عید سعید غدیر کی مناسبت پر حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ) کے بیانات
28 December 2024
05:08
۳,۰۱۷
خبر کا خلاصہ :
-
پاراچنار پاکستان کے ہولناک دہشتگردی کی مذمت میں حضرت آیت اللہ حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکرانی کا بیان
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
عید غدیر سعید خم اور تاریخ اسلام کی اس اہم واقعہ کے حوالہ سے چند نکات کو بہت ہی مختصر آپ کی خدمت میں عرض کروں گا کہ یہ اس سلسلے میں ہماری کم سے کم ذمہ داری ہے ۔
شیعہ اور اہل سنت تفاسیر میں مسلم طور پر بیان ہوا ہے کہ سورہ مبارکہ مائدہ کی آیہ کریمہ ٦٧ واقعہ غدیر کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ یہ آیہ کریمہ آیہ تبلیغ سے مشہور و معروف ہے «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنْ النَّاسِ»
اس آیہ کریمہ کے بارے میں چند بنیادی مطالب قابل ذکر ہے ۔
سب سے پہلا مطلب یہ ہے کہ مرحوم علامہ امینی (رضوان الله تعالي عليه) نے اہل سنت کے تیس(٣٠) بڑے علماء کے نام لیے ہیں[1] کہ انہوں نے تصریح کیا هے کہ سورہ مائدہ کی آیت ٦٧ اٹھارہ ذی الحجۃ اور واقعہ غدیر کے بارے میں ہے ، ابتدائی صدیوں کے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء کے نا م ذکر کیا ہے جنہوں نے بزرگ صحابہ سے نقل کیے ہیں ۔
واقعہ غدیر اور خطبہ غدیر کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) کے سو سے زائد صحابہ کرام گواہ تھے اور اس واقعہ کے موقع پروہاں موجود تھے اور اس کے راوی ہیں ، یعنی اگر ہم متواتر احادیث کی مثال پیش کرنا چاہئے جس میں حد درجہ کی تواتر ہو تو وه یہی حدیث غدیر ہے ۔
دوسرے الفاظ میں حدیث غدیر قرآن کریم سے بھی ثابت ہے اور محکم روایت سے بھی ،قرآن کریم جو کہ قطعی الصدور ہے وہ بھی اس واقعہ پر دلالت کرتی ہے اور متواتر روایت بھی کہ وہ بھی صدور کے لحاظ سے قطعی ہے اس سے بھی واقعہ غدیر ثابت ہے ، اور جس چیز کی طرف ہمیں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ پہلے مرحلہ میں ان دونوں آیات کے مضامین کے بارے میں توجہ دینا هے جو اس واقعہ کے بارے میں نازل ہوئیں ہیں اس میں بہت اہم مطالب ہیں ، اوردوسری چیز خود حدیث غدیر اور خطبہ غدیریہ اور اس کے بارے میں موجود تاکیدات ہیں ان پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) بعض امور میں بہت تاکید کرتے ہیں ، مثلاً حلال اور حرام کے بارے میں فرماتے ہیں : حلالي حلالٌ إلي يوم القيامة،حرامي حرامٌ إلي يوم القيامة " احکام شرعیہ کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) کی بہت زیادہ تاکید ہے لیکن اہل تحقیق اوردانشوروں سے پوشیدہ نہیں ہے کہ جتنی تاکید واقعہ غدیر کے بارے میں ہے کسی اور چیز کے بارے میں نہیں ہے ، اور یہ بھی اپنی جگہ مسلمہ بات ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے دن سے لے کر ہر موقع ومناسبت پر پیغمبر اکرم(ص) امیر المومنین علیہ السلام کی جانشینی کو بیان فرماتے تھے اور اس واقعہ کے دن جو کہ تقریباً آپ (ص) کی رحلت سے ٨٢ دن پہلے تھا اس مسئلہ کو بیان فرمایا ، میں اس مطلب کو بیان کرنا چاہ رہا ہوں کہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اس کے بارے میں اتنی زیادہ تاکید کی ہو اور اتنی زیادہ اہمت دی ہو ۔
اس آیہ کریمہ میں جو مطالب قابل ذکر ہیں وہ یہ ہیں : «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ» قرآن کریم میں یا ایہا الرسول دو جگہوں پر ذکر ہوا ہے اور دونوں سورہ مائدہ میں ہے ایک آیہ ٦٧ میں اور دوسرا آیہ ٤٨ میں ، اس کے علاوہ کہیں اور ذکر نہیں ہوا ہے صرف انہی دو جگہوں پر ذکر ہے ، یہ اس چیز کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ یہ مسئلہ آپ کی مقام رسالت سے مربوط ہے اور آپ کی رسالت کے لوازمات میں ہے ۔
کلمہ ''بلغ'' جیسا کہ محققین بتاتے ہیں قرآن کریم میں صرف اسی آیہ کریمہ میں ذکر ہوا ہے اس کے علاوہ کہیں اور کلمہ''بلغ'' ذکر نہیں ہوا ہے ، یہ کلمہ تبلیغ کے حکم کے لئے استعمال ہوتا ہے جہاں پر تبلیغ کا مسئلہ بہت ہی زیادہ مہم ہو اور اس کی موضوع کی خاص اہمیت ہو تو وہاں پر باب تفعیل سے ذکر ہوتا ہے ، لیکن ''ابلاغ'' میں ہر قسم کی خبر شامل ہے لیکن ''تبلیغ'' مہم اور بہت ہی بنیادی خبر کے لئے ہے۔
یہ کلمہ قرآن کریم میں صرف اسی ایک جگہ پر استعمال ہوا ہے اس کے بعد جملہ «مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ» ہے جو کہ اس تبلیغ کا متلعق ہے جو چیز خدا کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے ، یعنی امیر المومنین (ع) کی وصایت اور جانشینی کا مسئلہ، یہ خدا کی طرف سے ہے اور خدا کے ارادہ سے ، یہ خود پیغمبر (ص) کے ارادہ سے نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کے ارادہ سے ، بلکہ یہ صرف اور صرف خدا کے ارادہ سے مشخص ہواہے ، مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یعنی اس ارادہ الہی کو بیان کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ اگر اس کام کو انجام نہیں دیا تو ''فما بلغت رسالته'' اور یہ نہیں فرمایا ہے ''رسالتک'' یہ ضمیر بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اس پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے «وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یعنی اگرایسا نہیں ہوا تو گویا خدا کی طرف سے جو رسالت آپ پر تھا اسے آپ نے انجام دیا ہی نہیں ہے ' میں پہلے عرض کر چکا ہو ں کہ ہمارے ذہنوں میں جو بات ہے کہ ولایت فروع دین میں سے ہے یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے بلکہ ولایت اصول دین میں سے ہے ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر کسی مطلب کو پیغمبر اکرم(ص) لوگوں تک نہ پہنچائے تو گویا کسی چیز کو بھی نہیں پہنچایا ہے یعنی اب تک جن واجبات اور محرمات کو بیان کیا ہے اور جو زحمتیں برداشت کیے ہیں وہ سب کچھ نہ ہونے کے برابر ہے ، جن افراد کے ذہن خراب ہو اور غیر مستقیم ذہن والے لوگ کبھی ان روایات میں شک و شبہہ پیدا کرتے ہیں کہ کیسے ممکن ہے کہ نماز بغیر ولایت کے قبول نہ ہوتی ہو، اتنے سارے اہل سنت نماز پڑھتے ہیں خدا کی عبادت کرتے ہیں ، روزہ رکھتے ہیں ، قرآن پڑھتے ہیں ،زکات دیتے ہیں لیکن ہمارے اعتقاد کے مطابق ان تمام عبادات کی کوئی ارزش و قیمت نہیں اور خدا کے ہاں ان تمام اعمال کی کوئی حیثت نہیں ہے ،ہمارے ہاں اس بارے میں روایات ہیں : «بُني الإسلام علي خمس علي الصلوة والزكوة والصوم والحجّ والولاية ولم يُناد بشيءٍ كما نودي بالولاية»[2]'ٹھیک ہے یہ سب روایات ہیں اور اگر آپ روایت کو قبول نہیں کرتے تو ہمارے ہاں یہ آیہ کریمہ بھی ہے اس کے بارے میں آپ کیا بتائیں گے؟!
خود آیت میں ہے : «وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» اگر پیغمبر اکرم(ص) اسے بیان نہ کرے تو اس کی رسالت انجام نہیں پایا ہے ، کیا اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ رسالت کی حقیقت پوری طورپر اسی میں پوشیدہ ہے ،اورتمام دین کی حقیقت بھی اسی میں پوشیدہ ہے ''بنی الاسلام،، یہاں پر روایات اپنی جگہ موجود ہے لیکن ہماری نظر میں یہ تمام روایات اسی آیت سے لیا گیا ہے ،یہ روایات ہمارے آئمہ (ع) نے اپنی طرف سے نہیں بتائے ہیں بلکہ ان کو قرآن کریم سے لیا گیا ہے ، اب اگر کوئی امام معصوم علیہ السلام سے یہ سوال کرے کہ آپ بتاتے ہیں کہ اگر کوئی پوری عمرنماز پڑھے ،رزوے رکھے ، ہر سال حج پر جائے ،اپنے پورے اموال کو صدقہ میں دے دیں ،لیکن ولایت کو قبول نہ کرے، تو یہ سب قبول نہیں ہو گا ،یہ بات قرآن کی کس آیت سے ثابت ہے ؟
اس کی بنیاد قرآن کریم کی یہی آیہ کریمہ ہے : «وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یہ صرف شخص اورذات پیغمبر اکرم(ص) کو ڈرانا نہیں ہے کہ اگر اس کام کو نہ کرے تو میں آپ کے دوسرے اعمال کوقبول نہیں کروں گا ! بلکہ یہ ایک حقیقت کو بیان کر رہی ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ روح ولایت ، روح رسالت اور روح دین، ولایت میں ہی متجلی ہے اور اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اپنے استاد مرحوم شاہ آبادی سے ایک جملہ کو نقل کرتا ہے کہ فرماتا ہے :توحید کی گواہی میں رسالت کی گواہی بھی موجود ہے ،چونکہ ہم جس توحید کے بارے میں بتاتے ہیں وہ رسالت اور پیغمبر اکرم (ص) کی نبوت کے بغیر کوئی معنی و مفہوم نہیں رکھتا، اس کے بعد خود امام فرماتا ہے : میں یہاں پر ایک چیز کو اضافہ کروں گا توحید کی گواہی میں ، رسالت اور ولایت دونوں کی گواہی موجود ہے ، اور رسالت کی گواہی میں توحید اور ولایت دونوں کی گواہی ہے ،فرماتا ہے ،ان تینوں کی حقیقت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے ، ہماری ساری غلطی یہ ہے کہ ہم یہ بتاتے ہیں نبوت ایک منصب ہے ،اور اس کے بعد ایک اور منصب آتا ہے وہ امامت ہے تاکہ اسے باقی رکھے ۔
حقیقت نبوت اور رسالت کی تشکیل ولایت ہی ہے ، البتہ ہمارا مقصود یہ نہیں ہے کہ امام ،کو نبی بتائے ، ان مطالب کو آپس میں مخلوط نہیں کرنا چاہئے، لیکن ہمارے پاس کچھ روایات ہیں کہ تمام انبیاء، آئمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کو قبول کرتے تھے، کیا یہ صرف ایک دکھاوا ہے ؟ یا صرف ایک زبانی بات ہے ؟ یا ان کی احترام کے وجہ سے ہے ؟ نہیں ! بلکہ چونکہ رسالت الہی ولایت سے جڑا ہوا ہے، ولایت اور امامت کی حقیقت ہی ایسی ہے جو رسالت سے جڑا ہوا ہے اور عرض ہوا کہ امامت کے بارے میں موجود روایات کی توجیہ یہی آیہ کریمہ ہے: «وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» یہ صرف ایک شخصی ،ذاتی 'ظاہری اور خصوصی دھمکی نہیں ہے، بلکہ یہ واقعی حکم ہے ، اگر یہ نہ ہو تو کوئی چیز بھی نہیں ہے !
عبادات و اعمال اور ولایت کے درمیان اس گہرے ارتباط کو خداوند متعالی بیان کر رہا ہے ، اس آیہ کریمہ میں فرماتا ہے کہ اگر دین نہ ہو تو کوئی بھی چیز نہیں ہے ، فخررازی کی تفسیر کا مطالعہ کریں دیکھیں وہ اس بارے میں کتنی احتمالات دیتا ہے اورآخر میں کس احتمال کو قبول کر لیتا ہے ، اس آیہ کریمہ میں سب سے پہلا احتمال یہ دیا ہے کہ یہ آیہ سنگساری اور یہودیوں کے قصاص کے بارے میں ہے ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا پیغمبر اکرم(ص) سے یہ فرمائے :یہودی بھی اگر زنا محصنہ(شادی شدہ مرد و عورت) کرے تو اسے بھی سنگسار ہونا چاہئے ، اگر وہ کسی کو قتل کرے تو اس پر بھی قصاص ہو گا ، اور اے رسول (ص) اگر اسے بیان نہ کرے تو گویا آپ(ص) نے رسالت کو انجام نہیں دیا ہے ! ان کے آپس میں کیا مناسبت ہے ؟ یعنی کیا ایک یہودی کا سنگسار ہونا نماز سے بھی اہم ہے؟ حج سے اہم ہے ؟
کوئی دیہاتی عرب پیغمبر اکرم(ص) کو شہید کرنا چاہتا تھا اور آپ(ص) اس وقت کسی درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے[3] ،آیہ کریمہ میں یہ مراد ہے ، یہ بات بھی صحیح نہیں ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جزئی واقعہ کو اتنی اہمیت سے بیان کرے «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ» ان مطالب کو ایک جگہ پرجمع کریں تو مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ «مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ» سے مراد نمازنہیں ہے ، روزہ اور جہاد نہیں ہے ، قصاص اور سنگسار کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بہت ہی اہم مطلب ہے ۔
ہم اگر خود واقعہ غدیررونما ہونے کی کیفیت پر توجہ ڈالیں کہ مورخین کے نقل کے مطابق اس میں اتنی سخت گرمی تھی کہ اگر کسی پتھر کے اوپر گوشت کو رکھا جاتا تو وہ پک جاتا ، بعض افراد اپنے پاؤں پر بہت سارے کپڑے باندھے ہوئے زمین پر کھڑے تھے ، ایسی گرمی میں پیغمبر اکرم (ص)سب لوگوں کو یہ حکم کرے کہ سب جمع ہو جائیں اور اس پوری جمعیت میں اس مسئلہ کو بیان کرنا چاہئے کہ یہودی کو سنگسار کرنا ضروری ہے ؟ یا کسی اور جزئی مسئلہ کو بیان کرنا چاہئے ، اگر ہم اس آیہ کریمہ ميں غور کرے تو اس آیت سے بہت سے حقائق واضح ہو جاتی ہے کہ اس آیت کی مصداق صرف ولایت امیر المومنین(ع) ہے ، اس کے علاوہ کسی بھی چیز میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اس آیت کا مصداق قرار پائے !
خدای حکیم کسی جزئی مسئلہ کو بیان کرنے کے لئے اتنی اہمیت نہیں دیتا ، یہ بیان کرنے کے لئے کہ اگر کوئی یہودی زنا محصنہ کرے تو اسے سنگسار کرنا چاہئے ایک لاکھ بیست (١٢٠٠٠٠) افراد کو جو حج سے واپس پلٹ رہے تھے انہیں یہ حکم دے کہ اس گرمی میں رکے رہیں ، گھنٹوں تک وہاں پر انتظار کریں اور اس کے بعد اس جزئی مسئلہ کو بیان کرے؟«وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنْ النَّاسِ» کیا کسی یہودی کو سنگسار کرنا پیغمبر اکرم(ص) کے خوف کا سبب ہے ؟اس سے پہلے پیغمبر اکرم(ص) یہودی اورغیر یہودیوں سے اتنے سارے جنگ لڑ چکے ہیں ، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک یہودی کو سنگساری کرنا پیغمبر اکرم(ص) کے لئے خوف کا سبب ہو ، لہذا اس آیہ کریمہ میں غوروفکر کرنے سے بہت سارے مطالب ہمارے لئے واضح ہو جاتی ہے کہ جس کے بعد ہمارے لئے کسی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں رہتی، یعنی اگر یہ روایات اور خطبہ غدیر بھی نہ ہوتے ، اگر مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں جو چیزیں بیان کی ہے اور مورخین نے بہت ساری جزئیات کو بیان کیے ہیں ، اگر یہ سب بھی نہ ہوتے تو پھر بھی یہ آیت واقعہ غدیر کو واضح طور پر ہمارے لئے بیان کر دیتی ۔
بعض بتاتے ہیں جملہ«اللهم وال من والاه و عاد من عاداه» خطبہ غدیریہ میں شامل نہیں ہے ! اور بعض اس بارے میں بہت تاکید کرتے ہیں ، لیکن جب ہم اہل سنت کی قدیمی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کی روایات اور تاریخی اوراحادیث کی کتابوں میں دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ وہاں پر موجود ہے ، لیکن یہ جزئی باتیں ہیں ، آپ کو خود آیت کے بارے میں جواب دینا چاہئے کہ اس بارے میں آپ کیا بتائیں گے ؟
اس روایت میں یہ جملہ «اللهم وال من والاه» یقیناً ہے اور اس آیت کا مصداق بھی امیر المومنین (ع) کی ولایت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔
حدیث « من كنت مولاه فهذا عليٌ مولاه » میں کلمہ ''مولا'' کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں کہ مولا کے تقریباً ٢٠ معانی ذکر ہوا ہے اور یہ ثابت کرنے کے درپے ہیں کہ یہ عظیم واقعہ اس بارے میں ہے پیغمبر اکرم(ص) لوگوں سے یہ بتانا چاہتا تھا کہ لوگ حضرت علی (ع) سے دوستی کرے، یا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ علی (ع) پیغمبر اکرم(ص) کا دوست ہے ، اگر ہم مولا کا معنی دوست بھی کرے تو مراد یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) یہ فرمانا چاہتا ہے کہ جو بھی مجھ سے دوستی کرنا چاہتا ہے وہ علی (ع) سے دوستی کرے ، یہ معانی اس عظیم واقعہ سے کیسے سازگار ہے ۔
عر ض ہوا کہ یہ باتیں ایک فرعی باتیں ہیں ، اس وقت ہمیں ان افراد سے قرآن کے بارے میں بحث وگفتگو کرنے کی ضرورت ہے، آپ قرآن کریم کی اس آیہ کا کیا معنی کرتے ہیں ؟ آپ جو بھی احتمال دیں گے اس پر سینکڑوں اعتراضات ہے ، اور صرف اس احتمال پر کوئی ایسا اعتراض نہیں ہے کہ ہم یہ بتائیں کہ اس سے مراد حضرت امیر المومنین (ع) کی جانیشنی ہے ، ہاں ! یہ بات بھی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کو یہ معلوم تھا کہ بہت سارے لوگ اسے قبول نہیں کریں گے ،اس بات کا بھی ڈر تھا کہ حضرت علی (ع) کم عمر ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے افراد انہیں قبول نہیں کریں گے ،یہی وجہ ہے کہ خدا وند عالم آپ (ص) کو وعدہ دیتا ہے کہ آپ اس اعلان کو کر لیجئے ہم آپ کی حفاظت کریں گے ، پیغمبر اکرم(ص) نے اعلان کر لیا اور اس کے بعد اس بات کا خدا کا شکر ادا ء کیا کہ اس نے اس پیغام کو پہنچانے کی توفیق عنایت کی ، بعض کتابوں میں ہے کہ اس اعلان کے بعد آپ(ص) نے خدا کا بہت زیادہ شکر بجا لایا ۔
ہمیں اہل سنت او روہ افراد جو اس واقعہ کے بارے میں شک و شبہہ کرتے ہیں ان کے ساتھ اس آیت کے بارے میں بحث و گفتگو کرنا چاہئے ، خدا وند متعال ہم سب کو ولایت امیر المومنین علیہ السلام کے حقیقی متمسکین میں قرار دیں ۔ وصلي الله علي محمد و آله الطاهرين.