حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی(دامت برکاته ) کے بیانات

24 November 2024

09:12

۲,۸۹۳

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها


یہ بیانات آپ نے اپنے درس خارج میں مورخہ 2/ 7/ 93 کو بیان فرمایا تھا

بسم الله الرحمن الرحیم

یہ ایام شیعوں کے نویں امام حضرت جواد الآئمہ علیہ السلام کی شہادت کے ایام ہیں ، اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ ہم کسی بھی ائمہ کے کسی ایک پہلو کے بارے میں بھی کامل طور پر گفتگو نہیں کر سکتے 'لیکن اس لحاظ سے کہ ان کے حقوق ہمارے ذمہ ہیں لہذا اس وجہ سے چند جملات عرض کرتا ہوں :

امام جواد علیہ السلام کی ولادت کے بعد امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : «هَذَا الْمَوْلُودُ الَّذِي لَمْ يُولَدْ فِينَا مَوْلُودٌ أَعْظَمُ بَرَكَةً عَلَى شِيعَتِنَا مِنْهُ»؛یہ مولود ایک ایسا مولود ہے کہ شیعوں کے لئے ان کے بہت ساری برکات ہیں ، اگرچہ امام علیہ السلام کی عمر بہت کم تھی ،اور سات سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے اور ٢٥ سال کی عمرمیں شہید ہوئے لیکن امام رضا علیہ السلام کے فرمان کے مطابق : «أَعْظَمُ بَرَكَةً عَلَى الشِيعَة» تھے۔

امام جواد کے برکتوں والا ہونے کی کیا وجہ ہے اور کیوں ہمارے آٹھویں امام (ع) نے ایسا فرمایا ؟

شاید اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امام جواد (ع) کا عمر شریف بہت ہی کم تھا ' علماء اور عام آدمی تعجب کرتے تھے اور کبھی کبھار شکوک و شبہات پیدا کرتے تھے ، مامون عباسی کبھی ایسے جلسات برگزار کرتا تھا جس میں بزرگوں ، علماء، فقہاء اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو دعوت دیتے تھے اور ان جلسات میں امام جواد(ع) کو برتری حاصل ہوتی تھی، اور کسی کے لئے بھی کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا تھا۔

حتی کہ امام جواد(ع) کی زندگانی پر مشتمل کتابوں میں ہے کہ بہت سارے علماء اور فقہاء نے مذہب امامیہ کوقبول کیا ، شاید امام جواد (ع) کی برکتوں والا ہونے کی ایک وجہ یہی ہو ، البتہ ممکن ہے اگر اس بارے میں ہم تحقیق کریں تو اور بہت ساری وجوہات بھی پیدا ہو جائے ۔

یہی وجہ ہے کہ مختلف مذاہب جیسے حنفی ، مالکی اور شافعی ۔۔۔۔ علماء امام جواد (ع) کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں ۔

محمد بن حسن بن عمار نقل کرتا ہے : امام جواد(ع) مسجد نبوی میں تشریف لائے «فَوَثَبَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ بِلَا حِذَاءٍ وَ لَا رِدَاء»؛ آپ(ع) کا چچا علی بن جعفر اٹھ کھڑے ہوئے ' یعنی آپ(ع) کم سن تھے اور علی بن جعفر سن رسیدہ بوڑھا شخص تھا جن کی ڈاڑھی سفید ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود جوتے اور عباء کے بغیر امام کی استقبال کے لئے آگے بڑھے «فَقَبَّلَ يَدَهُ وَعَظَّمَهُ»
امام جواد(ع) نے احترام کے ساتھ انہیں فرمایا :
«يَا عَمِّ اجْلِسْ رَحِمَكَ الله» چچا آپ بیٹھ جائیں خدا آپ پر رحمت کریں ۔

اس وقت علی بن جعفر نے عرض کیا : «يَا سَيِّدِي كَيْفَ أَجْلِسُ وَ أَنْتَ قَائِمٌ» میں کیسے بیٹھ جاؤں جبکہ آپ میرے امام ہیں اور کھڑے ہیں۔

«فَلَمَّا رَجَعَ عَلِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ إِلَى مَجْلِسِهِ جَعَلَ أَصْحَابُهُ يُوَبِّخُونَهُ وَ يَقُولُونَ أَنْتَ عَمُّ أَبِيهِ وَ أَنْتَ تَفْعَلُ بِهِ هَذَا الْفِعْلَ فَقَالَ اسْكُتُوا إِذَا كَانَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ لَمْ يُؤَهِّلْ هَذِهِ الشَّيْبَةَ وَ أَهَّلَ هَذَا الْفَتَى وَ وَضَعَهُ حَيْثُ وَضَعَهُ أُنْكِرُ فَضْلَهُ نَعُوذُ بِاللهِ مِمَّا تَقُولُونَ بَلْ أَنَا لَهُ عَبْدٌ»
علی بن جعفر کی اپنی ایک شخصیت تھی ان کے اصحاب تھے، جب وہ اپنی جگہ پر واپس آگئے تو ان کے اصحاب نے سرزنش کی اور بول پڑے تو ان کے والد کا چچا ہو 'کیوں ان کی اتنی زیادہ احترام کرتے ہو ؟

انہوں نے کہا: خاموش رہو؛ اپنی ڈاڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:خداوند متعال نے اس سفید ڈاڑھی کو امامت کا قابل نہیں سمجھا لیکن اس جوان کو اس کا قابل سمجھا اور اس بلند مقام پر فائز کیا ،اور تم یہ کہتے ہو کہ میں ان کی فضلیت کا انکار کروں؟نعوذ بالله مما تقولون» میں تم لوگوں کی اس بات سے خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس کے بعد یہ جملہ بولا: «بل أنا له عبدٌ».

یہ بہت عجیب مطلب ہے ، امام جواد ،امام رضا علیہما السلام کے آخری ایام میں متولد ہوئے تو امام ہشتم کا چچا اور امام جواد(ع) کے درمیان عمر میں بہت زیادہ فرق تھا اس کے باوجود انہوں نے کہا : «أنا له عبدٌ».

کبھی بعض روشن فکر یا وہ افراد جو امامت کی حقیقت سے ناواقف ہیں یہ بتاتے ہوئے سنائی دیتا ہے کہ ''آج کل امامت کے بارے میں کچھ حد تک مبالغہ ہوتا ہے'' کہتے ہیں یہ مقام ومنزلت جو آپ لوگ امام (ع) کے لئے قائل ہیں جیسے :عصمت یا ''علم ما کان و بما یکون و بما ہو کائن ''لیکن آئمہ کے اصحاب ایسے اعتقادات کے قائل نہیں تھے۔

ان کی اس بات کا جواب یہی ہے کہ علی بن جعفر ،امام جواد علیہ السلام کے اصحاب میں سے بھی نہیں تھے ، بلکہ آپ کے والد گرامی کا چچا تھا اور عمر میں بھی بہت ہی بڑا تھا اور خود بھی ایک عام انسان نہیں بلکہ امام صادق(ع) کا فرزند ہے ان سب  کے باوجود یہ فرمایا: «أنا له عبدٌ»

ان مطالب سے ہمیں یہی سمجھ آتا ہے کہ امامت کی حقیقت ، ایک ایسی حقیقت ہے کہ ہمارے عقول اور افکار نہ ابھی اور نہ ہی کسی بھی وقت اس کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں ۔

ایک اور روایت ہے کہ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام جواد علیہ السلام کو مسجد نبوی میں لایا گیا وَ هُوَ طِفْلٌ وَ جَاءَ إِلَى الْمِنْبَرِ وَ رَقِيَ مِنْهُ دَرَجَةً ثُمَّ نَطَقَ فَقَالَ «آپ اس وقت ایک بچہ تھا منبر پر بیٹھ گئے اس کے بعد سب سے پہلے اپنا تعارف کیا: «وَ هُوَ طِفْلٌ وَ جَاءَ إِلَى الْمِنْبَرِ وَ رَقِيَ مِنْهُ دَرَجَةً ثُمَّ نَطَقَ فَقَالَ :أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الرِّضَا أَنَا الْجَوَادُ أَنَا الْعَالِمُ بِأَنْسَابِ النَّاسِ فِي الْأَصْلَابِ أَنَا أَعْلَمُ بِسَرَائِرِكُمْ وَ ظَوَاهِرِكُمْ وَ مَا أَنْتُمْ صَائِرُونَ إِلَيْهِ عِلْمٌ مَنَحَنَا بِهِ مِنْ قَبْلِ خَلْقِ الْخَلْقِ أَجْمَعِينَ وَ بَعْدَ فَنَاءِ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرَضِينَ»؛

میں محمد بن علی جواد ہوں اور تمام لوگوں کے انساب سے واقف ہوں، میں تمہاری ظاہر اور باطن کو بھی سمجھتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہاری عاقبت کہاں ہے، تم سب کے عواقب سے با خبر ہوں کس کا عاقبت اچھا اور کس کا برا ہے یہ بھی مجھے معلوم ہے، اور تم سب کے اجل کے زمان سے بھی واقف ہوں، یہ وہ علم ہے جو خدا نے تمام مخلوقات کی خلقت سے پہلے ہمیں دیا ہوا ہے ۔

اس کے بعد فرمایا:«وَ لَوْ لَا تَظَاهُرُ أَهْلِ الْبَاطِلِ وَ دَوْلَةُ أَهْلِ الضَّلَالِ وَ وُثُوبُ أَهْلِ الشَّكِّ لَقُلْتُ قَوْلًا تَعَجَّبَ مِنْهُ الْأَوَّلُونَ وَ الْآخِرُونَ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الشَّرِيفَةَ عَلَى فِيهِ وَ قَالَ يَا مُحَمَّدُ اصْمُتْ كَمَا صَمَتَ آبَاؤُكَ مِنْ قَبْلُ»اگر باطل لوگ اپنے باطل ہونے کو ظاہر نہیں کرتے ، اور یہ حکومت گمراہ حکومت نہ ہوتی اور اگر یہ تردید اور شک کرنے والے لوگ نہ ہوتے تو میں ایک مطلب کو بیان کرتا کہ پہلے اور آنے والے تمام انسان اس پر تعجب کرتے ۔

اس کے بعد آپ (ع) نے اپنے مبارک ہاتھوں کو منہ پر رکھا اور اپنے آپ سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے محمد؛ خاموش؛ جس طرح تمہارے اباء واجداد خاموش رہے اور تمام حقایق کو بیان نہیں کیا ہے ایسا ہی رہو۔

ہم آج آئمہ اطہار علیہم السلام کے گہربار کلمات سے کتنا متنعم ہیں ، دین کی جامعیت آئمہ اطہار(ع) کے کلمات کے بغیر قابل تصور ہی نہیں ہے ، قرآن کے ساتھ ساتھ ائمہ طاہرین علیہم السلام کے کلمات پر بھی غور و فکر کرنا چاہئے، ان کلمات کے بغیر ہم دین کو سمجھ ہی نہیں سکتا ' اس کے بغیر دین کی جامعیت اور کامل ہونے کا دعوا ہی نہیں کر سکتے ، اور ان کلمات کے بغیر دین کو انسانی معاشرہ کے سامنے پیش ہی نہیں کر سکتا۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی(دامت برکاته ) کے بیانات

الازہر ینورسٹی کے کچھ علماء قم میں ہم سے ملاقات کے لئے آئے تھے میں نے ان سے یہی بتایا تھا کہ آج تکفریوں سے نجات کا واحد راسته  مکتب اہل بیت علیہم السلام پر توجہ دینا ہی ہے ، اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ  نہیں'ان علماء نے قبول کیا اور ظاہراًہماری اس بات کی تائید بھی کرتے تھے ' میں نے یہی کہا تھا کہ اگر کوئی ایسا محور ہو جس کے گرد ہم سب جمع ہو جائے جو کفر اور غیر کفر کے درمیان فرق کو واقعی طور پربیان کریں تویہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں ۔

میں نے ان سے کہا کہ آپ لوگوں نے آج اپنے فقہ پر کیا کیا مشکلات لے آئے ہیں ؟آج آپ لوگ اپنے اباء و اجداد کے فقہ سے دور ہوتے جارہے ہیں حد اقل عرف کے لئے ایک قانون اور ضابطہ ہے ، لیکن آج حد یہ ہوئی ہے کہ ابن تیمیہ کے بعد سے قبور کی زیارت کو بھی کفر کہنے لگے ہیں، اسی طرح دوسری چیزوں کو کفر کہنے لگا ہے 'اس طرح آج آپ لوگ اپنے قدیم فقہاء سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں ۔

ہمیں کفر اور کفر کے مقابل کو سمجھنے کے لئے ایک محور کی ضرورت ہے اور وہ محور قرآن اور اہلبیت (ع) ہے ان دونوں کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی ، جب تک اس محور پر ہم جمع نہ ہو جائے تکفریوں کی شکل میں موجود مشکل حل نہیں ہو سکتا ۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے آئمہ(ع) نے بہت سارے مطالب کو ہمیں بیان نہیں فرمایا ہے ، اس زمانہ میں ایسے افراد نہیں تھے جو ائمہ کے لسان سے استفادہ کرتے یا جو تھے ان کی تعداد انگشت شمار تھے ، لیکن یہی محدود فرمایشات ہی ہمارے بہت ساری مشکلات کو حل کر سکتا ہے ۔

آخر میں اس روایت کو میں اپنے مناسبت سے بیان کرتاہوں؛ امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد بغداد اور دوسرے شہروں میں شیعہ یہ کہتے تھے کہ امام رضا(ع) کا فرزند گرامی بہت چھوٹا ہے لهذا وہ امام نہیں ہو سکتا۔

اس وقت فقہاء اور شیعہ بزرگوں نے حج کے موسم میں کچھ سوالات تیار کیے اور یہ بولے کہ ان سوالوں کو امام جواد (ع) کے خدمت میں پیش کرتے ہیں تا کہ دیکھ لیں کہ وہ ان کا جواب دے سکتے ہیں یا نہیں ؟

جب مدینہ آئے ، امام صادق (ع) کے گھر گئے ،وہاں پر عبد اللہ بن موسی بن جعفر بیٹھا ہوا تھا اور لوگ بھی ان سے سوال پوچھ رہے تھے ، عبد اللہ بن موسی بن جعفر بھی جواب دے رہے تھے لیکن ان کی جواب سے لوگوں کے سوالات اور پریشانی میں اضافہ کے علاوہ کچھ اور نہیں هو رها تھا ۔

ہم پریشان ہو کر واپس جانے لگے تھے کہ امام (ع) کے خادم موفق داخل ہوا اور بولا :یہ شخص امام جواد(ع) ہے : «فَقَامُوا إِلَيْهِ بِأَجْمَعِهِمْ وَ اسْتَقْبَلُوهُ وَ سَلَّمُوا عَلَيْهِ فَقَامَ صَاحِبُ الْمَسْأَلَةِ فَسَأَلَهُ عَنْ مَسَائِلِهِ فَأَجَابَ عَنْهَا بِالْحَقِّ فَفَرِحُوا وَ دَعَوْا لَهُ وَ أَثْنَوْا عَلَيْه‏» آپ سے جو بھی سوال کرتے تھے آپ بلا فاصلہ ان کا واضح اورمستدل جواب بیان فرماتے تھے لوگ بھی خوش ہو کر امام(ع) کے لئے دعا کرتے تھے ۔

لوگوں نے امام جواد (ع) سے عرض کیا: «إِنَّ عَمَّكَ عَبْدَ اللهِ أَفْتَى بِكَيْتَ وَ كَيْتَ» آپ کے چچا عبداللہ بن موسی بن جعفر سے جو بھی سوال کرتے تھے ان کا جواب وه اگر مگر میں دیتا تھا ۔

«فَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يَا عَمِّ إِنَّهُ عَظِيمٌ عِنْدَ اللهِ أَنْ تَقِفَ غَداً بَيْنَ يَدَيْهِ فَيَقُولَ لَكَ لِمَ تُفْتِي عِبَادِي بِمَا لَمْ تَعْلَمْ وَ فِي الْأُمَّةِ مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ» ظاہرا ً امام نے جب یہ فرمایا تو عبد اللہ بن موسی بن جعفر وہاں موجود تھا ،فرمایا : لا الہ الا اللہ  اے چچا؛ انسان کے سخت اوقات میں سے ایک یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان خدا کے سامنے ہوتا ہے ، قیامت کے دن  انسانوں سے ایک سوال یہ ہے کہ کیوں علم کے بغیر فتوا دیا ؟ اور آپ کو یہ معلوم تھا کہ آپ سے بہتر عالم وہاں موجود ہے ۔

بہت ہی قابل غور بات ہے ؛ جو بھی ہم سے کوئی سوال کرے ہم کوئی نہ کوئی جواب دے دیتا ہے اور قیامت کے بارے میں کوئی   سوچتا ہی نہیں کہ ایک دن ہم سے اس جواب کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کیوں بغیر علم کے فتوا دیا ؟

حضرت فرماتا ہے :یہ قیامت کے عظیم مواقف میں سے ایک ہے ،قیامت کے دن سخت جگہوں میں سے ایک یہی ہے ، یعنی معلوم ہوتا ہے کہ شاید گناہوں کے جواب دینا اس سے آسان ہو ، اگر ہم سے کچھ پوچھیں اور اس کا جواب نہیں آتا ہو تو بتا دیں مجھے نہیں آتا ہے ۔

ہمارے مرحوم والد گرامی(رضوان الله تعالی علیه) علمی اور فقہی اتنے سارے زحمات کے متحمل تھے کہ واقعاً دوران معاصر کے فقہی لحاظ بہت بڑی شخصیت  تھے ، اتنی ساری کتابیں انہوں نے لکھی ہے ، جب ان کے خطی کتابوں کو دیکھتا ہے تو یہی سوچتا رہتا ہے کہ آیا ایک انسان اپنے عادی  عمر میں ان کتابوں کو پڑھ کر ختم کرسکتا ہے ،جب آپ مرجعیت پر فائزہوئے اس وقت آپ کا عروۃ الوثقی پر حاشیہ تھا ، لیکن اس کے باوجود آپ کا توضیح المسائل مدت مدید تک ناقص تھا ، جیسے ارث...... وغیرہ کے ابواب جو عروۃ مرں نہیں تھے 'انہوں نے استنباط نہیں کیا تھا اسی وجہ سے مدت مدید تک آپ کا رسالہ ناقص رہا بعد میں ان تمام ابواب کو ملاحظہ فرمایا اور اپنے نظرشریف کو لکھ کر مکمل کیا ۔

یہ بات ہمارے لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ہم قیامت کے دن یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے یہ فتوا دیا ہے چونکہ مشہور نے یہی فتوا دیا ہے ۔

مشہور خود اپنا جواب دے گا 'یا وہاں پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ مشہور نے یہ فتوا نہیں دیا تھا لہذا میں نے یہ فتوا نہیں دیا ، قیامت کے دن ایسا جواب کام نہیں آئے گا، وہاں پر دلیل کی بات ہو گی کس دلیل کے مطابق فتوا دیا کس آیت کے مطابق یا کس روایت کے مطابق ؟

لہذا یہ اہم مسئلہ ہے فرماتا ہے : «فَيَقُولَ لَكَ لِمَ تُفْتِي عِبَادِي بِمَا لَمْ تَعْلَمْ وَ فِي الْأُمَّةِ مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ» معاشرہ میں آپ سے اعلم فرد کے ہوتے ہوئے آپ نے کیوں ایسا فتوا دیا ؟ لیکن اگر کوئی موجود نہ ہو تو میں جواب دے دوں تا کہ بعد میں جا کر اس کے بارے میں تحقیق کروں وہ الگ بات ہے لیکن جب کوئی اعلم موجود ہے تو وہاں پر بغیر علم کی فتوا دینا جائز نہیں ہے ۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم نے عبد اللہ بن موسی بن جعفر اور علی بن جعفر دونوں کے واقعہ کو بیان کیا ، آپ نے دیکھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فرق ہے ؟ علی بن جعفر نے امام جواد (ع) کی امامت کو قبول کیا اور فرمایا: «أنا له عبدٌ»لیکن عبد اللہ بن موسی بن جعفر نے انہیں قبول نہیں کیا یا اس واقعہ تک انہوں نے قبول نہیں کیا تھا شاید بعد میں امام جواد (ع) کی امامت کو قبول کیاہو۔
البتہ اس روایت میں اعلم سے مراد وہ اعلم نہیں ہے جسے ہم فقہی اور اجتہادی مباحث میں بتاتے ہیں ، اس روایت میں اعلم سے مراد یہ ہے تم جاہل ہو اور میں عالم ہوں 'حضرت نے یہ بیان فرمایا ہے ، لہذا میں نے تقلید اعلم کے بحث میں  علماء  کے بہت ساری ادلہ پر اشکال کیا ہے، اور یہ روایت بھی اعلم کی طرف رجوع کرنے کے لئے دلیل نہیں ہو سکتا، چونکہ اس روایت میں اعلم جاہل کے مقابلہ میں ہے ، حضرت نے یہ فرمایا ہے تم جاہل ہو ان مسائل میں عالم کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔

بہر حال یہ بہت ہی اہم روایت ہے کہ اپنے علمی مسائل میں اسے مد نظر رکھنا چاہئے ۔

امیدہے کہ خداوند متعالی ہم سب کو امام جواد علیہ السلام کے الطاف خاصہ میں سے قرار دیں گے ۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

برچسب ها :