نبي مکرم اسلام ختمی مرتبت محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کی ہتک حرمت پر حضرت آية الله العظمي فاضل لنکراني(قده) کی دفتر میں تقریر

03 July 2024

19:59

۳,۲۶۱

خبر کا خلاصہ :
آخرین رویداد ها

مقرر
حجة الاسلام و المسلمین نظری منفرد ـ 3 / 11 / 93


بسم الله الرّحمن الرّحیم الحمدلله الّذی جعل الحمد مفتاحاً لذکره و سبباً للمزید من فضله و دلیلاً علی آلائه و عظمته ثم الصّلاة و السّلام علی سیِّدنا و نبیِّنا أبی القاسم محمّد صلّی الله علیه و علی أهل بیته الطیّبین الطّاهرین المعصومین الهداة المهدیّین و اللّعنة الدَّائمة علی أعدائهم أجمعین من الآن إلی قيام یوم الدِّین

قال الله تعالي في قرآن الکريم :«وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ قَالَ إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ»

آپ نے ان چند دنوں میں ملاحظہ فرمایا ہو گا کہ یورپ کے بعض جریدوں میں پیغمبر اکرم(ص) کی توہین آمیز خاکے منتشر کر کے خدا کے بہترین مخلوق کی توہین کی ہیں۔

الحمد للہ اس سلسلے میں مسلمانوں نے بھی اپنے غیض و غضب کو دیکھایا ہے اور سب جگہوں پر اس مذمت کی ہیں اور ایسا ہی کرنا بھی چاہئے ،ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کی شخصیت سے( کہ ان کی پوری وجود نور اور خیر و برکت ہے اور قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق رحمۃ للعالمین ہے ) دفاع کریں، میں بھی اسی مناسبت سے آج مسخرہ کرنے اور مذاق اڑانے کے بارے گفتگو کروں گا۔

قرآن کریم میں کلمہ سخر اور استھزاء کے مشتقات ذکر ہوا ہے ، خداوند متعال سورہ حجرات میں فرماتا ہے«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْراً مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ»

یہ ایک حکم ہے، نہی ہوا ہے ، خداوند متعالی جس طرح ہمیں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اسی طرح کسی کے مذاق اڑانے اور مسخرہ کرنے سے منع کیا ہے ،اورقرآن کریم نے اسے منافقانہ کام قرار دیا ہے اور فرماتا ہے ؛یہ منافقین ہیں کہ جو مومنین   کے مذاق اڑاتے ہیں «وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ».

اوردوسروں  کا مذاق اڑانا حرام ہے  کیونکہ یقینی طور پر اس کا مقصد یہی ہے کہ دوسرے کو ذلیل کرے اور اس کی اھانت کرے  ،فرق صرف یہ ہے کہ مذاق اڑانا کبھی لفظ کے ذریعہ ہے اور کبھی کسی اور طریقہ سے مثلا قرآن میں فرماتا ہے :«إِنَّ الَّذِينَ کفروا كَانُوا مِنْ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ» ایک  اور جگہ پر یوں فرماتا ہے  «إِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَزُونَ» يا «وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمْ انقَلَبُوا فَكِهِينَ وَإِذَا رَأَوْهُمْ قَالُوا إِنَّ هَؤُلَاءِ لَضَالُّونَ» اور کفارمومنین کو کبھی ہنس کر اور کبھی اشارہ سے بے عزتی کرتے تھے۔

مسخرہ کرنا اور مذاق اڑانا ایک تاریخی  مسئلہ ہے ،بہرحال جب انسان کی تربیت نہیں ہوتی ہے اور اخلاقی اقدار کا پاس نہیں رکھتا ہے تو یہ ایک فطری بات ہے کہ اپنے مد مقابل سے کمزور ہوتا ہے اور جب دلیل و برھان سے بات کرنے کی اس پاس قدرت نہ ہو تو وہ اسے اہانت کرنے اورذلیل کرنے کے درپے ہو جاتا ہے

شرع مقدس اسلام نے بھی اس برے اخلاق سے سختی سے مقابلہ کیا ہے مثلا اس حدیث قدسی میں خدا متعال فرماتا ہے :«مَنْ أَهَانَ وَلِيّاً لِي فَقَدْ بَارَزَنِي بِالْمُحَارَبَة»؛ ہے جس نے میرے ولی کی اھانت کی ہے اس نے میرے ساتھ مبارزہ کا اعلان کیا ہے! مثلا سود کھانا خدا سے جنگ کا اعلان ہے ، اللہ کے ولی کی اھانت بھی خدا سے جنگ کا اعلان ہے ، قرآن مجید اس ناپسند اخلاق کے گذشتہ زمانہ میں حتی انبیاء جو کہ بہترین مخلوقات میں سے ہیں کے بارے میں ہونے کا فرمایا ہے.

سورہ ھود میں حضرت نوح اور ان کے کشتی بنانے کے واقعہ کو بیان کیا ہے  کشتی کو خشکی پر بنا رہے تھے ، عام طور پر کشتی کو دریا کے کنارے بنایا جاتا ہے ،اس وقت کشتی بنانے کے جو کارخانے ہیں  دریا سے وہاں تک ایک نہر بناتے اور اس نہر کے پاس کشتی بناتے ہیں ، گذشتہ ‍ زمانہ میں یہ بڑے بڑے جرثقیل وغیرہ نہ تھے کہ ان کشتیوں کے اٹھا کے دریا تک لےجائے  لہذا ان بڑے بڑے کشتیوں کو دریا کے کنارے نہیں بنا سکتے تھے کیونکہ مٹی میں  پھنس جاتے حضرت نوح کو خدا کی طرف سے حکم تھا«وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا»؛لہذا اس حکم کے تحت خشکی پر کشتی بنانا شروع کیا.

«وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَأٌ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ» ہے حضرت نوح کے قوم کے افراد جو بھی وہاں سے گزرتے ان کا مذاق اڑاتے تھے کہتے تھے کشتی بنانے کی جگہ یہ نہیں ہے اور وہ بھی اتنی بڑی کشتی کہ جس میں ہر قسم کے حیوان کے ا یک جوڑے کے لئے جگہ ہو حضرت نوح  نے فرمایا «إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ» ہے  تم اگر آج میرا مذاق اڑا رہے ہو تو ایک دن ایسا آئے گا کہ میں تمہار مذاق اڑاوں گا ، ایک اور آیت میں خداوند متعالی پیغمبر اکرم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: «وَلَقَدْ اسْتُهْزِءَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ» رسل جمع ہے رسول کا يعني ایسے افراد نے آپ سے پہلے کے انبياء کا بھی مذاق اڑایا ہے.

ہے مذاق اڑانے کے مختلف اقسام ہیں کبھی کسی لفظ سے ہے اور کبھی حرکات و سکنات سے مذاق اڑایا جاتا ہے مثلا روایت میں ہے کہ مروان کا باپ حکم بن ابی العاص  پیغمبر اکرم ص کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔

اہل سنت یہاں پر کوئی جواب نہیں دے سکتا ، انسان کبھی کوئی شعر کہہ دیتا ہے اور اس کا قیافہ برابر نہیں آتا ،یہاں پر بھی اہل سنت کے ساتھ ایسا ہوا ہے یہ لوگ اپنی احوال شخصیہ کی کتابوں میں بے جواب دنگ رہ جاتے ہیں  ،رجالی کتابوں میں نہیں ، کیونکہ اصحاب پیغمبر کے بارے میں کوئی کتاب رجالی نہیں ہے ، جیسے یہ کتابیں: الاصابه في معرفة الصحابه، الاستيعاب في معرفة الاصحاب، اسد الغابة في معرفة الصحابه، ہے رجال کی کتابیں اصحاب کے بارے میں نہیں ہے ، یہ لوگ تمام اصحاب کو عادل سمجھتے ہیں ، لیکن جب اس طرح کے اصحاب پر پہنچ جاتا ہے تو دنگ رہ جاتے ہیں.

نبي مکرم اسلام ختمی مرتبت محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کی ہتک حرمت پر حضرت آية الله العظمي فاضل لنکراني(قده) کی دفتر میں تقریر

حکم بن عاص وہ شخص ہے جس نے پیغمبر اکرام(ص) کا مذاق اڑایا تھا ، وہ مدینہ میں آپ(ص) کے پیچھے پیچھے چلتا تھا اور آپ(ص) کا نقل اتارتا تھا ،کبھی پیغمبر اکرم(ص) کے گھر میں آتا تھا اور کبھی دیوار کے پیچھے سے باتیں سنتا تھا ، ایک دفعہ جب وہ پیغمبر اکرم (ص) کا نقل اتار رہا تھا تو آپ(ص) پیچھے کے طرف موڑے اور فرمایا  «کن کذلک»،اسی طرح رہ جاو، وہ مرنے تک اسی شکل و صورت میں رہ گیا۔

اس وقت ہم دنیا میں نبی مکرم اسلام (ص) کے بارے میں جو توہین آمیز خاکے دیکھ رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ طول تاریخ میں دوسرے انبیاء الھی کے بارے میں بھی انجام دئیے ہیں ، خداوند متعال قرآن کریم  کے کچھ آيات میں ان کے الفاظ کو بیان کیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے کہ پیغمبروں کو مجنون ، شاعر، اور جادوگر کہتے تھے اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ استعمال کرتے تھے ، سورہ مبارکہ فرقان میں فرماتا ہے : «وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِىَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلاً »آپ(ص) کا مذاق اڑا کر کہتے تھے، آپ(ص) جو باتیں کر رہے ہیں وہ پرانے قصے ہيں جو انہیں سکھایا گیا ہے ۔

میں یہاں پر مذاق اڑانے اور مسخرہ کرنے کے بارےمیں دو مطلب کو بیان کرتا ہوں ؛

پہلا مطلب  مذاق اڑانے کے اخروی آثار کے بارے میں ہے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قیامت کے دن جن لوگوں نے ان مومنین کا مذاق اڑایا ہے ان کا مذاق اڑایا جائے گا، مومنین کا مذاق نہ اڑانا ایک اخلاقی مسئلہ ہونے کے علاوہ ایک تکلیف الھی بھی ہے ، اس آیہ شریفہ کے مطابق  استھزاء قرآن کریم کے ایک آیات الاحکام  میں سے ہے  ،«لا يسخر قوم من قوم» یہ ایک حکم ہے ، ہم سب مکلف ہیں کہ کسی کا مذاق نہ اڑائے۔

لہذا اس اخلاقی موضوع کا حکم شرعی بھی ہے ، ہمارے اخلاق اور احکام کے آپس میں ایک  قوی ارتباط ہے ، بعض افراد یہ تصور کرتے ہیں کہ اخلاقی مسائل شرعی احکام سے الگ کوئی چیز ہے  ، مرحوم فیض کاشانی کی ایک کتاب ہے "النخبۃ" کے نام سے جو ابھی چھپ بھی چکی ہے ، اس کتاب میں اخلاقی طہارت کو بیان کرتاہے ، اور طہارت شرعی کو بھی بیان کرتا ہے ،اور ان دونوں کے درمیان  ارتباط کو بیان کرتا ہے ،  البتہ بعض جملات کو سمجھنا بہت ہی مشکل ہے ، اس بارے  بہت کام کرنے کی ضرورت ہے تا کہ یہ تصور نہ ہو جائے کہ اخلاق فقہ سے الگ کوئی چیز ہے ،اور بعض یہ تصور کرتے ہیں کہ اخلاق ایک مستحب امر ہے نہ واجب ، درحالیکہ  تمام اخلاق انسانی  صفات حکم شرعی بھی ہے ، حسد اگر عمل تک پہنچ جائے تو حرام ہے ، خیانت اگر عمل کے مرحلہ تک پہنچ جائے تو حرام ہے ،بہر حال ہمارا گفتگو استہزاء کے وضعی آثار کے بارے میں ہے ۔

خداوند متعال فرماتا ہے :«فحاق بالذين سخروا منهم ما کانوا به يستهزئون»: مذاق اڑانے کا وضعی اثر یہ ہے کہ یہ خود انہیں کی طرف پلٹتا ہے ، محاق مہینہ کے آخر کو کہتے ہیں ، چونکہ چاند ایسا ہو جاتا ہے کہ سورچ اسے ایساگھیر لیتا ہے کہ وہ نظر نہیں آتا ، حاق بهم ما کانوا به يستهزئون،:یعنی مذاق اڑنے والا شخص جو کام انجام دیتا ہے وہ ایسا ہے کہ خود اسی کی طرف پلٹتا ہے اور وہ خود اسی میں پھنس جاتا ہے ، بہت ہی عجیب ہے ، اگر انسان کسی کا مذاق اڑائے تو ایک دن ایسا آئے گا کہ خود اس کا مذاق اڑایا جائے گا ۔

خدا مرحوم آيت الله ديباجي(رحمة الله عليه) : کو رحمت کرے، بہت ہی بزرگوار انسان تھا ، آپ انسان کے مذاق اڑانا خود اسی کی طرف پلٹنے کے بارے میں  کہا کرتے تھے ؛ ایک شخص فوت ہوا تو کوئی اس کو غسل دینے آيا ،انسان جب مر جاتا ہے تو اس کنٹرول کرنے کی جو قوت ہے وہ بھی ختم ہو جاتی ہے ،لہذا میت کے بدن پر جو لباس ہوتا ہے وہ گیلا ہو  کر نجس ہو جاتا ہے ،تو غسل دینے والا شخص یہ دیکھ کر خوب ہنسنے لگا ، میں بھی اسے دیکھ رہا تھا اوراس واقعہ کو کچھ عرصہ گذر گیا، کچھ عرصہ بعد وہ شخص بھی فوت ہو ، میں نے دیکھا وہی کام جو اس شخص نے اس مرنے والے کو غسل دیتے وقت انجام دیا تھا عین وہی کام اسی کے ساتھ پیش آیا«و حاق بهم ما کانوا به يستهزئون»،:پس جس کا بھی مذاق اڑائے کسی نہ کسی دن خود اس کے ساتھ ایسا ہو گا ، یہ عام مومنین کے مذاق اڑانے کے بارے میں ہے لیکن انبیاء کی بات الگ ہے ، خداوند متعال ذات پیغمبر (ص) کے بارے فرماتاہے «فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنْ الْمُشْرِكِينَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ»اس بحث کو چھیڑنے کا اصلی مقصد اسی جملہ کو بیان کرنا تھا۔«إناکفيناک المستهزئين»۔اے پیغمبر آپ اپنی بات کو بیان کریں ، جو مذاق اڑانے والے ہیں ان سے ہم خودنمٹا دیں گے ، اگر عاص بن وائل آپ(ص) کا مذاق اڑاتا ہے ،ہم خود اس سے نمٹا دیں گے ، اور اس کے پاؤں میں کوئی چیز چھب جاتی ہے اور وہ مر جاتا ہے ، اگر حارث ابن طلاطلہ ثقفی آپ (ص) کا مذاق اڑاتا ہے تو وہ گھر سے نکل آتا ہے اور اس کا چہرہ کالا ہو جاتا ہے ، ایسا کالا کہ جب وہ گھر واپس جاتا ہے تو اس کے گھر والے اسے پہچانتا ہی نہیں ، وہ جتنا چیختا چلاتا ہے کہ میں  حارث ہوں تو سب گھر والے یہی کہتے ہیں کہ تم حارث نہیں ہو اور اسے باہر نکال دیتا ہے ، وہ باہر نکل جاتا ہے اور گھر سے باہر ہی مر جاتا ہے ۔

اگر آپ أسود بن مطلّب يا وليد بن مغيره يا أسود بن عبد يغوث زهرى کے عاقبت  کودیکھیں کہ سب پیغمبر اکرم(ص) کا مذاق اڑانے والے تھے ، خداوند متعال نے ان سب کو نابود کر لیا۔

آج بھی اگر برے انسان خاکے بناتے ہیں اور اس طرح پیغمبر اکرم(ص) کی اہانت کرتے ہیں ، خدا ان کو دردناک عذاب سے دوچار کرے گا اور بہت ہی برے عذاب میں مبتلاء ہو جائیں گے، یہ ایک یقینی بات ہے اس میں کوئی شک نہیں،چونکہ یہ ایک الھی قانون ہے ۔

آیہ شریفہ «إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ»۔ اس وقت کے مسخرہ کرنے اور مذاق اڑانے والو ں سے مخصوص نہیں ہے ، اس میں  «نا»جو متکلم مع الغیر ہے  اور اس کے ساتھ « إنّ» تأکيديه، خدا  کا وعدہ  تاکید اور یقینی ہونے کو بیان کرنے کے لئے ہے  اور یقینا  ان کی عاقبت بدبختی اور ذلت ہی ہے ۔

ہماری ذمہ داری یہی ہے کہ اس قبیح فعل  کی مذمت کریں اور خبیث  دشمنان دین کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائے ، آج کیوں کچھ اسلامی ممالک خاموشی کا روزہ رکھا ہوا ہے ؟پیغمبر عظیم الشان کی اہانت ہورہی ہے ، ایک ایسی شخصیت کہ ہم سب کا وجود اسی کے طفیل ہے ،ایسی شخصیت کہ خدا وند متعال نے اس جہان کو اسی کی خاطر خلق کیا ، «لولاک لما خلقت الافلاک»،اگر اسلامی ممالک میں زندگی بسر کرتے ہیں تو خدا وند متعالی فرماتا ہے «و ما أرسلناک إلا رحمة للعالمين»،آپ پیغمبر اکرم(ص) کے رحمت کے سایہ میں ہے ، کیوں اس ہتک حرمت پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں؟

البتہ ہم ان کی مقدسات کی اہانت نہیں کرتے ہیں چونکہ تمام الھی کتابیں ہمارے لئے مقدس ہے ۔

البتہ یہ بھی آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ یہ کام ان کی کمزوری کی علامت ہے ، چونکہ اگر یہ لوگ قرآن اور پیغمبر اکرم(ص) سے مقابلہ کرنے کی قدرت رکھتے تو مقابلہ کرتے ،کیا ان تحریف شدہ کتابوں کے ساتھ قرآن سے مقابلہ کرناچاہتے ہیں ؟آج اگر کوئی ان تحریف شدہ کتابوں کے پچھے جائے تو اس دین اور دوسری سب چیزوں سے چشم پوشی کرنی چاہئے، آج  تورات اور انجیل جس خدا کو بیان کرتا ہے ، انسان ایسے دین سے بیزار ہو جاتا ہے ، ان کے پاس دلیل سے بات کرنے کی قدرت و طاقت نہیں ہے جب ایک چھوٹا سا سورہ جیسے سورہ توحید«قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُولَدْ وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَدٌ»، سے مقابلہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ، اور مقابلہ نہیں کر سکتا ہے تو مجبور ہے کہ اس طرح کے برے  اور احمقانہ کام انجام دیں ۔

ہماری ذمہ داری ہے کہ ان سے مقابلہ کریں ، دنیا کے تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ سخت سے سخت انداز میں ان کی مذمت کرے ،تاکہ اس طرح کے برے کام دوبارہ انجام نہ دیں ، اور سمجھ جائیں کہ دنیا میں مسلمان زندہ ہیں اور اس طرح کے کاموں سے مقابلہ کرتے ہیں۔

 

برچسب ها :