حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی(دامت برکاتہ) کا خطاب[1]
24 November 2024
09:29
۳,۹۳۶
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
یہ
ایام امام محمد باقر(ع) کی شہادت کے ایام ہیں ؛ ہمارے ائمه اطهار(ع) هر ایک اپنے لحاظ سے اسلام ، تشیع اور انسانی معاشرہ کے
بارے میں ایک خاص قسم کے اثر انداز تھے ۔
امام محمد باقر(ع) کی عظمت اور بزرگی کے لئے یہی کافی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات میں جابر بن عبد اللہ انصاری کو امام محمد باقر(ع) سے
ملاقات کی بشارت دی تھی اور جابر سے یہ فرمایا تھا: «تَلْقَى
رَجُلًا مِنْ وُلْدِي يُقَالُ لَهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْن ِ
يَهَبُ اللهُ لَهُ النُّورَ وَ الْحِكْمَةَ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَام»،میرے ذریہ میں سے
کسی ایک کی تمہاری ملاقات ہو گی جس کا نام محمد بن علی بن الحسین ہے خداوند متعالی
نے نور اور حکمت کو انہیں عنایت فرمائے گا ، اسے میرا سلام پہنچانا ۔
امام محمد باقر(ع) خود اس ملاقات کے واقعہ کو یوں بیان فرماتا ہے : میں اپنے والد
گرامی امام سجاد(ع) کے ساتھ کسی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ،میرا عمر اس وقت بہت کم
تھا لیکن اس کے باوجود جابر نے میرے ہاتھوں کو چوما ،(بعض اوقات لوگ ہم سے یہ سوال
کرتے ہیں کہ ہاتھ چومنا جائز ہے یا نہیں ؟ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہاتھ
چومنے میں کوئی مشکل نہیں ہے ) امام باقر(ع) فرماتا ہے : «فقبّل یدی ثم أهوى الى رجلی فاجتذبتها منه» جابر میرے پاؤں پر گرنا چاہتا تھا لیکن میں نے ایسا
کرنے نہیں دیا اور انہیں اپنے سے دور ہٹا دیا ۔
اسی طرح قتادہ کہ بصرہ کے فقہاء میں سے تھے اور اپنے زمانہ میں ان کی اپنی ایک
شخصیت تھی، ایک دن حضرت امام باقر(ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوا ، حضرت نے ان سے
پوچھا : تم بصرہ کا فقیہ ہو ؟عرض کیا :جی ہاں؛ میں بصرہ کا فقیہ ہوں ، آپ نے
فرمایا: «وَيْحَكَ يَا
قَتَادَةُ إِنَّ اللهَ جَلَّ وَ عَزَّ خَلَقَ خَلْقاً مِنْ خَلْقِهِ فَجَعَلَهُمْ
حُجَجاً عَلَى خَلْقِهِ» افسوس ہو تم پر:تم کیسے اپنے لئے فقیہ کا عنوان انتخاب کيا هے
؟فقہاء(مراد ائمہ طاہرین علیہم السلام ہیں) بندگان خدا کے ایک مخصوص گروہ ہے اور
یہ تمام لوگوں پر خدا کی طرف سے حجت ہے ، ان کو فقیہ کہا جاتا ہے
، تم کیسے جرات کرتے ہو کہ فقیہ کی
عنوان کو اپنے لئے رکھے ، فقیہ یعنی وہ شخص جس کو دین کی آگاہی ہے ، وہ جو خدا کی
کتاب سے آشنا ہو۔
ایک اور روایت میں ہے کہ امام باقر (ع) نے اس سے سوال کیا ،تم کس بنیاد پر فتوا
دیتے ہو؟ اس نے کہا : میں خدا کی کتاب کے مطابق فتوا دیتا ہوں ،امام باقر(ع) نے اس
سے فرمایا: «مَا وَرَّثَكَ اللّهُ مِنْ كِتَابِهِ حَرْفاً»- تم خدا کی کتاب سے ایک حرف بھی نہیں سمجھتے ہو ، فرمایا فقیہان
ایک خاص گروہ ہیں جو خدا کی طرف سے لوگوں پر حجت ہوتے ہیں ۔
ملاحظہ فرمائیں کہ امام باقر(ع) امام معصوم ہیں ،واقعی اور حقیقی فقیہ ہیں وہ کس
تعبیر سے یاد فرماتا ہے «أَوْتَادٌ فِي أَرْضِهِ قُوَّامٌ بِأَمْرِهِ نُجَبَاءُ
فِي عِلْمِهِ اصْطَفَاهُمْ قَبْلَ خَلْقِهِ أَظِلَّةً عَنْ يَمِينِ عَرْشِه» آپ (ع) نے جب یہ فرمایا تو قتادہ کچھ بول ہی نہیں
سکا ، ایک نقل کے مطابق قتادہ نے اس دن امام سے پوچھنے کے لئے چالیس سوالوں کو
تیار کیا ہوا تھا 'جب امام اور اس کے درمیان یہ گفتگو ہوئی اور امام نے اس سے
فرمایا :مگر تم فقیہ ہو ؟ اور فقہاء کے بارے میں اس عبارت کو فرمایا تو قتادہ اپنی
جگہ پر خاموش ہو گیا ۔
اس کے بعد قتادہ نے یہ کہا: «وَ
اللهِ لَقَدْ جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيِ الْفُقَهَاءِ وَ قُدَّامَ ابْنِ عَبَّاسٍ
فَمَا اضْطَرَبَ قَلْبِي قُدَّامَ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مَا اضْطَرَبَ قُدَّامَك» امام باقر(ع) سے عرض کیا : میں بہت سارے بڑے بڑے
فقہاء جیسے ابن عباس وغیرہ کے ساتھ بیٹھا ہوں 'ان کے سامنے کبھی بھی میرا دل
اضطراب نہیں ہوا تھا 'لیکن ابھی آپ کے سامنے میں مضطرب ہوں ، اس نے سمجھا کہ امام
محمد باقر(ع) میں ایک خاص نورانیت اور خصوصی صفات پائے جاتے ہیں۔
امام باقر(ع) کے بارے میں چند مطالب کو اجمالاً بیان کرتا ہوں
١۔امام باقر کا مقابلہ انحرافات سے ہے البتہ یہ ہر امام کے زمانہ میں کچھ نہ کچھ
ہوتا تھا اور بنیادی طور پر امامت کا ایک پیچیدہ فلسفہ مخلوقات پر خدا کی طرف سے
حجت ہونا اور حافظ دین خدا ہونے کے عنوان سے ہر زمانہ میں امت کی افکار کی حفاظت
کرنا اور انحرافات سے مقابلہ کرنا ہے ' امام اور غیر امام کے درمیان ایک اہم فرق
یہی ہے ظالم حکام جو قدرت طلبی ، دنیوی فائدے اور حیوانی خواہشات کے لئے حکومت
کرتے ہیں ان کے یہ مسائل اهميت کا حامل نہیں ہوتے ۔
حتی کہ بہت سارے ایسے افراد جو دینداری کے دعویدار ہیں وہ لوگ خود انحرافات ایجاد
کرتے ہیں ، لہذا طول زمان میں کوئی ایسے شخص کا ہونا ضروری ہے جو انحراف کی تشخیص
کرے اور ان سے امت کو بچا کر رکھیں ، اوریه ذمہ داری ائمہ معصومین علیہم السلام کے
زمان حضور میں وہ لوگ خود ہیں اور زمان غیبت میں ان کی نائب کی ذمہ داری ہے ۔
دوسرے مذاہب کے آئمہ میں آیا کوئی ایسا ائمہ ہے جس نے اپنے زمانہ میں عقیدتی انحراف یا فتنہ
اور کسی بدعت کو تشخیص دیا ہو اور اس سے مقابلہ بھی کیا ہو ؟ البتہ وہ بدعت جو
دینی مبانی کے بنیاد پر بدعت ہو، نہ اپنی جہالت اور نافہمی کے مطابق ،کیونکہ اس
طرح بہت سے مسلمات دینی کو بدعت قرار دیتے ہیں ؟ جیسا کہ ابن تیمیہ نے کیا کہ اس
نے آخر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی قبر مطہر کی زیارت کو بھی بدعت قرار
دیا تھا ، یہ اس کی نافہمی کی وجہ سے ہے ۔
لیکن بدعت اور غیر بدعت ، فتنہ اور غیر فتنہ کے درمیان تشخیص دینے کی واحد شخصیت
صرف اور صرف امام معصوم (ع) ہے ۔
امام باقر(ع) کے زمانہ میں یہ مقابلہ تھا ، کچھ ایسے افراد امام باقر(ع) کے زمانہ
میں وجود میں آئے جو علم غیب کا دعویدار تھا جیسے مغیرہ بن سعید عجلی، یہ ایسا
انسان تھا کہ بہت ہی بے حیایی کے ساتھ گستاخانہ طور پر آپ(ع) سے عرض کیا :
«إنی أعلم الغیب» شاید وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ آیندہ چند دنوں میں جو واقع ہونے والا ہے
مجھے کچھ حد تک اس کا علم ہے ۔
امام باقر(ع) نے ڈانٹ کر اس شخص کو مجلس سے نکال
باہر کیا اور لوگ بھی اس پر لعنت کرنے لگے۔
ہمارے زمانہ میں بھی کچھ ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو پیشنگوئی کرتے ہیں اورکب
فلان واقعہ رونما ہوگا یہ بھی بتاتا ہے، یہ کام ہمارے ائمہ طاہرین علیہم السلام
اور امام باقر (ع) کی سیرت کے برخلاف ہے، ہم طلاب علوم
دینی کو چاہئے ایسے کاموں سے مقابلہ کریں ۔
اس وقت ہمارے معاشرہ میں کتنی ساری ایسی کتابیں موجود ہیں جن میں بہت ساری ایسے واقعات لکھے ہوئے ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے صرف چند افراد جو اپنے مادی
اور اقتصادی فائدے کے بارے میں سوچتے ہیں وہ ایسی کتابوں کو لا تعداد مقدار میں چھاپ
کرمختلف طریقوں سے اسے بیج دیتے ہیں ، صرف ایک بے بنیاد اور جھوٹے واقعہ کو رواج
دینے کے لئے ، لیکن امام باقر(ع) نے مغیرہ کے ساتھ کیا کیا ؟ وہ صرف علم غیب کا
دعویدار تھا اور یہ کہتا تھا کہ مجھے معلوم ہے فلان شخص کب مرے گا اور اس طرح کے
کچھ دوسری باتیں۔
آپ(ع) نے ایک جامع انداز میں فرمایا ہے : «يَا
مَعْشَرَ الشِّيعَةِ شِيعَةِ آلِ مُحَمَّدٍ كُونُوا النُّمْرُقَةَ الْوُسْطَى
يَرْجِعُ إِلَيْكُمُ الْغَالِي وَ يَلْحَقُ بِكُمُ التَّالِي» آل محمد کے شیعوں کوچاہئے کہ
درمیانی نمرقہ ہو (نمرقہ درمیانی ٹیک لگانے کی جگہ کو کہتے ہیں ) جو آگے نکل چکے ہیں
وہ واپس آکر تم سے جاملے اور جو غلو کرتے ہیں وہ تمہاری طرف واپس پلٹے ۔
امام باقر(ع) اور تمام ائمہ نے ایک بنیادی کام جو انجام دیا ہے وہ غلو سے مبارزہ
کرنا تھا ، امام باقر(ع) کے زمانہ میں کچھ افراد حضرت امیر المومنین علی بن ابی
طالب(ع) کی نسبت میں غلو کرتا تھا، آپ نے صراحتا ً فرمایا: «لا تضع عليا دون ما وضعه الله، و لا ترفع عليّا
فوق ما رفعه الله» امیر المومنین(ع)کو خدا نے جو قرار دیا ہے اس سے کمتر قرار مت دو خدا نے
انہیں حجت اور رسول خدا (ص) کا بلا فصل وصی قرار دیا ہے اور دوسرے مقام ومنزلت ،
اور دوسری طرف سے خدا نے انہیں جتنا بلند کیا ہے اس سے اوپر نہیں لے جاؤ، یعنی جو
واقعی حدود ہے اسے بیان کرو یعنی حد اور غلو سے تجاوز مت کرو۔
مثلا کسی بھی ائمہ معصومین(علیہم السلام ) کے بارے میں یہ نہیں بتانا چاہئے کہ یہ حضرات
مستقل طور پر عالم تکوین میں دخالت رکھتا ہے ، ہم ائمہ (ع) کے ولایت تکوینی کے
قائل ہیں لیکن یہ ولایت خدا کی اذن سے ہے ، کوئی بھی شیعہ عالم اور فقیہ ایسا نہیں
ہے جو یہ بتائے کہ ہم مستقل طور پر ائمہ (ع) کے ولایت تکوینی کے قائل ہیں ۔
اہل سنت اور وہابیت جہالت ، عناد اور شیعہ دشمنی میں شیعوں سے یہ نامناسب نسبت کو
دیتا ہے ، لیکن ہم ائمہ اطہار (ع) کے ولایت تکوینی اور ان کے علم ما کان ومایکون...........کو
قبول کرتے ہیں لیکن اذن خدا سے 'یہی درمیانی راستہ ہے ، اسی درمیانی راستہ کو
انتخاب کرنے کے بارے میں ہمارے ائمہ نے بہت سفارش کی ہے ، ہمیں اعتقاد میں معتدل
ہونا چاہئے نہ غلو کریں اور نہ کم بتائیں، اسی طرح اخلاق میں اقتصاد میں اعتدال کے
راستہ کو اپنانا چاہئے ،ہمیں تمام کاموں میں نمرہ وسطی پر ہونا چاہئے۔
پس امام (ع) ذرہ بین کی طرح انحرافات اور بدعات کے مراقب ہیں اور یہ اہل غلو اور
بدعت سے مقابلہ میں امام محمد باقر(ع) کی سیرت کا ایک نمونہ ہے ۔
«هَلْ
نُنَبِّئُكُمْ بِاْلأَخْسَرينَ أَعْمالاً الَّذينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَياةِ
الدُّنْيا وَ هُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا» ایک روایت میں
امام باقر(ع) خسارہ میں ہونے والوں کے بارے میں فرماتا ہے : «هم
النصاری و القصیصون و الرهبان و اهل الشبهات و الاهوی من اهل القبلة» بہت ہی نقصان میں ہونے والے افراد مسیحی علماء ہیں
جنہوں نے بہت سارے لوگوں کو حق کی طرف آنے نہیں دیا اور حق کو ان سے چھپا کر رکھا
اور انہیں اسلام کی طرف آنے نہیں دیا ۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ سعد اسکافی نے امام باقر(ع) سے عرض کیا:
«إِنِّي أَجْلِسُ فَأَقُصُّ وَ أَذْكُرُ حَقَّكُمْ وَ
فَضْلَكُمْ» میں کسی مجلس
میں بیٹھ کر آپ کی فضیلت اور حقوق کے بارے میں باتیں کرتا ہوں ( اب ہمارا یہ درس ،
یہ مجالس اورجہاں بھی اہل بیت(علیہم السلام) کے حق کے بارے میں باتیں ہوتی ہے وہ
اس روایت میں شامل ہے )آپ نے فرمایا: «قَالَ وَدِدْتُ أَنَّ عَلَى كُلِّ ثَلَاثِينَ ذِرَاعاً
قَاصّاً مِثْلَكَ
مجھے یہ پسند ہے ہر تیس گز پر ایک آدمی بیٹھا ہو اور تمہاری طرح بات کرنے میں
مشغول رہے ۔
ہمارے اس زمانه میں تمام مشکلات کے
حل کا واحد راستہ امامت کو محور قرار دینا ہے واقعاً جہان معاصر اور دنیای اسلام
کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں ، تمام مذاہب کو امامت کے محور پر
جمع ہونا چاہئے۔
مصر کے الازہرینورسٹی کے علماء آقای تاج الدین ہلالی اور آقای کریمہ قم آئے تھے ،
میں ان دونوں سے ملاقات میں سوال کیا کہ آج ان تکفریوں ، داعشیوں اور مسلمانو ں
کے جان بہ لب کرنے والے ان مشکلات میں آپ لوگوں کے پاس کیا حل موجود ہے ؟ان کے
جواب کے بعد میں نے کہا کہ اس کے حل کا واحد راستہ اہل بیت علیہم السلام کو محور
او رمرکز قرار دینا ہے ،میں نے بتایا کہ تکفریوں نے ان باتوں کو آپ کے علماء سلف
سے سیکھا ہے کہ ہر روز ایک چیز کو کفر کا مصداق قرار دیتا ہے اور مسلمانوں کے ایک
گروہ کو اسلام کے دائرہ سے خارج کرکے انہیں کافر بتاتا ہے ' لیکن کفر کا ضابطہ
میرے اور آپ کے اختیار میں نہیں ہے ، کفر کے ضابطہ کو خود شارع اور دین کے مبین کو
بیان کرنا چاہئے۔
آج یہ کہا جاتا ہے کہ اگر موبایل میں قرآن پڑھے تو یہ کفر ہے ، تم تو دین کے بارے
میں جاہل ہو تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ اسے کفر قرار دیں ، صبح نیند سے اٹھ جاتا
ہے اور کہتا ہے آج فلان دیوار کو دیکھنا کفر ہے ، آج فلان بات کو کرنا کفر ہے ،
الحمد للہ آج مسلمانان عالم یہ سمجھ گئے ہیں کہ یہ لوگ اپنی خواہشات کے مطابق یہ
فتوادیتے ہیں اور اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ۔
آج یہ واضح ہوا ہے کہ جب سے وہابیت وجود میں آیا ہے اور ابن تیمیہ نے پروان چڑہا
ہے یہ سب دین میں بدعت پھلانے کے لئے تھا ، اپنے طرف سے جعلی اور منگھڑت قوانین
بناتے ہیں اور ہر روز کسی نہ کسی کو دین کے نام پر قتل کر ڈالتے ہیں ۔
لہذا ہمیں اہل بیت علیہم السلام کی طرف توجہ کرنا چاہئے ، اہل بیت (ع) کی واقعی جو
مقام و منزلت ہے اسے لوگوں کے لئے بیان کریں، ان کی کلمات اور فرمایشات کو بیان
کریں، البتہ اختلاف پیدا ہونے نہ دیں، ہمارے پاس ائمہ طاہرین (ع) سے اتنے زیادہ
مطالب موجود ہیں کہ ایک ہی روایت پورے ایک ملک کو شیعہ بنا سکتا ہے اور ان کی
ہدایت کے لئے کافی ہے۔
امام محمد باقر(ع) کا مسیحیوں ،ہشام بن عبد الملک حتی کہ اپنے زمانہ کے خوارج کے
سرکردہ سے جو مناظرہ ہوئے ہیں اس سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ ہر طلاب علوم دینی کو
تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر مناظرہ کرنا چاہئے، انہیں چیزوں کا بیان ائمہ
کے مقامات کا بیان ہے ۔
مسیحیی قصیص نے امام باقر(ع) کی کثرت علم کو دیکھ کر جو چیخ و پکار کیا تھا اس سے
آپ سب بخوبی آگاہ ہیں ، یہ شام کا ایک بہت ہی قابل احترام قصیص تھا ، اس نے امام
باقر(ع) سے کچھ سوالات کیا ، امام(ع) نے ان سوالوں کا ایسا جواب فرمایا کہ یہ شخص
مسیحیوں سے مخاطب ہو کر کہا؛ «لا
تسألونی»، اب اس کے بعد مجھے سے کوئی سوال نہ پوچھنا ، جو
کچھ پوچھنا ہے اس آقا سے پوچھ لو ، اسی محفل میں ہی چند مسیحیی مسلمان ہو گئے۔
ہمیں چاہئے کہ اس طرح کے مطالب کو لوگوں کے لئے بیان کریں ، آج ہماری اصلی ذمہ
داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ حقیقت امامت ، ائمہ معصومین علیہم السلام کی فضایل ،
ان کی کلمات اور حقایق کو جوان نسل کے لئے بیان کریں، معاشرہ کی رشد و نمو اسی میں
پوشیدہ ہے۔
امید ہے کہ انشاء اللہ خداوند متعالی ہمارے اس ملک کو، اس مقدس نظام کو، ہمارے ملک
کے مسولین ،حوزات علمیہ ، مراجع عظام، رہبر معظم انقلاب (دامت برکاتہم) اوراس ملک
اور دوسرے ممالک میں اسلام کی خدمت کرنے والوں کو ائمہ طاہرین(ع) خصوصاًامام
باقر(ع) کی برکت سے کامیابی اور کامرانی عنایت فرمایں.