشہ پیش پیش ، ایسی شخصیت جس نے اس قدر اپنے اوقات کو لوگوں ، طلاب اور انقلاب کے لئے وقف کر رکھا تھا ،یہ تفصیل الشریعہ بھی انہیں کی محنت کا نتیجہ ہے ۔
یقیناً اگر یہ ساری مصروفیات نہ ہوتیں تو شاید جیسا کہ خود چاہتے اس  کتاب کو لکھ لیتے اور کامل کرتے ، ہمیشہ یہی فرماتے تھے کہ یہ میری آرزو ہے کہ خدا مجھ اتنا عمر دے کہ میں امام کی کتاب کی شرح کو کامل کروں،انقلاب اسلامی کے کامیاب ہونے کے بعد جامعہ مدرسین نے ہمارے مرحوم والد گرامی سے بتائے کہ آپ امام کے استفتاء ات میں مدد کریں ، انہوں نے امام (رہ) سے عرض کیا تھا کہ مجھ سے ایسا کہا گیا ہے ، لیکن اگر میں یہ کام کرلوں تو آپ کی کتاب کی شرح کا کام رہ جائے گا ، امام نے اپنے دور اندیشی کے مطابق فرمایا تھا آپ اپنے شرح لکھنے میں مشغول رہیں۔
الحمد للہ آج یہ شرح قم اورمشہد کے متعدد حوزات میں مورد توجہ قرار پائے ہیں ، سوریہ اورعرب ممالک میں بھی مورد توجہ قرارپائے ہیں ، واقعاً جو چیز آج ہمیں خوشحال کرتا ہے یہ ہے کہ فقہ امام آج تمام حوزات علمیہ میں بیان ہونے لگا ہے ۔
آپ تمام کے وقت لینے پر معذرت خواہ ہوں اور امیدوار ہوں ہم سب کے تمام کام امام بزرگواررضوان اللہ تعالی علیہ اورہمارے مولا امام زمان (عج)کے مورد رضایت قرار پائے ۔

والسلام علیکم ورحمة الله و برکاته



 

 

 

 

برچسب ها :