علماء پاکستان سے ملاقات میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ) کا خطاب

03 July 2024

21:55

۲,۳۶۱

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

سب سے پہلے میں آپ تمام علماء اعلام ، اور پاکستان کے آئمہ جمعہ و جماعت کی خدمت میں خوش آمدید کہتا ہوں ،مخصوصاً اس انجمن کے مسؤل حضرت حجۃ الاسلام و المسلمین حاج آقای صلاح الدین کی خدمت میں خوش آمدید کہتا ہوں کہ ان کے بہت سارے علمی خدمات بھی ہیں اور اس بارے میں خوشحال بھی ہوں کہ اس مجموعہ کی مسؤلیت انہیں کے ذمہ ہے ۔

ماہ شعبان اور اعیاد شعبانہ خصوصاً خاتم الاوصیاء امام زمان (عج) کی ولادت باسعادت کے سلسلے میں آپ تمام کی خدمت میں تبریک اور تہنیت عرض کرتا ہوں ۔

اس وقت پاکستان کی حالات بہت ہی اہم ہے اور ہم یہاں پر اس بارے میں کچھ مطالب بیان کرنا چاہتے  ہیں کہ ایسے حالات میں علماء کی کیاذمہ داری ہے ، ہم تمام طلاب علوم دینی اور روحانیوں کی ذمہ داری دین کی حفاظت اور اس امانت کو نسل آیندہ تک پہنچانا ہے ، علماء نہ ایران میں اور نہ ہی ایران سے خارج کسی اور جگہ پر اس چیز کے درپے نہیں ہیں کہ قدرت پیدا کرے اور قدرت طلبی کرے ، اگر ایران میں اسلامی حکومت آئی ہے تو یہ بھی اسلام کے احکام کے اجراء کے لئے ہے ، اس لئے انقلاب لایا گیا ہے کہ لوگوں کے درمیان دین کو زیادہ سے زیادہ پہنچائے ، انقلاب کا ہدف اورمقصد صرف یہی ہے ۔

اب بات اس میں ہے کہ اس ہدف اور مقصد تک پہنچنے کے لئے کیا کیا جائے ؟

اس کےلئے پہلا قدم یہی کام ہے جسے آپ لوگوں نے انجام دیا ہے ، آج اگر دنیا کے کسی نقطہ میں بھی علماء کے درمیان اتحاد اور اتفاق نہ ہو تو وہ کوئی بھی کام نہیں کر سکتا ، آج وہ زمانہ نہیں ہے کہ ایک عالم دین یہ بتائے کہ میں انفرادی طور پر تمام مشکلات کو حل کر لوں گا ، ایک عالم دین اپنے گھر یا کسی لائبیریری میں ایک کتاب لکھ سکتا ہے تا کہ کچھ حد تک یہ اثر اندا ز ہو لیکن آج بشریت ، اسلام او رمکتب اہلبیت علیہم السلام کے لئے جو بنیادی مشکلات در پیش ہے وہ کسی انفرادی کام سے حل ہونے والا نہیں ہے ۔

لہذا آپ اس انجمن کی اہمیت کو جانیں ، اور اسے صرف ایک تشریفاتی انجمن نہ سمجھے ، واقعی میں جہاں تک ممکن ہو اس انجمن سے استفادہ کرنے کے لئے پروگرام بنانا چاہئے ، اس انجمن کے ہر میٹینگ کے لئے سینکڑوں گھنٹے کام ہونا چاہئے ، یہ انجمن صرف مومنین کے شخصی مسائل جیسے نکاح ، طلاق اور........کے انجام دینے پر کتفاء نہ کرے ، بلکہ بہت مہم کاموں کو بھی انجام دیں ۔


علماء پاکستان سے ملاقات میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی (دامت برکاتہ) کا خطاب

ّآج ہم جن اہم خطرات سے دو چار ہیں وہ یہ ہے کہ دشمنان خدا کے مراکز، اور کفر و شرک کے مراکز سے ہمارے اور ہمارے جوانوں کے عقائد پر حملہ ہوا رها ہے ، آپ خود اینٹرنٹ پر بخوبی ان چیزوں کو مشاہدہ کر رہے ہیں ، کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اسلام اور قرآن کے خلاف کوئی شبہہ اور اشکال پیدا نہیں کیا ہو ،ہر آ ئے دن کوئی نہ کوئی جدید شبهه کو پیدا  کرتے ہیں ۔

میں نے انہیں آخری چند دونوں میں دیکھا کہ قرآن کے بارے میں کچھ جدید شبہات پیدا کیے ہیں ، یہ سب کس مقصد کے لئے ہے ؟ اس کے ایجاد کرنے میں کوئی علمی ہدف و مقصد نہیں ہے اور مناظرہ اور علمی بحث و مباحثہ کے زریعہ کسی نتیجہ تک پہنچنا ان کا مقصود نہیں ہے ، بلکہ وہ لوگ اس طرح سے قرآن کو بی اعتبار کرنا چاہتے ہیں ، اسلام کو بے اعتبار کرنا چاہتے ہیں ، مسلمانیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔

میری نظر میں ایک اہم کام جسے اس انجمن کو انجام دینا چاہئے وہ یہ ہے کہ ہر میٹینگ میں ان اشکالات اور شبہات کے بارے میں بحث و گفتگو کریں ، اس بارے میں آقایان مطالعہ کریں اور جواب دے دیں ، اور یہ سوال و جواب اینٹر نٹ پر ہی نشر ہو جائے ، یعنی آپ کے اس انجمن کا ایک اپنا سائٹ ہونا چاہئے تا کہ ہمیشہ اور آن لائن شبہات کا جواب دے سکیں ۔

دوسرا مطلب: تکفیری کا مسئلہ ہے .

آج ایک گروہ ایسا پیدا ہوا ہے جو اسلام کے نام پر اور وه بھی خالص اسلام اور توحید کے نام پر اپنے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں کو کافر بتاتے ہیں ، فرق نہیں وہ شیعہ ہو یا سنی ، یہ کہتے ہیں کہ جو بھی ہمارے عقائد کے معتقد ہوں وہ مسلمان ہیں اور اگر ہمارے عقائد کے معتقد نہ ہوں تو وہ کافر ہیں ۔

ہمیں سب سے پہلے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ یہ گروہ کیسے وجود میں آیا ؟ ہم کبھی اس بنیادی سوال سے غافل ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم کیسے ان کے ساتھ مبارزہ کریں ؟ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تکفری شام کی جنگ کی وجہ سے وجود میں آیا ہے ، اور بعض نے شام کی حکومت کی مخالفت میں اس تکفیری گروہ کو وجود میں لایا ہے ؟ یا ایسا نہیں ہے ؟

میرا نظریہ یہ ہے کہ اگر ہم تحقیق کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تیس (٣٠) چالیس(٤٠) سال ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے تحقیقی مراکز نے کام کیا ہے اور طالبان کو ایک نئے چہرہ میں تکفیریوں کے شکل میں مسلمانوں پر سوار کیا ہے ، طالبان کو خود پاکستان اور وہاں کے مدارس میں تربیت دی ہے۔

مغربی ممالک اور امریکا میں اسلام کی تیزی سے پھیلتی ہوئی تحریک کو دیکھ کر ایک ایسا اسلام متعارف کرایا ہے جو عقل کے خلاف ہو ، قصی القلب ہو ، ایسا اسلام کہ ہرجوان اس کا نام سن کر نفرت کرے ، انہوں نے ایسا اسلام اپنے لوگوں سے متعارف کیا ہے تا کہ یہ بتائے کہ اسلام یہ ہے ، عرصہ دراز تک افغانستان میں طالبان کو اٹھا کر رکھا آ پ نے دیکھا کہ وہاں پر طالبان نے کس قسم کے درناک کاموں کو انجام دیا ۔

یہی طالبان ایک دن میں مزار شریف میں پانچ ہزار(٥٠٠٠) سے زائد شیعیوں کو قتل عام کیا ،یہ دیکھنا ہو گا کہ کس قسم کے لوگوں کو ایسے کاموں کے لئے تربیت دی جاتی ہے ؟ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ کہاں پر دین سے جنگ لڑنے کے تربیت پائے ہیں ؟ یہ ہماری بڑی غلطی ہے کہ صرف یہ فکر کریں کہ شام کا مسئلہ پیش آیا اور کچھ لوگ شام کی حکومت کے خلاف ہوئے اور بعد میں یہی لوگ تکفیری بن گئے ، کیا آپ یہ سوچتے ہیں کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ ایک گروہ کو رسول اکرم (ص)اور ائمہ اطہار(ع) کے اصحاب کے قبروں کو خراب کرنے اور نبش قبر کرنے کے لئے تیار کریں ؟

اگر ان لوگوں کو فرصت ملے تو مدینہ کے ساتھ بھی یہی کریں گے ، اگر ان کے ہاتھ میں قدرت آئے تو یہ بھی بتائیں گے کہ کعبہ بھی شرک ہے اسے بھی ختم ہونا چاہئے ، توحید کے نام پر توحید کے گھر کو خراب کریں گے ، ان افراد کو پہچان لیں ، لوگوں اور جوانوں سے ان باتوں کو بتایا جائے تا کہ یہ لوگ اس تکفیری گروہ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ مطلع رہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس گروہ سے کیسا سلوک کیا جائے ؟ وہ لوگ ہمیں کافر بتاتے ہیں ، ان کے مقابل میں ہم بھی اگر ان کو کافر بتائیں تو مسئلہ حل نہیں ہوگا ، ہمیں اس گروہ کے سیاسی بنیاد
سے آگاہی ضروری ہے ۔

میں یہاں پر واضح الفاظ میں یہ عرض کرتا ہوں اور آپ بھی اس مطلب کے بارے میں غور و فکر کریں ، اس وقت ایران سے باہر شیعوں کی حمایت کے نام سے امریکا اور اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں ، لیکن تکفیریوں اورشیعیوں کی حمایت کے مدعی یه گروہ دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے ۔

ہم میں اکثر آج اس مطلب سے غافل ہیں ، شیعہ کی حمایت کے نام سے ، اس نام سے کہ ہم دنیا میں شیعیوں کو پہچانوانا چاہتے ہیں ، البتہ ممکن ہے حقیقت میں یہ لوگ خود ہی بے خبر ہوں کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے ان معلوم هی نه هو ؟ فرض کریں کچھ خرافات اور موہوم چیزوں کو بیان کرے ، اس وقت نجف اور قم میں ہمارے اکثر مراجع صراحت کے ساتھ بتاتے ہیں کہ ان حالات میں سبّ اور لعن کرنا جائز نہیں اور حرام ہے ، لیکن ایران سے باہر کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں جو لعن اور سبّ کے نام سے اپنے آپ کو متعارف کرواتے ہیں ۔

ہمیں معلوم ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شیعہ ہو اور وہ اہل تولی اور تبری نہ ہو؟ لیکن یہ دیکھیں کہ اس شکل کے سبّ اور لعن کو ظاہر کرنا آج دنیا میں کس کی خواہش ہے ؟ آج کون اس طرح کے اختلافات کو پھیلانا چاہتا ہے ؟ کون آئے دن مسلمانوں کے درمیان اس قسم کے اختلافات کو زیادہ کرنا چاہتا ہے ؟

میں یہ عرض کروں گا کہ آج بشریت اور اسلام کے لئے تکفیری جتنا خطرناک ہے اتنا ہی شیعیت کے دفاع میں جو افراطی لوگ ہیں وہ بھی خطر ناک ہیں ، اس بارے میں کن افراد کو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے ؟ علماء کو چاہئے کہ اس بارے میں متوجہ رہیں ، علماء ان چیزوں کو لوگوں کے لئے بیان کریں ، اگر ہم آج اس خطر سے غافل رہیں ، تو بعد میں قابل جبران نہیں ہو گا ۔

سی آئی اے (CIA)کے سب سے بڑے افسر نے اپنے کسی تقریر میں کہا تھا کہ ہمیں چاہئے کہ شیعوں سے دو چیزوں کو لے لیں ؛ ایک عاشورا اور دوسرا مہدویت ، مہدویت کے مسئلہ میں اگر مرجعیت کو کہ جو امام زمان (ع) کے نائب ہیں ہے ان کو شیعوں سے چھینا جائے تو شیعہ خود بخود ختم ہو جائے گا،کیسے اسے چھینا جا سکتا ہے ؟ اسی طریقہ سے ، کہ شیعہ اہل منطق اور استدلال ہیں اگر اسے ایک افراطی گروہ متعارف کرائے تو خود بخود ختم ہو جائے گا ، ہمارے پاس قرآن کریم میں کچھ ایسی آیات ہیں کہ بغیر کسی اور چیز کے اضافہ کرنے کے خو دیہی آیات امامت پر دلالت کرتی ہیں ، آئیں ہم ان آیات کو بیان کریں ۔

آئیں ہم ائمہ معصومین علیہم السلام کی حالات زندگی کو لوگوں کے لئے زیادہ بیان کریں ، آئمہ کے اخلاق، سیاست، اقتصاد اور ان کی اجتماعی مسائل کو بیان کریں ، جیسا کہ خود آئمہ اطہار علیہم السلام نے فرمایا ہے کہ اگر لوگ ہمارے کلمات کے محاسن سے آشنا ہو جائے تو ضرور اسے قبول کر لیں گے ، یہ ہے اصلی اور حقیقی راستہ۔

کیا ہمارے آئمہ اطہار(ع) کی زمانہ میں علنی طور پر سبّ اور لعن کرتے تھے  ؟ یہ ایک سوال ہے ، اس وقت یہ چیزیں مخفی طورپر ہوتے تھے ، مرکز فقہی ائمہ اطہار (ع) کے محققین میں سے ایک نے زیارت عاشورا کی سند کے اثبات کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے ، کہ میں بھی اس کتاب پر ایک مقدمہ تحریر کیا ہے ، فقہی اعتبار سے فی نفسہ اس کا مستحب ہونا ایک واضح امر ہے ، لیکن ہمارے اس زمانہ میں اور ان حالات میں علنی طورپر سبّ ولعن کرنا بےگناہ انسانوں کے خون بہانے کا سبب بنتا ہے ، یورپ میں ہفتہ برائت مناتے ہیں تاکہ ہفتہ وحدت کا مقابلہ کریں ۔

ہمیں تکفیریوں کے خطر ه سے بھی متوجہ رہنا چاہئے کہ بہت بڑا خطر ہے اسی طرح شیعہ افراطی جو اس وقت رشد ونمو پارہے ہیں کے خطر ه کے بارے میں بھی متوجہ رہنا چاہئے ، ایک کتاب لکھا جاتا ہے اور اس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ کو ایک برا عنوان دیا جاتا ہے ، اور اس کتاب کو اسلامی ممالک میں شیعہ کے نام سے تقسیم کرتے ہیں ، کونسے عقل ، کونسے دینی مبانی اور کونسی سیرت ائمہ ہمیں اس بات کی اجازت دیا ہے ؟ یہ سب خلاف دین ہے ۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج علماء نہ صرف ایران کے علماء بلکہ پوری دنیا کے شیعہ علماء کی ذمہ داری ہے ، اے کاش آج پوری دنیا کے شیعہ علماء کا کوئی انجمن وجود میں آتا، مجھے معلوم نہیں کہ مجمع جہانی اہلبیت (ع) کے ہاں کوئی ایسا پروگرام ہے یا نہیں؟ ایسا ضرور ہونا چاہئے کہ ''مرکز تجمع نمایندگان علماء شیعہ جہاں،، کے نام سے کوئی انجمن وجود میں آئے ، اور ان مسائل کو بیان کرتے اور ایک منسجم اور متحد سیاست اپناتے اور شیعہ کے نام سے دنیا میں اعلان کرتے ۔

خود آپ کا یہی انجمن کہ پاکستان کے بزرگ علماء پر مشتمل ہے ، اس بارے میں سوچ و بچار کریں ، علماء شیعہ کی جو اصلی شناخت ہے کہ حافظ دین اور امانت الہی کے حامل ہونا ہے اور اس امانت کو آنے والے نسلوں تک پہنچانا ہے ، لہذا اس خطرہ کے بارے میں بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ، دیکھا جائے کہ کیا چیز خطرناک ہے اسے پہچاننے کے بعد اس سے مقابلہ کریں ، اور اس کے ذریعہ کسی کو عزت دینا اور کسی کی بے عزتی کرنا مقصود نہ ہو۔

یہ سب اگر خدا کے لئے هو تو صحیح ہے لیکن اگر خدا کے لئے نہ ہو تو سب کے سب شرک ہے ، لہذا ہمیں بنیاد کو دیکھنا چاہئے ، آج جو مشکل درپیش ہے اس کو پہچاننے اوریہ بھی معلوم کریں کہ اس کا علاج کیا ہے ؟ان سب کے بارے میں جب میں یہ سوچتا ہوں تو یہ خود اپنی جگہ ایک بنیادی مسئلہ نظر آتا ہے کہ علماء شیعہ کی علمی بے نیازی خود ایک الگ موضوع ہے ، اگر پوری تاریخ میں شیعہ علماء دوسرے تمام مذاہب پر برتری پیدا کر چکے ہیں ، تو وہ اسی وجہ سے ہے کہ شیعہ علماء ایک خاص علمی بے نیازی رکھتا ہے ۔

میں آپ سے یہی خواہش کروں گا کہ جب آپ امام جماعت یا امام جمعہ بن جائے ، تو اس کے بعد علمی مسائل سے لا تعلق نہ ہو جائے ، بلکہ پہلے سے زیادہ علمی مسائل سے آگاہی کی ضرورت ہے ، اگر کہیں پر اچھےدروس ہو تو اس میں  ضرورشرکت کریں، اگر نہ ہو تو آج الحمد للہ اینٹرنٹ ہے ، قم کے مراجع اور علماء اعلام کی کیسٹیں اور سی  ڈیز ہیں ان سے استفادہ کریں ، اور واقعی طور پر اپنے آپ کو علمی لحاظ سے مستحکم کرنے کا مصمم ارادہ کریں ، آجکل جوان علماء کے پاس آکر مختلف قسم کےسوالات کرتے ہیں ، وجود خدا سے لے کر معاد تک کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، فقہ امامیہ سے لے کر دوسرے تمام فقہ تک کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، اخلاق کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، فسلفہ ، عرفان اور تفسیر کے بارے میں سوال کرتے ہیں ،شیعہ حوزہ آج جسقدر ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے تیار ہیں اسے پہلے کبھی ایسے نہیں تھے ۔

لہذا میری یہی درخواست ہے کہ آپ حضرات حوزہ ہای علمیہ کی ارزش اور قدر و قیمت کی قائل ہو جائیں الحمد للہ آج آپ لوگوں کے درمیان بھی بہت بڑے علماء موجود ہیں ۔

مجھے یاد ہے کہ ہمارے والد مرحوم ( رضواہ اللہ تعالی علیہ) ہر اس عالم سے جو کسی شہر یا دیہات وغیرہ میں کوئی ذمہ دار ی  اٹھاتے تھے تو ان سے فرماتے تھے : آپ وہاں پر ایک چھوٹا سا حوزہ علمیہ وجود میں لائیں ، اگرچہ چند طلبہ کو اپنے گھر میں ہی لا کر ، ایک کمرہ میں ان کے لئے دروس کا اہتمام کر یں، مختلف شہروں کے امام جمعہ سے فرماتے تھے : اپنے شہروں میں ضرور ایک اچھاحوزہ علمیہ تاسیس کرو، یہ بہت ہی مہم ہے ، ان حوزات میں آپ خود بھی اپنے علمی استعداد کو بڑھا سکتے ہیں تاکہ تمام قسم کی علمی شبہات کا منہ توڑ جواب دے سکیں انشاء اللہ اور دوسروں کو بھی وہاں سے فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔

مجھے امید ہے انشاء اللہ خداوند تبارک و تعالی وہ چیز جو اسی کا مورد نظر ہو اسے ہم سب کے دلوں میں قرار دیں گے ۔
خدایا ؛ اسلام و مسلمین اور مکتب اہلبیت کو تمام دشمنوں کی شرّ سے نجات عنایت فرما۔

خدایا؛ حوزات علمیہ ، بزرگ علماء ، اور شیعہ علماء دنیا کے جہاں کہیں بھی ہوں انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھ۔                                                                                                                                                                                                                                                                              والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

 

برچسب ها :