عید غدیر خم کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی(دامت برکاته) کا درس خارج فقہ میں خطاب 93/7/20

03 July 2024

20:04

۳,۴۸۰

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

بسم الله الرّحمن الرّحیم

غدیر کے بارے میں چند مطالب کو عرض کروں گا ان مطالب کی طرف توجہ کرنا ہمارے لئے بہت ہی ضروری ہے :

١۔ ہمارے دینی مہمترین مسئلہ اور تاریخی واقعہ غدیر کا واقعہ ہے ، ہمارے دینی منابع قرآن کریم سے لے کر سنت رسول خدا اور آئمہ طاہرین علیہم السلام کی سنت تک ولایت سے مہم کوئی اور چیز نہیں ہے ۔

اس ولایت سے  صرف ایک قلبی اعتقاد رکھنا مراد نہیں ہے صرف یہی اعتقاد قلبی رکھیں کہ امیر المومنین (ع) خدا کا حجت اور رسول خدا (ص)کا بلا فصل جانشین تھا ،یہ تو ہونا ہی چاہئے لیکن یہاں پرایک اہم مطلب ہے کہ امام خمینی(رضوان اللہ علیہ) کے کلمات میں ایک مطلب ملتا ہے کہ فرماتے تھے ولایت کا اصلی تجلی گاه  مسئلہ حکومت میں ہے ، یعنی ہم جو کہتے ہیں کہ ولایت بہت ہی اہم ہے «ولم یناد بشیءٍ مثل ما نودی بالولایة»یہ صرف ایک قلبی نہیں ہے کہ ولایت ہمیں ان ذوات مقدسہ سے متصل کراتا ہے بلکہ ہمیں یہ اعتقاد رکھنا چاہئے کہ حکومت کرنے کی صلاحیت صرف او رصرف انہی ذوات مقدسہ کو حاصل ہے ، خدا ،رسول اور اولو الامر کے علاوہ کسی کو بھی بشر پر حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔

عید غدیر خم کی مناسبت سے حضرت آیت الله فاضل لنکرانی(دامت برکاته) کا درس خارج فقہ میں خطاب 93/7/20

آیہ اولو الامر اور آیہ ولایت «إنما ولیّکم و رسوله والذین آمنوا» سے بہت اچھی طرح یہ مطلب استفادہ ہوتا ہے کہ خداوند متعالی کا اصلی مقصد یہ ہے کہ معاشرہ کا بھاک دوڑ اور ولایت، خدا ، رسول اور اولو الامر کے پاس ہونا چاہئے۔

یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے کہ گذشتہ شرایع میں سے کسی بھی شریعت میں حکومت کا مسئلہ وجود نہیں تھا، میں کسی وقت امام باقر(ع) کی اس روایت میں غور کر رہا تھا کہ فرمایا ہے : «بُنی الاسلام علی خمس» کہ ان پانچ میں سے ایک اور سب سے مہم ولایت ہے ؟جب فرماتا ہے : «بُنی الاسلام » یعنی اسلام کی بنیاد ان چیزوں پر ہے ، ممکن ہے ان میں سے بہت ساری چیزیں سابقہ شرائع میں موجود نہ ہوں اور ایسا ہی ہے ، کسی بھی شریعت میں ، رسول یا وصی رسول کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ حکومت تشکیل دے ۔

یہ بہت ہی مہم مطلب ہے کہ اسلام ، کا مہمترین دینی اور معرفتی مسئلہ ؛ ولایت ہے اور ولایت کی تجلی گاہ حکومت  ہے ۔

ائمہ علیہم السلام نے احکام کے بیان کرنے کو انجام دیا ہے اور الحمد للہ بشر کے لئے جتنی مقدار ضرورت ہے اتنی ہی مقدار میں بیان کر چکے ہیں ، لیکن خدا وند متعالی نے جس حکومت کو ان کے لئے مقرر فرمایاتھا اسے کبھی بھی تشکیل دینے نہیں دیا ہے ،اگر اول اسلام سے یہ حکومت خداوندی تشکیل پاتے آج ایک بھی غیر مسلمان دنیا میں نہیں ہوتا۔

مسحیت ، یہودیت اور دوسرے تمام مذاہب اور ادیان اور مختلف فرقوں کے وجود میں آنے کی گناہ انہیں افراد کے ذمہ ہے جنہوں نے صدر اسلام میں اسلام کو منحرف کیا ، کیونکہ اگر رسول خدا(ص) کے بعد امیر المومنین اور دوسرے ائمہ اطہار علیہم السلام حکومت تشکیل دے چکے ہوتے تو آج دنیا میں کوئی غیر مسلمان نہ ہوتے یا بہت ہی کم ہوتے ۔

ہم جو یہ کہتے ہیں کہ واقعہ کربلا اور عاشورا کی بنیاد سقیفہ ہے ، یہ ایک بالکل صحیح بات ہے بعد میں وجود میں آنے والے تمام انحرافات اور جعلی مذاہب کی بنیاد بھی سقیفہ ہی ہے ، اس وقت اگر داعش وجود میں آیا ہے تو اس کی بنیاد بھی وہی سقیفہ ہے ، کیونکہ اگر پہلے دن سے ہی خدا نے جس حکومت کا حکم فرمایا تھا وہ محقق ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔

خدا وند متعالی سورہ مائدہ میں فرماتا ہے : «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ»یہود اور نصاری کو اپنا ولی قرار نہ دیں ، اگر مسلمانوں میں سے کوئی ان کو اپنا ولی قرار دے دیا تو وہ اسلام سے خارج ہے اور انہیں میں داخل ہوتا ہے ، اس کے بعد فرماتا ہے : «إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ» تمہارا ولی صرف خدا ، رسول اور" و الذین آمنوا" ہیں ۔

اس کے بعد والی آیت میں فرماتا ہے جنہوں نے ان کی ولایت کو قبول کیا ہے وہ خدا کے حزب (پارٹی ) میں قرار پاتا ہے ۔

ان آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھنے سے کیا سمجھ آتا ہے ؟کیا '' ولایت'' نصرت اور مدد کرنے کے معنی میں ہے کہ بعض اہل سنت یہی بتاتے ہیں اور کہتے ہیں ''ولیکم اللہ '' یعنی خدا تمہارا مدد گار ہے ۔

«لا تتخذوا الیهود و النصاری اولیاء» اس آیت میں اگر اولیاء کو نصرت اور مدد کرنے کے معنی میں لے لیں تو کسی بھی فقہیہ نے یہ نہیں بتایا ہے کہ کافر سے مدد مانگنا حرام ہے ، یا اگر کسی کافر نے کسی مسلمان کی مدد کی تو یہ حرام ہے ! لیکن اگر کوئی ایک سیکنڈ کے لئے کافر کی ولایت کو قبول کرے ' تو یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ انسان دین سے خارج ہو جاتا ہے ۔

قرآن کریم کی آیات اس مطلب کی گواہ ہے ہمیں آج حکومت اور ولایت کی مفہوم کے بارے میں غور و فکر کرنا چاہئے ، آج ہماری یہ اسلامی حکومت بھی واقعاً اسی ولایت کی ایک کرن ہے اس کی مشروعیت اوربنیاد اسی بنیاد پر قائم ہے ۔

ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اولو الامر نے یہ حکم دیا ہے کہ امام معصوم علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا حاکم ولی فقیہ ہونا چاہئے ، لہذا ہم مسئلہ ولایت کو صرف ایک اعتقادی اور ایک قلبی اور معنوی امر نہ بتائیں بلکه اسلام کی سیاسی قدرت اسی میں ہے ۔
اسلامی حکومت کے سایہ میں انسان کتنا کام کر سکتا ہے ؟ مسلمانوں کی کتنی عزت ہوتی ہے ، لیکن اگر ایک غیر اسلامی حکومت ہو تو آئے دن اسلام او ر مسلمان کمزور سے کمزورتر ہوتا جاتا ہے ۔

پس پہلا مطلب یہ ہے کہ ولایت یعنی حکومت ، یعنی سرپرستی ، یعنی وہی ولایت در تصرف، وہی ولایت جسے رسول خدا(ص) نے غدیر خم میں فرمایا تھا: «ألست أولی بکم من أنفسکم» یہ کیا دوسروں پر حکم چلانے کے علاوہ کوئی اور چیز تھی؟ یعنی تم پرحکم چلانے میں میں تم سے زیادہ سزاوار ہوں ، تمہارے اموال کو خرچ کرنے میں اور تمہارے نفوس پر کیا میں زیادہ سزاوار نہیں ہوں ، سب نے عرض کیا ؛ جی ہاں!

اس بارے میں زیادہ غور و فکر کریں انقلاب اسلامی کو اب تیس سے زیادہ سال گزر چکا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب بھی کبھی ہمارے حوزہ علمیہ کے گوشہ و کنار میں ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کیا اسلام میں حکومت کا تصور ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ غدیر اور ولایت کی حقیقت کے بارے میں غور نہیں کیا ہے ۔

غدیر کی حقیقت مسئلہ ولایت ، حکومت ، سرپرستی کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے لہذا اس بارے میں زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

دوسرا مطلب: بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ غدیر کی حقائق اور غدیر کی جزئیات کو بیان کرنا ممکن ہے وحدت کے ساتھ منافی ہو، اور افسوس کی بات ہے بعض اوقات یہ بتاتے ہیں کہ واقعہ غدیر ایک تاریخی واقعہ ہے اور گزر گیا ہے ، اب ہمیں اس کو بار بار تکرار نہیں کرنا چاہئے ۔

یہ بہت ہی بڑی غلطی اور غیر قابل معاف بات ہے ، اگر ہم غدیر کو بھول جائے تو دین کامل طور پر ختم ہو جائے گا اور اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، اس بات کے لئے ہزاروں دلیل و برہان ہیں ۔

غدیر صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے ، بلکہ ایک سیاسی اور اعتقادی مسئلہ ہے ، اسلام کی سیاسی قدرت کا تجلی گاہ غدیر ہے ، لہذا نہ صرف غدیر کو فراموش نہیں کرنا ہے بلکہ ہر سال پہلے سے زیادہ اس کو جوش و جذبه سے منانا ہے ۔

ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ غدیر نقطہ وحدت ہے ، اگر ہم اہل سنت سے وحدت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ ان کو بٹھائیں اور ان سے پوچھا جائے کہ غدیر کے بارے میں آپ کو جو شبہات ہیں وہ کیا ہیں ؟ ان شبہات کو منصفانہ اور علمی طریقہ سے بیان کریں ، اور بغیر کسی تعصب کے ان کے شبہات کا جواب دے دیں ، ہم وحدت کو بہانہ بنا کر غدیر کو فراموش نہ کریں ، یہ ایک ایسا واقعہ ہے جسے سو(100) سے زیادہ صحابیوں نے روایت کیا ہے ، غدیر سے زیادہ متواتر حدیث ہمارے پاس ہے ہی نہیں ہے ۔
اہل سنت کے ایک عالم دین کہتا ہے کہ کوئی اگر غدیر میں شبہ اور خدشہ پیدا کرنا چاہئے تو کوئی بھی قطعی حدیث نہیں رہ جائے گا ، اسے سو (100)سے زیادہ اصحاب نے نقل کیا ہے ، یہ تواتر کے اعلی ترین درجہ پر ہے ، اس کی بنیاد قعطی روایات اور قرآن ہے ، میرے پاس ابھی وقت نہیں ہے کہ میں اس کی تفصیل کو بیان کروں ، غدیر مسلمانوں کا نقطہ وحدت ہونا چاہئے ، البتہ بغیر کسی تعصب کے ۔

کیا ہم یہی بولیں گے کہ رسول خدا (ص) نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس گرمی میں کہ اگر گوشت کو کسی پتھر پر رکھتے تو پک جاتا تھا اس لیے جمع کیا تھا کہ یہ بولیں کہ میں علی کو دوست رکھتا ہوں تم بھی علی (ع) سے دوستی کرو، اسے تو پہلے سینکڑیوں بار فرما چکے تھے ، آیہ کریمہ کی تفصیل  اس مطلب کو بیان کرنے کے لئے کافی ہے ۔

اگر دین کو ولایت سے خالی کرے تو دین میں کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتا ! اس کی وجہ یہ ہے کہ خود خدا نے اپنے رسول سے فرمایا ہے «وإن لم تفعل فما بلغت رسالته» خدا نے پیغمبر اکرم (ص )سے ان کی آخر ی سال میں فرمایا اگر امیر المومنین (ع) کی ولایت کو لوگوں کے لئے بیان نہیں کیا ، تو اپنے رسالت کو انجام نہیں دیا ہے اور ٢٣ سال کی جو زحمتیں ہیں وہ ختم ہو جائے گا ، غدیر صرف امیر المومنین (ع) کی ولایت سے مخصوص نہیں ہے چونکہ رسول اکرم (ص) نے خطبہ غدیریہ میں حضرت حجت (عج) تک اپنے تمام اوصیاء کو ذکر فرمایا ہے ۔

پس یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لئے ولایت سے مہم کوئی چیز نہیں ہے ، ولایت کے ذریعہ ہی توحید تحقق پاتا ہے ، ولایت کے ذریعہ ہی رسالت تحقق پاتا ہے ، ولایت کے ذریعہ ہی قرآن ثابت اور محفوظ ہے ، اگر ولایت نہ ہو تو یہ تمام چیزیں دوسری راہ پر چلے گا ،لہذا ولایت کومحور اور مرکز وحدت قرار دینا چاہئے ، اعتقادی لحاظ سے امامت کے بارے میں ہمارے عقیدہ کو محکم ہونا چاہئے ۔ امامت کے بارے میں اپنے اور اپنے بیوی بچوں کو مضبوط بنانا چاہئے ، کل عید غدیر ہے ، اس دن صرف ایک عیدی دینے پر اکتفاء نہ کریں ، بلکہ بچوں کو بیٹھا کر اس دن کے بارے میں سمجھائیں ، یہ کیادن ہے ؟ ولایت کیا ہے ؟ خدا نے اس کے بارے میں کیا فرمایا ہے ؟ پیغمبر اکرم(ص) نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے ؟ تا کہ یہ باتیں ان کے ذہن میں باقی رہ جائے انشاء اللہ

امید ہے کہ خداوند متعالی ہمیں عید غدیر کے برکات سے بہرہ مند فرمائیں گے

وصلی الله علی محمد و آله الطاهرین

برچسب ها :