روز عرفہ کے بارے میں حضرت آيت الله حاج شيخ محمد جواد فاضل لنكراني(دامت بركاته) کا خطاب
24 November 2024
09:40
۳,۳۱۲
خبر کا خلاصہ :
-
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کی ولادت با سعادت مبارک باد۔
-
سید مقاومت؛ سید حسن نصرالله کی شہادت کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی کا تسلیتی پیغام
-
اربعین سيد الشہداء حضرت امام حسین عليہ السلام کی مناسبت سے تسلیت عرض کرتے ہیں
-
یہ مخلص عالم دین خدمت اور جدوجہد کی علامت تھے اور اپنی پوری عمر کو مختلف ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزاری۔
-
بدعت اور انحرافات کی تشخیص ایک استاد کی ممتاز خصوصیت ہے
-
ولات با سعادت حضرت سید الشہداءامام حسین ، حضرت امام زین العابدین اور حضرت ابو الفضل العباس علیہم السلام مبارک باد
روز عرفہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ یہ خود ایک بہت بڑی عید ہے ساتھ میں اس کے بعد عید قربان بھی ہے ، عرفہ کی رات اور دن میں خداوند متعالی اپنے بندوں پر خاص توجہ کرتا ہے اورجو لوگ دعا اور مناجات میں مشغول ہوں ان پر اپنی رحمت کو نازل فرماتا ہے اس رات میں جو مستحبات ذکر ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے یہ بڑی رات ہے اور اس رات خداوند متعالی دعا اور مناجات اور استغفار کو قبول کرتا ہے ۔
لہذا ہمیں چاہئے کہ اس رات اور دن کے اعمال اور مستحبات پر توجہ دیں ، اس دن کے اہم مستحبات میں سے ایک روزہ رکھنا ہے البتہ اگر یہ دعا میں ضعف کا سبب نہ ہو۔
میں یہاں پر عرفہ کے بارے میں دو مطلب کو بیان کرنا چاہتا ہوں ایک مطلب دعا عرفہ کے ذیل میں جو مضمون ہے اس کے بارے میں ہے کہ بعض اوقات کچھ لوگ اس ذیل کو خاص اہمیت دیتے ہیں ۔
اس بارے میں بحث اور گفتگو ہے کہ آیا دعا عرفہ کایہ ذیل امام حسین علیہ السلام کے دعا سے مربوط ہے یا اس سے کوئی ربط نہیں ہے ؟ کفعمی نے کتاب بلد الامین اور مجلسی نے کتاب زاد المعاد(گذشتہ زمانہ میں یہ کتاب آج کل کے مفاتیح کی طرح ہر کسی کے پاس ہوتے تھے کہ دعا کی ایک بہت اچھی کتاب ہے ) میں اس ذیل کو ذکر نہیں کیا ہے ،مرحوم مجلسی بحار الانوار کی جلد ٩٨ میں لکھا ہے : «قد أورد الكفعمي أيضاً هذا الدعا في البلد الأمين و إبن طاووس في مصباح الزائر «قد أورد الكفعمي أيضاً هذا الدعا في البلد الأمين و إبن طاووس في مصباح الزائر» «كما سبق ذكرهما ولكن ليس في آخره فيهما بقدر ورقٍ تقريباً» مرحوم مجلسی فرماتا ہے دعا کا یہ حصہ: الهي أنا الفقير في غناي فكيف لا أكون فقيراً في فقري» نہ سید ابن طاووس کی کتاب مصباح الزائر میں اور نہ کفعمی کی کتاب بلد الامین میں ۔
سید کی کتاب اقبال کے بعض نسخوں میں ذکر ہوا ہے : «وكذا لم يوجد هذه الورقة في بعضٍ نسخ العتيقة من الإقبال» اور بعض دوسرے نسخوں میں یہ ذکر نہیں ہوا ہے ، اس کے بعد مرحوم مجلسی فرماتا ہے: دعا کے اس حصہ میں جو مضامین ذکر ہوا ہے وہ معصومین علیہم السلام سے منقول دعاوں کے سیاق سے سازگار نہیں ہے «و إنما هي علي وفق مذاق الصوفية» یہ صوفی طبع سے سازگار ہے «ولذلک قد مال بعض الافاضل إلی کون هذه الورقة من مزیدات بعض مشایخ الصوفیة و من إلحاقاته و إدخالاته»بعض صوفی افراد نے ان جملات کو اضافہ کیا ہے ۔
دعا کے اس پیرگراف کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم مجلسی کی بات صحیح ہے کہ اس پیرگراف میں جو مضامین ہے وہ ائمہ کے دعائی کلمات سے متناسب نہیں ہے ۔
آپ اگر صحیفہ سجادیہ کو اول سے آخر تک مطالعہ کریں
، مجھے تو یاد نہیں کہ ایسا تعبیر اس میں موجود ہو، یا یہ عبارت «الهي
طهّرني من شكّي و شركي قبل حلول رمصي» میں نے بہت سوچا (البتہ کامل طور پر تحقیق تو
نہیں کیا) کہ کیا دعا ابوحمزہ یا صحیفہ سجادیہ یا کسی اور جگہ پر کسی امام معصوم
(ع) نے ایسا فرمایا ہے : الهي طهّرني من شكّي و شركي، نہیں ملتا ،
البتہ اس طرح بیان ہوا ہے: «أعوذ بك من الشكّ
و الشرك» یعنی میں تم سے پناہ مانگتا ہوں شک اور شرک سے ، لیکن یہ تعبیر «الهي
طهّرني من شكّي و شركي قبل حلول رمصي» میرے مرنے سے پہلے ،مجھے
قبر میں جانے سے پہلے پاکیزہ کریں ، ایسا
تعبیر کہیں بھی ذکر نہیں ہے۔
یا ایک اور جملہ یہ ہے «الهي حقّقني
بحقايق أهل القرب واسلك بي مسلك أهل الجذب» اہل جذب اور اہل قرب یہ دونوں
عرفااور صوفیہ کی اصطلاح ہے ،مقربین قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے : «السّابقون السّابقون اولئك المقرّبون» لیکن اہل قرب ذکر نہیں ہوا ہے ' یا یہ جملہ : «الهي علمت باختلاف الآثار و تنقّلات الأطوار أنّ
مرادك منّي عن تتعرف إليّ في كلّ شيءٍ حتّي لا أجهلك في شيء» یہ
الفاظ واقعا امام معصوم(ع) اور دعاوں سے مناسب کلمات نہیں ہے انہی وجوہات کی بناء
پر انسان کو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ ذیل امام حسین (ع) کی دعا عرفہ میں سے نہیں ہے
۔
اب اگر کوئی اسے رجا ءً یا احتمال کے طور پر پڑھے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ اسے امام حسین (ع) نے فرمایا ہے ، مخصوصا اس پیرگراف سے پہلے دعا کے آخر میں جو ''یا رب یا رب '' ذکر ہے نقل ہے کہ امام(ع) اور ان کی اہلبیت نے اس قدر اس کو پڑھا اور روئے کہ سورچ غروب ہو گئے اور آمین کہا اور دعا ختم ہوگئی اور مشعر کی طرف روانہ ہو گئے۔
بعض نے نقل کیا ہے کہ ''ا لحکم العطائیہ'' کے نام آٹھویں صدی کی کسی صوفی کی ایک کتاب ہے جس کا نام ابن عطای اسکندرانی تھا اور عرفانی مقام و منزلت رکھتا تھا ، کسی نے کہا ہے کہ دعا کی اس آخری حصہ کے تمام کلمات کو میں نے اس کتاب میں دیکھا ہے ' ممکن ہے بعد میں آہستہ آہستہ ان جملات کو دعا عرفہ کے ساتھ ملا ہو اور اس دعا کے ذیل میں لایا گیا ہو۔
دوسرا مطلب: دعا عرفہ کے کلمات پر توجہ دینا ہے ' یعنی اس دعا عرفہ میں کچھ ایسے مضامین ہیں کہ انسان کو بہت ہی جلد خدا سے نزدیک کر دیتا ہے ، اگرچہ تمام دعا یں خدا سے تقرب پید اکرنے اور اس سے ملانے کے لئے ہے کہ انسان کو دنیا اور دنیوی تعلقات سے کٹا کر خدا سے ملا لیں ' لیکن اس دعا میں مختلف جگہوں پر کچھ ایسے تعابیر موجود ہیں کہ بہت ہی اہم ہے ۔
دعا عرفہ کے مضامین کو بیان کرنے سے پہلے ایک مطلب کی یاد آوری ضروری ہے کہ عرفہ کے دن جن چیزوں کی بہت زیادہ سفارش ہوئی ہے ان میں سے ایک خدا کی تسبیح کرنا ہے یہ مستحب ہے، سید نے کتاب اقبال میں تسبیحات عشری جو ذکر کیا ہے انسان جتنا ممکن ہو اس کو تکرار کریں «سبحان الذي في السماء عرشه» یہ تسبیحات اس لئے ہے کہ انسان کا ناقص اور ضعیف ذہن کبھی خدا وند متعالی کے بارے میں توجہ نہیں رکھتا ، خدا تو واقعامنزہ ہے لیکن ہمیں چاہئے کہ اپنے آپ کو خدا کے تمام نقائص سے پا ک اور منزہ ہونے کو باور کرائے۔
یہ تسبیحات انسانی ذہن کو پاکیزہ، نفس کو رو شن ، قلب کو نورانی اور روح کو خدا سے نزدیک کرتا ہے ، لہذا انسان جتنا ہو سکے ان تسبیحات کو پڑھیں مناسب ہے ۔یہ تسبیحات انسان کے ذہن سے غلط چیزوں کو نکال لیتی ہے ، اگر آسمان ہے تو عرش خد اہے اور اگر زمین ہے تو حکم خدا ہے ' اگر قبر ہے تو قضاء خدا ہے ' اگر جہنم ہے تو سلطان خدا ہے ' اگر جنت ہے تو رحمت خدا ہے ' اگر قیامت ہے تو یہ عدل خدا ہے ، تمام چیزیں خدا سے مربوط ہے ، دنیا اور آخرت ، زمین اور آسمان ، دریا اور خشکی تمام کے تمام چیزیں خدا سے مربوط ہے ۔
پس ان تسبیحات کو عرفہ کے دن زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہئے، بعض ایسے اذکار ہیں کہ عرفہ کے دن سو بار اسے پڑھنا چاہئے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام دعا عرفہ میں ایک جگہ پر فرماتا ہے: «و إن اعدّ نعمك و مننك و كرامك و منحك لا احصيها يا مولاي» انسان ان نعمتوں کا متذکر ہو جائے جسے خدا نے عطا کیا ہے ، اور اس سے پہلے یہ اعتراف کر لیں کہ ہم ان نعمتوں کو گننے سے قاصر ہیں ، خدایا!میں اگر تمہاری عطا کی ہوئی نعمتوں کو گننا چاہوں تو ممکن نہیں ہے ۔
اس کے بعد حضرت عرض کرتا ہے : «أنت الذي مننت» انسان کو چاہئے کہ ہمیشہ ان کو پڑھیں صرف روز عرفہ سے مخصوص نہیں ہے ' انسان جب خدا سے راز و نیاز کرتا ہے ، نماز شب پڑھتا ہے ، جب اکیلا ہے ، تو ان اذکار کو پڑھا کریں ، تم نے مجھ پر مہربانی کی ہے ، «انت الذي انعمت» تم نے مجھے نعمت عطا کی ہے «أنت الذي أحسنت» تم نے مجھ سے نیکی کی ہے «أنت الذي أجملت، أنت الذي أفضلت، أنت الذي أكملت، أنت الذي رزقت» اگر مجھ میں کوئی اچھائی ہے اگر مجھ میں کوئی ظاہری اور باطنی خوبصورتی ہے 'اگر مجھ میں کوئی علم ہے 'تو یہ سب تم نے ہی عطا کی ہے میرا اپنا تو کچھ بھی نہیں ، اگر کوئی رزق ہے تو تو نے عطا کی ہے ' «أنت الذي اعطيت أنت الذي اغنيت» میں ابھی اگر بے نیاز ہوں اور میرا ہاتھ کسی کی طرف دراز نہیں ہوتا ہے تو تم نے کیا ہے تو نے مجھے بے نیاز کیا ہے ، تو نے مجھے پناہ دی ہے ، میرے لئے تو ہی کافی ہے ' تو نے میری ہدایت کی ہے ، تو نے مجھے لغزشوں سے بچا کر رکھاہے، کبھی انسان اپنے آپ کو دیکھ کر مغرور ہوتا ہے ، کہتا ہے میں نے تو کوئی گناہ کبیرہ انجام نہیں دیا ہے ، ایسا سوچنا خودگناہ ہے ، خدا نے ہمیں بچا کر رکھا ہے «أنت الذي سترت أنت الذي غفرت أنت الذي أعنت».۔
خصوصاً ہم طلاب علوم دینی جب ان مادی ، معنوی ، علمی اور غیر علمی نعمتوں کا متوجہ ہوتے ہیں تو اپنی جگہ سے اٹھ کر دو رکعت نماز پڑھ لیتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ خدایا! تو نے میری مدد کی ہے کہ میں دو رکعت نماز پڑھ سکا، قرآن کی تلاوت کریں تو یہ بتائیں کہ تو نے مجھے توفیق عنایت کیا ، آئمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کے لئے جاتے ہیں تو یہ بتائیں کہ تو نے مجھے توفیق عنایت کی ہے ، اگر تہماری طرف سے یہ توفیق نہ ہوتی تو میں ان کاموں کو انجام نہیں دے سکتا ، ہمیں ہمیشہ ایسا ہی بتانا چاہئے اور اپنے جگہ پر یہ یقین پیدا کرے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب کے سب خدا کی طرف سے ہے۔
امام حسین (ع) اس دعا میں فرماتا ہے : «ثم أنا يا الهي المعترف بذنوبي فاغفر حالي» میں سب سے پہلے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں ، تو میری گناہوں کو معاف
فرمایا، «أنا الذي عصيت أنا
الذي الذي أخطأت أنا الذي جَهِلتُ» خدایا !
میں نے برا کیا ہے ، میں نے غلطی کی ہے ، میں نے نادانی کی ہے «أنا
الذي غفلت» غفلت خود مجھ سے سرزد ہوئی ہے ' اشتباہ خود مجھ سے مربوط ہے۔
اس کے بعد عرض کرتا ہے : «فبأي شيءٍ أستقبلك
يا مولاي أبسمعي» بہت ہی عجیب عبارت ہے ! ان جملات کے بعد کہ میں
کون ہوں ، میں نے نادانی کی ہے ، میں نے غلطی کی ہے ، اس کے بعد خدا سے عرض کرتا
ہے : میں کیسے تمہاری درگاہ پر آجاؤں ؟ « استقبلك
يا مولاي، أبسمعي؟أم ببصري، أم بلساني، أم بيدي، أم برجلي، أليس كلّها نعمك عندي» ان تمام نعمتوں کو تو نے عطا کی ہے ، ان تمام نعمتوں کو جو تو نے عطا
کیا ہے میں نے ان کے ذریعہ تمہاری نافرمانی کی ہے ،«فلك الحجّة و السبيل عليّ» تمہیں
مجھ پر حجت ہے ' یعنی میرے بارے میں جو بھی حکم کرے ، میرے بارے میں جو بھی بتائیں
وہی صحیح ہے ۔
امام (ع) ان کلمات سے اپنے آپ کی تعارف کراتا ہے ،
واقعاً دعا عرفہ میں جو مضامین اور کلمات ہیں ہمارے زندگی میں بہت زیادہ موثر ہے ،
ان دعاؤں کو ہم پڑھیں اور اپنے نفس کو اس کی تلقین بھی کرائے ، مخصوصاً نماز کے
قنوت میں ان دعاؤں کو پڑھیں ،خوش نصیب ہے وہ انسان جو نماز کے قنوت میں ان دعاؤں
کو پڑھتا ہے ، خدا وند متعالی کیا کیا اسے عطا کیا ہے ۔
خدا وند متعالی نے وعدہ کیا ہے کہ اگر کوئی ماہ رمضان میں بخشا نہیں گیا تو روز
عرفہ پر امید رکھیں ، ہم یہی عرض کرتے ہیں خدایا! ہمیں امید ہے کہ اس دن اپنے وسیع
رحمت کو ہمارے لئے نصیب فرمائے گا۔والسلام عليكم و رحمة الله و بركاته