ولادت پيامبرخدا حضرت محمد بن عبداللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور امام صادق(علیہ السلام) مبارک باد

27 December 2024

10:38

۵,۲۷۳

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

«اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ

وَ تَحَنَّنْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ سَلِّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ

كَأَفْضَلِ مَا صَلَّيْتَ وَ بَارَكْتَ وَ تَرَحَّمْتَ وَ تَحَنَّنْتَ وَ سَلَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

اللَّهُمَّ أَعْطِ مُحَمَّداً الْوَسِيلَةَ وَ الشَّرَفَ وَ الْفَضِيلَةَ وَ الْمَنْزِلَةَ الْكَرِيمَةَ

اللَّهُمَّ اجْعَلْ مُحَمَّداً وَ آلَ مُحَمَّدٍ أَعْظَمَ الْخَلَائِقِ كُلِّهِمْ شَرَفاً يَوْمَ الْقِيَامَة»

ولادت پيامبرخدا حضرت محمد بن عبداللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور امام صادق(علیہ السلام) مبارک باد

«
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ خَازِنِ الْعِلْمِ الدَّاعِي إِلَيْكَ بِالْحَقِّ النُّورِ الْمُبِين‏»


ولادت پيامبرخدا حضرت محمد بن عبداللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور امام صادق(علیہ السلام) مبارک باد
ميلاد با سعادت رسول خدا؛ حضرت محمد بن عبدالله(صلي الله عليه و آله و سلم)

اور آپ کے  فرزند ارجمند؛ حضرت امام صادق(عليه الصلاة و السلام)

کے سلسلے میں حضرت حجة بن الحسن المهدي(ع) اور آپ تمام شيعيان اور محبان اهلبيت کی خدمت میں تبريک و تهنيت پیش کرتے ہیں .

ولادت پيامبرخدا حضرت محمد بن عبداللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور امام صادق(علیہ السلام) مبارک باد

حضرت امام جعفر صادق(ع) کے بارے میں آيت الله حاج شيخ محمدجواد فاضل لنکراني(دام ظله) کے بیانات
شیعی تفکر کی اصالت اور اسے زندہ رہنا ان دو مہم اہداف میں سے تھے جسے حضرت امام صادق(ع) نے حفظ فرمایا؛کسی تفکر کے اصل ہونے  کی دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی تفکر عقل سلیم کی بنیاد پر استوار ہو تو  طبیعی بات ہے کہ یہ تفکر اصل ہے ، وہ تفکر اور نظریات جو ہوا و ہوس اور سیاسی اور انسانی خواہشات کے مطابق ہوں ان کی کوئی قدر وقیمت اور بنیاد نہیں ہوتی،کسی تفکر اور نظریہ کی قدر و قیمت اس میں ہے کہ اس کی بنیاد صحیح اور مضبوط ہوں ۔
امام صادق(ع) نے اپنے دور حیات میں بہت اچھی طرح یہ ثابت کر چکے تھے کہ اسلام ناب کا تصور منطق اور عقل پر قائم ہے ،  ہمیں اتنا  واضح اورروشن چہرہ کسی اور مکتب میں نظر نہیں آتا ہے ، چاہئے وہ مکاتب حضرت امام صادق (ع) کے زمانہ کے ہوں یا بعد میں وجود میں آنے والے ہوں، آپ کی ایک حدیث ہے جس میں فرماتا ہے :'' خداوند قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کا ثواب  ان کی عقل کے بنیاد پر دیتا ہے '' آپ اس حدیث شریف میں کیا فرمانا چاہتا ہے ؟

بنیادی طور پر عقل کے بارے میں امام صادق(ع) سے جتنی روایات موجود ہے کسی بھی دوسری حدیثی کتاب میں موجود نہیں ہیں ۔ان روایات میں سے بعض تو اس قدر ارزشمند ہیں کہ اس صرف اسی ایک حدیث کے بارے میں ایک کتاب لکھی جائے تو کم ہے ،جیسا کہ یہ روایت: «ان الله عزوجل خلق العقل هو اول خلق من الروحانيين العرش من نوره» حضرت فرماتے ہیں ، خداوندعالم نے  عقل کو اپنے نور سے خلق کیا اور اسے اپنے دوسرے تمام  مخلوقات پربرتري  دیا .
حقیقت عقل کیا ہے اور عقل کو کیسے خلق کیا اور اسی طرح عقل کے بارے میں دوسرے سوالوں کے جوابات صرف ائمہ اطہار (ع) مخصوصا امام صادق (ع) کے کلمات میں موجود ہیں۔
ایک اور روايت میں آپ (ع) «هشام»سے  فرماتا ہے :«ان لله علي الناس حجتين، حجة ظاهرة وحجة باطنة فاما الظاهرة الرسل و الانبياء و الائمه فاما الباطنة فالعقول» يعني خداوند کے لئے هر انسان پر  2 حجت اور 2 راهنما کودليل قرار دیا ہے ، ايک ظاہری دلیل اور رہنما جیسے انبياء، ائمه و... دوسرا باطنی دليل که  هر شخص کے اندر موجود ہے اور وہ عقل ہے .
لہذا کسی تفکر اور نظریہ کے ارزش اور قدر و قیمت ہونے کی ملاک اور معیارعقل ہے جو مکتب اور مذہب عقل کو اہمیت نہ دیں وہ قابل توجہ مکتب نہیں ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ مکتب تشیع اور امام صادق(ع) کے افکار میں اس بارے میں بہت توجہ دی گئی ہے ۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مکتب علم کی قدر و قیمت کرے تو اس مکتب کی بہت ارزش ہے وہ مکتب جو معاشرہ اور لوگوں کو جھل اور جہالت کی طرف ترغیب دیتا ہے اس کی کوئی ارزش اور قیمت نہیں ہے ،بنیادی طور پر کسی فکر اور نظریہ کو جانچنے کی ایک کسوٹی یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ نظریہ اور فکر علم اور حقیقت سے کتنا نزدیک ہے ، ہمارے پاس امام صادق (ع) سے علم کی  ترغیب دلانے کے بارے میں کتنی روایات موجود ہیں، مکتب تشیع نے ہمیشہ لوگوں کو دین خدا میں غور و فکر کرنے کی ترغیب دی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ائمہ طاہرین (ع) خود اس بارے میں مطمئن تھے کہ یہ دین صحیح عقلی اور علمی موازین پر استوار ہے ۔

لہذا اس بارے میں ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ امام صادق (ع) کی فکری اصالت اور قدر و قیمت علم کو اہمیت دینے میں ہے ۔

ایک اور مطلب یہ ہے کہ امام صادق (ع)نے دوسرے مذاہب اور مختلف افکار کے حامل افراد سے  مناظرات کیے اور یہ چیز ہمارے زمانہ کے علماء اور دانشمندوں کے لئے اسوہ ہے تا کہ اس بارے میں زیادہ سے زیادہ توجہ دیں ، یہ مناظرات ہماری کتابوں میں موجود ہیں ، میں جوانوں اور یونیورسٹی کے طلاب سے سفارش کرتا ہوں کہ وہ حضرت  امام صادق(ع) کے منا‍ظرات کو پڑھ لیں۔
جعفری فکر اور اندیشہ میں عقل ، علم اور مناظرات اور بحث و گفتگو کو بہت اہمیت حاصل ہے ، اسی طرح تربیتی پہلو کے بارے میں امام صادق (ع) سے جو دعائیں موجود ہیں بہت ہی اہمیت کے حامل ہے ، جس طرح صحیفہ سجادیہ ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی  بڑی کتاب صحیفہ صادقیہ ہے اس میں وہ دعائیں ہیں جسے آپ(ع) نے انسانوں کو  خدا سے راز و نیاز کرنے کے آداب اور طریقہ کو سکھایا ہے ۔

یہ بات بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ امام صادق(ع) نے جو فقہ ہمارے بزرگان کو عنایت فرمایا ہے ،شاید فقہی لحاظ سے سب سے زیادہ احادیث آپ(ع) سے ہی ہے «اربعمأة» ایک اصولی کتاب ہے جسے آپ(ع) کے اصحاب نے آپ(ع) سے نقل کیا ہے ، اگرچہ بعض جیسا کہ شیخ مفید کہتے ہیں یہ امیر المومنین (ع) کے زمانہ سے ہے ، لیکن مشہور یہی ہے کہ امام صادق(ع) کے 400 معتبر اصحاب  ان احادیث کو پہلے لکھتے تھے اس کے بعد امام (ع) کے حضور میں پیش کیا کرتے تھے۔

امام لوگوں کو انہی «اربعمأة» یا (400) اصحاب کی طرف ارجاع دیتے تھے تا کہ ان پر عمل کرے،ہماری چار کتابوں یعنی «کافي» «من لايحضره الفقيه»، «تهذيب» و «استبصار» کے وجود میں آنے کا منشاء یہی اصول «اربعمأة» ہے، آج فقہ شیعہ کا اصلی منبع اور ماخذ قرآن کریم کے بعد یہی چار کتابیں ہیں ۔

امام صادق(ع)  کے بعض اصحاب نے آپ سے تقریبا  30 هزار احاديث نقل کی ہیں که  رجال کے کتابوں میں موجود ہے

ہمار مدعا یہ ہے کہ آج اگر شیعہ اور فقہای شیعہ میں جدید اور عصر حاضر کے نت نئی مسائل کے جواب دینے کی قدرت موجود ہے تو یہ اسی فقہ کی بدولت ہے جو امام صادق(ع) کے توسط سے ہمیں ملے ہیں ۔یقینا اس امام ہمام سے جوروایات موجود ہیں یہ فقہ شیعہ کی جامعیت کا سبب ہوا ہے ۔

اگر انصاف سے دیکھیں تو یہ ایک واضح چیز ہے کہ فقہ شیعہ کسی بھی طریقہ سے لوگوں کو مشکلات میں ڈالنا نہیں چاہتا ہے بلکہ ایک آسودہ زندگی کو مہیا کرنے کے درپے ہے اور یہ سب ان روایات کی وجہ سے ہے جو امام صادق(ع) سے ہم تک پہنچی ہیں۔  

 



 

 

 

 

 

برچسب ها :