حضرت آیت اللہ فاضل لنکرنی (دامت برکاتہ ) کا فاطمی انجمنوں کے مسؤلین سے خطاب

24 November 2024

10:18

۲,۵۴۳

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

بسم الله الرّحمن الرّحیم


أعظم الله أجورنا و أجورکم بهذه المصیبة الکبری؛

خداوند متعالی سے دعا ہے کہ اہل بیت عصمت و طہارت کے تمام پیروکاروں خصوصاً ایران اورمخصوصاً قم والوں کو توفیق اور اجر عظیم عنایت فرمائے جنہوں نے عالم بشریت کی اس بڑی مصیبت کو ایام فاطمیہ کے طور پر زندہ کیاہے ، جنہوں نے حقیقت اور جوہر دین یعنی ولایت کو زندہ رکھا۔

دس سال گزرنے کے بعد آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ عزاداری بین الاقوامی  سطح پر  ہورہی ہے نہ صرف ایران میں ، بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں اہلبیت علیہم السلام کے پیروکار موجود ہیں وہاں وہاں ان ایام میں یہ مجالس عزاء برپا ہو رہی ہیں۔خداوند متعالی اس کام پر آپ کے لئے بہت سارے اجر و ثواب عطا فرمائے گا ،دنیا اور آخرت میں آپ کے اس بڑے کام پر انشاء اللہ بہت اچھے آثار مرتب کرے گا۔

میں یہاں پر چند مطالب کوبیان کرنا چاہتا ہوں:١۔ ان عزاداری کی اصلی اہداف یہ ہے کہ ہم حقیقت دین کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں ، یعنی پیغمبر اکرم (ص) اور تمام انبیاء اور اولیاء خداوند تاریخ بشریت میں جس مقصد کے درپے تھے یہ عزاداری اسی مقصد کو زندہ رکھنے کے لئے ہے ۔

صحیح بات ہے کہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مصائب بہت زیادہ دردناک  ہیں آسمان اور زمین کے لئے بھی بہت دردناک  ہیں لیکن جو اصلی ہدف ہے وہ یہ ہے کہ اس بی بی پر جو ظلم ہوئے ہیں اور پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جو انحرافات وجود میں آ‎ئے ہیں وہ واضح ہیں  ، یہاں پر قصہ کا رخ اس سمت موڑا تھا جس رخ میں آدم سے لے کر خاتم تک کے تمام انبیاء کی آرزو اور امیدوں پر پانی پھیرناچاہتے تھے ۔

تمام گذشتہ ادیان کی کوششیں اسلام کے آنے کے لئے تھیں ، تمام انبیاء مقدمہ تھے پیغمبر اکرم (ص)کی نبوت اور امیر المومنین(ع) کی ولایت اور فاطمہ زہرا (س)اور ان کے اولاد طاہرین کے لئے۔

ان ایام میں ان حضرات پر جو مصائب آئے وہ اسی لئے تھے کہ وہ لوگ چاہتے تھے نبوت اور ولایت کے تمام آثار کو مٹا دیں ! میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری اور آپ کی عزاداری اور ان جلوسوں کا محور یہی ہے ، آپ اور وہ حضرات جو اہل تحقیق ہیں بخوبی واقف ہیں کہ یہاں پرتنہا فدک کا مسئلہ نہیں ہے ، صرف خلافت کو غصب کرنے کی بات نہیں ہے، بلکہ یہاں پر مسئلہ اس سے بڑھ کر ہے ، آپ تاریخ وہابیت کو ملاحظہ فرمائیں ، اسی ابن تیمیہ کو دیکھیں کہ جووہابیت کے ارکان میں سے ایک ہے اس نے قرآن کریم کی آیات کے ساتھ کیا کیا ہے ؟ اس نے اپنی کتاب میں کیسی کیسی تحریفات ، انحرافات اور جھوٹی باتوں کو نہیں کیا ہے ؟! وہ سورے اور آیات جو مسلم طور پر اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں ان کا انکار کرتا ہے ۔

دیکھیں اس نے اپنی کتاب منہاج السنۃ میں کیا کیا ہے ؟ حسنین علیہما السلام کی شفا کے لئے روزہ رکھنے کا جو واقعہ ہے کہ یہ رسول اکرم (ص) کے حکم سے تھا،پیغمبر اکرم (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا تھا :آپ تین دن روزہ رکھنے کی نذر کریں تا کہ حسنین کو شفا ملے ، امیر المومنین اور فاطمہ زہرا نے تین دن روزہ رکھنے کی نذر کی اور حسنین (ع )کو شفا ملی، اور تین دن روزہ رکھے ہر روز افطار کے وقت کوئی نہ کوئی آیا اور افطار اس کودے دیا ایک رات مسکین آیا ، ایک رات یتیم آیا، ایک رات اسیر آیا ، اور افطاری ان کو دے دی ،اس وقت سورہ دہر کی یہ آیات نازل ہوئیں «و یطعمون الطعام علی حبّه مسکیناً و یتیماً واسیراً إنما نطعمکم لوجه الله لا نرید منکم جزاءً ولاشکوراً» ملاحظہ فرمائیں یہ شخص جو اپنے آپ کو شیخ الاسلام کہا ہے ،اس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ان آیا ت کے شان نزول میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے بلکہ یہ جعلی اور خودساختگی ہے ، حالانکہ اس سے پہلے کے ٣٠ سے زائد اہل سنت کے بڑے بڑے علماء ، مفسرین اور محدثین جیسے زمخشری ،فخر رازی سے لے کر دوسری ،تیسری اور چوتھی صدی تک کے علماء نے یہی بتایا ہے کہ یہ آیات علی ، فاطمہ، حسن ، حسین علیہم السلام اور کنیز فضہ کے بارے میں ہیں۔

ان آیات کے بارے میں موجود واقعہ کو اہل سنت کے بڑے پایہ کے عالم دین زمخشری نے پوری تفصیلات کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کی ہیں لیکن صرف یہ ابن تیمیہ ہے جو اسے جعلی بتاتا ہے۔

یہ بات خود ایک دلیل ہے کہ ان لوگوں کا مقصد  صرف فدک اور خلافت نہیں تھا بلکہ یہ لوگ پورے دین کو الٹا کرناچاہتے تھے ، اور اسی مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے کتنی ساری آیا ت کی تحریف کی ہے ، یہی شخص اپنی کتاب میں لکھتا ہے: تاریخ میں فضہ نام کی کوئی کنیز ہی موجود نہیں ہے ،حالانکہ اس سے پہلے کے مورخین اور علم رجال کے علماء نے اپنی رجالی(بائیو گرافی ) کتابوں میں بی بی فضہ کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی کنیز کے عنوان سے ذکر کیا ہے ، لیکن یہ شخص اہلبیت (ع) سے جو عناد اور دشمنی اور بغض رکھتا تھا اس  وجہ سے کہتا ہے تاریخ میں فضہ نام کی کوئی کنیز موجود نہیں ہے ، اس کے بعد کہتا ہے کہ ہماری کتابوں میں کچھ روایات ہیں جن کے مطابق نذر کرنا مکروہ یا اصلاً منع ہے ، پس یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) امیر المومنین (ع) سے یہ فرمائیں کہ حسنین (ع )کی شفا کے لئے نذر کریں ؟ اس شخص کو معلوم نہیں کہ قرآن خود فرماتا ہے «یُوفُون بالنذر»  نذر کو پورا کرنا واجب ہے ، اور یہ اچھے لوگوں کی صفات اور فضائل میں سے ایک ہے ، اور نذر کو پورا کرنا اہل بیت (ع) کے فضائل میں سے ایک ہے ، انسان کسی مشکل میں پھنس جائے تو کس فقیہ نے کہا ہے کہ اسے نذر کرنا مکروہ ہے؟ جی ہاں ؛ اگر کوئی ضرورت نہ ہو اور انسان ویسی ہی نذر کرے توشاید ایسا مکروہ ہو ، یا کم از کم اس میں کوئی رجحان نہ ہو۔

حضرت آیت اللہ فاضل لنکرنی (دامت برکاتہ ) کا فاطمی انجمنوں کے مسؤلین سے خطاب

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ پورےقرآن کے حقایق کو تحریف کرنا چاہتے تھے ، علماء و فضلاء اور محققین ملاحظہ فرمائیں :قرآن کریم میں مہدویت کے بارے میں کچھ آیات موجود ہیں کہ جو حضرت حجت(عج) سے مربوط ہیں،انسان جب تفسیروں کی طرف رجوع کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ واقعاً قرآن کتنا مظلوم ہے ، اس قرآن کریم پر کیا مصائب ڈالے گئےہیں ،اور کس طرح قرآن سے کھیل کھیلا گیاہے۔

میں انہیں ایام میں جب مدینہ منورہ مشرف ہوا تھا تو قبرستان بقیع میں زیارت جامعہ کبیرہ پڑھ رہا تھا ، انہی کا ایک ملاّ میرے پاس آکر کہنے لگا یہ شرک ہے ،کیونکہ تم یا محمد یا علی کہتے ہو یا اللہ نہیں کہتے ہو ، تم لوگ مشرک ہو ؛ میں نے اس سے کہا ہم قرآن پر عمل کرتے ہیں ، اس نے کہا تم تو دعا کی کتاب پڑھ رہے ہو ،کہا ؛ نہیں میں قرآن پر عمل کر رہا ہوں ، قرآن نے فرمایا ہے : «و لو أنّهم إذ ظلموا أنفسهم جاؤوک»؛ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ جب رسول اللہ (ص) کے زمانہ میں لوگ گناہ کرتے تھے اور اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے تو اس کے بعد وہ لوگ رسول اللہ (ص) کی خدمت میں آتے تھے تا کہ آپ (ص)ان کے لئے استغفار کریں ، میں نے کہا '' جاؤوک» سے کیا مراد ہے ؟ یعنی کیا وہ لوگ پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آکر انہیں دیکھتے رہتے تھے ؟ یا آپ کے پاس آکر یہ کہتے تھے :'' یا محمد استغفرلنا » پس ہمیں چاہئے کہ ہم رسول خدا اور ان کی اہلبیت (ع) کو اپنے اور اپنے خدا کے درمیان واسطہ قرار دیں ، میں بھی ان قبور کے پاس آیا ہوں ، یہ حضرات  عالم برزخ میں ہیں ،خود خدا قرآن میں فرماتا ہے «و من ورائهم برزخٌ إلی یوم یبعثون»ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ انسان اس دنیا سے مرنے کے بعد عالم برزخ میں  جاتا ہے ،نہ صرف ائمہ (ع) بلکہ تمام اموات زندہ ہیں ، لہذا میں ان لوگوں سے یہی کہتا ہوں کہ زیارت جامعہ کو پڑھنا قرآن پر عمل کرنا ہے ۔

ان لوگوں نے نہ صرف قرآن کو بلکہ پیغمبر اکرم (ص) کی سنت کی بھی حفاظت نہیں کی ہے یہ لوگ صرف حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) سے فدک لینے اور اس کے بعد مسئلہ ختم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے بلکہ یہ لوگ اسلام کو جڑ سے ہی خراب کرنا چاہتے تھے، یہ ایام فاطمیہ کا احیاء ان آخری چند سالوں میں بڑے بڑے مراجع خصوصاًہمارے والد گرامی حضرت آیت اللہ عظمی فاضل لنکرانی (رضوان اللہ ) اس بارے میں بہت تاکید کرتے تھے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ  ان ایا م کا احیاء اسلام ، قرآن اور ولایت سے دفاع  کا سبب ہے ۔

ہمارے مرحوم والد گرامی اپنی عمر کے آخری پانچ سالوں میں ہر سال تیسری جمادی الثانی کی مناسبت سے ایک پیغام دیا کرتے تھے اور لوگوں کو بھی دعوت دیتے تھے ، ہمیں  بتاتے تھے کہ علماء ، آئمہ جماعات اور انجمنوں کے صدور سے رابطہ کریں اور ان سے یہ تقاضا کریں کہ ایام فاطمیہ کو بھی عاشورا کی طرح نہایت ہی اچھے انداز میں برپا کریں ۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دن ان کو کوئی مجلہ ملا جس کا نام تھا "فاطمہ زہرا (س )ولادت سے لے کر شہادت کے افسانہ تک" میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ،فرمایا: معلوم ہوتا ہے کہ وہابیت کا اثر ہے اور اس تاریخی مسلّم واقعہ کو اور جو ظلم حضرت زہرا (س) پر ہوا ہے اسے چھپانا چاہتے ہیں ۔

ہمیں بہت زیادہ بیدار رہنے کی ضرورت ہے تا کہ یہ حقایق ختم نہ ہو جائیں کسی کے ذہن میں یہ بات نہ آئے کہ امیر المومنین (ع) اور حضرت زہرا (س) کو اپنے دور کے حاکموں سے کوئی مشکل نہیں تھی ، محققین صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی طرف رجوع کر سکتے ہیں اور ان کی معتبر کتابوں میں یہ بات نقل ہے حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اپنے زمانہ کے حاکم کو نفرین کی تھی اور یہ فرمایا تھا کہ میں ہر نماز کے بعد اس کی نفرین کروں گی ، خود اہل سنت کی کتابوں میں نقل ہے کہ ''ماتت و ہی غصبان علیہما،، حضرت فاطمہ زہرا (س) اپنی آخر عمر تک ان دونوں ک سے نہیں ملیں اور دونوں سے کوئی بات بھی نہیں کی ۔

اگر صرف فدک کی بات ہوتی تو حضرت فاطمہ (ع )کی شان اور مقام اس سے کہیں زیادہ بلند وبالا ہے کیا ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ جب حضرت فاطمہ (س )ان دونوں سے ناراض تھیں تو کیا امیر المومنین ناراض نہیں تھے ؟ کیا یہ ممکن ہے ؟ ہم حضرت فاطمہ (س) کی ناراضگی کو خدا اور رسول خدا کی ناراضگی ہی سمجھتے ہیں یہ سب نور واحد ہیں، یہ لوگ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امیر المومنین (ع) کے بعد اہل بیت کا ان افراد سے کوئی رنجش نہیں تھی ، حالانکہ تاریخی کتابیں امیر المومنین اور فاطمہ زہرا(س) پر ہونے والے مظالم سے بھری پڑی ہیں ۔

میں یہاں پر اجمالی طور پر بیان کر رہا ہوں ؛ یہ بتانا نہیں چاہ رہا ہوں کون کونسی کتابیں اور کون سے محدّث اور مورّخ اور اہل سنت کے کونسے محقق نے کس صدی میں یہ باتیں کی ہیں ؛ ہماری ان باتوں کی تمام مدارک خود ان کی کتابیں ہیں، گھر کو جلانے کی  جو دہمکی دی وہ بہت عجیب بات ہے ،جب گھر کی بات آتی ہے تو میرا بدن لرزنے لگتا ہے ، وہ گھر جس کے بارے میں رسول خدا(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: «فی بیوتٍ أذن الله أن ترفع» ابوبکر نے سوال کیا یا رسول اللہ کیا فاطمہ(س) اور علی(ع)  کے گھر بھی اسی بیوت میں شامل ہیں؟ اگر کوئی اور یہ سوال کرتا تو ہم یہ کہتے کہ شاید اس کو پتہ نہیں ہو گا لیکن یہ ابو بکر ہے جو سوال کر رہا ہے ، آنحضرت (ص) نے فرمایا ؛ نہیں ؛ "ہی من افاضلہا" یہ ان گھروں میں سے سب سے بہترین گھر ہے ،یعنی تمام انبیاء کے گھر ایک طرف اور حضرت علی اور فاطمہ کا یہ چھوٹا سا گھر ایک طرف ، لیکن دیکھیں بعد میں ابو بکر اور عمر اس گھر کے رہنے والوں کو کیا کیا دہمکیاں دیتا ہے .

میں نے اہل سنت کی کتابوں میں ایک مطلب کو دیکھا ہے ابوبکر نے عمر سے کہا کہ تم کچھ افراد کو جمع کر کے وہاں لے جا‏‏‏و اور بیعت لے لواور اگر بیعت کے لئے نہ آئیں تو ان کو قتل کردیں ؛ گھر کو جلانے کی دہمکی اور اس کے لیےدوسرے کے آنے کی بات خود ان کی کتابوں میں ہے ، دوسرے کے کچھ جملات ہیں کہ جب اسے پڑھ لیں تو واقعاً انسان اس پر تعجب کرتا ہے ،کہ دہمکی دی اور اسے کر کے بھی دیکھایا ، بعض نے لکھا ہے کہ دہمکی دی تھی اور اس پر عمل نہیں کیا تھا ، لیکن خود ان کی کتابوں میں ہے کہ اس دہمکی کے بعد اس پر عمل بھی کیاگیا ، یہ لوگ کس چیز کا انکار کرنا چاہتے ہیں ؟ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ جسے زندہ رکھنا چاہئے۔

عرض ہوا ؛ کہ فاطمیہ کو زندہ رکھنا دین خدا کو زندہ رکھنا ہے ، حضرت زہرا (س) کے مصائب کو زندہ رکھنا دین خدا کو زندہ رکھنا ہے ، قرآن کو زندہ رکھنا ہے ، اگر آج ہم ان سے غفلت کریں گے تو آنے والے زمانہ ميں قرآن باقی نہیں رہے گا ، توحید صرف اہل بیت (ع )کے پاس ہے ، قرآن کی تفسیر اہل بیت کے پاس ہے ، یہ ایسے حقایق ہیں کہ جسے مضبوطی سے تھامے رکھنے کی ضرورت ہے ، ہمارے ائمہ اطہار علیہم السلام ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے تھے لیکن ان حقایق کی طرف بھی اشارہ فرماتے تھے ۔

البتہ وحدت کی بات اپنی جگہ پر ہے ، ان کی اہانت نہ کیا کریں ، ان کو لعن طعن نہ کریں ، ان کاموں کو نہیں کرنا چاہئے لیکن ان حقایق کو بھی نہیں چھپانا چاہئے ، آنے والی نسل تک یہ حقایق پہنچنا چاہئے ، ہمارے بزرگان امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ ) رہبر معظم انقلاب، مراجع بزرگوار سب ہمیں وحدت کا حکم دیتے ہیں ہم ان کی طرف متوجہ ہیں ، ہم متوجہ ہیں کہ آج دنیا  کو دہشتگری اپنے لپیٹ میں لیا ہے اور بے گناہ لوگوں کو مارا جا رہا ہے یہ سب سلفی گروہ کہ جن کا سب سے بڑا ابن تیمیہ ہے کا شاخاسانہ ہے یہ چھٹی اورساتویں صدی میں اسی کی فکری انحرافات کی وجہ سے آج یہ سارے جنایات رونما ہورہے ہیں  آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس قدر بے رحمی کے ساتھ شیر خوار بچہ کے سر کو تن سے جدا کیا گیا اور اس کے دل اور جگر کو نکالا یہ سب اسی کی انحرفات کی وجہ سے ہے ۔

ہمیں دونوں طرف نظر رکھنے کی ضرورت ہے ہم اپنے مذہب کی حقایق کو بھی مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے  ، اور وحدت کو بھی پائمال نہیں ہونے دینا ہے ۔ہمارے والد مرحوم مرجع جہان تشیع ایام فاطمیہ کے بارے میں بہت ہی حساس تھے خدا کا شکر ہے کہ ان کی رحلت کے بعد بھی فاطمی انجمنوں کی یہ کوششیں جاری رہی اور روز بروز اس میں اضافہ ہو رہا ہے ، میں آپ تمام کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آج اس بزرگ مرجع کی یاد میں یہاں پر آنے کی زحمت اٹھائے ، آپ تمام کا اجر و ثواب حضرت زہرا سلام اللہ علیہاہی عنایت کرے گا۔

خداوند متعالی ہم سب کو دنیا اور آخرت میں حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے ساتھ محشور فرمائے ۔

اور آپ (س) اور آپ کے اولاد طاہرین کی شفاعت ہم سب کو نصیب فرمائے ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

برچسب ها :