امام حسن مجتبی علیہ السلام کی روزشہادت سات(٧)صفریااٹھائیس(٢٨) صفر؟!

28 December 2024

05:48

۳,۷۷۸

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها


کیلنڈر میں سات صفر کو امام موسی کاظم علیہ السلام لکھا ہے در حالیکہ صحیح قول کے مطابق یہ دن امام حسن مجتبی علیہ السلام کا روز شہادت ہے پرانے زمانہ سے نجف اشرف کے ہزار سالہ حوزہ علمیہ میں سات(٧) صفر کو امام حسن مجتبی علیہ السلام کی روز شہادت کے مناسبت سے مجالس عزاء منعقد ہوتی ہے ،عراق اور دوسرے ممالک میں اس دن امام حسن مجتبی (ع) کی یاد میں مجالس عزاء منعقد کرتے ہیں لیکن ایران میں سبط اکبر پیغمبر اکرم(ص) کی روز شہادت کے سلسلے میں مجالس عزاء کو ٢٨ صفر کو برپا کرتے ہیں،امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شہادت ماہ صفر میں ہونے کے بارے میں شیعہ علماء کے درمیان میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن صرف دن کے بارے میں اختلاف ہے اور اس بارے میں تیں اقوال پائے جاتے ہیں:

پہلا قول: آخر ماہ صفر

ماہ صفر کا آخری دن، کہ شیخ کلینی (قدس سرہ) اسی دن کو بتاتے ہیں یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قول کا قائل صرف شیخ کلینی ہے کہ آپ اتنے بڑے عالم ہونے اور اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود ابھی تک کسی بھی شیعہ عالم نے اس بات میں ان کی پیروی نہیں کی ہے ، لہذا اس قول کے بارے میں تحقیق کرنے سے ہم صرف نظر کرتے ہیں۔

دوسرا قول : ٢٨ صفر

اس قول کا سب سے پہلا قائل شیخ مفید (قدس سرہ) ہے جنہون نے کتاب ''مسار الشیعہ'' میں لکھا ہے لیکن خود شیخ مفید نے اپنی دوسری کتاب ''الارشاد''میں اس دن کو امام حسن (ع) کی روز شہادت بتانے سے گریز کیا ہے اس کتاب میں صرف ماہ صفر کو بتایا ہے .

اس قول کا دوسرا قائل شیخ طوسی (قدس سرہ) ہے انہوں نے اپنی کتاب ''تہذیب الاحکام'' میں اسے بیان کیا ہے،شیخ کلینی اور شیخ مفید (قدس سرہما) شیخ طوسی کے استاد ہیں اس کے باوجود صرف شیخ مفید کی بات کو ان کی کتاب ''الارشاد'' سے نقل کیا ہے اور کسی خاص دن کو معین نہیں کیا ہے ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دونوں استاد وں (شیخ کلینی اور شیخ مفید ) کے قول کو جس میں آخر ماہ صفر بتائے ہیں کو قبول نہیں کیا ہے ۔

البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٢٨ صفر والی بات کو بعض بزرگان جیسے شیخ طبرسی اور ابن شہر آشوب (قدس سرہما) کے مورد تائید ہے ،لیکن چھٹی صدی کے بعد سے اس قول کو کسی نے قبول نہیں کیا ہے :

قول سوم: ٧ صفر

یہ قول مشہور قول ہے اور دو لحاظ سے قابل اہمیت بھی ہے :١۔ اس قول کو ماننے والوں کے اعتبار سے '٢۔ علماء کی سیرت کے لحاظ سے :

پہلا وجہ :

یہ قول دوسرے اقوال کی نسبت تعداد کے لحاظ اور معیار اور ملاک دونوں لحاظ سے قابل اہمیت ہے ۔

معیار کے لحاظ سے :

روایات میں امام حسن مجبتی علیہ السلام کی یوم شہادت کے بارے میں معین طور پر کسی دن کی طرف اشارہ نہیں ہوا ہے ، یہ بات خود دوسرے اقوال کی نسبت اس قول کے زیادہ صحیح ہونے کی دلیل ہے کہ روایات میں جمعرات کا دن نقل ہوا ہے :

اس قول کو ماننے والے علماء کی تعداد

اس قول کے ماننے والے دوسرے دو قول کے ماننے والوں سے بیشتر ہے کہ ہم آگے اس کے اسناد کو بیان کریں گے :

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ قول امام کاظم علیہ السلام کے زمانہ سے رائج تھا اور قاسم بن ابراہیم الرسی ( البرسی) ١٦٩۔٢٤٦ ہ سے بھی نقل ہوا ہے ۔

ہم اس قول کے بارے میں گفتگو کرنے سے پہلے قاسم بن ابراہیم کے بارے میں کچھ باتیں کریں گے :

علم رجال سے بڑے عالم جناب نجاشی قاسم بن ابراہیم کے بارے میں لکھتا ہے :قاسم ابن ابراہیم طباطبا ابن اسماعیل ابن ابراہیم ابن حسن مثنی ابن امام مجتبی علیہ السلام ہے ، ان کی ایک کتاب ہے جس کا نام ''تثبیت الامامۃ'' ہے جس میں امام صادق علیہ السلام سے واسطہ کے ساتھ اور امام کاظم علیہ السلام سے بغیر واسطہ کے روایت نقل کیا ہے :

ابو الحسن العمری اپنی کتاب ''المجدی فی انساب الطالبیین '' میں لکھتا ہے: ''ان کا کنیہ ابا محمدتھا ایک پارسا اور نحیف جسم کے مالک انسان تھے انہوں نے اپنے دور کے ظالم حکمرانوں سے کسی قسم کا تخفہ تخائف قبول نہیں کیا اگرچہ وہ تخفہ تخائف سونا اور چاندی کا ہی کیوں نہ ہو ، آپ لوگوں کو امام رضا علیہ السلام کی طرف دعوت دیتے تھے سنہ ٢٢٠ سے ٢٤٦ ہجری قمری تک جبل الرس ( حلہ کے نزدیک ایک پہاڑ) میں مخفی رہے :

اسی طرح آقا بزرگ تہرانی نے بھی ان کی بہت زیادہ تعریف کی ہے اور فرمایا ہے : آپ ایک شریف سید اور سادات بنی الحسن علیہ السلام میں سے تھے ،،۔

ساتویں صدی سے دور حاضر تک اسی قول کو ماننے ہیں کہ ہم ذیل میں ان میں سے بعض روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں .



امام حسن مجتبی علیہ السلام کی روزشہادت سات(٧)صفریااٹھائیس(٢٨) صفر؟!

حدیثی کتابوں میں جو اسناد موجود ہیں ان کے مطابق امام (ع) کی شہادت ٧ صفر کو ہے

پہلا سند: تثبیت الامامۃ

اس بارے میں سب سے پرانی کتاب جو ہمیں ملی ہے وہ سید قاسم بن ابراہیم الرسی کی کتاب ''تثبیت الامامۃ'' ہے کہ سنہ ٢٤٦ ہجری میں وفات پائے ہیں ، آپ خود امام حسن مجتبی علیہ السلام کے خاندان سے تھے اور اپنے زمانہ کے زاہد عابد اور علماء میں شمار ہوتے تھے ان کی بہت سی تالیفات ہیں ، اور احادیث کے رواری بھی تھے اور بغیر واسطہ کے حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام سے روایت نقل کرتے تھے انہوں نے اپنی کتاب میں یوں لکھا ہے: «الامام الحسن علیه السلام ابوه الامام امیرالمومنین علی علیه السلام، امه فاطمه الزهراء سلام الله علیها، ولادته: ولد فی المدینه لیلة النصف من شهر رمضان فی السنة الثالثة للهجره، القابه: التقی، الزکی، السبط، وفاته: توفی فی السابع من شهر صفر سنة خمسین من الهجرة»

دوسرا سند: شہید اول کا قول

امام حسن علیہ السلام کے شہادت ٧ صفر کو ہونے کے قائلین میں سے ایک شہید اول(متوفای ٧٨٦) ہے انہوں نے اپنی کتاب ''دروس '' میں لکھا ہے : الامام، الزکی، ابومحمد الحسن بن علی سید شباب اهل الجنه ولد بالمدینه یوم الثلاثاء منتصف شهر رمضان سنة اثنتین من الهجرة ... و قبض بها مسموما یوم الخمیس سابع صفر سنة تسع و اربعین من الهجرة.

 تیسرا سند:مرحوم کفعمی

٧ صفر امام حسن علیہ السلام کے روز شہادت ہونے کے قائلین میں سے ایک کتاب ''شریف ،، کے مصنف جنابعلامہ اور محدث مرحوم کفعمی ہے آپ اپنی اس کتاب میں اس بارے میں یوں رقم طراز ہے : «ولد فی یوم  الثلاثاء  منتصف شهر رمضان سنة ثلاث من الهجرة و توفی یوم الخمیس سابع شهر صفر سنة خمسین من الهجرة.

چوتھا سند : شیخ بہائی کا والد بزرگوار

امام حسن (ع) کے روز شہادت کو ٧ صفر کو ماننے والوں میں سے ایک شیخ بہائی کے والد گرامی مرحوم علامہ شیخ حسین( متوفای سال ٩٨٤هجری) ہے انہوں نے اپنی کتاب''وصول الاخبار الی اصول الاخبار'' میں اس بارے میں فرمایا ہے : « هو الامام الزکی ابومحمد سید شباب اهل الجنه ولد بالمدینه یوم الثلاثاء منتصف شهر رمضان سنة اثنتین من الهجرة مسموما فی المدینة یوم الخمیس سابع شهر صفر سنة تسع او ثمان و اربعین و قیل سنة خمسین من الهجره عن سبع و اربعین سنة.

 دوسرا وجہ :علماء کی سیرت

علماء اور متشرعہ کی سیرت اور عملی سنت اس طرح سے ہے کہ تمام شیعہ بلاد میں ٧صفر کو مجالس عزاداری برپاکرتے تھے خصوصاً حوزہ علمیہ نجف اشرف میں ، اور حضرت آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبد الکریم حائری قدس سرہ کے حوزہ علمیہ قم میں آنے اور حوزہ تاسیس ہونے کے بعد سے یہاں پر بازار اور حوزہ علمیہ میں تعطیل کر کے عزاداری کرنے کا حکم دیتے تھے ، ان کے رحلت کے بعد بڑے بڑے علماء جیسے آیات عظام بروجردی اور گلپائیگانی قدس سرہما کہ دونوں اپنے زمانہ میں حوزہ کے سرپرست تھے اس سنت پر عمل کرتے رہے ہیں ۔

 دوسرا مطلب : حضرت امام کاظم علیہ السلام کی ولادت ماہ صفر میں ہے یا ماہ ذی الحجہ میں ؟

حضرت امام کاظم علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں علماء کے درمیان اگرچہ ٧ صفر مشہور ہوا ہے لیکن اس بارے میں سب سے پہلے بات یہ ہے کہ کچھ بزرگ حضرات جیسے شیخ کلینی ( اصول کافی میں ) شیخ مفید ( الارشاد ومسار الشیعہ میں ) اور شیخ طوسی ( تہذیب الاحکام میں) سات صفر کو آپ (ع) کی ولادت کے بارے میں جو قول ہے اس بارے میں کچھ اعتناء نہیں کیا ہے اور اس کو بیان کرنے سے گریز کیا ہے :

دوسری بات: بعض بزرگ علما ء اعلام جیسے شہید اول ( کتاب دروس میں ) شیخ محمد حسن نجفی ( جواہر الکلام میں ) اور شیخ جعفر کاشف الغطاء ( کشف الغطاء میں ) اس قول کو ضعیف قول بتائے ہیں ۔

تیسری بات:امام کاظم علیہ السلام کی ولادت کے بارے میں کچھ روایات نقل ہوئی ہیں کہ بعض بزرگ علماء نے اسے نقل کیا ہے جیسے احمد بن خالد برقی (کتاب محاسن میں ) شیخ کلینی ( اصول کافی میں ) محمد بن حسن صفار ( بصائر الدرجات میں ) اور ابن جریر طبری شیعی نے (دلائل الامامۃ میں ) ابی بصیر سے مختلف طریقوں سے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیے ہیں کہ : امام کاظم علیہ السلام کی ولادت سال ١٢٧ ہجری کے حج کے بعد حج کے واپسی کے موقع پر جعفہ کے بعد سب سے پہلے منزل کہ جس کا نام ابواء ہے وہاںمتولد ہوا ہے کہ معجم البلدان کے مطابق ابواء نامی جگہ جعفہ سے ٣٣ میل (تقریباً٥٣ کلو میٹر) کے فاصلہ پر واقع ہے :۔۔

ایک اہم مطلب: ابی بصیر کی روایت قرینہ ہے کہ حج ختم ہونے کے بعد مدینہ واپس آتے ہوئے ابواء نامی جگہ پر امام کاظم علیہ السلام متولد ہوئے ہیں ، یہ دلالت کرتی ہے کہ حضرت امام کاظم علیہ السلام کی ولادت ماہ ذی الحجۃ میں ہے اور ماہ صفر ١٢٨ ہجری والی نقل صحیح نہیں ہے ۔
چوتھی  بات : ابن جریر طبری قدس سرہ متوفای چوتھی صدی نے ایک اور روایت میں امام حسن عسکری علیہ السلام سے اپنی کتاب دلائل الامامۃ میں صراحتاً بیان کیا ہے کہ امام کاظم علیہ السلام کی ولادت ماہ ذی الحجۃ میں ہوئی ہے :

آخر میں یہ بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ مراجع معظم تقلید جیسے آیات عظام صافی گلپایگانی، وحید خراسانی، شبیری زنجانی، سیستانی، روحانی، مکارم شیرازی و.. «حفظهم الله» اور آیات عظام فاضل لنکرانی، میرزا جواد تبریزی، شیخ محمد تقی بهجت «قدس سرهم» علماء ما سلف خصوصاً حاج شیخ عبد الکریم حائری قدس سرہ کی اتباع کرتے ہوئے اس دن (٧ صفر ) مجالس عزاداری منعقد کرنے اور روز شہادت امام حسن مجتبی علیہ السلام کے عنوان سے جلوس نکالنے کے بارے میں اتفاق اور اس بارے میں تاکید فرمائے ہیں اور اپنے دروس کو تعطلیل کرتے ہیں۔

یہاں یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا شیعوں کے ہاں حضرات معصومین علیہم السلام سے منسوب ایام سے بالاتر کوئی ایام ہیں ؟

یقیناً ان ایام میں اقامہ عزاداری «وَذَکِّرْهُمْ بِأَیَّامِ الله» کے باب سے ہے اور ان پر عمل کرنے والے ان حضرات علیہم السلام کے واقعی شیعوں میں سے ہیں کیونکہ انہوں نے فرمایا ہے:«شیعتناالذین یفرحون لفرحناویحزنون لحزننا».۔

 اس مطلب کو ذکر کرنے کے بعد یہ سوال باقی رہتا ہے کہ ہم ٧ صفر کو مجالس عزاء برپا کریں یا اس دن جشن اور عید منائیں؟

اس بارے میں ہم نے مراجع تقلید سے کسب تکلیف کیا ہے تا کہ ہمارے ادعا پر مہر تائید ہو جائے ۔

 بعض مراجع معظم تقلید سے استفتاء

شعائر اہلبیت علیہم السلام کو برگزاری کرنے کی اہمیت اور سبط اکبر امام حسن مجبتی علیہ السلام کی مظلومیت اور حوزہ ہای علمیہ قم اور نجف اشرف کے علماء کی سیرت مستمر کے مطابق ہر سال ٧ صفر کو امام حسن مجتبی علیہ السلام کی روز شہادت کے عنوان سے مجالس عزاء منعقد کرتے تھے ، بعض اقوال جیسے شہید اول نے کتاب دروس میں ، مرحوم کفعمی نے مصباح میں ، شیخ بہایی اور مرحوم شیخ جعفر کاشف الغطاء اور بعض دوسرے بڑے اعاظم فقہاء کے تصریح کے مطابق امام مجتبی علیہ السلام کی شہادت کا دن یہی ہے ، آپ کا اس بارے میں کیا نظر ہے ؟ اگر یہ فوق الذکر اقوال صحیح ہیں تو دوسری طرف سے ایک قول کے مطابق یہ دن امام کاظم علیہ السلام کی ولادت کا دن ہے ، ہم شیعوں خصوصاً الیکٹریک میڈیا کا وظیفہ کیا ہے ؟ اس دن ہم عزاداری کریں یا عید او رجشن؟

 مرحوم حضرت آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی رضوان اللہ تعالی علیہ ) کا جواب

بسمہ تعالی ولہ الحمد، ایک دن حضرت امام مجتبی علیہ السلام سے مخصوص ہونا چاہئے اس بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے اور ٢٨ صفر خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی رحلت کا دن بھی ہے لہذا اس دن سبط اکبر علیہ السلام کی شہادت تحت الشعاع میں چلے جاتا ہے 'ؒ، لہذا بہتر یہی ہے کہ ٧ صفر کو امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے عنوان سے مخصوص کرے مشہور بھی یہی ہے ۔

 مرحوم حضرت آیت اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی (رضوان اللہ تعالی علیہ ) کا جواب

محرم اور صفر سید الشہداء اور خاندان اہل بیت علیہم السلام کے حزن واندوہ کے مہینے ہیں لہذا ان ایام میں مجالس عزاء برپا کرنا چاہئے واللہ العالم ۔

 مرحوم حضرت آیت اللہ العظمی بہجت (رضوان اللہ تعالی علیہ ) کا جواب

بسمہ تعالی ، مناسب یہ ہے کہ دونوں قول کو جمع کرے (مشہور) یہ ہے کہ ٧ صفر سبط اکبر امام مجبتی علیہ الاف التہیۃو الثنائ) کی شہادت اور امام موسی کاظم علیہ السلام کی ولادت ،لہذا دونوں اماموں کے نام پر مجالس برپا کریں یعنی امام دوم علیہ السلام کے مصائب بیان ہو جائے اور امام ہفتم علیہ السلام کے مناقب بیان ہو جائے اسی طرح احتیاط پر عمل ہو سکتا ہے والسلام ، اول صفر ١٤٣٠ہ ق

 حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی (دامت برکاتہ ) کا جواب

بسمم اللہ الرحمن الرحیم ، فقیہ محقق اور حوزہ علمیہ کے موسس قدس سرہ نے جو فرمایا ہے اسی کے مطابق عمل کیا جائے ۔

 حضرت آیت اللہ العظمی سیستانی (دامت برکاتہ ) کا جواب

بسمہ تعالی ، سبط اکبر امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شہادت کو منانا اور اسی مناسبت سے مجالس عزاء منعقد کر کے آپ(ع) کے مناقب اور مصائب کو ذکر کرنا تعظیم شعائر کے مصادیق میں سے ہے ،

حضرت آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی (دامت برکاتہ ) کا جواب

آئمہ علیہم السلام کے میلاد مناناخود بہت اچھا اور مناسب ہے لیکن چونکہ ٧صفر بعض اقوال کے مطابق امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے اور دوسری طرف سے پورے ماہ محرم اور صفر حزن آل اللہ اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے مصیبت زدہ کاروان کے مصائب کے ایام ہے لہذا یہی مناسب ہے کہ ان دونوں مہینوں میں مجالس عزاء برپا کریں اور جشن اور عید منانے سے اجتناب کرے انشاء اللہ آپ کا یہ اجتماع حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداء کا مورد توجہ قرار پائے اور ہم سب ان کے فرج کے منتظرین میں سے قرار پائے .

 حضرت آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی (دامت برکاتہ ) کا جواب

البتہ مشہور ہے مرحوم کلینی (رحمۃ اللہ علیہ ) نے کافی میں جو نقل کیا ہے اس کے مطابق امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شہادت ماہ صفر کے آخر میں ہے لیکن دوسری روایت کے مطابق ٧ صفر ہے لہذا اس دن کے احترام کو رعایت کرنا بھی سزاوار ہے .

 حضرت آیت اللہ العظمی سید صادق روحانی (دامت برکاتہ ) کا جواب

باسمہ جلت اسمائہ، علماء اور محققین کے ایک گروہ جیسے شیخ مفید ، شہید اور کاشف الغطاء نے تحقیق کے بعد ٧ صفر کو امام مجتبی علیہ السلا م کی شہادت کا دن بتائے ہیں میں نے بھی جب اس بارے میں تحقیق کیا ' تو اسی بارے میں اطمینان حاصل ہوالہذا شعائر کے تعظیم کرنے کے اس دن مجلس عزاء کا انعقاد ، بازار وں کو بند کرنا اور جلوس عزاداری نکالنا مناسب ہے ، اور ریڈیو، ٹیلویزن میں بھی مجالس عزاء برپا کرے اور امام کاظم علیہ السلام کی تولد ان مجالس عزاء کے انعقاد میں مانع قرار نہ دیں۔

 حضرت آیت اللہ العظمی شبیری زنجانی (دامت برکاتہ ) کا جواب

بسمہ تعالی ٧ صفر سبط اکبر علیہ السلام کے سوگواری و عزاداری اور بازاروں کو بند کرنا شیعوں کی سنت رہی ہے اور یہ شعائر دینی ہے لہذا اس کی حفاظت ضروری ہے اور اس دن امام ہفتم علیہ السلام کے مناقب کو بھی ذکر کرے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔

برچسب ها :